اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ نہ کرنے کی نصیحت
”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“ زندگی میں پیش آنے والے مسئلہ کا دائمی اور پائیدار حل تلاش کرتی ہے، اس کے دل میں طلاق کے مطالبہ کا خیال تک نہیں آتا ،”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ ازدواجی زندگی کے دوام و بقاء کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے، لڑائی و جھگڑے کو ختم کرنے کی حتی المقدور سعی وکاوش کرتی ہے۔ ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“ اپنی خاوند کی جفا و زیادتی پر صبر کرتی ہے اور اس کی طرف سے ہونے والی غلطیوں کوبرداشت کرتی ہے، تاکہ اس کا گھر تباہ نہ ہو، ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “جب خاوند کی طرف سے جفا و زیادتی کو محسوس کرتی ہے تو اس کے اصل اسباب ومحرکات معلوم کرکے اس کو ختم کرنے کی سعی کرتی ہے۔ ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ ایسی صورت میں اپنے خاوند کے پاس بیٹھ کر اس کے ساتھ مذاکرہ کرتی ہے اور ا سکی رضا جوئی اور راحت رسانی کی کوشش کرتی ہے۔
”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“اصلاحِ حال کی مقدور بھرکو شش کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وان امراة خافت من بعلھا نشوزا اواعراضا فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما صلحاط والصلح خیر ط واحضرت الانفس الشح ط وان تحسنوا وتتقوا فان اللہ کان بما تعملون خبیرا ﴾(النساء:۱۲۸)
”اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے غالب احتمال بددماغی یا بے پرواہی کا ہو سودونوں کو اس امر میں کوئی گناہ نہیں کہ دونوں باہم ایک خاص طور پر صلح کر لیں اور یہ صلح بہتر ہے اور نفوس کو حرص کے ساتھ اقتران ہو تا ہے اور اگر تم اچھا برتاوٴ رکھو اور احتیاط رکھو تو بلاشبہ حق تعالیٰ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں ۔“
خاوند بھی جب اپنی بیوی کی طرف سے نفرت کا رویہ دیکھے تو اسے بھی صبر و ضبط سے کام لینا چاہئے ۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس کی یہ نفرت عارضی اور وقتی ہو ، جیسا کہ ارشاد عالی ہے:
فان کر ھتموھن فعسی ان تکر ھوا شیئاویجعل اللہ فیہ خیر اکثیرا۔“)(النساء :۱۹)
”اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو نا پسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بری منفعت رکھ دے۔::
لیکن اگر اختلاف کی علامات بدستور موجود ہوں اور باوجود کوشش کے کامیابی حاصل نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ فوری طور پر اس کو فیصلہ دے کر فارغ کردیا جائے ، بلکہ کوئی ایسا شخص دیکھنا چاہیے جوان دونوں کے درمیان صلح و صفائی کرادے ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وان خفتم شقاق بینھما فابعثو ا حکما من اھلہ وحکمامن اھلھا ج ان یر ید ا اصلا حا یوفق اللہ بینھما ط ان اللہ کان علیما خبیرا﴾ ( النساء :۳۵)
”اوراگر تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بیوی میں کشاکش کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو عورت کے خاندان سے بھجواوٴ ان دونوں کو اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی میں اتفاق پیدا فرمادیں گے بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبروالے ہیں ۔“
اگر میاں بیوی میں صلح کرنے والے تمام ممکنہ ذرائع اور طرق بے کار ثابت ہوں تو پھرعلیٰحدگی کی صورت باقی رہ جاتی ہے ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
﴿ وان یتفر قا یغن اللہ کلا من سعتہ وکان اللہ واسعا حکیما﴾ (النساء :۱۳)
”اور اگر دونوں میاں بیوی جدا ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے احتیاج کر دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے بڑی حکمت والے ہیں ۔ “
اے میری مسلمان بہن !
عام طور پر مشاہدہ یہ ہے کہ خاوند طیش میں آکر یا آتشِ غصب میں آکر یا نئی محبت کی خواہش میں مبتلا ہو کر بیوی کو طلا ق دیتا ہے۔
لیکن ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“اس بات کو فرامو ش یا پس پشت نہیں ڈالتی کہ اس کا خاوند اس کی خاطر طرح طرح کی مشقتیں اٹھا تا ہے اور اس کی راحت اور سکون کے لیے کوشاں رہتا ہے، اگر کسی وقت اس کی طرف سے کوئی خطایا لغزش سرزد ہوتی ہے تو وہ فوری طور پر علیٰحدگی کا مطالبہ نہیں کرتی ۔ اسی لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حوا کی بیٹیوں کو اپنے شوہروں سے طلاق کا مطالبہ کرنے سے سختی سے منع کیا ہے اور اس پر شدید ترین و عید سنائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”جو عورت اپنے خاوند سے بلا کسی وجہ و حرج کے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہوجاتی ہے۔“ (مسند احمد ۵/۲۷۷،ابو داود۲۲۲۶، والتر مذی۱۱۹۸۔
اس حدیث سے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ جو عورت اپنے خاوند سے مطالبہ کرے کہ وہ اس کو طلاق دیدے حالانکہ کوئی ایسی شدید مجبوری نہیں ہے جو دونوں میں جدائی کا تقاضا کرتی ہو، جیسے اس عورت کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کی حدود کی پاسداری نہیں کرسکے گی ، یعنی خاوند کے جو حقوق اس پر واجب ہیں کہ اس کے ساتھ حسن ِ معاشرت سے زندگی بسر کرے ، حسنِ سلوک سے پیش آئے اس کو ادا نہیں کر سکے گی یا خاوند اس کو خلع کرنے کے لیے پریشان کرتا ہو (ایسی کوئی صورت نہ ہو اور طلاق کا مطالبہ کرے) تو جنت کی خوشبو سے محروم ہو گی ۔
مذکورہ حدیث میں جو فرمایا گیا کہ ” جنت کی خوشبو اس پر حرام ہے۔“ یہ وعید و تہدید کے طور پر ہے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عورت جنت کی خوشبو ابتدائی درجہ میں نہ پائے گی جیسا کہ دوسرے جنتی پائیں گے یا پھر وہ عورت خوشبو کو بالکل نہ پائے گی اور یہ تہدید میں مبالغہ کے طور پر فرمایا گیا ہے۔ اس کی اور بھی بہت سی نظیریں موجود ہیں۔
اے میری مسلمان بہن !
اسلام کی نظر میں شادی سے مقصد ایک مربوط اور مستحکم خاندان کا وجود میں لانا ہے جس میں مودت و محبت کی حکمرانی ہو، وہ خاندان در حقیقت ایک چھوٹا سوشل ادارہ ہے جو اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے کوشش کرتا ہے اگر شادی کا یہ مقصد حاصل نہ ہو رہا ہو خواہ میاں بیوی کی کوتاہی کو اس میں دخل ہو یا ان میں سے کوئی اپنی ذ مہ داری کو ادانہ کرتا ہو یا ہر ایک دوسرے کے حقوق سے انکار ی ہو تو پھر ان کے تعلق کو ختم کر دینا ہی ضروری ہو جاتا ہے ، اس لیے کہ اس تعلق کے قائم یا بر قرار رکھنے سے خاندان کی بنیاد قائم نہیں رہ سکتی بلکہ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی جائیں گی ، ایسے موقع پر اس امر کی ضرورت پید ا ہوجاتی ہے کہ خاندان کی بقاء و سلامتی کے لیے کوئی مناسب حل تجویز کیا جائے تاکہ طلاق کی نوبت ہی نہ آئے ، اس کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ وہ خاندان کا سربراہ اور کشتی کا ربان (کپتان ) ہے، نان و نفقہ کی ساری ذمہ داری اسی پر ہے، مرد کے لیے کسی صورت میں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ طلاق کا حق بلا ضرورت استعمال کرے ، اس پر لازم ہے کہ وہ ضرورت کی حد میں رہتے ہوئے اس حق کا استعمال کرے ، اگر اس نے اپنے حق میں حدسے تجاوز کیا تو وہ ظالم اور گناہ گار شمار ہوگا اور ازروئے دیانت مسئول اور قابل ِ گرفت ہوگا۔ طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند یدہ چیز ہے، ایک سچا مومن جو اسلامی احکام پر عمل کرنے والا ہو، وہ اپنے رب کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہے ، اسلام نے عورت کو بھی خلع کی صورت میں ایک گونہ طلاق کا حق دیا ہے، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ رقم دے دے یا بعض چیزوں سے دستبردار ہو جائے اور خاوند اس کے بدلے میں اس کو طلاق دے دے ،
”نیک عورت “ اپنے دِل سے پوچھتی ہے اور غور کرتی ہے کہ آخر اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان یہ فضا کیوں قائم ہوئی ہے؟ اس کا شوہر اس لغزش میں کیوں مبتلا ہوا؟ وہ اس کا جواب اور اس کے اسباب کا حتمی طور پر کھوج لگاتی ہے یوں ”نیک عورت “کی عشرت میں دوام واستمرار اور سیرت و کردار لائقِ تعریف و تحسین اور مقام و مرتبہ بلند و برتر ہوگا اور وہ کامیاب و باسعادت ازدواجی زندگی کے لیے ایک عمدہ نمونہ بنے گی۔
”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“ زندگی میں پیش آنے والے مسئلہ کا دائمی اور پائیدار حل تلاش کرتی ہے، اس کے دل میں طلاق کے مطالبہ کا خیال تک نہیں آتا ،”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ ازدواجی زندگی کے دوام و بقاء کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے، لڑائی و جھگڑے کو ختم کرنے کی حتی المقدور سعی وکاوش کرتی ہے۔ ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“ اپنی خاوند کی جفا و زیادتی پر صبر کرتی ہے اور اس کی طرف سے ہونے والی غلطیوں کوبرداشت کرتی ہے، تاکہ اس کا گھر تباہ نہ ہو، ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “جب خاوند کی طرف سے جفا و زیادتی کو محسوس کرتی ہے تو اس کے اصل اسباب ومحرکات معلوم کرکے اس کو ختم کرنے کی سعی کرتی ہے۔ ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ ایسی صورت میں اپنے خاوند کے پاس بیٹھ کر اس کے ساتھ مذاکرہ کرتی ہے اور ا سکی رضا جوئی اور راحت رسانی کی کوشش کرتی ہے۔
”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“اصلاحِ حال کی مقدور بھرکو شش کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وان امراة خافت من بعلھا نشوزا اواعراضا فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما صلحاط والصلح خیر ط واحضرت الانفس الشح ط وان تحسنوا وتتقوا فان اللہ کان بما تعملون خبیرا ﴾(النساء:۱۲۸)
”اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے غالب احتمال بددماغی یا بے پرواہی کا ہو سودونوں کو اس امر میں کوئی گناہ نہیں کہ دونوں باہم ایک خاص طور پر صلح کر لیں اور یہ صلح بہتر ہے اور نفوس کو حرص کے ساتھ اقتران ہو تا ہے اور اگر تم اچھا برتاوٴ رکھو اور احتیاط رکھو تو بلاشبہ حق تعالیٰ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں ۔“
خاوند بھی جب اپنی بیوی کی طرف سے نفرت کا رویہ دیکھے تو اسے بھی صبر و ضبط سے کام لینا چاہئے ۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس کی یہ نفرت عارضی اور وقتی ہو ، جیسا کہ ارشاد عالی ہے:
فان کر ھتموھن فعسی ان تکر ھوا شیئاویجعل اللہ فیہ خیر اکثیرا۔“)(النساء :۱۹)
”اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو نا پسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بری منفعت رکھ دے۔::
لیکن اگر اختلاف کی علامات بدستور موجود ہوں اور باوجود کوشش کے کامیابی حاصل نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ فوری طور پر اس کو فیصلہ دے کر فارغ کردیا جائے ، بلکہ کوئی ایسا شخص دیکھنا چاہیے جوان دونوں کے درمیان صلح و صفائی کرادے ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وان خفتم شقاق بینھما فابعثو ا حکما من اھلہ وحکمامن اھلھا ج ان یر ید ا اصلا حا یوفق اللہ بینھما ط ان اللہ کان علیما خبیرا﴾ ( النساء :۳۵)
”اوراگر تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بیوی میں کشاکش کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو عورت کے خاندان سے بھجواوٴ ان دونوں کو اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی میں اتفاق پیدا فرمادیں گے بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبروالے ہیں ۔“
اگر میاں بیوی میں صلح کرنے والے تمام ممکنہ ذرائع اور طرق بے کار ثابت ہوں تو پھرعلیٰحدگی کی صورت باقی رہ جاتی ہے ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
﴿ وان یتفر قا یغن اللہ کلا من سعتہ وکان اللہ واسعا حکیما﴾ (النساء :۱۳)
”اور اگر دونوں میاں بیوی جدا ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے احتیاج کر دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے بڑی حکمت والے ہیں ۔ “
اے میری مسلمان بہن !
عام طور پر مشاہدہ یہ ہے کہ خاوند طیش میں آکر یا آتشِ غصب میں آکر یا نئی محبت کی خواہش میں مبتلا ہو کر بیوی کو طلا ق دیتا ہے۔
لیکن ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“اس بات کو فرامو ش یا پس پشت نہیں ڈالتی کہ اس کا خاوند اس کی خاطر طرح طرح کی مشقتیں اٹھا تا ہے اور اس کی راحت اور سکون کے لیے کوشاں رہتا ہے، اگر کسی وقت اس کی طرف سے کوئی خطایا لغزش سرزد ہوتی ہے تو وہ فوری طور پر علیٰحدگی کا مطالبہ نہیں کرتی ۔ اسی لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حوا کی بیٹیوں کو اپنے شوہروں سے طلاق کا مطالبہ کرنے سے سختی سے منع کیا ہے اور اس پر شدید ترین و عید سنائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”جو عورت اپنے خاوند سے بلا کسی وجہ و حرج کے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہوجاتی ہے۔“ (مسند احمد ۵/۲۷۷،ابو داود۲۲۲۶، والتر مذی۱۱۹۸۔
اس حدیث سے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ جو عورت اپنے خاوند سے مطالبہ کرے کہ وہ اس کو طلاق دیدے حالانکہ کوئی ایسی شدید مجبوری نہیں ہے جو دونوں میں جدائی کا تقاضا کرتی ہو، جیسے اس عورت کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کی حدود کی پاسداری نہیں کرسکے گی ، یعنی خاوند کے جو حقوق اس پر واجب ہیں کہ اس کے ساتھ حسن ِ معاشرت سے زندگی بسر کرے ، حسنِ سلوک سے پیش آئے اس کو ادا نہیں کر سکے گی یا خاوند اس کو خلع کرنے کے لیے پریشان کرتا ہو (ایسی کوئی صورت نہ ہو اور طلاق کا مطالبہ کرے) تو جنت کی خوشبو سے محروم ہو گی ۔
مذکورہ حدیث میں جو فرمایا گیا کہ ” جنت کی خوشبو اس پر حرام ہے۔“ یہ وعید و تہدید کے طور پر ہے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عورت جنت کی خوشبو ابتدائی درجہ میں نہ پائے گی جیسا کہ دوسرے جنتی پائیں گے یا پھر وہ عورت خوشبو کو بالکل نہ پائے گی اور یہ تہدید میں مبالغہ کے طور پر فرمایا گیا ہے۔ اس کی اور بھی بہت سی نظیریں موجود ہیں۔
اے میری مسلمان بہن !
اسلام کی نظر میں شادی سے مقصد ایک مربوط اور مستحکم خاندان کا وجود میں لانا ہے جس میں مودت و محبت کی حکمرانی ہو، وہ خاندان در حقیقت ایک چھوٹا سوشل ادارہ ہے جو اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے کوشش کرتا ہے اگر شادی کا یہ مقصد حاصل نہ ہو رہا ہو خواہ میاں بیوی کی کوتاہی کو اس میں دخل ہو یا ان میں سے کوئی اپنی ذ مہ داری کو ادانہ کرتا ہو یا ہر ایک دوسرے کے حقوق سے انکار ی ہو تو پھر ان کے تعلق کو ختم کر دینا ہی ضروری ہو جاتا ہے ، اس لیے کہ اس تعلق کے قائم یا بر قرار رکھنے سے خاندان کی بنیاد قائم نہیں رہ سکتی بلکہ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی جائیں گی ، ایسے موقع پر اس امر کی ضرورت پید ا ہوجاتی ہے کہ خاندان کی بقاء و سلامتی کے لیے کوئی مناسب حل تجویز کیا جائے تاکہ طلاق کی نوبت ہی نہ آئے ، اس کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ وہ خاندان کا سربراہ اور کشتی کا ربان (کپتان ) ہے، نان و نفقہ کی ساری ذمہ داری اسی پر ہے، مرد کے لیے کسی صورت میں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ طلاق کا حق بلا ضرورت استعمال کرے ، اس پر لازم ہے کہ وہ ضرورت کی حد میں رہتے ہوئے اس حق کا استعمال کرے ، اگر اس نے اپنے حق میں حدسے تجاوز کیا تو وہ ظالم اور گناہ گار شمار ہوگا اور ازروئے دیانت مسئول اور قابل ِ گرفت ہوگا۔ طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند یدہ چیز ہے، ایک سچا مومن جو اسلامی احکام پر عمل کرنے والا ہو، وہ اپنے رب کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہے ، اسلام نے عورت کو بھی خلع کی صورت میں ایک گونہ طلاق کا حق دیا ہے، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ رقم دے دے یا بعض چیزوں سے دستبردار ہو جائے اور خاوند اس کے بدلے میں اس کو طلاق دے دے ،
”نیک عورت “ اپنے دِل سے پوچھتی ہے اور غور کرتی ہے کہ آخر اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان یہ فضا کیوں قائم ہوئی ہے؟ اس کا شوہر اس لغزش میں کیوں مبتلا ہوا؟ وہ اس کا جواب اور اس کے اسباب کا حتمی طور پر کھوج لگاتی ہے یوں ”نیک عورت “کی عشرت میں دوام واستمرار اور سیرت و کردار لائقِ تعریف و تحسین اور مقام و مرتبہ بلند و برتر ہوگا اور وہ کامیاب و باسعادت ازدواجی زندگی کے لیے ایک عمدہ نمونہ بنے گی۔
No comments:
Post a Comment