عورت کا کنوارا رہنا۔
جس عورت کی شادی ہو جائے اور وہ بچوں والی ہو جائے تو ایسی عورت کو کوئی شخص آسانی کے ساتھ زنا کی طرف مائل نہیں کرسکتا ۔
نیز اللہ تعالیٰ نے عورت کی فطرت میں مرد کی نسبت حیا بہت زیادہ رکھی ہے، لہٰذا کسی عورت کے بے حیا بننے سے پہلے اسے اس کی فطری زندگی یعنی گھر بار اور بچوں میں مشغول کردیا جائےتو اس کا مستقبل محفوظ ہو جاتا ہے اور ایسی عورتوں کو وہ مرد باآسانی خراب نہیں کرسکتے اور ان پر دسترس حاصل نہیں کرسکتے جن مردوں کے لئے خواہش نفسانی کی تکمیل کے لئے حلال راستے کا حصول مشکل تھا۔
اس کے برعکس اگر کسی معاشرے میں مثلا دس عدد عورتیں مناسب رشتہ کے حصول میں غیر معمولی مشکلات کا شکار ہو کر کنواری بیٹھے رہنے پر مجبور ہوں تو ان میں سے اگر ایک کو بھی خدانخواستہ بدکاری کا چسکا لگ گیا تو ایسی ہر ایک عورت اس معاشرے کے کم از کم سو100 افراد کو زنا اور بدکاری کا چسکا لگانے کے لئے کافی ہوگی اور اس کی بد عادات سے متاثر ہونے والے صرف کنوارے ہی نہ ہوں گے بلکہ شادی شدہ مرد بھی اس میں داخل ہوں گے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ مرد میں اللہ تعالیٰ نے عورت کی طرف کئی گنا زیادہ میلان رکھا ہے چنانچہ جب کوئی فاحشہ عورت از خود کسی مرد کو معاذ اللہ بدکاری کی دعوت دے تو عادۃ اس کا امکان بہت کم ہوتا ہے کہ وہ مرد یوسف علیہ السلام کی طرح اپنا دامن بچاتے ہوئے بھاگ کھڑا ہو یوسف علیہ السلام کا اس موقع پر ایک عورت کے فتنے سے بچ نکلنا ایک بہت بڑا مجاہدہ تھا۔
اس کے برعکس کوئی مرد کسی عورت کو زنا کی دعوت دے اور عورت اپنا دامن بچا کر بھاگ کھڑی ہو تو عورت کے اس کارنامے کو کوئی شخص بھی کوئی عظیم کارنامہ نہیں کہتا ۔
معلوم ہوا جس معاشرے میں عورت کو شادی میں مشکلات ہوں وہاں زنا عام ہوجاتا ہے۔
۔(مولانا طارق مسعود )۔
No comments:
Post a Comment