Friday, January 25, 2013

خا وند کے سامنے ہر وقت تر و تازہ رہنے کی نصیحت

عورتو ں کے اند ر ایک عادت یہ دیکھی گئی کہ گھر کے اندر میلی کچیلی بن کر رہیں گی اور با ہر دیکھو توبن سنورکے نظر آئیں گی ۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے ۔ دنیا نے آپ کو محبتیں نہیں دینی خاوند نے محبت دینی ہے ۔ اس لئے عورت کی ذمہ داریوں میں سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ مر د کی عمرجو انی کی ہو یا بڑھا پے کی عورت ہمیشہ گھر کے اندر صاف ستھری رہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر وقت دلہن ہی بن کر رہے ۔ مگر صاف ستھرا رہنا تو ایک اچھی عادت ہے۔ میلا کچیلا بندہ تو کسی کو بھی اچھا نہیں لگتا ۔ تو صاف ستھری بن کر رہے اور خوش اخلاق خوش مزاج بن کر رہے ۔
مرد کی پٹڑی کیوں بدل جا تی ہے ؟
اب یہی وہ نکتہ ہے جہاں پہ آکر مرد کی پٹڑی بدل جا تی ہے کہ مرد چو نکہ خود پریشان ہوتا ہے اپنے کام اور کاروبا ر کی وجہ سے گھر میں جب آتا ہے تو اس کو بیوی با سی اور میلے منہ کے ساتھ بیٹھی نظر آتی ہے ۔ اب اس کا دیکھنے کو دل نہیں کر تا ۔ وہی مرد جب دفتر میں جا تا ہے تو اس کو کام کرنے والی لڑکی نہا ئی دھو ئی اچھے کپڑے پہنی مسکرا تی نظر آتی ہے ۔ اب اس کا رنگ گو را ہے یا کالا ہے ۔ وہ جیسی کیسی ہے اب اس کے خاوند کو وہ اچھی لگنے لگ جا تی ہے ۔ اور اگر گھر میں بیوی جھگڑے والی ہے اور وہ پریشان حال ہو کر گھر سے نکلا اور دفتر میں کسی ایسی بد کردار لڑکی نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھ لیا ۔ اور پو چھ لیا سر آج آپ بڑے پریشان نظر آتے ہیں ۔ تو بس سمجھ لو مرد کی پٹڑی بدل گئی ۔ اس بدکردار لڑکی کا ایک فقرہ دوسری عورت کی سار ی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ ہمیشہ عورت کے حق پر عورت ہی ڈا کہ ڈا لتی ہے ۔مگر اس ڈاکے میں عورت کا اپنا بھی قصور ہے ۔ اس کو چا ہیے تھا کہ گھر میں خا وند کو سکو ن دیتی ،خو شیا ں دیتی ،صاف نظر آتی ، اس کے اندر دل کشی ہو تی ۔جب اس نے خود ہی اسی چیزکو نظر انداز کر دیا تو گویا اس نے خاوند کو مو قع دیا کہ یہ دو سری لڑکی کی طرف متوجہ ہو جائے۔ایسی عو رتیں میلی کچیلی رہتی ہے وہ بیچاری شا دی شدہ بیوہ ہو تی ہے ۔ خاوند ان کی طر ف دھیان ہی نہیں کر تے ۔
جو سمجھ دار عورت ہو تی ہے وہ سمجھتی ہے کہ میری ذمہ دا ریوں میں سے جیسے یہ ہے کہ میں نماز ادا کروں ، میرا ما لک حقیقی خو ش ہو گا ایسے ہی میرے فر ائض میں سے ایک فر ض ہے کہ میں صاف ستھر ی رہوں کہ میرا خاوند مجھ سے خوش ہو ۔ اب دیکھو بندہ صاف ستھرا بھی ہے اور اچھا بھی رہے اور اوپر سے خا وند بھی خو ش ہو اس کوکہتے ہیں ۔ نور علیٰ نور۔ تو اگر آ پ کے صاف ستھرا رہنے سے مرد آپ کی طر ف متوجہ ہو تا ہے تو اور آپ کو کیا چا ہیے ۔ اس لئے جو عورت صاف ستھری رہتی ہے ، خوش مز اج رہتی ہے اور کھلے چہر ے کے ساتھ خا وند کا استقبال کرتی ہے ۔ وہ ہمیشہ کے لئے خا وند کی آنکھ کی پتلی بن جا تی ہے ۔ کچھ عقل بھی استعمال کر نی چا ہیے ۔
بر مو قع اور بر محل با ت شو ہر کے دل کو متا ثر کر تی ہے
عقل مند بیو یاں ہمیشہ اپنے خاوند وں کے دلوں کو جیتتی ہیں ۔ با ت اتنے اچھے انداز سے ، بر مو قع اور بر محل کر تی ہیں کہ خاوند کے دل میں اتر جا تی ہیں ۔ اس لئے ایک شا عر نے عر بی کے شعر میں کہا جس کا تر جمہ کچھ یو ں بنتا ہے ۔
سلمٰی کی با تیں ٹوٹے ہو ئے ہا ر کے موتیوں کی طرح ہو تی ہیں
تو اس کا مطلب یہ ہے اس کو اپنی محبوبہ کی با تیں ایسی لگتی ہیں جیسے ٹو ٹے ہو ئے ہا ر کے جو مو تی ہیں جو جھڑ رہے ہیں ۔ لہٰذا بیوی کی خو بصورت انداز میں کی ہو ئی بات مرد کو متاثر کرتی ہے ۔
ہا رون الرشید ایک مر تبہ کھا نا کھا کر فا رغ ہو ا ۔ اس کا خیال بنا کہ کھا نا کھا یا ہے ذرا با ہر نکلتے ہیں ۔ تو اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ چلو چا ند نی رات ہے ذرا با ہر چل کر چہل قدمی کر لیتے ہیں ۔ بیوی کہنے لگی کی امیر المو منین ! آپ دو سوکنیں جمع کر کے کیو ں خوش ہو ں گے ۔ کہنے لگا ، کیا مطلب ؟ کہنے لگی ایک طرف میرا چہرا ہو گا ایک طرف چا ند ہو گا ۔ دو سو کنوں کو آپ کیسے جمع کر یں گے ۔ تو با ت سن کے ہا رون الرشید خوش ہوگیا ۔اس طر ح بیوی ایسی عقل مندی کی با تیں کر سکتی ہے کہ جس سے خا وند کے دل میں اس کی اور زیادہ محبت پیدا ہو جائے ۔
ایک مر تبہ ہارون الرشید نے بیوی کو بتا یا کہ دیکھو سو رج گرہن لگ گیا ۔ وہ … دیکھو ۔ دیکھ کر کہنے لگی کہ حقیقت یہ ہے کہ جب سورج نے میر احسن دیکھا تو آگ بگو لہ تھا اور آگ بگولہ ہو کر اس نے پردہ کر لیا اس لئے آج اس کو گہن نظر آ رہا ہے ۔ اب ہیں تو یہ الفاط ہی مگر الفاظ ہی تو دوسرے کے دل کو خوش کر دیتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ زیب النسا ء مخفی جو بڑی شا عرہ بھی تھی اور وقت کی شہزادی بھی تھی ۔ ایک مر تبہ با غ کے اند ر چہل قد می کر رہی تھی تو اس کا منگیتر عا قل خان وہ بھی کہیں سے اس طرف کو آنکلا ۔ اس نے کیا کیا کہ چند پھو ل تو ڑے اور ان کا گلدستہ بنا کر اس نے زیب النسا ء کو تحفہ پیش کیا ۔ اب یہ شا عر ہ تھی تو جب اس نے یہ گلدستہ لیا تو شعر کہنے لگی ۔
# بگواے عا شق صادق چرا گلدستہ آ وردی
دل بلبل شکستہ زہر ما گلد ستہ آ وردی
بتا ؤ عا شق صادق ! تم نے مجھے جو گلدستہ پیش کیا تو تم نے میرا دل خوش کیا ۔ لیکن بلبل کے دل کو تو تم نے توڑ دیا
کہ پھو ل تو ڑنے سے بلبل کا دل افسردہ ہو تا ہے ۔ تو کیسا اس نے اچھو تا انداز اپنا کر بات کہی کہ اے عاشق !تو نے مجھے گلدستہ پیش کیا میرا دل خوش کر نے کے لیے مگر تو نے بلبل کا دل تو توڑ دیا ۔ تو عا قل خان آگے سے کہنے لگا ۔
# بر ائے زینت دستک نہ ایں گلد ستہ آوردم
بخو بی با تو می زد گل پیشک بستہ آو ردم
کہ اے نا زنین ! میں نے آپ کے ہا تھو ں کی زیب و زینت کے لئے گلد ستہ پیش نہیں کیا بلکہ آپ کی مو جو د گی میں یہ پھو ل اپنے حسن و جمال کا دعویٰ کر رہے تھے ۔ لہٰذا میں نے ان قیدیوں کو جگڑ کر آپ کی خد مت میں پیش کر دیا
اب دیکھو ہے تو با ت ہی لیکن اس با ت سے اس کا دل کتنا خو ش ہو ا ہو گا ۔ تو عورت کو چا ہیے کہ کچھ عقل سمجھ سے کا م لے ۔ پر وردگا ر نے اسی لئے تو عقل دی ہو تی ہے ۔ عقل سے فا رغ ہو کر سو چنا کہ خا وند خود ہی مانے یا خا وند کو کوئی مجھ سے منا دے ۔ یہ کیا بات ہو ئی۔
ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا اکٹھے بیٹھے ہو ئے تھے ۔ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مذاقاً یہ شعر پڑھا ۔
# ان النسآ ء شیا طین خلقن لنا
نعو ذ باللہ من شر الشیاطین
بے شک عورتیں گو یا شیطا ن کی طر ح ہیں جو ہما رے لئے پیدا کی گئی ہیں ۔ ہم شیطا ن کے شر سے اللہ کی پنا ہ چا ہتے ہیں
حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ شعر سنا تو انہوں نے بھی آگے سے یہ خوش کن جواب شعر کی صورت میں دیا ۔
# ان النسآ ء ریا حین خلقن لکم
وکلکم یشمی شید الر یا حین
بے شک عورتیں تو مہکتے ہو ئے پھو ل کی طرح ہیں جو تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں ۔ اور تم میں سے ہر ایک پھو لوں کی خو شبوں کو سو نگنے کا متمنی ہوتا ہے
تو دیکھیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کس طر ح ان سے خوش طبعی فرمائی اور حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا نے کتنا خو بصورت جو اب دیا۔
اس لئے با ت کر نے کا انداز بھی کوئی ہونا چا ہیے ۔ اے حسین عورت ! اگر اللہ تعالیٰ نے تجھے حسن عطا کیا ہے تو بدکلا می سے اپنے چہرے کو نہ بگا ڑا کر ۔ اور اے بد صورت عورت ! اگر اللہ نے تجھے حسن سے محروم کیا ہے تو بد کلا می کے ذر یعے اپنے اندر دو سرا عیب نہ پیدا کر ۔ 

Thursday, January 17, 2013

بیوی کو اپنے اند ر صبر و تحمل پیدا کر نے کی نصیحت

عورت کے اندر صبر و تحمل بہت ہو نا چا ہیے ۔ اس لئے عورت کو گھر والی کہا جا تا ہے کہ گھر کی بنیا د ہو تی ہی عورت کے اوپر ہے ۔ ہمارے بڑوں نے کہا کہ عورت اگرگھر آباد کر نا چا ہے تو گھر آ بادرہتا ہے اور بر باد کرنا چا ہے تو بر با د ہو جا تا ہے ۔ مرد اگر کلہاڑا لے کر بھی بنیا دیں گرانا چا ہے تو نہیں گرا پا تا ، عورت اگر سو ئی لے کر بھی بنیا دیں گر انا چا ہے تو مرد سے پہلے گھر کی بنیا د یں گر ادیتی ہے ۔ تو اس لئے اس کے اندر صبر و تحمل ہونا چاہیے ۔ اگر کبھی کوئی بات خلا ف طبیعت ہو بھی جا ئے تو یوں سو چے کہ صبر کر نے والے سے اللہ تعالیٰ محبت کے مو ڈ میں آئے گا کہ عورت سمجھے گی کہ زیاد ہ محبت کرتے ہیں ۔﴿ولربک فاصبر﴾ اللہ کے لئے صبر کر لو۔ تو میں اس بات پر صبر کرتی ہوں ۔ اللہ سے اجر کی امیدوارہوں ۔ تھو ڑی دیر یہ صبر کر ے گی تو وہی خا وند جس نے کوئی نا گوار بات کر دی تھی وہ اتنی محبت کے مو ڈ میں آئے گا کہ عورت سمجھے گی کہ اس سے زیادہ محبت کر نے والا دنیا میں کوئی نہیں ہو سکتا ۔ آخر انسان ہے اور اس کے اند ر بھی احسا سات اور جذبات ہیں ۔ کسی وقت اگر غصے میں آگیا تو کیا ہوا۔اکٹھا رہنے سے اگر بے جان بر تن بج سکتے ہیں تو پھر جاندار انسانوں کا بجنا تو کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے ۔ ممکن ہے ایک خوشی کے موڈ میں ہو اور دوسرا اس وقت کسی اور موڈ میں ہو ۔ ایک نے بات کسی انداز سے کہی اور دوسرے نے اس کو کسی اور انداز سے سمجھا ۔ تو غلط فہمیوں کا ہو جا نا کو ئی اتنی بڑی بات نہیں ہے ۔ ایسے معاملے میں اگر صبرو تحمل ہو تو زندگی اچھی گزرتی ہے ۔ اور اگر صبرو تحمل نہ ہو اور انسان فو ری ردعمل ظاہر کر ے تو اس جیسا براانسان کوئی نہیں ہو تا ۔ بس ذراسی با ت ہو ئی غصے کی آگ فو راً بھڑک اٹھی ۔ دو سرے کی بات سمجھنے کی بجا ئے بس اپنی زبان سے کچھ بولنا شروع کر دیا ۔
غلطی کو مان لینے میں عظمت ہے اور خا مو شی میں عا فیت ہے
غلطی کو مان لینا عظمت ہے ۔ اگر ایسی بات ہے کہ خاوند کہہ رہا ہے کہ تمہا ری غلطی ہے تو اتنا ہی کہہ دیں کہ ہاں میری غلطی ہے ۔ اس سے کیا ہو جائے گا ۔غلطی کو تسلیم کر لینے میں عزت ہو تی ہے ۔ یہ ہتک نہیں ہو اکر تی ۔ خاوند ہی ہے نا ، خا وند کے سامنے ہی آپ کہہ رہی ہیں کہ جی غلطی ہو گئی ، تو کیا ہو ا۔ یا اگر خا وند نے کوئی بات کر دی تو آپ اس کے جواب میں فورًابولنے کی عادت نہ ڈالیں ، تر کی بہ ترکی جو اب دینا گھروں کے اجڑ نے کا ذریعہ بن جا تا ہے ۔ یا د رکھنا کہ چپ رہنا بھی ایک جواب ہے ۔ کئی مقامات پر خاوند کی با ت سن کے چپ رہنا ، اس سے خا وند کو اس کا جواب مل جا تا ہے ۔ بعض مر تبہ الفا ظ کی بجائے خا مو شی میں زیادہ وضا حت ہو تی ہے ۔ جب خاموشی اور اعتراف کی بجائے دفاع شروع ہو جا ئے تو یہ سمجھئے کہ جنگ کا بگل بج گیا ۔
ایک میاں بیوی میں اکثر جھگڑا ہو تا تھا اور ہوتا بھی اسی طرح کہ خا وند جب گھر آتا تو وہ آتے ہی کہتا یہ کیوں ہو ا اور وہ کیوں ہو ا۔ اور بیوی آگے سے جو اب دینے لگ جا تی اور اسی وقت سے جھگڑا شروع ہو جا تا ۔ چنانچہ بیوی کسی اللہ والے کے پاس گئی کہ جی گھر میں جھگڑا بہت ہوتا ہے ، کوئی تعویذ دے دیں ۔ انہوں نے پا نی دم کر کے دے دیا اور کہا کہ جب تمہا را میاں گھر میں داخل ہو اس پانی کو پا نچ دس منٹ تک منہ میں رکھنا ، ان شا ء اللہ جھگڑا نہیں ہو گا ۔ اب وہ جب بھی آتا بیوی پا نی کو گھو نٹ بھر کے منہ میں رکھ لیتی اور خا وند کا پا نچ دس منٹ میں غصہ اتر جا تا پھر خاوند پیا ر کے موڈ میں آجا تا اور میاں بیوی کی اچھی زندگی گزرتی۔چنانچہ دم شدہ پا نی نے گھر کے جھگڑوں کو ختم کر دیا ۔ 

Friday, January 11, 2013

بیوی کو خا وند سے عزّت کے صیغے میں بات کرنے کی نصیحت


بیوی کیلئے ضروری ہے کہ خا وند کے ساتھ بات ہمیشہ نر م لہجہ میں کی جا ئے اور عزت کے صیغے میں کی جائے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو گھر کا قوام بنایا عورتوں کے قوام ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ الرجال قوامون علی النسا ء ﴾ ( النسآ ء : ۳۴
مرد عورتوں کے سر پر ست و نگہبان ہیں
اور فرمایا :
﴿وللرجال علیھن درجة ﴾ ( البقرة : ۲۲۸)
اور مر دوں کو عورتوں پر ایک درجہ حا صل ہے
اب جب اللہ تعالیٰ نے تر تیب ایسی بنا دی تو اللہ کی بند یا ں اس با ت پر را ضی ہو ں خو ش ہو ں کہ اللہ نے ہما رے میا ں کو ہما را سردار بنا یا ، ہمارا بڑا بنایا۔ یہ بھی اس کو بڑا بنا کر رکھے ۔ اللہ تعالیٰ کی تر تیب پر راضی رہے گی تو اس کا اپنا دنیا کا بھی فا ئدہ آخرت کا بھی فا ئدہ ۔ مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ عورت اگر پڑھی ہو ئی زیادہ ہے یا سمجھ دار زیا دہ ہے، عقل مند زیادہ ہے تو یہ پھر خا وند کے سا تھ حا کمانہ لہجے میں بات کر نے لگ جا تی ہے ۔ جیسے آ رڈر پا س ہو رہا ہو تا ہے ۔ یہ ایسے اس کے سا تھ ڈیل کرنا شروع کر دیتی ہے اور یہ چیز پھر خا وند کے دل میں نفرت پیدا کر دیتی ہے ۔ عورت حسن میں زیا دہ ہے ، تعلیم میں زیادہ ہے ، عقل میں زیا دہ ہے ، مال میں زیادہ ہے مگر درجہ پروردگار نے خاوند ہی کا رکھا ۔ اس کو چا ہیے کہ اپنے خا وند سے نرم لہجے میں گفتگو کر ے عزت کے لہجے میں گفتگو کر ے ۔ ”تو“ کی بجا ئے ”آپ“ کے لہجے میں گفتگو کرے ۔ جب یہ عزت کے ساتھ اس کا نام لے گی تو یہ چیز خاوند کے دل میں محبت کو بڑھا دے گی ۔
چنا نچہ صحا بیات کے با رے میں آتا ہے کہ جب وہ اپنے خا وند کی بات نقل کر نے لگتی تھیں۔ تو کہتی تھیں ۔ ﴿حدثنی سیدی ﴾ میرے سردار نے یوں کہا ۔ اب اندازہ لگا ئیے اگر صحا بیا ت اپنے خا وندوں کے بار ے میں یہ لفظ استعمال کر سکتی ہیں ۔ ﴿حد ثنی سیدی﴾ میرے سردار نے مجھ سے یہ بات کہی ۔ تو پھر آج کی عورت کو کم ازکم ” آپ “ کے لفظ کے ساتھ تو گفتگو کر نی چا ہیے ۔