Sunday, November 24, 2013

ایک سے زائد شادیوں میں رکاوٹ۔


آج نکاح میں دو چیزیں سب سے زیادہ رکاوٹ بنتی ہیں:
۱۔ دین کی خدمت کا جذبہ اور ان میں ہمہ تن مشغولیت
۲۔غربت
مشاہدہ ہے کہ بہت سے اہل علم حضرات اس خوف سے جلد نکاح یا متعدد نکاح نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ ان سے جو کچھ دین کی خدمات لے رہے ہیں تو اہل وعیال کی کثرت ان کےمعاش کی فکر اور سوکنوں کے جھگڑے نمٹانے کے چکر میں ان خدمات میں کمی واقع نہ ہو جائے نیز سابقہ دور جہاد میں کئی ایسے مجاہدین کے حالالت سننے اور دیکھنے میں آئے جو رشتہ ملنے کے باوجود یہ سوچ کر ایک شادی بھی نہیں کرتے تھے کہ جہاد میں مصروفیت کے باعث کسی بھی وقت شہادت سے سرفراز ہو سکتے ہیں، تو ان حالات میں بیوی بچوں کا بوجھ پالنا بلا وجہ کی مصیبت سرمول لینے کے مترادف ہے، لہٰذا ہلکے پھلکے رہ کر اور بیوی بچوں کی فکر سے آزاد ہو کر مصروف جہاد رہنا چاہئے، بیویاں تو خود سے حوروں کی شکل میں شہادت کے بعد مل جائیں گی، بلا شبہ ان کا یہ جذبہ(صرف جذبے کی حد تک) قابل تحسین ہے۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔
صحابہ کرام میں نکاح سے روکنے والی یہ دونوں رکاوٹیں یعنی دین کی (خدمات کا جذبہ، ان میں عملی مشغولیت اور غربت) بطریق اتم موجود تھیں، دین کی خدمات متعدیہ میں سے مشکل اور افضل ترین اور دنیا کی تمامتر مرغوبات سے سب سے زیادہ غافل کردینے والی خدمت جہاد ہے، صحابہ اس وقت ان خدمات اور جہاد میں مشغول تھے جب اسلام  کو جہاد اور دوسری خدمات کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اور پھر جہادی مصروفیت بھی ایسی کہ روم اور فارس اور ان جیسی نہ معلوم مزید کیسی بڑی بڑی سلطنتیں کہ جنہوں نے مٹھی بھر مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ ان سے ٹکراو تھا دوسری طرف علمی میدان میں دشمنان اسلام کی سازشیں چاروں طرف سے بھرپور طریقے سے امڈ کر اسلام اور اسلام کے بنیادی عقائد سے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرکے پورے اسلام ہی کی مشکوک بانے اور اسے صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی تھی۔
مگر جہادی اور علمی میدان کی یہ تمامتر قربانیاں اور دنیا سے غایت درجہ کی بے رغبتی صحابہ کرام کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نکاح کی کثرت والی سنت سے بہر حال باز نہ رکھ سکتی اور بھلا باز  رکھتی بھی کیسے۔۔۔؟؟ صحابہ تو دیکھ چکے تھے کہ ان سے زیادہ غریب اور مسکین تو ان کے محبوب ترین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تھے،غربت کے باعث گھر میں چالیس چالیس دن چولھا جلنے کی نوبت نہ آتی، مگر اس کے باوجود بیویوں کے بارے میں نہ صرف یہ کہ قناعت نہیں کی بلکہ  اتزوج النسا  کہہ کر اس کی قولی وعملی ترغیب بھی دے ڈالی، بلکہ جب غربت کے بناعث امہات المومنین نے مال غنیمت کا سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےرب کی طرف سے یہ حکم سنایا کہ میرے ساتھ اگر اسی حال میں رہنا ہے تو رہو ۔
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Tuesday, November 5, 2013

مالداری اور نکاح


1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی وہ ہیں کہ جن کی مدد اللہ تعالیٰ (نے خود) پر واجب (کرلی) ہے ،
۱۔وہ نکاح کرنے والا شخص جس کا مقصد نکاح سے خود کو بے حیائی سے بچانا ہو۔
۲۔وہ غلام جو غلامی کے طوق سے آزادی کی خاطر عقدِ مکا تبت(مالک سے ایک خاص قسم کا مالی عقد) کرکے آزاد ہونا چاہتا ہو۔
۳۔وہ مجاہد جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کررہا ہو۔
2۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص حاضر ہوا جو اپنی غربت وفقر وفاقہ کی شکایت کررہا تھا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ نکاح کرلے۔
3۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (لوگو!) اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو نکاح کا حکم دیا ہے تو اس حکم کی تکمیل کی خاطر تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو، اس پر اللہ تعالیٰ نے تم سے جو غنٰی(مال میں وسعت وبرکت کا وعدہ) کیا ہے، تو اللہ تعالیٰ تم سے کئے گئے اس وعدہ کو پورا کرے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اگر فقیر ہوگے تو اللہ (اس نکاح کی برکت سے) غنی کردے گا۔
4۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (لوگو!) غِنٰی کو نکاح میں تلاش کرو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر فقیر ہوگے تو اللہ (اس نکاح کی برکت سے) غنی کردے گا۔
5۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: رزق نکاح میں تلاش کرو۔
6۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں سے نکاح کرو اس لئے کہ یہ عورتیں تمہارے مال میں برکت واضافے کا سبب ہیں۔
7۔ثعلبی اپنی سند سے رویات کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غربت کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : نکاح کو لازم پکڑو۔
8۔ایوب رحمہ اللہ فرماتے ہیں محمد(غالبا ابن سیرین ) مجھے کاروبار،جائیداد، مال بڑھانے کے لئے نکاح کی ترغیب دیتے تھے۔
9۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اے لوگو!(جس نے مال تلاش کرنا ہوتو وہ) نکاح میں مال تلاش کرے۔
10۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ میں فرمایا : کسی بھی شخص کے لئے ایمان کے بعد اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں کہ اسے اچھے اخلاق اور محبت والی ایسی بیوی مل جائے جو کثرت سے بچے جنتی ہو۔
Richness, poverty, marriage, provision, blessing, wealth, property,business,



Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Sunday, November 3, 2013

Inpage Urdu 2014 Full Version Free Download

Inpage Urdu 2014 Full Version Free Download

On 4shared:  Download
On 2shared: Download
on MediaFire: Download
On speedyshare: Download




Wednesday, October 9, 2013

تعدد ازواج میں اصل حکم کیا ہے؟

تعدد ازواج میں اصل حکم کیا ہے؟
اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے مرد کی فطرت سے پوری طرح مطابقت کے باعث اسلام میں اصل ترغیبی حکم یہ ہے کہ ایک سے زائد بیویاں رکھی جائیں ، یعنی تعدد اصل ہے اور ایک پر اکتفا کرنا یہ مجبوری کے وقت ہے۔
فانکحوا ماطاب لکم من النسا مثنیٰ وثلٰث وربٰع، وان خفتم ان لا تعدلوا فواحدۃ ۔
نکاح کرو دودو سے تین تین سے چار چار سے،اور اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل قائم نہ کرسکو گے تو پھر ایک کرو۔
دیکھیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک کا حکم نہیں دیا بلکہ دو دو تین تین چار چار بیویاں رکھنے کا حکم دیا اور مجبوری کے وقت ایک ہی رکھنے کی اجازت بھی دی۔اس سے معلوم ہوا اصل حکم تعدد ازواج کا ہے۔
ایک سے زیادہ عورتوں کی خواہش اور طلب مرد کی فطرت میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کی فطرت ہی ایسی بنائی ہے کہ وہ صرف ایک عورت پر گزارہ نہیں کرسکتا۔ تاریخ بھی اس بات کی شاہد ہے کہ ابتدا ہی سے مردوں کا ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا رجحان رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ جنت میں بھی ایک مومن مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں اور کئی حوریں ملیں گی۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ادنیٰ درجے کے جنتی کے اسی ہزار خادم ہونگے اور بہتّر بیویاں ہونگی۔ ایک اور  روایت میں ہے کہ ایک جنتی مرد کی پانچ سو حوروں اور چارہزار کنواریوں اور آٹھ ہزار بیوہ عورتوں سے شادی کروائی جائے گی۔
حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
عقلاً ونقلاً وتجربۃً وقیاساً ہر لحاظ سے یہ امر مسلّم ہے کہ مرد میں عورت کی بہ نسبت شہوت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔
عقلاً اس لئے کہ مرد کا مزاج گرم ہے ، جوسبب شہوت ہے اور عورت کا مزج سرد ہے۔
شرعاً اور نقلاً اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرد کو چار بیویوں کا اختیار دیا ہے اگر عورت میں شہوت زیادہ ہوتی تو اس کے برعکس ہونا چاہئے تھا۔
تجربۃً اس لئے کہ کوئی شخص اس کا قائل نہیں اور اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا کہ عورت ہمبستری کی دعوت دے اور مرد انکار کرے ، اس کے برعکس اس کی مثالیں روزانہ پیش آتی رہتی ہیں کہ مرد بلاتا ہے اور عوت راضی نہیں ہوتی۔
قیاساً اس طریقے سے کہ دوسرے حیوانات میں یہ امر مشاہد ہے کہ ایک مذکر سینکڑوں مونث کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ مردوں میں کثرت احتلام اور عورتوں میں اس کا وجود کالعدم ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں میں شہوت کم ہوتی ہے۔


Islam is divinely ordained by Allah (SWT) thus fully compatible with human nature, particularly the Fitrah of man. Therefore Islam encourages polygny and to become content with one is the exception and not the rule. 

Friday, July 19, 2013

ایک سے زائد شادیاں polygamy Multiple Wives

 ایک سے زائد شادیوں کے حوالے سے نئی کتاب، اس کتاب میں تعدد زوجات کے حوالے سے سیر حاصل بحث ہے، امید ہے یہ کتاب آپ کو پسند آئے گی اور آپ اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔ اسلام میں مرد کو چار شادیاں کرنے کی نہ صرف اجازت بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے جس پر خلفائے راشدی المہدین کا عمل سب سے بڑا ثبوت ہے۔
.............................................
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday, July 16, 2013

عدل کا مفہوم

بیویوں میں ‘‘عدل’’۔
جس طرح لوگ پردے کے معاملے میں ایک غلط فہمی کا شکار ہیں یعنی ‘‘ستر اور پردہ’’ میں فرق نہیں سمجھتے بالکل اسی طرح دوسری شادی کی صورت میں عدل کے بارے میں بھی غلط فہمی کا شکار ہیں۔
لہٰذا اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ عدل کے معنی ظلم کا مقابل ہے،
 ظلم کہتے ہیں حق کے موافق برتاو نہ کرنا، مثلا ٹو پی کا مقام سرپر رکھنا ہے اگر آپ اسے پاوں پر رکھ دیں تو یہ ظلم ہے۔
 عدل کہتے ہیں حق موافق کے برتاو کرنا۔
عام طور پر لوگ عدل اور تسویہ(برابری)میں فرق کو نہیں سمجھتے۔ عدل ہر حال میں ضروری ہے چاہے بیوی ایک ہو یا ایک سے زائد جبکہ تسویہ(برابری) ایک سے زائد بیویاں ہونے کی صورت میں صرف دو چیزوں میں ضروری ہے۔۱۔بیتوتہ(رات گزارنا)  ۲۔وصلات زائدہ(اضافی تحفے تحائف) میں۔
عدل کا مطلب یہ ہوا کہ کسی پر ظلم نہ ہو، اور یہ بات تو ایک بیوی کی صورت میں بھی ضروری ہے کہ آپ اس پر ظلم اور زیادتی نہ کریں اس کے حقوق واجبہ کو ادا کریں۔
البتہ ایک سے زائد بیویاں ہونے کی صورت میں دوچیزوں میں تسویہ یعنی برابری بھی کرنا ہوگی،
یاد رکھیں ہر چیز میں برابری کرنا ضروری نہیں ہے۔ اگر دونوں بیویاں مالی حیثیت سے برابر ہیں یعنی دونوں مالدار ہیں یا دونوں غریب ہیں تو پھر نان نفقہ میں برابری ضروری ہے ورنہ نان نفقہ میں برابری ضروری نہیں ہے ، مالدار بیوی کو اچھا کھانا جو اس کے لائق ہو وہ دینا ضروری ہے اور غریب بیوی کو ہلکا کھانا جو اس کے موافق ہو وہ دینا ضروری ہے۔ البتہ دو چیزیں ایسی ہیں جن میں برابری ضروری ہے:
۱۔ رات گزارنے میں یعنی جتنی راتیں ایک بیوی کے ساتھ گزاری ہیں اتنی ہی دوسری کے پاس بھی گزارنا ہوں گی، چاہے جماع کریں یا نہ کریں۔ اور یہ کام اتنا مشکل نہیں جتنا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔
۲۔ اضافی تحفے تحائف دینا۔ یعنی ضروری نان نفقہ کے علاوہ اضافی کوئی چیز دینی ہو تو پھر دونوں میں برابری کرنا ہوگی۔(مثلا شادی بیاہ یا عید کے موقع پر کپڑے وغیرہ بنانا)
کیا آپ ان دو چیزوں میں برابری نہیں کرسکتے۔۔؟؟
کیا آپ انسان نہیں ہیں آپ کو اللہ نے عقل نہیں دی کہ آپ عدل کو چھوڑ کر ظلم کریں گے۔۔؟؟
لہٰذا خود بھی زیادہ شادیاں کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔

Sunday, July 7, 2013

خلفاراشدین رضی اللہ عنہم کا عمل

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چار شادیاں کیں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آٹھ شادیاں کیں، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے آٹھ شادیاں کیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نو شادیاں کیں۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شادیوں کی تعداد باقی خلفا کے مقابلہ میں کم ہے کیونکہ ان کی عمر کا کم زمانہ اسلام میں گزراباقی خلفا سے عمر میں بھی بڑے تھے ، دوسرے نمبر پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں ، اور پھر تیسری نمبر پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں انہوں نے آٹھ شادیاں کیں ، چوتھے نمبر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے نو شادیاں کیں اور وفات کے وقت چاربیویاں اور 19 باندیاں تھیں، چونکہ ان کی عمر کا زیادہ حصہ اسلام میں گزرا اس لئے انہوں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر باقی خلفا سے زیادہ شادیاں کیں۔
اگر زیادہ شادیاں کرنا جاہلیت کا دستور ہوتا تو پھر سب سے زیادہ شادیاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہونی چاہئے تھیں اور سب سے کم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی، کیونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عمر کا زیادہ حصہ جاہلیت میں گزرا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر کا زیادہ حصہ اسلام میں گزرا ، معلوم ہوا زیادہ شادیوں کی اتنی ترغیب اسلام نے ہی دی۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان حضرات نے زیادہ شادیاں اس لئے کیں کہ ان کی جسمانی قوت زیادہ تھی ، یہ بات درست ہے لیکن دوسری طرف ان حضرات میں صبر کا مادہ اور دنیا سے بے رغبتی اتنی زیادہ تھی کہ ہم اس درجے کا نہ صبر کر سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا سے بے رغبتی ۔ جب ہماری یہ حالت ہے کہ ہم نہ صبر کر سکتے ہیں اور نہ دنیا سے بے رغبتی تو پھر ہمارے لئے تو اور ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم زیادہ شادیاں کریں۔


Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Friday, June 14, 2013

بعض لوگوں کا ایک عجیب اعتراض


بعض لوگ ایک عجیب قسم کا اعتراض کرتے ہیں کہ جی اس زمانے میں بیویوں کے درمیان عدل کرنا ممکن ہی نہیں۔
اس میں دو باتیں ہیں :
1۔ عدل ممکن ہی نہیں
2۔ عدل کرتے نہیں
جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے کہ لوگ عدل کرتے نہیں ، یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہو سکتی ہے لیکن اس بات کو لیکر دوسری شادی ہی نہ کرنا کہ لوگ عدل نہیں کرتے یہ ایسا ہی جیسا کوئی کہے کہ لوگ نماز پڑھتے ہی نہیں لہٰذا میں بھی نہیں پڑھتا یا لوگ نماز پڑھتے ہی نہیں لہٰذا اس کی ترغیب دینا ہی فضول ہے۔
اگر لوگ نہیں کرتے تو آپ خود عدل کر کے لوگوں کے لئے مثال بنیں ، یا کم از کم اس بات کی ترغیب چلائیں لوگوں سے کہیں کہ وہ عدل کریں ، عدل کرنے سے ہوگا نہ کہ سوچنے سے ۔
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ عدل ممکن ہی نہیں ، یہ بالکل فضول بات ہے ۔ اس قسم کے اعتراض پرویز مشرف کی ذہنیت رکھنے والے روشن خیال دین کی اور کئی باتوں پر بھی کرتے رہے ہیں کہ فلاں کام آج کے دور میں ممکن ہی نہیں ، یاد رکھیں دین کے کسی حکم کے بارے میں یہ سوچ لینا کہ آج اس پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں اس سے وہ معاف نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ اپنے آپ کو دین دار کہنے والے آگے بڑھ کر اس حکم پر عمل کرکے گمراہوں کی دلیل بیچ چوراہے کے باطل کرکے دکھائیں کہ دین اور شریعت کا ہر حکم قیامت تک کے لئے ہے اور اس پر عمل کرنا ہر دور اور زمانے میں ممکن ہے۔
لہٰذا آج جتنے اعتراض دوسری شادی پر ہو رہے ہیں یہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ دین دار طبقہ خصوصا علما ، حفاظ ، اور تبلیغی حضرات فورا اس دلیل کو اپنے عمل سے باطل کرکے دکھائیں، اور باقی عوام کے لئے مثال بن کر آسانی پیدا کریں۔
مولانا مفتی طارق مسعود مدظلہ فرماتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ جب انسان اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ کسی کام کا پختہ عزم کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستے کھولتے چلے جاتے ہیں، چنانچہ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جو نوجوان تعددزوجات پر عمل کے بارے میں اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ عملی کوشش کرے گا، اس کے سامنے بہت سی ایسی تدبیریں اور راستے کھلتے جائیں گے جنہیں اختیار کرکے اس کے لئے اس سنت پر عمل آسان ہو جائے گا اور اگر عزم وارادہ ہی نہ ہو تو بنی اسرائیل کی طرح مختلف قسم کی شقیں اور اشکالات نکال نکال کر ساری عمر معاملے کو ٹہلانے کی کوشش ہی میں لگا رہے گا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
تین آدمی ایسے ہیں کہ جن کی مدد اللہ تعالیٰ نے خود پر واجب کرلی ہے:
1۔وہ نکاح کا ارادہ کرنے والا جس کا مقصد نکاح کے ذریعے خود کو بے حیائی سے بچانا ہو۔
2۔اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا۔
3۔وہ غلام جو خودکو آزاد کرانے کی کوشش میں لگا رہے۔
(ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟ص294)


Wednesday, June 5, 2013

عورت کا کنوارا رہنا۔


عورت کا کنوارا رہنا۔
جس عورت کی شادی ہو جائے اور وہ بچوں والی ہو جائے تو ایسی عورت کو  کوئی شخص آسانی کے ساتھ زنا کی طرف مائل نہیں کرسکتا ۔
نیز اللہ تعالیٰ نے عورت کی فطرت میں مرد کی نسبت حیا بہت زیادہ رکھی ہے، لہٰذا کسی عورت کے بے حیا بننے سے پہلے اسے اس کی فطری زندگی یعنی گھر بار اور بچوں میں مشغول کردیا جائےتو اس کا مستقبل محفوظ ہو جاتا ہے اور ایسی عورتوں کو وہ مرد باآسانی خراب نہیں کرسکتے اور ان پر دسترس حاصل نہیں کرسکتے جن مردوں کے لئے خواہش نفسانی کی تکمیل کے لئے حلال راستے کا حصول مشکل تھا۔
اس کے برعکس اگر کسی معاشرے میں مثلا دس عدد عورتیں مناسب رشتہ کے حصول میں غیر معمولی مشکلات کا شکار ہو کر کنواری بیٹھے رہنے پر مجبور ہوں تو ان میں سے اگر ایک کو بھی خدانخواستہ بدکاری کا چسکا لگ گیا تو ایسی ہر ایک عورت اس معاشرے کے کم از کم سو100 افراد کو زنا اور بدکاری کا چسکا لگانے کے لئے کافی ہوگی اور اس کی بد  عادات سے متاثر ہونے والے صرف کنوارے ہی نہ ہوں گے بلکہ شادی شدہ مرد بھی اس میں داخل ہوں گے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ مرد میں اللہ تعالیٰ نے عورت کی طرف کئی گنا زیادہ میلان رکھا ہے چنانچہ جب کوئی فاحشہ عورت از خود کسی مرد کو معاذ اللہ بدکاری کی دعوت دے تو عادۃ اس کا امکان بہت کم ہوتا ہے کہ وہ مرد یوسف علیہ السلام کی طرح اپنا دامن بچاتے ہوئے بھاگ کھڑا ہو یوسف علیہ السلام کا اس موقع پر ایک عورت کے فتنے سے بچ نکلنا ایک بہت بڑا مجاہدہ تھا۔
اس کے برعکس کوئی مرد کسی عورت کو زنا کی دعوت دے اور عورت اپنا دامن بچا کر بھاگ کھڑی ہو تو عورت کے اس کارنامے کو کوئی شخص بھی کوئی عظیم کارنامہ نہیں کہتا ۔
معلوم ہوا جس معاشرے میں عورت کو شادی میں مشکلات ہوں وہاں زنا عام ہوجاتا ہے۔
۔(مولانا طارق مسعود )۔

Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Saturday, June 1, 2013

خاوند کا بلانا

Talq ibn Ali reported: The Messenger of Allah, peace and blessings be upon him, said, “If a man calls his wife to fulfill his needs, let her respond to him even if she is over the oven.
Source: Sunan At-Tirmidhi 1160
Grade: Hasan (fair) according to At-Tirmidhi
عَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا الرَّجُلُ دَعَا زَوْجَتَهُ لِحَاجَتِهِ فَلْتَأْتِهِ وَإِنْ كَانَتْ عَلَى التَّنُّورِ
1160 سنن الترمذي كِتَاب الرَّضَاعِ لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
 

Wednesday, May 29, 2013

خاوندوں کو تنگ کرنے والی


خاوندوں کو تنگ کرنے والی بہنیں حوروں کی بات سن لیں ذرا 

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب کوئی عورت دنیا میں اپنے خاوند کو تکلیف پہنچاتی ہے تو حور عین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے: "اللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کرے، اسے تکلیف نہ پہنچا یہ تو تمہارے پاس صرف ایک مہمان اور عنقریب یہ تمہیں چھوڑ کر ہمارے پاس آنے والا ہے۔''
(ترمذی۔ اور فرمایا یہ حدیث حسن ہے۔)

توثیق الحدیث: صحیح۔ أخرجہ الترمذی (1174)، و ابن ماجہ (2014)، و أحمد (2425)

جب مرد اپنی بیوی کو بلائے اور وہ نہ آئے

Abu Huraira reported: The Messenger of Allah, peace and blessings be upon him, said, “If a man calls his wife to his bed and she refuses him, causing him to be angry during the night, then the angels will curse her until the morning.”
Source: Sahih Bukhari 3065, Sahih Muslim 1736
Grade: Mutaffaqun Alayhi (authenticity agreed upon) according to Al-Bukhari and Imam Muslim
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ
3065 صحيح البخاري كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ رأيت الليلة رجلين أتياني قالا الذي يوقد النار
1736 صحيح مسلم كِتَاب النِّكَاحِ ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشها فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطا عليها حتى يرضى عنها
 

Thursday, May 9, 2013

طلاق بالکل آخری مرحلہ پرہے


بعض اوقات ایسی صورتیں بھی پیش آجاتی ہیں کہ اصلاح اعمال کی تمام کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں، کسی طریقہ سے اتفاق نہیں ہوتا، ازدواجی زندگی سے مطلوبہ ثمرات حاصل ہونے کے بجائے میاں بیوی کا آپس میں مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے، ایسے سنگین حالات میں دونوں کے اس ازدواجی تعلق کو ختم کردینا ہی طرفین کے لئے راحت اور سلامتی کا باعث ہوتاہے۔ ایسے آخری اور انتہائی حالات میں شریعت نے خاوندکو طلاق کا اختیار دیا ہے، اور یہ کہہ کر دیا ہے کہ اس اختیار کا استعمال کرنابہت ہی ناپسندیدہ، مبغوض اور مکروہ ہے، صرف مجبوری میں اس کی اجازت ہے اور ا س کا طریقہ بھی خود ہی بتلایا ہے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی تاکید کی ہے، جس میں بے شمار دینی اور دنیوی فوائد ہیں۔
طلا ق دینے کا احسن طریقہ
چنانچہ قرآن و سنت کے ارشادات اور صحابہ و تابعین کے عمل سے طلاق دینے کے طریقے کے متعلق جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب میاں بیوی میں کسی طرح صلح و صفائی او رمیل جول نہ ہوتا ہو اور طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا ہو تو طلاق دینے کا احسن (بہترین) طریقہ یہ ہے کہ جب بیوی ماہواری سے پاک ہو اور اس پاکی کے زمانہ میں خاوند نے بیوی سے صحبت بھی نہ کی ہو تو خاوند صاف الفاظ میں بیوی کو صرف ایک طلاق دے دی، مثلاًیوں کہہ دے کہ ”میں نے تجھے ایک طلاق دی۔“ اس کے بعد عدت گزرنے دے۔ عدت کے دوران رجوع کرے تو بہترہے، ورنہ ا س طرح عدت ختم ہونے کے ساتھ ہی نکاح کا رشتہ خودبخود ٹوٹ جائے گا، بیوی شوہر سے بالکل جدا ہوجائے گی اور آزاد ہوگی، اور اس کو اختیار ہوگا کہ جہاں چاہے نکاح کرے۔ فقہائے کرام نے اس طرح طلاق دینے کو طلاق احسن کہاہے اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اسی کو طلاق کا بہترین طریقہ قرار دیاہے۔ لہٰذا جب طلاق دینا بہت ہی ناگزیر ہو تو اسی طریقہ کے مطابق طلاق دینا چاہئے۔

Latest Results Election 2013 in pakistan


Friday, February 1, 2013

بیوی کے لئے قیمتی نصا ئح

#… تیری ناپسندیدہ حالت تیرے شوہر کو غمگین نہ کرے ،نیک بیوی وہی ہے جوشوہر کی نظر پڑے یااچانک سامنے آجائے تو تیرے چہرے پر مسکراہٹ کے آثار نمایاں ہوں۔
#… خاوند کی اطاعت و فرمانبرداری کرکے اس کو خوب راضی اور خوش کرو، جتنی تم اس کی اطا عت کر و گی اور اس کو خوش رکھو گی اسی قدر وہ آپ کی محبت کو محسو س کر ے گا اور آپ کو بھی خوش رکھنے کی کو شش کر ے گا ۔
# … آپ کے شو ہر سے لغزش ہو جا ئے تو منا سب مو قع اور مناسب طریقہ کو دیکھ کر اس کے ساتھ تبادلہ خیال کر و ۔
# … کشادہ دِل ہو جاؤ شوہر کی طرف سے ہو نے والی منفی با تیں فرامو ش کر دو۔
#… اپنی عقلمندی اور شو ہر کے ساتھ اپنی محبت و تعلق کے ذر یعہ اس کی غلطیوں کی اصلاح کر و ، شو ہر کے جذبا ت مجروح کر نے کی ہر گز کو شش نہ کرو۔
# … اپنے شوہر کے سا منے کسی اجنبی آدمی کی تعریف نہ کرو ، ہاں البتہ اگر کو ئی دینی صفت اس میں ہو تو کو ئی حر ج نہیں۔
# … شو ہر کے متعلق کسی کی بات کی تصدیق نہ کرو۔
# … شو ہر کے سا منے ہمیشہ وہی بات کرو ، جو اس کو پسند ہو اور وہی کام کر و جو اس کی نظر میں اچھا ہو ۔
#… اپنے خا وند کو یہ با ت سمجھا ؤ کہ جب بھی اس کی طرف سے شدت کا اظہار ہو وہ احترام کا دامن ہا تھ سے نہ جانے دے ، کیونکہ یہ شدت ، عارضی اور وقتی ہوتی ہے ۔
#… اپنے خا وند کو باور کر اؤ کہ جب اس (خاوند ) کے والدین یا اعزہ واقربا ء میں سے کوئی بیما ر ہو تو دونوں کو اس کی بیما ر پر سی کر نی چا ہیے ، نہ یہ کہ صرف خاوند ہی اس کی بیما ر پر سی کر ے ۔
#… جب مالی تنگی پیش آئے تو آزردہ خاطر نہ ہو ، اپنے شو ہر کو بتا ؤ کہ اس کو اللہ نے بہت سی خیریں عطا فرمائی ہیں ۔
# … کو شش کر و کہ جب وہ ہنسے تو تم بھی ہنسو اور جب وہ روئے یا غمگین ہو تو تم بھی غم و حزن کا اظہار کر و ۔
# … جب وہ بات کر ے تو پوری تو جہ سے سنو اور خاموش رہو۔
#… اس کے دِ ل میں نہ بٹھا وٴ کہ تم اس سے ہمیشہ فلا ں چیز ما نگتی ہو ، ہا ں اگر اس کے ذ کر کر نے سے وہ خو ش ہوتا ہوتو پھر کو ئی حر ج نہیں ہے ۔
#… ایسی غلطیاں بار بار کر نے سے پر ہیز کر و جس کے متعلق تم جا نتی ہو کہ تمہارا شو ہر ان کو پسند نہیں کر تا یا ان کو دیکھنا نہیں چا ہتا ۔
#… جب آپ کا شوہر گھر میں نفل نماز پڑھے تو تم بھی اس کے پیچھے کھڑی ہو جا یا کرو اور نماز پڑھا کرو اور جب کو ئی علم کی کتا ب پڑھے تو تمہیں بھی بیٹھ کر اس کو سننا چا ہیے ۔
#… شوہر کے سامنے اپنی ذاتی آرزوؤں کے با رے میں زیادہ با تیں نہ کیا کرو۔
#… ہر چھو ٹی بڑی بات میں خاوند کی رائے کو ترجیح دو ، آپ کی اس سے محبت ، اکثر مو قعوں پر اس چیز کو ظاہر کر تی ہو۔
#… شوہر جو راز بیا ن کر ے اس کی حفا ظت کر و، اس کا افشا ء نہ کرو، خواہ آپ کے ماں با پ کا کیوں نہ ہو ، کیونکہ اگر تم اس کے راز کو کھولو گی تو اس کے سینہ میں غصے کی آ گ بھڑک سکتی ہے اور کینہ و عداوت پیدا ہوسکتی ہے ۔
# … کسی پیرا یہ میں بھی اپنا تعلیم یا فتہ اور ڈگر ی ہو لڈر ہونا بیان نہ کر و ، کیونکہ یہ چیز نفرت کا سبب بنتی ہے ۔
# … اپنے شو ہر کے ساتھ نر م انداز میں پیش آؤ ، ورنہ گھر ، با زار والا نقشہ پیش کر ے گا ۔
# … جب گھر میں کشید گی یا نا چاکی پیدا ہو تو گھر چھو ڑ نے کا کبھی نہ کہو ، کیونکہ اس سے اس کے دِل میں آئے گا کہ تم اپنے آپ کو اس سے بے نیاز سمجھتی ہو ۔
# … جب خاوند گھر سے جانے لگے تو اس کے سامنے اپنی آزردگی اور بے چینی کا اظہا ر کرو۔
#… جب کہیں جا نے کا کوئی پروگرام ہواور وہ کسی وجہ سے کینسل کر ے تو اس کے عذر کو قبول کر و ۔
# … اس کے سامنے غیرت کا اظہا ر نہ کرو ، کیونکہ یہ تبا ہی لا نے والا ہتھیار ہے ۔
# … اپنے خاوند سے یوں بات نہ کر و کہ جس سے تم بے قصور معلوم ہو اور وہ قصور والے ۔
# … خاوند کے جذبات کا خیال رکھو، اس کے سامنے اپنے رشتہ داروں کے فضا ئل زیادہ ذکر نہ کرو ۔
#… اپنے خا وند سے جھو ٹ با لکل نہ بولو ، کیونکہ اس سے اس کو سخت تکلیف پہنچے گی ۔
#… اپنے کو یہ با ت ہمیشہ با ور کر اؤ کہ اگر وہ اس سے شادی نہ کر تا تو اسے نہیں معلوم کہ وہ کیا کر تی ؟
#…کبھی ایسی حالت اختیا نہ کرو جو تیرے شوہر کو اچھی نہ لگے بہترین عورت وہ ہے جس پر اُس کے خا وند کی نظر پڑے تو اس کی سعادت ، اچھی حالت اس کی آنکھوں کے سا منے نمایاں ہو۔
#… جب بھی تیری طرف خا وند نظر کر ے تو تیر ے ہو نٹوں پر مسکرا ہٹ نمایاں ہو ۔
#… اپنے شوہر کی نافرماں بردار ی سے اسے بہت زیادہ راضی کر تیری فرما نبرداری کے مطابق ہی تیرا شوہر تیری محبت کاا حسا س کرے گا اور تجھے راضی کر نے کی جلدی کوشش کریگا ۔
#… تیری جو غلطی تیرے شو ہر کے نو ٹس میں آ گئی ہو اس کے تکدر کو دور کر نے کے لیے منا سب وقت اور مناسب طر یقہ اختیا ر کر ۔
#…(بر داشت کے لئے) فراخ دل ہو ( شوہر کے سامنے ) اسکی ان غلطیوں کا زیاد ہ تذکر ہ نہ کر جو اس سے کسی غیر کی خا طر سر زد ہو گئی ہو ں ۔
#…اپنے شوہر کی محبت کی بنا ء پر ہر طرح کی ذہا نت اور عقلمند ی سے اسکی غلطیوں کا تدارک کر اور اس کے احساسات کو مجروح کر نے کی کو شش نہ کر ۔
#… اپنے خا وند کے خلاف غیروں کی با توں کو سچا نہ جان
#… ہمیشہ اپنے شو ہر کے سامنے ایسے کام کر جنہیں وہ پسند کر تا ہو۔اور ایسی با تیں کر جنہیں وہ ہمیشہ سننے کی رغبت رکھتا ہو ۔
#…اپنے شوہر کی طبیعت کو اچھی طر ح سمجھ لے تاکہ اس کے دل میں تیرا احترا م ہو ۔ کسی معاملے میں جب بھی کوئی سخت لہجہ اختیا ر کر تا ہے وہ وقتی ہو تا ہے ۔( یہ نہ سمجھ کہ اس کے دل میں تیرے خلاف کو ئی مستقل جذبہ ہے )
#…جب اس کے سا تھ با ت چیت کر ے تو اس کی کسی مالی تنگی پر کسی قسم کی تنگ دلی کا اظہار نہ کر اور اُس کی طرف سے جو تجھے بہت سی بھلائیاں حاصل ہو ئی ہیں ان کا اُس کے پا س ذکر کر ۔
#…جب بات کر ے تو پو ری طر ح خاموش رہ اور اس کی طرف کا ن دھر (پو ری توجہ دے )
#…بکثرت اُ سے یا د نہ دلا کہ تو نے اس سے ہمیشہ کو ئی طلب کی ہے ۔( مگر وہ حا صل نہیں ہو ئی ) البتہ اسے وہ چیز اُس وقت یا د دلا جب تو جان لے کہ وہ اس کے ذکر سے خوش ہو گا ۔
#…بار بار غلطیا ں کر نے اور ایسے مو قف میں واقع ہو نے سے اپنے آپ کو بچا جسے تیرا خا وند دیکھنا نہ چا ہتا ہو ۔
#…اپنے شو ہر کے سا منے اپنی ذا تی خوا ہشا ت کے با رے میں زیا دہ با تیں نہ کر ۔ بلکہ بکثرت اصرار کر کہ وہ تیرے سا منے اپنی ذاتی خو اہشات کا ذکر کر ے۔
#…ہر چھو ٹے بڑے معا ملے میں اس کی را ئے پر اپنی ر ائے کو مقدم نہ کر بلکہ بعض مواقع میں تو اُسی کی رائے کو اُس سے محبت کی بنا ء پر پیش کر نے میں پہل کر ے ۔
#…اس کی اجا زت کے بغیر کو ئی نفلی روزہ نہ رکھ اور اُس کے علم کے بغیر اُس کے گھر سے با ہر نہ نکل ۔
#…جو راز کی با ت وہ تیر ے سامنے بیان کر ے اسے یا د رکھ اس کی حفا ظت کر اور اسے اپنی ماں اور باپ کے پاس بھی ظا ہر نہ کر اس لئے کہ یہ بات اُس کے سینے کو غصے
سے تیرے خلاف بھڑکا دیگی ۔
#… اس انداز کے ساتھ اپنے شوہر سے بات نہ کر گویا تو معصوم ہے اور وہ گنہگار آدمی ہے۔
#… اپنی اولاد کو بات کرنے میں سچائی اور عمل میں اخلاص کا عادی بنا۔
# … تو اکیلی کھانا نہ کھا۔بلکہ ہمیشہ اپنی اولاد کے درمیان بیٹھ کر کھاناکھا۔
# … اپنی اولاد کو صفائی پسند کرنے کا عادی بنا۔ اور انہیں یاد دلا کہ صفائی کے ساتھ ہی وہ ایمان کی صفت سے متصف ہوں گے۔
#… اپنی اولاد کے سامنے گالی گلوچ
لعن طعن یا حقارت آمیز کلمات نہ بول اس لئے کہ وہ تیرے تمام الفاظ اپنے ذھن میں جمع کر لیں گے یاد کر لیں گے۔
#… ایسی باتوں سے پرہیز کر جس کے بعد اس کی معذرت پیش کرنی پڑے اور انتہائی طور پر فضول اور بکثرت باتوں سے دور رہ ۔ اپنے پروردگار کے اس ارشاد کو یاد رکھ؛
﴿لاخیر فی کثیرمن نجو ھم الا من امر بصد قةاو معروف اواصلاح بین النا س﴾(النساء
۱۱۳)
ان کی اکثر سر گو شیو ں میں کوئی بھلائی نہیں ہے البتہ جس شخص نے صدقے ،کسی نیکی یا لو گو ں کے درمیا ن اصلاح کا حکم دیا ۔(اس میں بھلائی ہے )
#…ہر سنی سنا ئی بات کو (بلا تحقیق )بیان کر دینا پر ہیز گا رموٴ من عو رتوں کی عا دت نہیں ہے ۔اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا ہے :
آد می کے گناہ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنا ئی کو بیا ن کرتا پھر ے“۔
(مسلم۔ مقدمہ وابو داود حدیث نمبر
۹۹۲ ۴ )
#…اس بات کی حرص کر کہ تیرے منہ سے اچھے کلمات ہی نکلیں۔ اس لئے کہ جو تو کہنا چا ہتی ہے اس کا وزن کیا جائیگا ۔اسکی قدروقیمت متعین ہو گی۔
# … اپنی ذمہ داریو ں سے غافل جاہل عورتوں کی صحبت اختیارنہ کر ۔
#… موٴمن عورت اپنی بہنوں کے عذر قبول کر تی ہے ۔اور منا فق عورت اپنی بہنوں کی لغزشیں تلا ش کر تی ہے۔
#… ایسی عورت کی صحبت اختیار کر جس سے تو اپنے معاملے میں سلا متی پاتی ہے اسکی صحبت تجھے نیکی پر ابھا ر یگی۔ اور اس کا دید ار تجھے اللہ تعالیٰ کی یاد دلائیگا۔
# … جو عورت تجھ سے بات کر رہی ہو اُسے پور ے شوق کے ساتھ غور سے سن ۔ جب تو اس سے بات کر ے تو اس سے اپنی نظر نہ پھیر ۔ کسی سبب سے با ت بھی کر نے والی کی با ت کو قطع نہ کر ۔ اگر تو کسی معا ملے میں قطع کلا می پر مجبو ر ہو تو با ت کر نے والی کو نر می اور سکو ن کے سا تھ آگاہ کر دے۔
#… جھو ٹ ، غیبت ،چغل خور ی ، مز اح اور مسلمان عورتوں کے سا تھ ٹھٹھے مخول سے بچ ۔
# … بر ی با ت اور بے حیا ئی کی بات سے پر ہیز کر ۔
# … اپنے عمل اور اپنے نفس کے ساتھ تکبر اور گھمنڈاختیا ر نہ کر ۔
#… مسلمان عورتوں کے چھو ٹے بچوں کو اپنی اولاد سمجھ ۔ درمیا نی عمر کی بچیوں کو اپنی بہنیں اور بڑی عمر والی عورتوں کو اپنی مائیں سمجھ ۔ اپنی اولاد پر رحم کر نا تجھ پر لازم ہے ۔ اپنی بہنوں سے صلہ رحمی کر اور اپنی ماؤں کے سا تھ احسا ن کر ۔
# … اپنی اولاد کو جنت کی تر غیب دے ۔ بیشک جنت میں وہی داخل ہو گا جس نے نماز اور رو زے ادا کئے اپنے ماں با پ کی فرما ں بر داری کی جھو ٹ نہ بولا اور کسی پر حسدنہ کیا ۔
# … اپنی بیٹیوں کو بچپن ہی سے پرد ے اور شرم و حیا کی رغبت دلا ۔ انہیں چھو ٹے تنگ کپڑے اور اکیلی پینٹ یا شرٹ ( قمیص ) پہننے کی عا دی نہ بنا تا کہ وہ بچپن ہی میں دوسرے بچوں کی نسبت اپنی خصو صیت کو پہچان لیں ۔
# … سا ت سال کی عمر میں ہی اپنی بیٹیوں کو اوڑھنی پہننے کی عادی بنا ۔
#… اپنی اولاد میں سے جس کو تو دیکھے کہ با ئیں ہا تھ سے کھا تا یا پیتا ہے اُسے اس سے روک دے ۔(اور دا ئیں ہا تھ سے کھا نے پینے کی تعلیم دے )
#… اپنی اولاد کوناخن ترا شنے اور کھا نے سے پہلے اور بعد میں دونوں ہا تھوں کے دھو نے کی نصیحت کر نا نہ بھول۔
# … موٴ من عورت با تیں کم اور عمل زیادہ کر تی ہے ۔ منا فق عورت با تیں زیادہ عمل کم کر تی ہے ۔
# … چا ہئے کہ تو تین طر یقوں سے اللہ تعالیٰ سے شرم و حیا کا حق ادا کر ے ۔ اللہ تعالی کے احکا م پر عمل کر تے ہوئے ، ا س کی ڈانٹ سے اپنے آپ کو بچا تے ہو ئے ، لوگوں سے ان کی تکلیف دور کر تے ہو ئے ، اپنے نفس کی پا کدامنی اور اپنی تنہا ئی میں حفاظت کر تے ہو ئے ۔
#… دوسری عورتوں کے نزدیک قدروقیمت میں زیادہ کم وہ عورت ہے جو علم دین میں ان سب سے کم ہو ۔
#… تین خصلتوں کے بعد شر مندگی لا حق نہیں ہو تی ۔ دیانت داری ، پاکدامنی اور کام کر نے سے پہلے سوچ بچا ر۔
#… عو رت کی قدرو قیمت اس کی جسمانی خو بیوں میں نہیں ہے ۔ بلکہ اس کی قدرو قیمت دینی خو بیوں میں ہے ۔
# … کسی بَد عادت عورت کے ساتھ بیٹھے سے تیرا تنہا بیٹھے رہنا بہتر ہے۔
#…سچی بات کرنا، لوگوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آنا، صلہ رحمی،امانت کی حفاظت، ہمسائی کے حق کی حفاظت، سوال کرنے والی کو عطا کرنا، احسان کرنے والی کو بدلہ دینا ، ملاقات کے لئے آ نے والی کی عزت کرنا، احسان کرنے والی کو بدلہ دینا، ملاقات کے لئے آنے والی کی عزت کرنا، عہد پورا کرنا اور شرم و حیا یہ سب عمدہ اور کریمانہ اخلاق و عادات ہیں۔
# …مسلمان عورت اپنے ماں باپ کی اطاعت اور اپنی بہنوں کی مدد کرتی ہے۔
# …مسلمان عورت سچ بولتی ہے جھوٹ نہیں بولتی۔
#… مسلمان عورت اپنی بیمار بہن کی زیارت کرتی ہے اور اپنی محتاج بہن پر سخاوت کرتی ہے۔
بہت قیمتی نصیحتیں
#… اگر تو خشوع کی توفیق چا ہتی ہے تو فضو ل نظر با زی سے دور رہ ۔
#…ا گر تو دانائی کی تو فیق کو پسند کر تی ہے تو فضول با توں کو چھو ڑدے۔
#… اگر تو اپنے عیبوں سے باخبر ہو نے کی تو فیق چا ہتی ہے تو دوسرے کے عیبو ں کی ٹوہ لگا نا چھو ڑ دے ۔
#… جو تجھ پر زیا دتی کر ے اس پر بردبار ہو جا ۔
# … بہت سخی عورت وہ ہے جو کسی کو مال عطا کر کے صرف اللہ ہی سے اس کی جزا ء چاہتی ہے ۔
#… بد کر دار عو رتو ں کی ساتھی نہ بن ،وہ تجھے کھا نے کے ایک لقمے یا اس سے بھی کم قیمت پر بیچ دے گی ۔
#… بخیل عورت کے ساتھ نہ بیٹھ جس ما ل کی تو محتاج ہے وہ اسے اپنے مال میں ملا لے گی ( تجھے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر نے سے رو ک دے گی )
# … جھو ٹی عو رت کی محبت میں نہ رہ وہ فر یب نظر کے در جہ میں ہے ۔وہ قریب کو تجھ سے دور کر دیگی اور بعید کو تجھ سے قریب کر دیگی ۔
#… احمق عورت کے پا س نہ بیٹھ اس لئے کہ وہ تجھے فائدہ پہنچانے کے ارادے کے باوجود نقصان پہنچادیگی ۔
#… احسان جتلا نے والی کی سا تھی نہ بن کہ وہ ہمیشہ اپنی مالی بر تر ی سے تجھے تنگ کرے گی ۔
# … کسی مکا ر عورت کے ساتھ نہ بیٹھ اس لئے کہ اُس کے پیش نظر اپنا ہی نفع ہوتا ہے ۔
#… کسی بد دیانت عورت کی سا تھی نہ بن کہ جس طرح اُس نے تیرے غیر کے سا تھ خیا نت کی ہے اسی طر ح تیرے سا تھ بھی خیا نت کرے گی۔
# … دورخے پن اور دو زبا ن والی عورت کی سا تھی نہ بن ۔
# … ایسی عورت سے بھی صحبت نہ رکھ جو تیرے راز کو نہ چھپا ئے ۔
#… مصیبت زدہ مسلما ن عورتوں سے ان کی تکلیف کو دور کر نا ۔
# … محتاج مسلمان عورتوں کے قرض ادا کر نا ۔
# … کھانا کھلا نا اور بھو کی عورتوں سے ان کی بھو ک دور کر نا ۔
#… اپنی ایما ندار بہنوں کی حا جتیں پو ری کر نے میں جلد ی کر نا ۔
# … راستوں سے تکلیف دہ چیز کے ہٹا نے میں سستی نہ کر ۔
# … علم حا صل کر اور دوسری مسلمان عورتوں کو تعلیم دے ۔
# … تجھ پر بھلا ئی کا حکم دینا اور برا ئی سے روکنا لا زم ہے ۔
#… سنتیں اور نو افل ادا کر نے پر ہمیشگی اختیا ر کر ۔
# … اپنے رشتہ دا روں سے ملا قات تجھ پر وا جب ہے اگر چہ وہ تجھ سے قطع تعلق کریں ۔
#… اپنے فو ت شدہ افرادا ہل خانہ کو اپنی دعا میں یاد رکھ۔
# … دو سروں کے سا تھ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کر ۔
# … جو تجھ پر ذمہ داریاں ہیں انہیں پوری دیا نت داری اور عمدگی سے ادا کر ۔
# … اپنی مسلمان بہن کے سا منے مسکرا کہ یہ صدقہ ہے۔
#… دنیا دار عو رتوں سے میل جو ل نہ رکھ ۔
#… اپنے رب کے عذاب و سزا سے ڈرنا تیری عادت ہونی چا ہےئے ۔
# … اپنے ماں باپ کے احسان کر نے والی بن ۔
#… دنیا میں عورت کی بد بختی کی چار علا متیں ہیں :
دل کی سختی ، آنسو ؤ ں کا خشک ہو جا نا ،(یعنی خوف الہیٰ سے آنکھو ں میں آنسو نہ آنا) لمبی آرزو اور دنیا کی حرص ۔
#… جان لے کہ ہر چیز میں سو چ بچار کے لئے ٹھہر اؤ بہتر ہے مگر آخرت کے معاملے میں تاخیر بہتر نہیں ہے (کہ ابھی وقت ہے پھر یہ عمل کر لو نگی)
# … یاد رکھ کہ بچے ،بو ڑھے ،بیو گان اور مسا کین صدقات کے سب لوگو ں سے زیادہ حق دار ہیں ۔
# … ہر عمل کو ختم کر نے پر اپنے رب سے دعا کر کہ وہ تیرا عمل قبول کر لے ۔
﴿ والحمد للہ رب العالمین ﴾ 

Friday, January 25, 2013

خا وند کے سامنے ہر وقت تر و تازہ رہنے کی نصیحت

عورتو ں کے اند ر ایک عادت یہ دیکھی گئی کہ گھر کے اندر میلی کچیلی بن کر رہیں گی اور با ہر دیکھو توبن سنورکے نظر آئیں گی ۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے ۔ دنیا نے آپ کو محبتیں نہیں دینی خاوند نے محبت دینی ہے ۔ اس لئے عورت کی ذمہ داریوں میں سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ مر د کی عمرجو انی کی ہو یا بڑھا پے کی عورت ہمیشہ گھر کے اندر صاف ستھری رہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر وقت دلہن ہی بن کر رہے ۔ مگر صاف ستھرا رہنا تو ایک اچھی عادت ہے۔ میلا کچیلا بندہ تو کسی کو بھی اچھا نہیں لگتا ۔ تو صاف ستھری بن کر رہے اور خوش اخلاق خوش مزاج بن کر رہے ۔
مرد کی پٹڑی کیوں بدل جا تی ہے ؟
اب یہی وہ نکتہ ہے جہاں پہ آکر مرد کی پٹڑی بدل جا تی ہے کہ مرد چو نکہ خود پریشان ہوتا ہے اپنے کام اور کاروبا ر کی وجہ سے گھر میں جب آتا ہے تو اس کو بیوی با سی اور میلے منہ کے ساتھ بیٹھی نظر آتی ہے ۔ اب اس کا دیکھنے کو دل نہیں کر تا ۔ وہی مرد جب دفتر میں جا تا ہے تو اس کو کام کرنے والی لڑکی نہا ئی دھو ئی اچھے کپڑے پہنی مسکرا تی نظر آتی ہے ۔ اب اس کا رنگ گو را ہے یا کالا ہے ۔ وہ جیسی کیسی ہے اب اس کے خاوند کو وہ اچھی لگنے لگ جا تی ہے ۔ اور اگر گھر میں بیوی جھگڑے والی ہے اور وہ پریشان حال ہو کر گھر سے نکلا اور دفتر میں کسی ایسی بد کردار لڑکی نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھ لیا ۔ اور پو چھ لیا سر آج آپ بڑے پریشان نظر آتے ہیں ۔ تو بس سمجھ لو مرد کی پٹڑی بدل گئی ۔ اس بدکردار لڑکی کا ایک فقرہ دوسری عورت کی سار ی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ ہمیشہ عورت کے حق پر عورت ہی ڈا کہ ڈا لتی ہے ۔مگر اس ڈاکے میں عورت کا اپنا بھی قصور ہے ۔ اس کو چا ہیے تھا کہ گھر میں خا وند کو سکو ن دیتی ،خو شیا ں دیتی ،صاف نظر آتی ، اس کے اندر دل کشی ہو تی ۔جب اس نے خود ہی اسی چیزکو نظر انداز کر دیا تو گویا اس نے خاوند کو مو قع دیا کہ یہ دو سری لڑکی کی طرف متوجہ ہو جائے۔ایسی عو رتیں میلی کچیلی رہتی ہے وہ بیچاری شا دی شدہ بیوہ ہو تی ہے ۔ خاوند ان کی طر ف دھیان ہی نہیں کر تے ۔
جو سمجھ دار عورت ہو تی ہے وہ سمجھتی ہے کہ میری ذمہ دا ریوں میں سے جیسے یہ ہے کہ میں نماز ادا کروں ، میرا ما لک حقیقی خو ش ہو گا ایسے ہی میرے فر ائض میں سے ایک فر ض ہے کہ میں صاف ستھر ی رہوں کہ میرا خاوند مجھ سے خوش ہو ۔ اب دیکھو بندہ صاف ستھرا بھی ہے اور اچھا بھی رہے اور اوپر سے خا وند بھی خو ش ہو اس کوکہتے ہیں ۔ نور علیٰ نور۔ تو اگر آ پ کے صاف ستھرا رہنے سے مرد آپ کی طر ف متوجہ ہو تا ہے تو اور آپ کو کیا چا ہیے ۔ اس لئے جو عورت صاف ستھری رہتی ہے ، خوش مز اج رہتی ہے اور کھلے چہر ے کے ساتھ خا وند کا استقبال کرتی ہے ۔ وہ ہمیشہ کے لئے خا وند کی آنکھ کی پتلی بن جا تی ہے ۔ کچھ عقل بھی استعمال کر نی چا ہیے ۔
بر مو قع اور بر محل با ت شو ہر کے دل کو متا ثر کر تی ہے
عقل مند بیو یاں ہمیشہ اپنے خاوند وں کے دلوں کو جیتتی ہیں ۔ با ت اتنے اچھے انداز سے ، بر مو قع اور بر محل کر تی ہیں کہ خاوند کے دل میں اتر جا تی ہیں ۔ اس لئے ایک شا عر نے عر بی کے شعر میں کہا جس کا تر جمہ کچھ یو ں بنتا ہے ۔
سلمٰی کی با تیں ٹوٹے ہو ئے ہا ر کے موتیوں کی طرح ہو تی ہیں
تو اس کا مطلب یہ ہے اس کو اپنی محبوبہ کی با تیں ایسی لگتی ہیں جیسے ٹو ٹے ہو ئے ہا ر کے جو مو تی ہیں جو جھڑ رہے ہیں ۔ لہٰذا بیوی کی خو بصورت انداز میں کی ہو ئی بات مرد کو متاثر کرتی ہے ۔
ہا رون الرشید ایک مر تبہ کھا نا کھا کر فا رغ ہو ا ۔ اس کا خیال بنا کہ کھا نا کھا یا ہے ذرا با ہر نکلتے ہیں ۔ تو اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ چلو چا ند نی رات ہے ذرا با ہر چل کر چہل قدمی کر لیتے ہیں ۔ بیوی کہنے لگی کی امیر المو منین ! آپ دو سوکنیں جمع کر کے کیو ں خوش ہو ں گے ۔ کہنے لگا ، کیا مطلب ؟ کہنے لگی ایک طرف میرا چہرا ہو گا ایک طرف چا ند ہو گا ۔ دو سو کنوں کو آپ کیسے جمع کر یں گے ۔ تو با ت سن کے ہا رون الرشید خوش ہوگیا ۔اس طر ح بیوی ایسی عقل مندی کی با تیں کر سکتی ہے کہ جس سے خا وند کے دل میں اس کی اور زیادہ محبت پیدا ہو جائے ۔
ایک مر تبہ ہارون الرشید نے بیوی کو بتا یا کہ دیکھو سو رج گرہن لگ گیا ۔ وہ … دیکھو ۔ دیکھ کر کہنے لگی کہ حقیقت یہ ہے کہ جب سورج نے میر احسن دیکھا تو آگ بگو لہ تھا اور آگ بگولہ ہو کر اس نے پردہ کر لیا اس لئے آج اس کو گہن نظر آ رہا ہے ۔ اب ہیں تو یہ الفاط ہی مگر الفاظ ہی تو دوسرے کے دل کو خوش کر دیتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ زیب النسا ء مخفی جو بڑی شا عرہ بھی تھی اور وقت کی شہزادی بھی تھی ۔ ایک مر تبہ با غ کے اند ر چہل قد می کر رہی تھی تو اس کا منگیتر عا قل خان وہ بھی کہیں سے اس طرف کو آنکلا ۔ اس نے کیا کیا کہ چند پھو ل تو ڑے اور ان کا گلدستہ بنا کر اس نے زیب النسا ء کو تحفہ پیش کیا ۔ اب یہ شا عر ہ تھی تو جب اس نے یہ گلدستہ لیا تو شعر کہنے لگی ۔
# بگواے عا شق صادق چرا گلدستہ آ وردی
دل بلبل شکستہ زہر ما گلد ستہ آ وردی
بتا ؤ عا شق صادق ! تم نے مجھے جو گلدستہ پیش کیا تو تم نے میرا دل خوش کیا ۔ لیکن بلبل کے دل کو تو تم نے توڑ دیا
کہ پھو ل تو ڑنے سے بلبل کا دل افسردہ ہو تا ہے ۔ تو کیسا اس نے اچھو تا انداز اپنا کر بات کہی کہ اے عاشق !تو نے مجھے گلدستہ پیش کیا میرا دل خوش کر نے کے لیے مگر تو نے بلبل کا دل تو توڑ دیا ۔ تو عا قل خان آگے سے کہنے لگا ۔
# بر ائے زینت دستک نہ ایں گلد ستہ آوردم
بخو بی با تو می زد گل پیشک بستہ آو ردم
کہ اے نا زنین ! میں نے آپ کے ہا تھو ں کی زیب و زینت کے لئے گلد ستہ پیش نہیں کیا بلکہ آپ کی مو جو د گی میں یہ پھو ل اپنے حسن و جمال کا دعویٰ کر رہے تھے ۔ لہٰذا میں نے ان قیدیوں کو جگڑ کر آپ کی خد مت میں پیش کر دیا
اب دیکھو ہے تو با ت ہی لیکن اس با ت سے اس کا دل کتنا خو ش ہو ا ہو گا ۔ تو عورت کو چا ہیے کہ کچھ عقل سمجھ سے کا م لے ۔ پر وردگا ر نے اسی لئے تو عقل دی ہو تی ہے ۔ عقل سے فا رغ ہو کر سو چنا کہ خا وند خود ہی مانے یا خا وند کو کوئی مجھ سے منا دے ۔ یہ کیا بات ہو ئی۔
ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا اکٹھے بیٹھے ہو ئے تھے ۔ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مذاقاً یہ شعر پڑھا ۔
# ان النسآ ء شیا طین خلقن لنا
نعو ذ باللہ من شر الشیاطین
بے شک عورتیں گو یا شیطا ن کی طر ح ہیں جو ہما رے لئے پیدا کی گئی ہیں ۔ ہم شیطا ن کے شر سے اللہ کی پنا ہ چا ہتے ہیں
حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ شعر سنا تو انہوں نے بھی آگے سے یہ خوش کن جواب شعر کی صورت میں دیا ۔
# ان النسآ ء ریا حین خلقن لکم
وکلکم یشمی شید الر یا حین
بے شک عورتیں تو مہکتے ہو ئے پھو ل کی طرح ہیں جو تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں ۔ اور تم میں سے ہر ایک پھو لوں کی خو شبوں کو سو نگنے کا متمنی ہوتا ہے
تو دیکھیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کس طر ح ان سے خوش طبعی فرمائی اور حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہا نے کتنا خو بصورت جو اب دیا۔
اس لئے با ت کر نے کا انداز بھی کوئی ہونا چا ہیے ۔ اے حسین عورت ! اگر اللہ تعالیٰ نے تجھے حسن عطا کیا ہے تو بدکلا می سے اپنے چہرے کو نہ بگا ڑا کر ۔ اور اے بد صورت عورت ! اگر اللہ نے تجھے حسن سے محروم کیا ہے تو بد کلا می کے ذر یعے اپنے اندر دو سرا عیب نہ پیدا کر ۔