Tuesday, March 3, 2015

طلاق احسن کے فوائد

طلاق کے اس احسن طریقہ میں یوں تو بے شمار فوائد ہیں، چنداہم فائدے یہ ہیں:
(۱)… سب سے اہم فائدہ اس طریقہ میں یہ ہے کہ طلاق کے جتنے واقعات سامنے آتے ہیں ان میں ننانوے فیصد واقعات میں میاں بیوی اس واقعہ سے بہت پچھتاتے اور شرمندہ ہوتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح دوبارہ ان کا رشتہ ازدواج بحال ہوجائے،لیکن چونکہ وہ تین طلاقیں دے چکے ہوتے ہیں اور رجوع کرنے یا بلاحلالہ دوبارہ نکاح کرنے کے تمام درجے عبور کرچکے ہوتے ہیں، اس لئے ان کا شرمندہ ہونا اور صلح پر آمادہ ہونا کچھ کام نہیں آتا۔
مذکورہ طلاق کے احسن طریقہ پر عمل کرنے میں طلاق دینے کے بعد تین ماہواریاں گزرنے تک عدت ہے، بشرطیکہ حمل نہ ہو، ورنہ وضع حمل تک عدت ہے، اور عدت کے دوران دونوں میاں بیوی کو علیٰحدگی اور اس پر مرتب ہونے والے اثرات پر غور و فکرکا اچھا خاصا وقت مل جاتا ہے، اور مستقبل کے سلسلہ میں صحیح فیصلہ کرنے کا موقع ملتا ہے، اگر دوران عدت دونوں اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ طلاق دینا اچھا نہیں ہے اور اپنے کئے پرنادم ہوں، بیوی خاوند کی فرمانبرداری کرنے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کا عہد کرے، خاوند بھی گھر کی بربادی اور بچوں کی کفالت و پرورش کی دشواریوں کا اندازہ لگا کر خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی گزارنے میں سلامتی دیکھے توابھی کچھ نہیں بگڑا، دوبارہ میاں بیوی والے تعلقات خاص قائم کرلیں، بس رجوع ہوگیا۔ حسب سابق میاں بیوی کی طرح رہیں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں۔
بہتر یہ ہے کہ کم از کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے خاوند کہے کہ ”میں اپنی بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح میں لوٹاتا ہوں۔“ یا یوں کہے کہ ”میں اپنی بیوی کو دوبارہ رکھ لیتا ہوں۔“ یہ رجوع کا افضل طریقہ ہے تاکہ دوسروں کو تعلقات کی بحالی سے کوئی غلط فہمی نہ ہو اور رجوع کرنا بھی طلاق کی طرح سب کے علم میں آجائے ،اوراگر عدت کے دوران خاوندنے رجوع نہ کیا اور عدت گزر گئی تو اب مطلقہ اس کے نکاح سے پوری طرح آزاد ہوگئی، اب جہاں اس کا دل چاہے نکاح کرے، طلاق دینے والے سے اس کا کچھ تعلق نہیں رہا، دونوں بالکل اجنبی ہوگئے۔
(۲)… طلاق کے اس احسن طریقے میں دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اگر رشتہ ازدواج سے آزاد ہونے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد کسی وجہ سے ایک دوسرے کی یاد ستانے لگے، کبیدگیوں اور رنجشوں کو بھلا کر ایک دوسرے کے محاسن، خدمات اور احسانات پر غور کرنے کا ازسرنو موقع ملے، اور پھر دوبارہ ایک دوسرے سے نکاح کرنے کے خواہشمند ہوں، تو طلاق اور عدت گزرنے کے بعد بھی بغیر کسی حلالہ کے دوبارہ آپس میں نئے مہر کے ساتھ باہمی رضامندی سے نکاح کرسکتے ہیں۔
بالفرض دوبارہ نکاح ہوگیا اور بدقسمتی سے دوبارہ بھی اس کو کامیابی کے ساتھ نہ نباہ سکے اور خدانخواستہ پھر طلاق کی نوبت آگئی تو دوبارہ طلاق دینے سے پہلے اس بار بھی ان تمام تفصیلات پر عمل کرنا چاہئے، جن کا ذکر اوپر ہوا ہے (یعنی پہلے افہام و تفہیم سے کام لے، پھر زجر و تنبیہ کرے، پھر خاندان کے دو افراد کو حکم اور ثالث بنائے) پھر بھی طلاق دینا ہی ناگزیر ہو تو پھر طلاق احسن دی جائے، (یعنی ماہواری سے پاک زمانے میں جس میں بیوی سے صحبت بھی نہ کی ہو، صاف الفاظ میں صرف ایک طلاق دے) جس میں دوبارہ خاوند کو اختیار ہے کہ وہ عدت کے دوران رجوع بھی کرسکتا ہے اور عدت کے بعد بغیر کسی حلالہ کے باہمی رضامندی سے نئے مہر پر دوبارہ نکاح بھی کرسکتا ہے، لیکن اب طلاق دینے والا طلاق کے دو درجے عبور کرچکا ہے اور دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، رجوع کرنے یا نکاح ثانی کرنے سے یہ دی ہوئی دو طلاقیں ختم نہیں ہوتی وہ تو واقع ہوچکی ہیں، البتہ دو طلاقوں تک شریعت نے یہ سہولت رکھ دی ہے کہ اگر ایک یا دو طلاقوں کے بعد دونوں شرمندہ ہوں اور ملاپ کرنا چاہیں تو دو طلاقوں تک ان کیلئے ا س کی گنجائش ہے ۔
اب اس کے بعد دونوں کے لئے بڑا اہم لمحہ فکریہ ہے اور اب انہیں مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے بہت زیادہ فکر و نظر کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ ازدواجی زندگی قائم کرنے کے دو درجے پہلے ہی عبور کرچکے ہیں، اب انہیں آئندہ کے لئے آخری مرتبہ پھر ایک حتمی فیصلہ کرنا ہے۔ وہ فیصلہ ایک آخری فیصلہ ہوگا۔ چنانچہ اگر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور خوش اسلوبی سے اپنا گھر بسا کر زندگی بسر کرنے کا ارادہ کرلیتے ہیں تو دوسری طلاق کی عدت کے اندر رجوع کرسکتے ہیں، ورنہ عدت کے بعد باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح بھی بغیر کسی حلالہ کے ہوسکتا ہے۔ پھر اگر ان دونوں نے یہ گرانقدر موقع بھی ضائع کردیا اور اپنی نادانی، نالائقی او ربداطواری سے اس دفعہ بھی طلاق کی نوبت آگئی اور خاوند طلاق دے بیٹھا تو بیوی اس پر حرام ہوجائے گی، جس میں نہ رجوع ہوسکتا ہے او رنہ حلالہ کے بغیر دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
احسن طریقہ سے طلاق دینے میں دو مرتبہ طویل عرصہ تک دونوں کو ایک دوسرے کی علیٰحدگی اور اس سے پیدا شدہ اثرات پر سنجیدگی سے غور و فکر کا موقع ملتا ہے اور دوبارہ رشتہ ازدواج کو بحال اور قائم کرنے کا راستہ بھی باقی رہتا ہے۔ دفعتاً تین طلاق دینے میں ایسا کوئی فائدہ نہیں ہے، میاں بیوی دونوں سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں اور سخت دشواری کا شکار ہوتے ہیں۔
طلاق کے اس احسن طریقے میں کہیں جلد بازی اور عجلت نہیں۔ جلد بازی شیطانی عمل ہے، جس کا انجام پشیمانی ہے۔ چنانچہ آپ اندازہ لگائیں کہ شریعت نے اول یہ حکم دیا کہ میاں بیوی خود ہی اپنے معاملہ کو سلجھائیں، خاوند افہام و تفہیم سے کام لے، اس سے کام نہ چلے تو بیوی کا بستر علیٰحدہ کردے، اس سے بھی بیوی اپنی اصلاح نہ کرے تو زجر و توبیخ اور معمولی مار سے اس کی اصلاح کرے۔ یہ بھی مفید نہ ہوتو کسی ثالت اور حکم کے ذریعے صلح و صفائی کرائی جائے۔ جب اس طرح بھی اصلاح حال کی امید نہ ہو اور کوئی صورت مل کر رہنے کی نہ رہے تو بیوی کو اگر ماہواری آرہی ہو تو اس کے پاک ہونے کا انتظار کرے، ابھی طلاق نہ دے، جب حیض سے بالکل پاک ہوجائے تو طلاق کے احسن طریقے کے مطابق اس کو صرف ایک طلاق زبانی یا تحریری دے دے۔
دیکھئے! ہر جگہ دونوں کو بار بار غور و فکر کا موقع دیاجارہاہے اور سوچ بچار کا پورا پورا وقت دیا جارہا ہے، اور پھر شریعت اسلامیہ کے بتلائے ہوئے طریقہ کے ہر پہلو سے یہ نمایاں ہورہا ہے کہ حتی الامکان نکاح برقرار رہے اور طلاق کا استعمال نہ ہو، اور اگرسخت مجبوری میں طلاق دینا ہی پڑے تو بھی اس کا استعمال کم سے کم ہو، تاکہ آئندہ بھی اگر وہ دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح کرسکیں۔