آج نکاح میں دو چیزیں سب سے زیادہ رکاوٹ بنتی ہیں:
۱۔ دین کی خدمت کا جذبہ اور ان میں ہمہ تن مشغولیت
۲۔غربت
مشاہدہ ہے کہ بہت سے اہل علم حضرات اس خوف سے جلد نکاح یا متعدد نکاح نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ ان سے جو کچھ دین کی خدمات لے رہے ہیں تو اہل وعیال کی کثرت ان کےمعاش کی فکر اور سوکنوں کے جھگڑے نمٹانے کے چکر میں ان خدمات میں کمی واقع نہ ہو جائے نیز سابقہ دور جہاد میں کئی ایسے مجاہدین کے حالالت سننے اور دیکھنے میں آئے جو رشتہ ملنے کے باوجود یہ سوچ کر ایک شادی بھی نہیں کرتے تھے کہ جہاد میں مصروفیت کے باعث کسی بھی وقت شہادت سے سرفراز ہو سکتے ہیں، تو ان حالات میں بیوی بچوں کا بوجھ پالنا بلا وجہ کی مصیبت سرمول لینے کے مترادف ہے، لہٰذا ہلکے پھلکے رہ کر اور بیوی بچوں کی فکر سے آزاد ہو کر مصروف جہاد رہنا چاہئے، بیویاں تو خود سے حوروں کی شکل میں شہادت کے بعد مل جائیں گی، بلا شبہ ان کا یہ جذبہ(صرف جذبے کی حد تک) قابل تحسین ہے۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔
صحابہ کرام میں نکاح سے روکنے والی یہ دونوں رکاوٹیں یعنی دین کی (خدمات کا جذبہ، ان میں عملی مشغولیت اور غربت) بطریق اتم موجود تھیں، دین کی خدمات متعدیہ میں سے مشکل اور افضل ترین اور دنیا کی تمامتر مرغوبات سے سب سے زیادہ غافل کردینے والی خدمت جہاد ہے، صحابہ اس وقت ان خدمات اور جہاد میں مشغول تھے جب اسلام کو جہاد اور دوسری خدمات کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اور پھر جہادی مصروفیت بھی ایسی کہ روم اور فارس اور ان جیسی نہ معلوم مزید کیسی بڑی بڑی سلطنتیں کہ جنہوں نے مٹھی بھر مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ ان سے ٹکراو تھا دوسری طرف علمی میدان میں دشمنان اسلام کی سازشیں چاروں طرف سے بھرپور طریقے سے امڈ کر اسلام اور اسلام کے بنیادی عقائد سے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرکے پورے اسلام ہی کی مشکوک بانے اور اسے صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی تھی۔
مگر جہادی اور علمی میدان کی یہ تمامتر قربانیاں اور دنیا سے غایت درجہ کی بے رغبتی صحابہ کرام کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نکاح کی کثرت والی سنت سے بہر حال باز نہ رکھ سکتی اور بھلا باز رکھتی بھی کیسے۔۔۔؟؟ صحابہ تو دیکھ چکے تھے کہ ان سے زیادہ غریب اور مسکین تو ان کے محبوب ترین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تھے،غربت کے باعث گھر میں چالیس چالیس دن چولھا جلنے کی نوبت نہ آتی، مگر اس کے باوجود بیویوں کے بارے میں نہ صرف یہ کہ قناعت نہیں کی بلکہ اتزوج النسا کہہ کر اس کی قولی وعملی ترغیب بھی دے ڈالی، بلکہ جب غربت کے بناعث امہات المومنین نے مال غنیمت کا سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےرب کی طرف سے یہ حکم سنایا کہ میرے ساتھ اگر اسی حال میں رہنا ہے تو رہو ۔