Monday, December 22, 2014
Thursday, November 20, 2014
دوسری شادی محض مباح کام ہے۔۔۔؟؟؟
بعض حضرات کہتے ہیں کہ دوسری شادی محض ایک مباح کام ہے اور اس عمل کا اقدام کرکے اہل علم اور دیگر نیک لوگ قوم کی طرف سے عیش پرستی شہوت پرستی کے جن طعنوں اور جس قیل وقال کا شکار ہو کر بدنام ہوتے ہیں اس بدنامی سے بچنا فرض ہے اور دیندار لوگ پہلے ہی بہت بدنام ہیں، لہٰذا ایک ایسے عمل جس کی خود ان کی ذات اور معاشرے کو کوئی ضرورت بھی نہیں اور یہ عمل فرض وواجب بھی نہیں تو اس عمل کا اقدام کرکے اپنی بدنامی میں مزید اضافے کی چنداں ضرورت نہیں۔ خلاصہ یہ کہ دوسری شادی حلال ہے اور بدنامی سے بچنا فرض ۔۔۔۔فرض کی اہمیت ایک مباح کام سے زیادہ ہوتی ہے۔
آیت میں اس نظریے پر یوں رد ہے کہ اگر اپنی ذات ، قوم یا معاشرے کو حلال کردہ ایک اقدام کی عملی ضرورت نہ بھی ہو تو بھی ایک کام جسے اللہ تعالیٰ نے واضح لفظوں میں حلال قرار دے دیا ہو ، اس سے اجتناب کرکے خود کو بدنامی سے بچانا اتنا اہم نہیں بلکہ اس سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ اس کام کا عملی اقدام کرکے لوگوں کے ایسے بگڑے ہوئے مزاج کی اصلاح کی کوشش کی جائے ، جس بگڑے ہوئے مزاج کے باعث وہ خدا کی طرف سے واضح لفظوں میں حلال کردہ ایک عمل کو بدنامی کا سبب اور باعث عار سمجھ رہے ہیں۔
(ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟،مولانا طارق مسعود صاحب۔)
Thursday, November 13, 2014
Saturday, November 1, 2014
متعدد بیویوں کی صورت میں مشکلات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
عرب عالم عبداللہ الفقیہ لکھتے ہیں:
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان عورتوں کے خلاف بہت غیرت آتی تھی جو خود کو نکاح کے لئے از خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیتی تھیں ، نیز صحیح بخاری میں ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج دو جماعتوں میں منقسم تھیں۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک زوجہ کے گھر تشریف فرماتھے، اسی دوران دوسری زوجہ نے ایک پیالے میں خادم کے ہاتھ کھانا بھجوایا، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جس زوجہ کے گھر تھے ان زوجہ کو اپنی باری میں سوکن کی اس مداخلت پر اتنی غیرت آئی کہ انہوں نے اس پیالے کو لے کر زمین پر دے مارا اور اس کے دو ٹکڑے کر دیئے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں کو غیرت آئی اس کے بعد آپ نے زمین پر جھک کر اس پیالے کو جوڑا اور اس میں کھانا دوبارہ ڈالا اور اس وقت موجود افراد کو کھانا تناول کرنے کا حکم دیا۔
مگر یہ مشکلات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو متعدد بیویاں رکھنے سے باز نہیں رکھ سکیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ مرد جب پہلی زوجہ کو اعتماد میں لئے بغیر اور اسے راضی کئے بغیر دوسری شادی کرے تو مشکلات زیادہ ہوتی ہیں اور اسے راضی کرکے یہ اقدام کرے تو مشکلات کم ہو جاتی ہیں، لیکن اگر وہ بیوی کو راضی کرنے کی کوشش کرے اور پھر بھی بیوی راضی نہ ہو تو بھی مرد کے لئے یہ اقدام جائز ہے، کیونکہ مرد کو دوسری شادی سے زبردستی روکنے کا نہ تو بیوی کو حق ہے اور نہ ہی بیوی کے ولیوں کو۔
لہٰذا عورت کو چاہئے کہ اس کا شوہر جب کسی عورت سے نکاح کا خواہش مند ہو تو اس کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے کیونکہ اس کا یہ رکاوٹ ڈالنا بسا اوقات طلاق یا شوہر کے دل میں زوجہ کی نفرت کا سبب بنتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کے احوال کو درست فرمائے۔
Monday, October 6, 2014
کیا آپ انصاف نہیں کرسکتے۔۔۔۔؟
کیا آپ انصاف نہیں کرسکتے۔۔۔۔؟
بہت سارے دوست یہ کہہ کر دوسری شادی کا نام سننا گوارہ نہیں کرتے کہ ہم انصاف نہیں کرسکتے۔ یا ہمیں کوئی ایک مثال دیں کہ کسی نے دوسری شادی کی ہو اور انصاف کیا ہو ایسے دوستوں سے دست بستہ التجا ہے کہ وہ ذرا غور فرمائیں:
اگر آپ نے ایل ایل بی وغیرہ کی ہوئی ہو اور وہ تمام تقاضے آپ کے اندر پائے جاتے ہوں جن کے ہوتے ہوئے آپ چیف جسٹس بن سکتے ہیں اور پھر حکومت آپ کو آفر کرے کہ آپ کو چیف جسٹس بنایا جارہا ہے تو سچ بتائیں اس وقت آپ یہ کہیں گے کہ میں چیف جسٹس نہیں بنتا کیوں کہ میں انصاف نہیں کرسکتا۔۔۔؟؟
اگر آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور تعلیم کے شعبے میں آپ کافی تجربہ رکھتے ہیں اور ملک کے تعلیمی اداروں کو بہتر کرنے کا جذبہ اور صلاحیت بھی رکھتے ہیں حکومت آپ کو وزیر تعلیم بنانے کا اعلان کردے تو کیا آپ اس وقت کہیں گے کہ میں وزیر تعلیم نہیں بنتا کیونکہ میں اس وزارت کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا۔۔۔؟؟
اگر حکومت آپ کو کسی صوبے کا آئی جی لگانے کا اعلان کرلے تو سچ بتائیں کیا آپ یہ کہہ کر انکار کردیں گے کہ میں اس قابل نہیں۔۔۔؟؟
اگر حکومت اعلان کر دے کہ رحمان ملک کی جگہ آپ کو وزیر داخلہ بنایا جارہا ہے تو کیا آپ انکار کردیں گے۔۔۔؟؟
کیا دنیا میں کوئی ایسا کام ہے جس کو کرنے کی کوئی شرط یا قانون یا قاعدہ نہ ہو،۔۔۔۔؟؟
جب ہر کام کی کچھ نہ کچھ شرائط اور قانون ہیں تو پھر ہر کام آپ بغیر سوچے سمجھے فوراً کرلیتے ہیں لیکن شادی کے موقع پر یہ بات کہ میں انصاف نہیں کرسکتا ہے۔۔۔؟؟
نماز پڑھنے کے لئے جگہ کا پاک ہونا ، کپڑوں کا پاک ہونا، جسم کا پاک ہونا، باوضو ہونا، قبلہ رخ ہونا وغیرہ بہت ساری شرائط ہیں کیا کوئی یہ کہہ کر نماز چھوڑ دے کہ میں ان شرائط کو نہیں پورا کرسکتا لہٰذا نماز ہی نہیں پڑھتایہ درست ہوگا۔۔۔؟؟
آپ کوئی نہ کوئی کام یا ملازمت وغیرہ کرتے ہی ہونگے کیا وہ بغیر کسی شرائط کے ہے ، آپ جو ملازمت کررہے ہیں وہ کسی نے زبردستی آپ کے حوالے کی تھی یا آپ نے خود درخواست دے کر حاصل کی تھی، کیا آپ نے اس وقت دو دن بھی یہ سوچا تھا کہ میں شاید اس کی شرائط پوری نہ کرسکوں لہٰذا میں یہ نہیں کرتا۔۔۔۔؟؟؟
میرے بھائی دوسری شادی کے لئے تین اوصاف ہونا چاہئے۔ ۱۔علم ۲۔خوف خدا ۳۔ حوصلہ
۱۔جہاں تک علم کا تعلق ہےتو وہ آپ تک پہنچ چکا مزید اس بارے میں ہم بتاتے رہیں گے اور ہمارے بلاگ پر اس بارے میں بہت سارا مواد موجود ہے۔www.4bv.blogspot.com
۲۔ دوسری چیز خوف خدا ہے ، اگر آپ کہتے ہیں میرے اندر خوف خدا نہیں تو پھر آپ اپنی خیر منائیں یہ بہت بڑی جرات کردی آپ نے۔
۳۔تیسری چیز حوصلہ ہے، اگر آپ کے اندرایک سے زائد عورتیں ۔۔۔عورتیں۔۔۔ رکھنے کا حوصلہ نہیں تو پھر آپ کو ڈوب مرنا چاہئےکہ آپ اس قابل ہی نہیں۔
ارے بھائی! اگر آپ نے دوسری شادی نہیں کرنی تو آپ پر کوئی زبردستی نہیں کرتا آپ اس بات کو اپنے دل میں چھپا کررکھیں اس کا کسی کے سامنے اظہار نہ کریں تاکہ اس غلط نظریے کی دوسروں کو تبلیغ نہ ہو۔آپ کم از کم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ دوسروں کے سامنے ڈھینگیں ماریں کہ میں چار شادیاں کروں گا۔۔۔چند سالوں بعد میرے 73 بچے ہوں گے۔
امید رکھیں انشااللہ اس پر بھی آپ کو اجر ملے گا۔ وما توفیقی الا بااللہ
Justice, LLB, tree, teacher, officer, Professor, Minister, ChiefJustice, IG, knowledge, fear God, courage,
Tuesday, May 6, 2014
http://adf.ly/307003/www.inpage2014.blogspot.com
http://adf.ly/307003/www.inpage2014.blogspot.com
<script type="text/javascript">
var adfly_id = 307003;
var adfly_advert = 'int';
var exclude_domains = ['example.com', 'yoursite.com'];
</script>
<script src="https://cdn.adf.ly/js/link-converter.js"></script>
<script type="text/javascript">
var adfly_id = 307003;
var adfly_advert = 'int';
var exclude_domains = ['example.com', 'yoursite.com'];
</script>
<script src="https://cdn.adf.ly/js/link-converter.js"></script>
Saturday, May 3, 2014
Wednesday, April 2, 2014
اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ نہ کرنے کی نصیحت
اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ نہ کرنے کی نصیحت
”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“ زندگی میں پیش آنے والے مسئلہ کا دائمی اور پائیدار حل تلاش کرتی ہے، اس کے دل میں طلاق کے مطالبہ کا خیال تک نہیں آتا ،”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ ازدواجی زندگی کے دوام و بقاء کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے، لڑائی و جھگڑے کو ختم کرنے کی حتی المقدور سعی وکاوش کرتی ہے۔ ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“ اپنی خاوند کی جفا و زیادتی پر صبر کرتی ہے اور اس کی طرف سے ہونے والی غلطیوں کوبرداشت کرتی ہے، تاکہ اس کا گھر تباہ نہ ہو، ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “جب خاوند کی طرف سے جفا و زیادتی کو محسوس کرتی ہے تو اس کے اصل اسباب ومحرکات معلوم کرکے اس کو ختم کرنے کی سعی کرتی ہے۔ ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ ایسی صورت میں اپنے خاوند کے پاس بیٹھ کر اس کے ساتھ مذاکرہ کرتی ہے اور ا سکی رضا جوئی اور راحت رسانی کی کوشش کرتی ہے۔
”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“اصلاحِ حال کی مقدور بھرکو شش کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وان امراة خافت من بعلھا نشوزا اواعراضا فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما صلحاط والصلح خیر ط واحضرت الانفس الشح ط وان تحسنوا وتتقوا فان اللہ کان بما تعملون خبیرا ﴾(النساء:۱۲۸)
”اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے غالب احتمال بددماغی یا بے پرواہی کا ہو سودونوں کو اس امر میں کوئی گناہ نہیں کہ دونوں باہم ایک خاص طور پر صلح کر لیں اور یہ صلح بہتر ہے اور نفوس کو حرص کے ساتھ اقتران ہو تا ہے اور اگر تم اچھا برتاوٴ رکھو اور احتیاط رکھو تو بلاشبہ حق تعالیٰ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں ۔“
خاوند بھی جب اپنی بیوی کی طرف سے نفرت کا رویہ دیکھے تو اسے بھی صبر و ضبط سے کام لینا چاہئے ۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس کی یہ نفرت عارضی اور وقتی ہو ، جیسا کہ ارشاد عالی ہے:
فان کر ھتموھن فعسی ان تکر ھوا شیئاویجعل اللہ فیہ خیر اکثیرا۔“)(النساء :۱۹)
”اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو نا پسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بری منفعت رکھ دے۔::
لیکن اگر اختلاف کی علامات بدستور موجود ہوں اور باوجود کوشش کے کامیابی حاصل نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ فوری طور پر اس کو فیصلہ دے کر فارغ کردیا جائے ، بلکہ کوئی ایسا شخص دیکھنا چاہیے جوان دونوں کے درمیان صلح و صفائی کرادے ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وان خفتم شقاق بینھما فابعثو ا حکما من اھلہ وحکمامن اھلھا ج ان یر ید ا اصلا حا یوفق اللہ بینھما ط ان اللہ کان علیما خبیرا﴾ ( النساء :۳۵)
”اوراگر تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بیوی میں کشاکش کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو عورت کے خاندان سے بھجواوٴ ان دونوں کو اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی میں اتفاق پیدا فرمادیں گے بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبروالے ہیں ۔“
اگر میاں بیوی میں صلح کرنے والے تمام ممکنہ ذرائع اور طرق بے کار ثابت ہوں تو پھرعلیٰحدگی کی صورت باقی رہ جاتی ہے ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
﴿ وان یتفر قا یغن اللہ کلا من سعتہ وکان اللہ واسعا حکیما﴾ (النساء :۱۳)
”اور اگر دونوں میاں بیوی جدا ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے احتیاج کر دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے بڑی حکمت والے ہیں ۔ “
اے میری مسلمان بہن !
عام طور پر مشاہدہ یہ ہے کہ خاوند طیش میں آکر یا آتشِ غصب میں آکر یا نئی محبت کی خواہش میں مبتلا ہو کر بیوی کو طلا ق دیتا ہے۔
لیکن ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“اس بات کو فرامو ش یا پس پشت نہیں ڈالتی کہ اس کا خاوند اس کی خاطر طرح طرح کی مشقتیں اٹھا تا ہے اور اس کی راحت اور سکون کے لیے کوشاں رہتا ہے، اگر کسی وقت اس کی طرف سے کوئی خطایا لغزش سرزد ہوتی ہے تو وہ فوری طور پر علیٰحدگی کا مطالبہ نہیں کرتی ۔ اسی لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حوا کی بیٹیوں کو اپنے شوہروں سے طلاق کا مطالبہ کرنے سے سختی سے منع کیا ہے اور اس پر شدید ترین و عید سنائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”جو عورت اپنے خاوند سے بلا کسی وجہ و حرج کے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہوجاتی ہے۔“ (مسند احمد ۵/۲۷۷،ابو داود۲۲۲۶، والتر مذی۱۱۹۸۔
اس حدیث سے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ جو عورت اپنے خاوند سے مطالبہ کرے کہ وہ اس کو طلاق دیدے حالانکہ کوئی ایسی شدید مجبوری نہیں ہے جو دونوں میں جدائی کا تقاضا کرتی ہو، جیسے اس عورت کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کی حدود کی پاسداری نہیں کرسکے گی ، یعنی خاوند کے جو حقوق اس پر واجب ہیں کہ اس کے ساتھ حسن ِ معاشرت سے زندگی بسر کرے ، حسنِ سلوک سے پیش آئے اس کو ادا نہیں کر سکے گی یا خاوند اس کو خلع کرنے کے لیے پریشان کرتا ہو (ایسی کوئی صورت نہ ہو اور طلاق کا مطالبہ کرے) تو جنت کی خوشبو سے محروم ہو گی ۔
مذکورہ حدیث میں جو فرمایا گیا کہ ” جنت کی خوشبو اس پر حرام ہے۔“ یہ وعید و تہدید کے طور پر ہے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عورت جنت کی خوشبو ابتدائی درجہ میں نہ پائے گی جیسا کہ دوسرے جنتی پائیں گے یا پھر وہ عورت خوشبو کو بالکل نہ پائے گی اور یہ تہدید میں مبالغہ کے طور پر فرمایا گیا ہے۔ اس کی اور بھی بہت سی نظیریں موجود ہیں۔
اے میری مسلمان بہن !
اسلام کی نظر میں شادی سے مقصد ایک مربوط اور مستحکم خاندان کا وجود میں لانا ہے جس میں مودت و محبت کی حکمرانی ہو، وہ خاندان در حقیقت ایک چھوٹا سوشل ادارہ ہے جو اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے کوشش کرتا ہے اگر شادی کا یہ مقصد حاصل نہ ہو رہا ہو خواہ میاں بیوی کی کوتاہی کو اس میں دخل ہو یا ان میں سے کوئی اپنی ذ مہ داری کو ادانہ کرتا ہو یا ہر ایک دوسرے کے حقوق سے انکار ی ہو تو پھر ان کے تعلق کو ختم کر دینا ہی ضروری ہو جاتا ہے ، اس لیے کہ اس تعلق کے قائم یا بر قرار رکھنے سے خاندان کی بنیاد قائم نہیں رہ سکتی بلکہ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی جائیں گی ، ایسے موقع پر اس امر کی ضرورت پید ا ہوجاتی ہے کہ خاندان کی بقاء و سلامتی کے لیے کوئی مناسب حل تجویز کیا جائے تاکہ طلاق کی نوبت ہی نہ آئے ، اس کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ وہ خاندان کا سربراہ اور کشتی کا ربان (کپتان ) ہے، نان و نفقہ کی ساری ذمہ داری اسی پر ہے، مرد کے لیے کسی صورت میں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ طلاق کا حق بلا ضرورت استعمال کرے ، اس پر لازم ہے کہ وہ ضرورت کی حد میں رہتے ہوئے اس حق کا استعمال کرے ، اگر اس نے اپنے حق میں حدسے تجاوز کیا تو وہ ظالم اور گناہ گار شمار ہوگا اور ازروئے دیانت مسئول اور قابل ِ گرفت ہوگا۔ طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند یدہ چیز ہے، ایک سچا مومن جو اسلامی احکام پر عمل کرنے والا ہو، وہ اپنے رب کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہے ، اسلام نے عورت کو بھی خلع کی صورت میں ایک گونہ طلاق کا حق دیا ہے، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ رقم دے دے یا بعض چیزوں سے دستبردار ہو جائے اور خاوند اس کے بدلے میں اس کو طلاق دے دے ،
”نیک عورت “ اپنے دِل سے پوچھتی ہے اور غور کرتی ہے کہ آخر اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان یہ فضا کیوں قائم ہوئی ہے؟ اس کا شوہر اس لغزش میں کیوں مبتلا ہوا؟ وہ اس کا جواب اور اس کے اسباب کا حتمی طور پر کھوج لگاتی ہے یوں ”نیک عورت “کی عشرت میں دوام واستمرار اور سیرت و کردار لائقِ تعریف و تحسین اور مقام و مرتبہ بلند و برتر ہوگا اور وہ کامیاب و باسعادت ازدواجی زندگی کے لیے ایک عمدہ نمونہ بنے گی۔
”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“ زندگی میں پیش آنے والے مسئلہ کا دائمی اور پائیدار حل تلاش کرتی ہے، اس کے دل میں طلاق کے مطالبہ کا خیال تک نہیں آتا ،”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ ازدواجی زندگی کے دوام و بقاء کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے، لڑائی و جھگڑے کو ختم کرنے کی حتی المقدور سعی وکاوش کرتی ہے۔ ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“ اپنی خاوند کی جفا و زیادتی پر صبر کرتی ہے اور اس کی طرف سے ہونے والی غلطیوں کوبرداشت کرتی ہے، تاکہ اس کا گھر تباہ نہ ہو، ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “جب خاوند کی طرف سے جفا و زیادتی کو محسوس کرتی ہے تو اس کے اصل اسباب ومحرکات معلوم کرکے اس کو ختم کرنے کی سعی کرتی ہے۔ ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “ ایسی صورت میں اپنے خاوند کے پاس بیٹھ کر اس کے ساتھ مذاکرہ کرتی ہے اور ا سکی رضا جوئی اور راحت رسانی کی کوشش کرتی ہے۔
”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“اصلاحِ حال کی مقدور بھرکو شش کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وان امراة خافت من بعلھا نشوزا اواعراضا فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما صلحاط والصلح خیر ط واحضرت الانفس الشح ط وان تحسنوا وتتقوا فان اللہ کان بما تعملون خبیرا ﴾(النساء:۱۲۸)
”اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے غالب احتمال بددماغی یا بے پرواہی کا ہو سودونوں کو اس امر میں کوئی گناہ نہیں کہ دونوں باہم ایک خاص طور پر صلح کر لیں اور یہ صلح بہتر ہے اور نفوس کو حرص کے ساتھ اقتران ہو تا ہے اور اگر تم اچھا برتاوٴ رکھو اور احتیاط رکھو تو بلاشبہ حق تعالیٰ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں ۔“
خاوند بھی جب اپنی بیوی کی طرف سے نفرت کا رویہ دیکھے تو اسے بھی صبر و ضبط سے کام لینا چاہئے ۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس کی یہ نفرت عارضی اور وقتی ہو ، جیسا کہ ارشاد عالی ہے:
فان کر ھتموھن فعسی ان تکر ھوا شیئاویجعل اللہ فیہ خیر اکثیرا۔“)(النساء :۱۹)
”اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو نا پسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بری منفعت رکھ دے۔::
لیکن اگر اختلاف کی علامات بدستور موجود ہوں اور باوجود کوشش کے کامیابی حاصل نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ فوری طور پر اس کو فیصلہ دے کر فارغ کردیا جائے ، بلکہ کوئی ایسا شخص دیکھنا چاہیے جوان دونوں کے درمیان صلح و صفائی کرادے ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وان خفتم شقاق بینھما فابعثو ا حکما من اھلہ وحکمامن اھلھا ج ان یر ید ا اصلا حا یوفق اللہ بینھما ط ان اللہ کان علیما خبیرا﴾ ( النساء :۳۵)
”اوراگر تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بیوی میں کشاکش کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو عورت کے خاندان سے بھجواوٴ ان دونوں کو اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی میں اتفاق پیدا فرمادیں گے بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبروالے ہیں ۔“
اگر میاں بیوی میں صلح کرنے والے تمام ممکنہ ذرائع اور طرق بے کار ثابت ہوں تو پھرعلیٰحدگی کی صورت باقی رہ جاتی ہے ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
﴿ وان یتفر قا یغن اللہ کلا من سعتہ وکان اللہ واسعا حکیما﴾ (النساء :۱۳)
”اور اگر دونوں میاں بیوی جدا ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے احتیاج کر دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے بڑی حکمت والے ہیں ۔ “
اے میری مسلمان بہن !
عام طور پر مشاہدہ یہ ہے کہ خاوند طیش میں آکر یا آتشِ غصب میں آکر یا نئی محبت کی خواہش میں مبتلا ہو کر بیوی کو طلا ق دیتا ہے۔
لیکن ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“اس بات کو فرامو ش یا پس پشت نہیں ڈالتی کہ اس کا خاوند اس کی خاطر طرح طرح کی مشقتیں اٹھا تا ہے اور اس کی راحت اور سکون کے لیے کوشاں رہتا ہے، اگر کسی وقت اس کی طرف سے کوئی خطایا لغزش سرزد ہوتی ہے تو وہ فوری طور پر علیٰحدگی کا مطالبہ نہیں کرتی ۔ اسی لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حوا کی بیٹیوں کو اپنے شوہروں سے طلاق کا مطالبہ کرنے سے سختی سے منع کیا ہے اور اس پر شدید ترین و عید سنائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”جو عورت اپنے خاوند سے بلا کسی وجہ و حرج کے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہوجاتی ہے۔“ (مسند احمد ۵/۲۷۷،ابو داود۲۲۲۶، والتر مذی۱۱۹۸۔
اس حدیث سے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے کہ جو عورت اپنے خاوند سے مطالبہ کرے کہ وہ اس کو طلاق دیدے حالانکہ کوئی ایسی شدید مجبوری نہیں ہے جو دونوں میں جدائی کا تقاضا کرتی ہو، جیسے اس عورت کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کی حدود کی پاسداری نہیں کرسکے گی ، یعنی خاوند کے جو حقوق اس پر واجب ہیں کہ اس کے ساتھ حسن ِ معاشرت سے زندگی بسر کرے ، حسنِ سلوک سے پیش آئے اس کو ادا نہیں کر سکے گی یا خاوند اس کو خلع کرنے کے لیے پریشان کرتا ہو (ایسی کوئی صورت نہ ہو اور طلاق کا مطالبہ کرے) تو جنت کی خوشبو سے محروم ہو گی ۔
مذکورہ حدیث میں جو فرمایا گیا کہ ” جنت کی خوشبو اس پر حرام ہے۔“ یہ وعید و تہدید کے طور پر ہے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عورت جنت کی خوشبو ابتدائی درجہ میں نہ پائے گی جیسا کہ دوسرے جنتی پائیں گے یا پھر وہ عورت خوشبو کو بالکل نہ پائے گی اور یہ تہدید میں مبالغہ کے طور پر فرمایا گیا ہے۔ اس کی اور بھی بہت سی نظیریں موجود ہیں۔
اے میری مسلمان بہن !
اسلام کی نظر میں شادی سے مقصد ایک مربوط اور مستحکم خاندان کا وجود میں لانا ہے جس میں مودت و محبت کی حکمرانی ہو، وہ خاندان در حقیقت ایک چھوٹا سوشل ادارہ ہے جو اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے کوشش کرتا ہے اگر شادی کا یہ مقصد حاصل نہ ہو رہا ہو خواہ میاں بیوی کی کوتاہی کو اس میں دخل ہو یا ان میں سے کوئی اپنی ذ مہ داری کو ادانہ کرتا ہو یا ہر ایک دوسرے کے حقوق سے انکار ی ہو تو پھر ان کے تعلق کو ختم کر دینا ہی ضروری ہو جاتا ہے ، اس لیے کہ اس تعلق کے قائم یا بر قرار رکھنے سے خاندان کی بنیاد قائم نہیں رہ سکتی بلکہ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی جائیں گی ، ایسے موقع پر اس امر کی ضرورت پید ا ہوجاتی ہے کہ خاندان کی بقاء و سلامتی کے لیے کوئی مناسب حل تجویز کیا جائے تاکہ طلاق کی نوبت ہی نہ آئے ، اس کی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ وہ خاندان کا سربراہ اور کشتی کا ربان (کپتان ) ہے، نان و نفقہ کی ساری ذمہ داری اسی پر ہے، مرد کے لیے کسی صورت میں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ طلاق کا حق بلا ضرورت استعمال کرے ، اس پر لازم ہے کہ وہ ضرورت کی حد میں رہتے ہوئے اس حق کا استعمال کرے ، اگر اس نے اپنے حق میں حدسے تجاوز کیا تو وہ ظالم اور گناہ گار شمار ہوگا اور ازروئے دیانت مسئول اور قابل ِ گرفت ہوگا۔ طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند یدہ چیز ہے، ایک سچا مومن جو اسلامی احکام پر عمل کرنے والا ہو، وہ اپنے رب کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہے ، اسلام نے عورت کو بھی خلع کی صورت میں ایک گونہ طلاق کا حق دیا ہے، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ رقم دے دے یا بعض چیزوں سے دستبردار ہو جائے اور خاوند اس کے بدلے میں اس کو طلاق دے دے ،
”نیک عورت “ اپنے دِل سے پوچھتی ہے اور غور کرتی ہے کہ آخر اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان یہ فضا کیوں قائم ہوئی ہے؟ اس کا شوہر اس لغزش میں کیوں مبتلا ہوا؟ وہ اس کا جواب اور اس کے اسباب کا حتمی طور پر کھوج لگاتی ہے یوں ”نیک عورت “کی عشرت میں دوام واستمرار اور سیرت و کردار لائقِ تعریف و تحسین اور مقام و مرتبہ بلند و برتر ہوگا اور وہ کامیاب و باسعادت ازدواجی زندگی کے لیے ایک عمدہ نمونہ بنے گی۔
Tuesday, April 1, 2014
بیوی کی بے عزّتی نہ کرنے کی نصیحت(برائے شوہر)۔
بیوی کی بے عزّتی نہ کرنے کی نصیحت
عام طور پر خاوند حضرات یہ کرلیتے ہیں کہ اپنی بیوی کی کسی غلطی پر اسے لوگوں کے سامنے روک ٹوک کرتے ہیں ۔ لوگوں کے سامنے اس کا مذاق اڑاتے ہیں ۔لوگوں کے سامنے بے عزت کے دیتے ہیں او ر ڈانٹ پلادیتے ہیں۔ اپنے طور پر تو وہ اچھے بن جاتے ہیں۔ دوسروں کوتأثر یہ مل جاتا ہے کہ دیکھو گھر میں میرا کتنا کنٹرول ہے بہن کے سامنے بیوی کو ڈانٹ پلادی ۔ ماں کے سامنے بیوی کو ڈانٹ دیا۔ اور ماں کی نظر میں بڑے اچھے بن گئے کہ ہاں ہمارا بیٹا تو گھر میں بہت کنٹرول رکھتا ہے ۔ بہن کہتی ہے کہ میرے بھائی کا تو گھر میں بہت کنٹرول ہے۔ یوں وہ اپنی ماں بہن کی نظر میں بڑے اچھے بن گئے مگر حقیقتاً اپنی بیوی کی نظر میں انہوں نے اپنے وقار کو صفر بنا دیا۔ اس لیے کہ ہر ایک کی اپنی عزت نفس ہوتی ہے۔ جب کسی کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے تو پھر اس انسان کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور یہ چیزگناہ میں شامل ہے ۔ اگر ایک چھوٹے بچے کو لوگوں کے سامنے ڈانٹ دیا جائے تو وہ رونا شروع کردیتا ہے کیونکہ اس کی عزت نفس مجروح ہوجاتی ہے۔ تو پھر عورت تو بالآخر بڑی ہوتی ہے، اس کوتو عزت نفس کی زیادہ پروا ہوتی ہے ۔ لہٰذا ااس کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے ۔ اس کو نصیحت کرنی ہے تو تنہائی میں کرو اور اگر تعریف کرنی ہے لوگوں کے سامنے کرو۔ اس نصیحت کو زندگی کا اصول بنالو تنہائی میں اگر بیوی کو جلی کٹی بھی سنادو گے بیوی بیچاری برداشت کرلے گی مگر لوگوں کے سامنے کی ذلت برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ اس لئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بیوی کو دوسروں کے سامنے کبھی بھی اس طرح تنقید کا نشانہ نہ بناوٴ ۔ وہ زندگی کی ساتھی ہے۔ تھوڑا وقت جو دونوں کو علیٰحد گی میں ملتا ہے اس میں ایک دوسرے کو سمجھا دو جو سمجھانا ہے لوگوں میں تم اس قسم کی باتیں نہ کرو۔
علماء نے لکھا ہے کہ بچہ جب تنہائی میں گرتا ہے اس کو زیادہ چوٹ لگتی ہے وہ نہیں روتا اور اٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ لیکن اگر لوگوں کے سامنے گر جائے ، اس سے آدھی چوٹ بھی لگے تو رونا شروع کر دیتاہے۔ اس لئے کہ لوگوں کے سامنے اس کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے۔ وہ درد سے نہیں رورہا ہوتا عزت نفس مجروح ہونے کی وجہ سے رورہا ہوتا ہے ۔ لہٰذا کبھی انسان کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ کرے ۔
عام طور پر خاوند حضرات یہ کرلیتے ہیں کہ اپنی بیوی کی کسی غلطی پر اسے لوگوں کے سامنے روک ٹوک کرتے ہیں ۔ لوگوں کے سامنے اس کا مذاق اڑاتے ہیں ۔لوگوں کے سامنے بے عزت کے دیتے ہیں او ر ڈانٹ پلادیتے ہیں۔ اپنے طور پر تو وہ اچھے بن جاتے ہیں۔ دوسروں کوتأثر یہ مل جاتا ہے کہ دیکھو گھر میں میرا کتنا کنٹرول ہے بہن کے سامنے بیوی کو ڈانٹ پلادی ۔ ماں کے سامنے بیوی کو ڈانٹ دیا۔ اور ماں کی نظر میں بڑے اچھے بن گئے کہ ہاں ہمارا بیٹا تو گھر میں بہت کنٹرول رکھتا ہے ۔ بہن کہتی ہے کہ میرے بھائی کا تو گھر میں بہت کنٹرول ہے۔ یوں وہ اپنی ماں بہن کی نظر میں بڑے اچھے بن گئے مگر حقیقتاً اپنی بیوی کی نظر میں انہوں نے اپنے وقار کو صفر بنا دیا۔ اس لیے کہ ہر ایک کی اپنی عزت نفس ہوتی ہے۔ جب کسی کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے تو پھر اس انسان کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور یہ چیزگناہ میں شامل ہے ۔ اگر ایک چھوٹے بچے کو لوگوں کے سامنے ڈانٹ دیا جائے تو وہ رونا شروع کردیتا ہے کیونکہ اس کی عزت نفس مجروح ہوجاتی ہے۔ تو پھر عورت تو بالآخر بڑی ہوتی ہے، اس کوتو عزت نفس کی زیادہ پروا ہوتی ہے ۔ لہٰذا ااس کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے ۔ اس کو نصیحت کرنی ہے تو تنہائی میں کرو اور اگر تعریف کرنی ہے لوگوں کے سامنے کرو۔ اس نصیحت کو زندگی کا اصول بنالو تنہائی میں اگر بیوی کو جلی کٹی بھی سنادو گے بیوی بیچاری برداشت کرلے گی مگر لوگوں کے سامنے کی ذلت برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ اس لئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بیوی کو دوسروں کے سامنے کبھی بھی اس طرح تنقید کا نشانہ نہ بناوٴ ۔ وہ زندگی کی ساتھی ہے۔ تھوڑا وقت جو دونوں کو علیٰحد گی میں ملتا ہے اس میں ایک دوسرے کو سمجھا دو جو سمجھانا ہے لوگوں میں تم اس قسم کی باتیں نہ کرو۔
علماء نے لکھا ہے کہ بچہ جب تنہائی میں گرتا ہے اس کو زیادہ چوٹ لگتی ہے وہ نہیں روتا اور اٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ لیکن اگر لوگوں کے سامنے گر جائے ، اس سے آدھی چوٹ بھی لگے تو رونا شروع کر دیتاہے۔ اس لئے کہ لوگوں کے سامنے اس کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے۔ وہ درد سے نہیں رورہا ہوتا عزت نفس مجروح ہونے کی وجہ سے رورہا ہوتا ہے ۔ لہٰذا کبھی انسان کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ کرے ۔
Wednesday, March 26, 2014
Tuesday, March 11, 2014
سنگساری کی شرعی سزا۔ جاوید چودھری کو جواب
محترم جناب جاوید چوہدری صاحب!! چند دنوں سے آپ کے کالمز میں اسلامی و شرعی احکامات سے متعلق باتیں دیکھنے میں آ رہی ہیں ۔ بالخصوص اسلامی حدود اور اسلامی ریاست میں نافذ کی جانی والی سزاؤں کے بارے میں ایک حکم سنگساری سے متعلق آپ کا کالم پڑھنے کو ملا ۔ چونکہ راقم ملک سے باہر اپنے دعوتی سفر پر تھا اس لیے بروقت جواب دینے میں تاخیر ہو گئی ۔ آپ کی صدق نیت اور اسلام سے متعلقہ معلومات سے آگاہی کا جذبہ یقیناً آپ کی اسلام سے محبت کی دلیل ہے ۔یہ علماء کرام کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ دینی مسائل کا جواب خندہ پیشانی سے دیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے علماء کرام سے اس بارے میں سوال کیا اور امید ہے کہ آئندہ بھی مذہبی معاملات میں علماء کی راہنمائی لیتے رہیں گے ۔جہاں تک آپ کے کالم میں ذکر کردہ سوالات کا تعلق ہے تو ان کے جوابات حاضر ہیں حسب وعدہ انہیں اپنے قارئین کے لیے شائع فرمائیں۔ نوٹ : ہمارے ذکر کردہ دلائل آپ کے تسلیم شدہ دلائل کے علاوہ ہیں ۔ سوال : آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا قرآن مجید نے کسی جگہ زنا کاروں کو سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا؟ اگر ہاں تو وہ آیات کہاں ہیں؟ جواب : دلیل نمبر1: ” وَاللاَّتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً “جو بدکاری کرے تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ لاؤ ان پر اپنوں میں سے چار مرد، پھر اگر وہ گواہی دیں تو بند رکھو ان عورتوں کو گھر میں ، یہاں تک کہ ان کو موت اٹھا لے، یا اللہ ان کےلیے کوئی راہ مقرر کر دے ۔ )سورۃ النساء:15( اس آیت مبارکہ میں ان عورتوں کے بارے میں جو زنا کی مرتکب ہوں حکم دیا گیا ہے کہ ان کے جرم پر چار مسلمان مردوں کی شہادت قائم کی جائے اور شہادت سے ان کا جرم ثابت ہوجائے تو ان کوگھروں میں بند رکھا جائے یہاں تک کہ ان کے بار میں اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم نازل ہو جائے ۔ اس کی تفسیر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الہٰی کے ذریعے یہ فرمائی ہے کہ زنا کا مرتکب شادی شدہ (محصن)ہو تو اس کو رجم (سنگسار) کیا جائے اور غیر شادی شدہ (غیر محصن) ہو تو اس کو سو 100 کوڑے لگائے جائیں۔ کان نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا انزل علیہ کرب لذلک وتربد لہ وجہہ قال فانزل علیہ ذات یوم فلقی کذلک فلما سری عنہ قال خذوا عنی فقد جعل اللّٰہ لہن سبیلًا: الثیب بالثیب والبکر بالبکر، الثیب جلد مائۃ ثم رجم بالحجارۃ، والبکر جلد مائۃ ثم نفی سنۃ. ) صحیح مسلم رقم 3200) آپ علیہ السلام پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے چینی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور چہرہ انور کا رنگ بدل جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ علیہ السلام پر یہی کیفیت طاری ہو گئی اور جب وحی کی یہ کیفیت ختم ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے لے لو ، مجھ سے لےلو۔ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے راہ مقرر کر دی ۔ شادی شدہ مرد وعورت اس کے مرتکب ہوں تو ان کی سزا سو100 کوڑے لگانا اور پھر” سنگسار“ کرنا ہے۔ کنوارے مرد وعورت اس کے مرتکب ہوں تو 100 کوڑے پھر ایک سال کی جلا وطنی ۔ فائدہ : غیر شادی شدہ کے لیے ایک سال کی جلا وطنی انتظامی فیصلہ ہے ۔ دلیل نمبر 2: اسی طرح سیدنا عبداللہبن عباس رضی اللہ عنہماسے بھی اس آیت کی یہی تشریح وتفسیر صحیح بخاری جلد 2ص657 پر موجود ہے۔ قال ابن عباس رضی اللہ عنہما… لھن سبیلا یعنی الرجم للثیب والجلد للبکر.یہ بالکل ایسے ہے جیسے نماز او رزکوٰۃ کا حکم قرآن مجید میں ہے اور نماز کیسے پڑھنی ہے؟ اور زکوٰۃ کیسے ادا کرنی ہے؟ اس کا طریقہ آپ علیہ السلام نے بتایا ہے اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس نمازاور زکوٰۃ کا قرآن کریم نے حکم نہیں دیاوہ خارج از ملت ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں زانی محصن[ شادی شدہ ] کی سزا رجم[ سنگسار ] ہے ۔ یہ بھی حق تعالیٰ شانہ نے ” أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً “ کے مجمل الفاظ میں ذکر فرمائی ہے اور پھر اس کی تشریح خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ علیہ السلام نے بذریعہ وحی فرمائی ہے۔ دلیل نمبر3: سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 41 تا 50 یہود کے ” قصہ رجم“ کے متعلق نازل ہوئیں۔جن کی وضاحت صحیح مسلم جلد 2ص70 پر موجود ہے ۔ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللھم انی اول من احییٰ امرک اذا ماتوہ فامر بہ فرجم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے تیرے اس حکم کو زندہ کیا جسے لوگوں نے بالکل چھوڑ دیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر [ اس شخص کو ] رجم [ سنگسار ] کر دیا گیا ۔ دلیل نمبر 4: امام بغوی رحمہ اللہ نے اس قصہ کا خلاصہ یہ نقل کیا ہے کہ خیبر کے یہودیوں میں ایک شادی شدہ جوڑے نے زنا کا ارِتکاب کیا تھا۔ جس کے لیے ان کی شریعت[ تورات] میں رجم [ سنگساری ] کی سزا مقرر تھی مگر یہودیوں نے خواہش نفس کی پیروی میں اس پر عمل درآمد معطل کر رکھا تھا۔ جب ان کے یہاں یہ واقعہ پیش آیا تو اس خیال سے کہ ” شریعت محمدی“ ان کی شریعت تورات سے نرم ہے ۔ انہوں نے یہ مقدمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا ۔ چنانچہ ایک وفد ان مجرموں کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ جسے یہود نے بطور خاص یہ ہدایت کی تھی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مطلب کے مطابق فیصلہ کریں تو قبول کر لینا ورنہ نہیں۔ وفد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر شادی شدہ مرد اور عورت زنا کا ارتکاب کریں تو ان کی کیا سزا ہے ؟[جواب دینے سے پہلے ] آپ علیہ السلام نے فرمایا کیا تم میرا فیصلہ مانو گے؟ انہوں نے اقرار کیا۔ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ ان کی سزا رجم [سنگساری ] ہے ۔ ان لوگوں نے جب یہ فیصلہ سنا تو بوکھلاگئے اور تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ آپ ان سے یہ فرمائیں کہ وہ آپ کے فیصلے کو ماننے یانہ ماننے کے بارے میں ”ابن صوریہ“کو حَکم[ ثالث] بنا لیں اور ابن صوریہ کے حالات اور صفات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے ۔ آپ علیہ السلام نے یہودی وفد سے فرمایا : کیا تم اس نوجوان کو جانتے ہو؟ جو سفید رنگ کا ہے مگر ایک آنکھ سے معذور ہے؟ انہو ں نے اقرار کیا کہ ہم پہنچاتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ تم اسے کیسا سمجھتے ہو؟ انہوں نے کہا علمائے یہود میں روئے زمین پر اس سے بڑا عالم نہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا اسے بلاؤ ، چنانچہ اسے بلایا گیا ۔ تو آپ علیہ السلام نے اسے قسم دے کر پوچھا کہ تورات میں اس جرم کی سزا کیا ہے ؟ وہ بولا قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم آپ نے مجھ کو دی ہے اگر آپ مجھے قسم نہ دیتے تو مجھے یہ ِخطرہ نہ ہوتا کہ اگر غلط بیانی کروں گا تو تورات مجھے جلا ڈالی گی میں کبھی ظاہر نہ کرتا ۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کی طرح تورات میں بھی زانی کی سزا یہی ہے کہ ان دونوں کو سنگسار کر دیا جائے۔ مگر جب ہمارے اشراف میں زنا کی کثرت ہوئی تو کچھ عرصہ تک تو یہ رہا کہ اشراف کو چھوڑ دیتے اور پسماندہ طبقے پر حد جاری کرتے لیکن ہم نے یہ طے کیا کہ رجم کی بجائے ایک ایسی سزا مقرر کر دی جائے جو شریف و وضیع سب پر جاری ہوسکے وہ تھی منہ کالاکر دینا جوتے لگانا اور گدھے پر الٹا سوار کرنا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا ”اللٰھم انی اول من احیا امرک اذااماتوہ “ یااللہ میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا، جبکہ انہوں نے اس کو مٹا ڈالا تھا۔ اس پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان دونوں کو رجم [ سنگسار ]کیا گیا ۔ معلوم ہوا کہ $11 اس حکم کو ”ما انزل اللہ “[ اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ ] کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر عمل کرنے کا تاکیدی حکم فرمایا ۔ اس معاملے پر کسی قسم کی رعایت روارکھنے سے”لا تتبع اھواءھم“[ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں ] کہہ کر شدت سے منع فرمایا ۔ $12 جو لوگ اس ”ماانزل اللہ“سے پہلو تہی کرتے ہیں ان کو دوڑ کر کفر میں گرنے والے اور زبان سے اسلام کا دعویٰ کرنے کے باوجود دل کا کافر فرمایا۔” الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنْ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ “ ۔ $13 جو اس حکم خداوندی کو تسلیم کر کے اس کے مطابق فیصلہ کرنے پر آمادہ نہ ہوں ان کو صاف صاف الفاظ میں کافر ، ظالم اور فاسق فرمایا ہے۔سورۃ مائدہ: آیت نمبر44تا 46 جب رجم کے حکم کی قرآن کریم اتنی شدومد کے ساتھ تاکید کرتا ہے اور اس سے پہلو تہی کرنے اور تسلیم نہ کرنے والوں کو اسلام کے زبانی دعویدار مگر دل کے کافر ،ظالم اور فاسق کہتا ہے ۔ تو سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کی کون سی آیت یانبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی سنت ہے جس نے اس شدید اور مؤکد حکم کو منسوخ کر دیا ہو ؟ دلیل نمبر5: صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت ]اختلاف الفاظ کے ساتھ ] موجودہے : حضرت ابو ہریرہ اور حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت دو شخص آئے ایک نے کہا کہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کیجیے دوسرے نے کہا ہاں! یارسول اللہ واقعی ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کیجیے اور مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنا واقعہ بیان کروں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں بیان کرو اس نے کہا میرا یک بیٹا اس شخص کے ہاں نوکر تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ۔ مجھے لوگوں نے بتایا کہ میرے بیٹے پر رجم [ سنگساری ]کی سزا جاری ہوگی ، میں نے اس کے فدیہ میں اس شخص کو سو بکریاں اور ایک لونڈی دی۔ پھر میں نے اہل علم سے دریافت کیا انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑوں اور ایک سال جلاوطنی کی سزا ہے اور رجم[ سنگساری ] کی سزا اس کی بیوی پر ہے:فقال النبی صلى الله عليه وسلم والذى نفسي بيده لاقضين بينكما بكتاب الله المائۃ الشاۃ والخادم رد علیک وعلی ابنک جلد مائة وتغريب عام واغد یا انیس فاغد ا لى امرأة هذا فان اعترفت فارجمها۔ )صحیح بخاری ج2 ص 1008( یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سنو! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق ہی فیصلہ کروں گا اور وہ یہ ہے کہ تیری بکریاں اور لونڈی تجھے واپس کر دی جائیں گی اور تیرے بیٹے پر سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا جاری ہوگی ا ور ہاں اے انیس! تم اس شخص کی بیوی کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اس کو ”رجم“ کرو۔ اس حدیث مبارک میں آپ علیہ السلام نے رجم[سنگساری] کی سزاکو قسم اٹھا کر کتاب اللہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن مجید میں سزائے رجم[ سنگساری ] مذکور نہیں ہے تو آپ علیہ السلام اس کو کتاب اللہ کی طرف منسوب کیوں کرتے؟ سوال نمبر 2: آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ ”نبی اکرمؐ سے منسوب سزا کے [اوپر بیان کردہ دونوں] واقعات کب وقوع پذیر ہوئے‘یہ واقعات سورۃ النور کے نزول سے پہلے کے واقعات ہیں یا سورۃ النور کی ان آیات کے نزول کے بعد وقوع پذیر ہوئے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے زنا کی حد طے فرمائی‘اگر یہ دونوں واقعات آیات کے نزول سے پہلے کے ہیں تو کیا پھر رجم درست ہے؟“ جواب : دلیل نمبر 1: رجم [ سنگساری ]کے موقع پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے جبکہ وہ اسلام ہی سات ہجری میں لائے ہیں۔اسلم[ ابو ھریرۃ ] عام خیبر۔ )عمدۃ القاری ج1 ص 331( دلیل نمبر 2: علامہ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے مزید کہا ہے ”وابن عباس انما جاء مع امہ الی المدینۃ سنۃتسع“ اس موقع پر ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے اور انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ سن 9ہجری میں مدینہ کی طرف ہجرت کی ۔ دلیل نمبر 3: رجم[سنگساری ] کا ایک واقعہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور وہ سن9ہجری میں مسلمان ہوئے۔ دلیل نمبر 4: امت کے دو جلیل القدر محدث؛ علامہ ابن حجر عسقلانی اور علامہ عینی حنفی رحمہما اللہ دونوں فرماتے ہیں کہ اس بات پر دلیل موجود ہے کہ رجم کا حکم سورۃ النور کے نزول کے بعد ہوا ”وقد قام الدلیل علی ان الرجم وقع بعد سورۃ النور“کیوں کہ سورۃ النور کا نزول حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کے قصہ میں ہوا تھا اور یہ واقعہ سن4،5یا 6 ہجری میں ہوا تھا ۔ )فتح الباری ج12ص120، عمدۃ القاری تحت باب رجم المحصن( اس لیے واقعہ سن 9یا 10ھ کا ہی ہو سکتا ہے یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ سورۃ النور کے نزول کے بعد بھی یہ حکم برقرار ہے۔ سوال نمبر 3: آپ کا تیسرا سوال یہ تھا کہ” کیا حیات طیبہ میں ان دو واقعات کے علاوہ کوئی تیسرا واقعہ موجود ہے؟“ جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں آپ کے ذکر کردہ دو واقعات کے علاوہ بھی کئی واقعات ایسے ہیں جو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں رونما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سزا رجم [ سنگساری ] نافذ فرمائی ۔ چنانچہ دلیل نمبر 1: حضرت ابو ہریرہ اور حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہما کی حدیث تفصیلاً پہلے گزر چکی کہ آپ علیہ السلا م نے زنا کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے فرمایا تھا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!میں تمہارا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق کروں گا ۔ چنانچہ خاتون نے جب اپنے گناہ کا اقرار کیا تو ” فامر بہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرجمت“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے رجم [سنگساری ] کا حکم دے دیا،لہٰذا اس کو سنگسار کر دیا گیا ۔ نوٹ : یہ روایت متعدد کتب حدیث میں موجود ہے مثلاً: 1: بخاری جلد2ص1008 2: مسلم جلد2ص69 3: ابوداؤد ص606 4: نسائی ج2ص308 5: ترمذی ص172 6: ابن ماجہ ص186 7: مؤطا امام مالک ص349۔ دلیل نمبر 2: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نماز کے لیے گھر سے نکلی تو راستے میں ایک شخص نے اُسے پکڑا اور اپنے نفس کی پیاس بجھائی۔ اس پر وہ عورت چیخی چلائی تو وہ مجرم بھاگ کھڑا ہوا۔ اسی دوران ایک آدمی وہاں سےگزرا تو وہ عورت (بد حواسی کی وجہ سے)یہ کہہ رہی تھی کہ اس شخص نے میرے ساتھ یہ برا کام کیا ہے۔اسی اثناء میں مہاجرین کی ایک جماعت بھی اُس عورت کی طرف آ نکلی۔ تو وہ عورت یہی کہہ رہی تھی:”اس شخص نے میرے ساتھ یہ برا کام کیا ہے۔“ چنانچہ یہ حضرات بھاگے اور اُس شخص کو پکڑ لیا جس کے بارے میں عورت کا خیال تھا کہ اُس نے اُس کے ساتھ زیادتی کی ہے ۔ وہ اس شخص کو پکڑ لائے اور عورت سے پوچھا: یہی وہ شخص ہے؟ عورت بولی : ہاں!یہ وہی ہے ۔ وہ اس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے رجم[سنگسار] کر دیا جائے۔ اس سزا کا سننا تھا کہ اصل مجرم کھڑا ہو گیا اور حضور کی خدمت میں عرض کی:یا رسول اللہ!اصل مجرم میں ہوں ، میں نے ہی اِس کے ساتھ زیادتی کی۔ صورت حال واضح ہوجانے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےاس عورت سے فرمایا: جا (تو بے قصور تھی)، اللہ نے تجھے معاف کر دیا اور اُس بے قصورشخص سے بھی کلمات خیر ارشاد فرمائے۔ پھراصل مجرم کے بارے میں جس نے اُس عورت سے بدکاری کی تھی ، ارشاد فرمایا : ”أرجموه“ اسے رجم کر دو ۔ )ترمذی ج1ص269 ( دلیل نمبر 3: حضرت لجلاج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں بازار میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ ایک عورت بچے کو اٹھائے ہوئی گزری، لوگ اس کے ساتھ ہو لیے میں بھی ان میں شریک ہوگیا ۔ عورت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچی ، آپ علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ اس بچے کا باپ کون ہے؟ عورت خاموش رہی ایک نوجوان نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کا باپ ہوں۔ آپ علیہ السلام نے پھر اس عورت سے سوال کیا ، نوجوان نے پھر کہا: میں اس کا باپ ہوں۔آپ علیہ السلام نے حاضرین سے تحقیق فرمائی کہ اس نوجوان کو جنون تو نہیں؟ عرض کیا گیا کہ نہیں یہ تندرست ہے۔ آپ علیہ السلام نے اس نوجوان سے پوچھا: کیا تم شادی شد ہ ہو؟ تو اس نے اثبات میں جواب دیا ”فامر بہ فرجم“ اس کے بارے میں حکم فرمایا پس اس کورجم کر دیاگیا۔ )سنن ابی داؤدج2ص609،مسند احمد ج3ص479( دلیل نمبر 4: ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہرضی اللہ عنہا کی روایت کتب حدیث میں مذکور ہے اس میں ہے کہ رجلاً زنیٰ بعد احصان فانہ یرجم. شادی شدہ شخص اگر زنا کرےتواس کو رجم کیا جائےگا۔ )صحیح مسلم ج2ص59،ابو داؤدج2ص598، نسائی ج2ص165تا168( یہ وہ روایات ہیں جن میں صراحتاً شادی شدہ زانی کی سزا رجم [سنگساری ] نقل کی گئی ہے ۔ ان تمام احادیث کو مجموعی نظر دیکھنے کے بعد اس امر میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ آپ علیہ السلام نے شادی شدہ زانی کی حد رجم [سنگساری ] ارشاد فرمائی ہے اور کتب حدیث اور تاریخ میں دورِنبوی کا کوئی ایک بھی واقعہ ایسا نہیں ملتا جس میں آپ علیہ السلام نے ایسے مجرم کو سنگسار کرنے کا حکم نہ فرمایا ہو۔ سوال نمبر 4: آپ کا سوال یہ ہے کہ” نبی اکرمؐ کے بعد چار خلفاء راشد کا دور آیا‘ کیا خلفاء راشدین نے کسی کو پتھر مروائے؟ حضرت عمرؓ کے دور میں اسلامی ریاست 22 لاکھ مربع میل تک پھیل گئی‘ دنیا کی درجنوں ثقافتیں‘ زبانیں اور نسلیں اسلامی ریاست کے زیر سایہ آ گئیں‘حضرت عمرؓ کے دور میں اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آیا تو حضرت عمرؓ ‘حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ نے کیا سزاتجویز کی؟ کیا ان کے ادوار میں مجرموں کو پتھر مارے گئے‘ اگر ہاں تو کیا پتھر مارنے والوں کو خلیفہ کی رضا مندی حاصل تھی؟“ جواب : جی بالکل !خلفاء راشدین کے ادوار میں بھی شریعت کے اس حکم پر عمل کیا جاتا رہا ۔ چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں ۔ دلیل نمبر 1: عن انس رضی اللہ عنہ قال رجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابو بکر وعمر۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کا حکم نافذ فرمایا اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما[کے دور میں بھی جب ایسے واقعات پیش آئے تو دونوں خلفاء] نے بھی رجم [ سنگساری ] کا حکم نافذ فرمایا ۔ )مجمع الزوائد ج2ص264 المطالب العالیہ ج2ص116( دلیل نمبر 2: مومنوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشہور خطبہ تقریباً حدیث کی تمام معتبر کتب بالخصوص صحیح بخاری ج 2 ص 1008میں موجود ہے:قال عمر لقد خشیت ان یطول بالناس زمان حتی یقول قائل لا نجد الرجم فی کتاب اللہ فیضلوا بترک فریضۃ انزلھا اللہ الا وان الرجم حق علی من زنیٰ وقد احصن اذا قامت البینۃ او کان الحبل اوالاعتراف ………وقد رجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورجمناہ بعدہ ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگوں پر زمانہ گزرے گا تو کوئی کہنے والا کہے گا کہ ہم کتاب اللہ میں رجم [سنگساری کا حکم ]نہیں پاتے پس وہ ایک ایسے فریضے کو جو اللہ تعالی ٰنے نازل فرمایا چھوڑ کر گمراہ ہوں گے اور بے شک اس زانی پر جو شادی شدہ ہو رجم [سنگساری کی سزا] برحق ہے ، جبکہ گواہی قائم ہوجائے یا حمل ظاہر ہوجائے یا وہ از خود اقرار کرلے ……بے شک آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی رجم کی سزا نافذ فرمائی اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ سزا جوں کی توں نافذ کی۔ نوٹ : اس کے علاوہ بھی امام بخاری نے اس پر باب باندھ کر کئی اور بھی احادیث نقل فرمائی ہیں ۔ امید ہے کہ آپ کو اپنے سوال (کہ ان دونوں واقعات میں اعتراف گناہ کے بعد سزا دی گئی‘ تفتیش یا گواہی کی بنیاد پر نہیں‘ کیا نبی اکرم ؐ کے دور میں شکایت‘ گواہی اور تفتیش کی بنیاد پر بھی کسی کو سنگسار کیا گیا؟ اگر نہیں تو کیا ہم تفتیش کے بعد کسی کو سنگسار کر سکتے ہیں؟) کا جواب مل چکا ہوگا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ”اذا قامت البینۃ“ جب گواہ؛ گواہی دے دیں “ اس کی واضح دلیل ہے۔ دلیل نمبر 3: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں رجم]سنگساری ] کی سزا کا تذکرہ ان الفاظ کے ساتھ قد رجمت کہ اس عورت کو رجم[سنگسار] کر دیا گیا : ) موطا امام مالک ص 686 ( دلیل نمبر 4: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور میں رجم[ سنگساری ] کی سزا کا واقعہ موجود ہے ۔ عن علی حین رجم المراۃ یوم الجمعۃ قال رجمتھا بسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ )صحیح بخاری جلد2ص1006 ( حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب جمعہ کے دن ایک عورت کو رجم کیا تو فرمایا میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق رجم [سنگسار ] کیا ہے ۔ حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے علاوہ بھی بہت سار ی روایات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے منقول ہیں۔ سردست ان حضرات کے نام لکھنے پر ہی اکتفاء کیا جاتا ہے ۔ $1· حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ $1· حضرت ابو بریدہ رضی اللہ عنہ $1· حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ $1· حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ $1· حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ $1· حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ $1· حضرت نضر بن دہر رضی اللہ عنہ $1· حضرت ھزال رضی اللہ عنہ $1· حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ $1· حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ $1· حضرت عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہ $1· حضرت ابو امامہ سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اجماع امت: ظاہر بات ہے جس سزا پر قرآن کا حکم واضح طور پر موجود ہو ، آپ علیہ السلام کی احادیث متواترہ ہوں ، خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےنافذ کردہ فیصلے موجود ہوں اس میں کسی مسلمان کو اختلاف کی گنجائش کب ہو سکتی ہے ؟ چنانچہ صحابہ کرام سے لے کر آج تک امت اس بات پرمتفق ہےاور اس پر اجماع ہے کہ شادی شدہ زانی کی سزا رجم (سنگساری) ہے ، اس سلسلے میں چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں۔ دلیل نمبر1: فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ کے مصنف امام مرغینانی [صاحب ہدایہ] لکھتے ہیں”واذا وجب الحد مکان الزانی محصناً رجمہ بالحجارۃ حتی یموت۔۔۔وعلی ھذا اجماع الصحابۃ“شادی شدہ زانی کی حد اس کو رجم کرنا ہے پتھروں کے ساتھ یہاں تک کہ وہ مرجائے ….اور اس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ )ہدایہ مع فتح القدیر ج5ص210( دلیل نمبر2: شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ لکھتے ہیں ” )رجمہ بالحجارۃ حتی یموت (علیہ اجماع الصحابۃ ومن تقدم من علما ء المسلمین“اس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے اور وہ علماء مسلمین جو پہلے گزر چکے ہیں۔ )ہدایہ مع فتح القدیر ج5ص210( دلیل نمبر3: امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں ”واجمع العلماء علی وجوب جلد الزانی البکر مائۃ ورجم المحصن وھو الثیب ولم یخالف فی ھذا احد من اھل القبلۃ “اس پر علماء کا اجماع ہے کہ غیر شادی شدہ زانی کی سزا سو کوڑے اور شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہے اور اس کا اہل قبلہ میں سے کوئی مخالف نہیں ۔ )شرح مسلم ج2ص65( دلیل نمبر4: علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فتح الباری شرح صحیح البخاری میں لکھتے ہیں: قال ابن بطال اجمع الصحابۃ وائمۃ الامصار علی ان المحصن اذا زنی عامداً عالماً مختاراً فعلیہ الرجم۔ ابن بطالرحمہ اللہ فرماتے ہیں صحابہ کرام ا ور ائمہ کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ محصن[ شادی شدہ] زانی باختیار اور جان بوجھ کر زنا کرے تو اس کی سزا رجم [ سنگساری ]ہے ۔ )فتح الباری ج12ص143( سوال نمبر 5: آپ کا سوال ہے کہ ” زنا کے گناہ کا فیصلہ کون کر سکتا ہے؟ “ جواب: کتب فقہ میں آپ کے اس سوال کا جواب بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ یہ حق صرف قاضی وقت کو ہے ۔ سوال نمبر 6: آپ کا سوال ہے کہ ”کیا اسلام میں زنا کے علاوہ کوئی ایسا دوسرا گناہ‘ کوئی ایسا دوسرا جرم موجود ہے جس کی حدود کے لیے چار گواہوں کی ضرورت ہو؟“ جواب: اس کا جواب ہے کہ شریعت میں زناجیسے قبیح جرم کے علاوہ کوئی ایساگناہ نہیں جہاں سزا دیتے وقت چار گواہوں کی گواہی کی ضرورت پیش آئے ۔ سوال نمبر 7: گواہوں کے متعلق آپ کا سوال یہ تھا کہ” اور یہ چار گواہ بھی وہ لوگ ہوں جن کے تقویٰ‘ جن کی صداقت پر کوئی شخص اعتراض نہ کرسکے اور یہ چار صادق اور متقی لوگ اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ گواہی دیں‘ ہم نے یہ سارا عمل اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اگر کسی ایک گواہ کی صداقت یا تقویٰ چیلنج ہو جائے تو کیا اس کے باوجود حد نافذ ہو سکتی ہے؟“ جواب : گواہوں کے بارے میں کتب فقہ میں یہ بات بہت وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ ایسے گواہوں کی گواہی قبول ہوگی جن میں 5 شرطیں پائی جاتی ہوں : 1: العقل )گواہ ؛سمجھدار ہو ( 2: البلوغ )گواہ ؛بالغ ہو ( 3: الحریۃ )گواہ؛ آزاد ہو( 4: الاسلام )گواہ؛ مسلمان ہو ( 5: العفۃ عن الزنا )گواہ؛ خود زانی نہ ہو ( )بدائع الصنائع ج 5 ص 498( اگر کسی گواہ میں مذکورہ پانچ شرائط میں سے کوئی شرط ختم ہوجائے یا وہ اپنے موقف سے انکار کر لے تو شریعت نے انسان کی عزت و حرمت کا خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ حدود شبہات کی وجہ سے ختم ہو جاتی ہیں ۔اس وجہ سے اب اس پر حد نافذ نہیں ہوگی ۔البتہ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر تعزیری کارروائی کی جا سکتی ہے ۔ سوال نمبر8: آپ کا آخری سوال یہ ہے کہ” کیا مجرموں کو سزا دینا ریاست کا کام ہے یا پھر یہ فریضہ عام لوگ بھی سرانجام دے سکتے ہیں؟“ جواب : اس کا جواب یہ ہے کہ حد نافذ کرنا یہ کام صرف ریاست ہی کا ہے ۔ ریاست سے مطالبہ کرنا عوام کا حق ہے عوام اس کامطالبہ کرسکتے ہیں ۔ البتہ عوام کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو سزا دیں ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ وطن عزیز کو اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ فرماکر امن کا گہوارہ بنائے ۔ والسلام مولانا محمد الیاس گھمن
امیر :اتحاد اہل السنت والجماعت العالمی
امیر :اتحاد اہل السنت والجماعت العالمی
Subscribe to:
Posts (Atom)