Tuesday, August 28, 2012

ولادت کے بعد عقیقہ


ولادت کے بعد عقیقہ
جب بچے کی ولا دت ہو سا تویں دن عقیقہ کرنا سنت ہے بیٹے کے لئے دو بکرے اور بیٹی کے لیے ایک بکر ا یہ خوشی کا اظہا ر ہے ۔ خود بھی اس کو کھا ئیں رشتے داروں کوبھی کھلائیں ۔ غرباء کوبھی دیں اس کے لیے ہر طر ح کی اجازت ہو تی ہے ۔ جب بچے کی پیدائش ہو جائے تو ماں باپ نے گھر کے کام کاج بھی کر نے ہو تے ہیں ، عبادت بھی کرنی ہو تی ہے تو جب بھی ماں عبا دت ، تلاوت کے لیے بیٹھے تو اپنے بچے کو اپنی گود میں لے کر بیٹھے اور پھر اللہ رب العزت کا قر آن پڑھنے کی بر کتیں آپ کے بچے کے اند ر اس وقت اتر جائیں گی ۔
بچوں کی حفا ظت کے لئے انمول و ظیفہ
جب بچے سو رہے ہو ں تو ان پر حصار حفا ظت کا ضرور بنا لیا کر یں ۔ ہما رے مشا ئخ نے ایک حفا ظت کا حصار بتا یا اور اسکی اتنی بر کتیں ہیں کہ انہوں نے فرما یا کہ مو ت کے سوا کو ئی مصیبت نہیں آسکتی۔ وہ حصار یہ ہے کہ پہلے درود شریف پڑھ لیا کریں پھر الحمد للہ شریف پو ری سورة پڑھ لیا کر یں پھر آیة الکر سی پڑھیں اور چاروں قل پڑھیں آ خر میں درود شریف پڑھ لیں یعنی اول و آخر درود شریف پڑھنا درمیان میں سورة فا تحہ آیةالکرسی اور چاروں قل پڑھنا اور یہ سب کچھ پڑھ کر اپنے گرد بچوں کے، گر د ، گھر کے گرد ، جہا ں بز نس، دکان دفتر وغیرہ ہو ان سب کا تصور کر کے انکے گرد اپنے تصور میں ایک دائرہ بنا دیں جس جس چیز کے گر د آپ دائرہ بنا دیں گی وہ سب چیز یں اللہ رب العزت کی حفا ظت میں آجا ئیں گی ۔ یہ حصار جس دن میں اور جس رات میں آپ بچوں کے گرد بنائیں گی آپ کے بچے فتنوں سے ، آفتوں سے ، مصیبتوں سے محفوظ رہیں گے اور جس دن کو ئی مصیبت آنی ہو گی آپ دیکھنا کہ آپ اس عمل کو بھول بیٹھیں گی ۔تب کوئی مصیبت آئے گی ورنہ تو اللہ رب العزت کی حفا ظت میں رہیں گے۔
بچے کو سکون کی نیند دلا نے کی دعا
جب بچے رات کو سونے لگیں کئی مر تبہ بچے رات کو جلد ی نہیں سو تے رو تے ہیں ۔ نیند نہیں آتی وجہ یہ ہے کہ بیچا رے بول بھی نہیں سکتے ، جسم کی تکلیف بتا بھی نہیں سکتے ماں خود انداز ہ لگا ئے ۔ تب اسے پتہ چلے گا کہ فلا ں وجہ سے رو رہا ہے ورنہ نہیں ۔ اب ماں خود بخود اس پر غصے ہو تی ہے ۔ روتا ہے سو نہیں رہا ایسے وقت میں تحمل سے کام لیجئے ایک دعا بز رگوں نے بتا ئی ہے ۔ ﴿ الھم غارت النجوم و ھدأت العیون انت حی قیو م لا تا خذک سنة ولا نوم یا حی یا قیوم اھدلیلی وانم عینی ﴾ جب یہ دعا پڑھ کر آپ بچے پر دم کر دیں گی اللہ رب العزت بچے کو سکون کی نیند عطا فرما دیں گے ۔ اگر بچی ہے تو ﴿ لیلتھا و انم عینھا ﴾ کے الفاظ یعنی صیغہ استعمال کر لیں ۔ یعنی جو موٴنث تا نیث کے لئے ہوتا ہے تو اس طرح اس دعا کو پڑ ھ لینے سے اور دم کر دینے سے بچوں کو نیند جلد ی آ جا تی ہے ۔


Enter your email addressاپنا ای میل لکھیں اور بذریعہ ای میل نیا مضمون حاصل کریں۔:


Delivered by FeedBurner

Wednesday, August 22, 2012

طلاق کی دھمکی نہ دیں(شوہر)۔

طلاق کی دھمکی نہ دینے کی نصیحت
﴿الذی بیدہ عقدة النکا ح﴾ ( البقرہ ۲۳۷)
وہ (مرد) جس کے ہا تھ میں نکا ح کی گرہ ہے
قانو نی طور پر مرد کو طلاق دینے اور نکاح کی گرہ کھولنے کا کا مل اختیا ر ہے ۔ تجدید اگر ہے تو وہ اخلا قی ہے ۔ اگر وہ کسی حقیقی سبب کے بغیر ایسا کر تا ہے تو بہت بڑا ظلم کر تا ہے جس کی اسے اللہ کے ہاں جو اب دہی کرنا ہو گی ۔
ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
﴿ابغض الحلال الی اللہ الطلاق ﴾ ( رواہ ابوداؤد ، کتا ب النکاح )
اللہ کے نزدیک حلا ل چیزوں میں سب سے بر ی چیز طلا ق ہے
لفظ طلاق ایک اصطلا ح ہے جس سے شوہروں کو بچنا چا ہئے ۔ اسے ہلکے پھلکے انداز میں نہیں لینا چا ہئے ۔ آج کل بہت سے خاوند کم علمی عقلی اور غصہ میں اپنی بیویوں کو طلا ق دے دیتے ہیں ۔ کچھ شوہر اپنی بیویوں کے سا تھ گرم سرد بحث میں اور غصہ سے بے قابو ہو کر یہ فعل کر گزرتے ہیں ۔ غصہ میں اندھے ہو کر ایک سا تھ تین طلاق دے دیتے ہیں ۔ شادی کی عمارت اسی وقت ڈھیر ہو جا تی ہے اور ان کے درمیان زن و شو کا رشتہ ختم ۔ جب غصہ ذرا ٹھنڈا پڑ تا ہے تو وہ اپنی اس حر کت پر پشیمان ہو تے ہیں۔
ہا ئے اس زود پشیمان کا پشیمان ہو نا
اب آنسو بہا نے سے فا ئدہ ! نا قا بل تلا فی نقصا ن تو ہو چکا ۔ اب کوئی راستہ با قی نہیں رہا جس سے تین طلاق دینے کے بعد میاں بیوی دوبارہ اکھٹے ہو سکیں ۔ جس شخص نے بھی غصہ کی حالت میں طلاق دی بعد میں ضرور پچھتا یا اور اب پچھتا ئے کیا ہوت جب چڑیا ں چگ گئیں کھیت۔
پچھتا نے پر ہی کیا موقوف ، پڑا روتا رہے ، ٹسوئے بہا تا رہے ، کسی کا اس میں کیا دوش ، اس نے تو خود ہی تلا فی کے سارے راستے مسدود کر دیئے ۔ محبت کر نے والی بیوی گئی ،بچے اس گھر سے محروم ہو گئے جس میں انہیں حفا ظت اور رہنما ئی ملتی تھی ، جہا ں ماں کی محبت تھی اور با پ کی شفقت ۔ آناً فا ناً سب ختم ہو گیا ۔
ایک سا تھ تین طلاق دینے سے مو ثر تو ہو جا تی ہے لیکن یہ طر یقہ بہت نا معقول ہے اور بہت بڑا گناہ ۔ نسا ئی شریف میں درج ذیل حدیث اس بر ائی کی طرف اشارہ کرتی ہے :
﴿عن رجل طلق امرا تہ ثلث تطلیقات جمیعاً مقام غضبان ثم قال: ایلعب بکتاب اللہ عزوجل وانا بین اظھر کم ؟ حتی قام رجل فقال یا رسول اللہ ! الا اقتلہ ؟﴾ ( سنن النسا ئی ، کتاب الطلا ق ، بہ رو ایت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ )
محمود بن لیبد رضی اللہ عنہ سے رو ایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا یا گیا کہ ایک شخص نے بیک وقت بیوی کو تین طلاق دیدی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں اٹھ کھڑے ہوئے اور فر ما یا ” کیا کتاب اللہ عزوجل کو کھلو نا سمجھ لیا گیا ہے جبکہ میں ابھی تم لوگوں میں موجود ہو ں“ایک شخص نے اٹھ کر کہا ” اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا میں اس شخص کو قتل کر دوں ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کو دیکھتے ہو ئے ایک صحا بی نے بلا تو قف اس شخص کو جس نے بیک وقت تین طلاق دی تھیں قتل کر نے کی اجا زت ما نگی ۔ اس حقیقت کے باوجود آج کل کے شوہروں نے قرآن اور شریعت کے قوانین کو مذاق بنا لیا ہے ۔ بہت سے لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ احمقانہ تیز گفتگو کے دوران انتہا ئی غصہ میں آکر تین طلاق دینے کی حما قت کر بیٹھتے ہیں ۔ وہ مرد ، عورتوں سے بڑھ کر عقل کی نا پختگی اور کم ظرفی کا اظہار کر تے ہیں ۔ شوہروں میں کچھ تعداد ایسے شوہروں کی بھی ہو گی جنہیں شریعت کے قوانین کا علم نہیں ۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ طلاق ہو تی ہی تین ہیں جو بیک وقت دی جائیں۔حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو نا قص العقل پیدا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق دینے کا اختیا ر صرف مرد کو حا صل ہے ۔ اگر کہیں یہ حق عورتوں کو تفویض کر دیا گیا ہو تا تو طلاق روزانہ کا معمول ہوجاتا ۔ اپنی کم عقلی کی وجہ سے وہ اپنے کا موں کے نتائج کو محسوس نہ کر سکتی ۔ لیکن آج کل بہت سے مرد حضرات بھی کم عقلی اور ذود رنجی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ ایک شخص جب غصہ میں اندھا ہو کر تین طلاق دیتا ہے تو وہ عقلمند ی کے اعتبا ر سے عورت سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔ طلا ق ایک تباہ کن فعل ہے ۔ اس پر عمل درآمد بڑی سوچ بچا ر کے بعد کیا جا نا چا ہئے ۔ حالات جب حد سے گزر جا ئیں اور ان کے سدھر نے کی کوئی صورت با قی نہ رہے تو مرد بڑے تحمل اور بردباری سے ہر پہلو پر غور کر کے یہ قد م اٹھا ئے تاکہ اسے بعد میں پچھتا نا نہ پڑے ۔
اگر شوہر طلاق دینے کا ارادہ کر لے تو اسے چائیے کہ بیوی کوطہر (جب وہ حیض سے نہ ہو) میں صرف ایک طلاق دے ۔نکاح کے بندھن کہ توڑنے کے لیے ایک طلاق کا فی ہے لیکن مصالحت کی صورت میں پھر زن و شوہر کی صورت میں اکھٹے ہو سکتے ہیں۔
آجکل شر یعت کے قوانین سے لا علمی کی بنا پر بعض شوہر طلاق کے لفظ کو غیر اہم تصور کرتے ہیں۔ بیوی سے بات چیت میں ذرا سی تلخی آ جانے پر طلاق داغ دیتے ہیں ۔ شوہر وقتاََ فوقتاََ طلاق دیتا رہتا ہے اور بیوی سے ازواجی تعلقات بھی بدستور قائم رکھتا ہے ۔ یہ حرام کاری اور زنا ہے۔ اس لئے یہا ں طلا ق کے مو ضو ع کو اختصا ر سے در ج کیا جاتا ہے ۔
Enter your email addressاپنا ای میل لکھیں اور بذریعہ ای میل نیا مضمون حاصل کریں۔:


Delivered by FeedBurner

Saturday, August 18, 2012

بچے کا نام ہمیشہ اچھا رکھیں


بچے کا نام ہمیشہ اچھا رکھیں
بچے کا نام ہمیشہ اچھا رکھیں اللہ ر ب العزت کو عبداللہ نام سب سے زیادہ پسند ہے ۔ عبدالرحمٰن نام پسند ہے ایسے نام رکھیں کہ قیامت کے دن جب پکا رے جا ئیں تو اللہ رب العزت کو اس بندے کو جہنم میں ڈالتے ہو ئے محسوس فرمائیں کہ میرا بندہ میرے رحمت والے نام کے ساتھ ساری زندگی پکا را جاتا رہا اب اس کو جہنم میں میں کیسے ڈالوں ۔ ایسا نام ہونا چا ہیے ۔
آج کل کی بچیاں نئے نئے ناموں کی خوشی میں بے معانی قسم کے نام رکھ لیتی ہیں۔ الٹے سیدھے نام جس کا نہ اس کی ماں کو معانی کا پتہ اور نہ کسی اور کو پتہ مہمل قسم کے نام رکھ دیتی ہیں یہ بچے کے ساتھ زیادتی ہو تی ہے۔ بچے کے حقوق میں سے ہے ماں باپ ایسا نام رکھیں کہ جب بچہ بڑا ہو اور اس نام سے اسکو پکا را جا ئے تو بچے کو خوشی ہو ۔یہ بچے کا حق ہے۔ جو ماں باپ کے اوپر ہو تا ہے ۔ اس لیے بچے کو ہمیشہ اچھا نام دیں ۔ انبیاء کے ناموں میں سے نام دیں ۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں میں سے نام دیں ۔ اولیاء کرام کے ناموں میں سے نام دیں ۔ ایک روایت میں آتا ہے جس گھر کے اند ر کوئی بچہ محمد نام کا ہو تا ہے اللہ رب العزت اس نام کی برکت سے سب اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بر ی فرما دیتے ہیں ۔ تو محمد کا نام احمد کا نام بہت پیا ر ا ہے ۔ ہمارے مشائخ تو دس دس نسلوں تک باپ کا نام محمد پہلے کا نام محمد پھر بیٹے کانام محمد اور پھر اس کے بیٹے کانام محمد پھر اس کے بیٹے کا نام محمد ۔ یہ نام اتنا پیا را تھا کہ دس دس نسلوں تک یہی نام چلتا چلا جاتا تھا۔لیکن آ ج اس نام کو رکھ تو دیتے ہیں ساتھ کوئی دوسرا لفظ لگادیتے ہیں اور نام زیادہ دوسرا مشہور ہوتا ہے ۔مثلا محمد اویس نام رکھا اب اویس زیادہ مشہور کر دیا ۔ محمد کا نام کوئی جانتا بھی نہیں اس لیے محمد نام اللہ رب العزت کو پیا را ہے ۔ احمد نام قرآن میں ہے اللہ رب العزت کو پیا را ہے ۔ چا ہیں تو محمد احمد نام بھی رکھ سکتی ہیں ۔ بہت پیا را نام ہے۔عبداللہ رکھ سکتی ہیں ۔ عبداللہ ابراہیم رکھ سکتی ہیں ۔ انبیا ء علیہم السلام ، اولیاء کر ام کے ناموں پر بچوں کے نام رکھیں تاکہ قیامت کے دن ان ہی کے سا تھ ان کا حشر ہو جائے ۔ اور اللہ رب العزت کی رحمت ہو ۔ بچیوں کے نام بھی اسی طرح صحابیا ت رضی اللہ عنہن کے ناموں پر رکھیں ۔ ام الموٴمنین کے نام پر رکھیں ۔ نبی علیہ السلام کی بیٹیوں کے ناموں پر رکھیں ۔ بچیوں کے نام بھی اچھے رکھیں کہ ایسے نام نہ رکھیں کہ جن کا کوئی مطلب ہی نہ ہو۔ بہر حال اس با ت کا بھی خاص خیال رکھیں ۔

Enter your email address:


Delivered by FeedBurner
Enter your email addressاپنا ای میل لکھیں اور بذریعہ ای میل نیا مضمون حاصل کریں۔:


Delivered by FeedBurner

Sunday, August 12, 2012

نا جائز تعلقات سے بچیں(شوہر)۔

نا جائز تعلقات سے بچنے کی نصیحت
اپنی بیوی پر سب سے بڑا ظلم شوہر کا کہ کسی غیر محرم عورت سے نا جا ئز تعلقات استوار کر نا ہے۔ نکا ح کے بغیر کسی عورت سے تعلقات قائم کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ بعض لوگ اپنے ضمیر کو مطمئن کر نے کے لئے یا غیر عورت سے جنسی تعلقا ت قائم کر نے کے اپنے قبیح فعل کی طرفداری میں جھو ٹے بہا نے گھڑ لیتے ہیں ۔ مثلاً بیوی ہر وقت لڑتی جھگڑ تی رہتی ہے۔ وہ کا ہل اور سست الوجود ہے ۔ بن سنور کر نہیں رہتی ۔ نا فرمانبردار ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ان بہا نوں کا کسی غیر عورت کے ساتھ نا جا ئز تعلقات قائم کر نے کا کوئی جواز نہیں۔
مردوں کو یہ جان لینا چا ہئے کہ اگر چہ ان کی بیویاں مکمل طور پر نافرنبردارہی کیوں نہ ہو ں یہ امرانہیں اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ خود کو حرام کا ری میں الجھا ئیں ۔ غیر مرد و زن کا با ہمی اختلاط کسی طور جا ئز نہیں ۔ ایسے مغربی افکا ر کی اسلام میں کو ئی جگہ نہیں ہے۔ اگر خاوند کو اپنی بیوی کے کسی دوسرے شخص کے ساتھ نا جا ئز تعلقات کا علم ہو جائے تو اس کے دل پر کیا گزرے گی ؟
ایک شخص جو خود کو ایسی حرام کا ری میں ملوث کر تا ہے وہ اپنی بیوی ، اولاد اور اپنے دین سے غداری کا مر تکب ہوتا ہے ۔ وہ اپنے ذہن میں تصور کر ے بیوی گھر کی چار دیواری میں مقید اپنے ذہن میں شوہر کی محبت بسا ئے گھر کے کام کاج میں اور بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہے ۔ ہر وقت اس کے آرام کے لئے متفکر رہتی ہے اور اشتیاق بھری نگا ہوں سے اس کی گھر میں واپسی کی منتظر رہتی ہے ۔ عورت کے لئے اس کا شوہر دنیا کے تمام مردوں سے بڑھ کر ہے ۔ اس کی بیما ری کی حالت میں اتنی لگن سے تیماداری اور خدمت کر تی ہے کہ اسے اپنی سدھ بدھ بھی نہیں رہتی ۔ وہ اپنے آرام اور خوشی کو تیا گ کر اس کو زیادہ سے زیادہ آرام وسکون پہنچا نے کی کو شش کر تی ہے ۔ اس کی خوراک اور لباس کا خاص خیا ل رکھتی ہے ۔ بیوی کی ان بے لوث خدمات کے بعد اگر شوہر غیر محرم عورت سے تعلقات بڑھا تا ہے تو اس سے بڑھ کر نا شکر گزار اور کون ہو گا ؟ وہ ایسی حما قت کر کے اپنی بیوی کی پیٹھ میں چھرا گھونپتا ہے ۔ کیا یہ ایک معزز شوہر کے طور طریقے ہو سکتے ہیں ؟ کیا ایسی حرکتیں ایک پاکباز شوہر کو زیب دیتی ہیں ؟ شو ہر اپنے اس قبیح فعل کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں جو ابدہ ہے ۔ بے وفا ئی کا ارتکاب کر کے وہ اپنی بیوی کے سامنے بھی جو ابدہ ہے۔ غلط مثال قائم کر کے وہ اپنے اس ظلم کے لئے اپنے بچوں کے سامنے بھی جوابدہ ہے۔ اسے چا ہئے کہ غیر عورت کے چنگل سے خود کو آزاد کر ائے اور اس کے لئے ہر تدبیر اختیا ر کر ے ۔ اگر وہ واقعی پشیما ن اور برائی سے بچنے کی خواہش میں مخلص ہے ۔ اللہ سے خلوص دل سے مدد چا ہے ۔ یقینا اس دلدل سے باہر نکل آئے گا ۔
کا ش وہ ایسی قبیح حرکت کرنے سے پیشتر ایک نظر اللہ تعالیٰ کی تعزیرات پر ڈال لے تو شاید وہ باز آئے ۔
﴿الزانیة والزانی فا جلد وا کل واحد منھما ما ئة جلدة ولا تاخذ کم بھما رافة فی دین اللہ ان کنتم تو منون باللہ والیوم الا خرو لیشھد عذابھما طا ئفة من الموٴمنین

(النور۲)
زانیہ عورت اور زانی مرد ، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھا نے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ مو جو درہے۔
یہ امر کہ زنا بعد احصان کی سزا کیا ہے قرآن مجید نہیں بتا تا بلکہ اس کا علم ہمیں حدیث سے حا صل ہوتا ہے ۔ بکثرت معتبر روایات سے ثا بت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف قولاً اس کی سزا رجم (سنگساری ) بیان فرمائی ہے بلکہ عملاً آپ نے متعد د مقدمات میں یہی سزانا فذبھی کی ہے ۔
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner
Enter your email addressاپنا ای میل لکھیں اور بذریعہ ای میل نیا مضمون حاصل کریں۔:


Delivered by FeedBurner

Saturday, August 11, 2012

روزانہ عربی متن کے ساتھ باحوالہ حدیث حاصل کریں

Enter your email address and receive a hadith daily Arabic text, with translation and reference.
اپنا ای میل انٹر کریں اور روزانہ عربی متن کے ساتھ باحوالہ حدیث حاصل کریں۔

Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Friday, August 10, 2012

پیدا ئش کے بعد تہنیک دینا


پیدا ئش کے بعد تہنیک دینا
جب بچے کی پیدا ئش ہو تو بچے کی تہنیک کر وانا سنت ہے کہ کسی نیک بندے کے منہ میں دی ہوئی کوئی کھجور ہو چبا ئی ہو ئی کھجور ہو یا کوئی شہد ہو تو ایسی کو ئی چیزبچے کے منہ میں ڈالنا یہ اللہ کے نیک بندوں ، ’سلا،وہ جب بچے کے منہ میں جا تا ہے ا س کی اپنی برکات ہوتی ہیں۔چنانچہ یہ تہنیک کسی نیک بندے سے کروانی چاہئے۔وہ مرد بھی ہوسکتا ہے اور عورت بھی ہوسکتی ہے۔اسی لئے جو حاملہ بچیاں ہو تی ہیں وہ پہلے سے ہی تہنیک کیلئے کچھ نہ کچھ تیار کروا کر رکھ لیتی ہیں۔موقع پر توکہیں نہیں بھا گا جاتا ۔تو اس لئے اس کا بھی خاص خیا ل رکھنا چا ہیے۔
تہنیک کے بعد اذان اور اقامت کا عمل
تہنیک کر وانے کے بعد بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان کے اندر اقامت کہی جا تی ہے ۔ یہ اللہ رب العزت کا نام ہے جو بچے کے دونوں کا نوں میں لیا جا تا ہے ۔ سبحان اللہ چھو ٹی عمر میں بچہ ابھی سمجھ بو جھ نہیں رکھتا مگر اس کے کانوں میں اللہ نے اپنی بلندی اور عظمتوں کے تذکرے کروادیئے ۔ ایک کان میں اللہ اکبر کہتے ہیں اور دوسرے کان میں بھی اللہ اکبر کہتے ہیں ۔ گویا اللہ کی عظمت اس کو سکھا دی گئی اور یہ پیغام پہنچا دیا گیا ۔ کہ جس طرح دنیا کے اندر اذان ہو تی ہے پھر اس کے بعد اقامت کے بعد نماز پڑھنے میں تھوڑی دیر ہو تی ہے بالکل اسی طرح اے بندے تیری زندگی کی اذان بھی کہی جا چکی تیری زندگی کی اقامت بھی کہی جا چکی ۔ تیری زندگی نماز کی مانند ہے اور نماز تو ہمیشہ امام کے پیچھے پڑھی جا تی ہے ۔ ایک شر عی طریقے پر پڑھی جا تی ہے ۔ تو اپنی زندگی کو بھی صحیح گزارنا چا ہتا ہے تو شر یعت کے طریقے کو اپنا لینا ۔ اور نبی علیہ السلام کو زندگی کی نما ز کاا ما م بنا لینا ۔ پھر تیر ی نماز قبول ہو جائے گی ۔ بلآ خر تجھے قبر میں جا نا ہی ہے تو یہ ابتداء میں اللہ رب العزت کا پیغام اس بچے کے ذہن میں پہنچا دیا جا تا ہے ۔

Monday, August 6, 2012

اپنے سسرال والوں کا احترام کر یں(شوہر)۔


اپنے سسرال والوں کا احترام کر یں
بعض لو گوں کی عادت ہوتی ہے کہ بیوی سے کوئی غلطی ہو تو اس کے سارے خاندان کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہاں ہاں ، تمہارا تو سارا خاندان ایسے ہے ، تمہا ری تو سات پشتیں گندی ہیں …وغیرہ وغیرہ ۔ اگر آپ اپنی بیوی سے ایسا رویہ بر تیں گے تو پھر آپ بھی یہ ذہن سے نکال دیں کہ وہ آپ اور آپ کے خاندان کی عزت کر ے گی ۔
بیوی اگر سا س کی خدمت نہ کرے تو ؟
یاد رہے کہ اسلا م کے قانونی نقطئہ نظر کے مطا بق عورت پر فر ض نہیں کہ وہ سسرال کی خدمت گزاری کر ے اگر وہ سسرال کی خدمت بجا لا تی ہے تو اس کی نیکی اور احسان ہے اور اگر وہ یہ خدمت نہیں کر تی تو اسلامی قانون کے مطا بق آپ اس کے خلا ف کو ئی اقدام نہیں کر سکتے ۔ اس لیے کہ ان کی خدمت ان کے بیٹے پر فر ض ہے ۔ اس لیے اگر آپ کی بیوی آپ کے والدین کی خدمت نہیں کر تی تو اسے مار پیٹ کر اس کا م کے لیے ہر گزمجبور نہ کریں بلکہ زیادہ سے زیادہ اسے پیا ر سے سمجھا ئیں کہ میرے والدین بو ڑھے ہیں ، خدمت کے مستحق ہیں ، میرے سا تھ تم بھی ان کی خدمت میں ہا تھ بٹا ؤ تو خوش ہو گے اور ہمارے حق میں دعائے خیر کر یں گے اور ان سے ہم نیکی کر یں گے تو کل کو ہمیں بھی نیک اولاد اور نیک بہوئیں ملیں گی ۔
سسرالی الجھنیں اور ان کا حل
ہما رے ہاں زیادہ تر مشترکہ خاندانی نظام چل رہا ہے ، جو آپس کی محبت اور خاندانی میل ملاپ کا اچھا ذریعہ خیال کیا جا تا ہے لیکن جائزہ لیا جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ آج ہمارے گھر وں میں 90فیصد ازدواجی نا چا قیاں میا ں بیوی کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے نہیں بلکہ فریقین کے سسرال کی بے جا اندورنی مداخلتوں اورخاندانی رقابتوں کی وجہ سے ہیں ، آپ جا نتے ہیں کہ ہما را معاشرتی طبقاتی معاشرہ ہے، نچلا طبقہ ، درمیا نی طبقہ اور با لا ئی طبقہ ، ہر طبقے میں اپنے اپنے انداز میں سسرالی جھمیلے اور رنجشیں پا ئی جا تی ہیں جو عمربھر بلکہ مر نے کے بعد بھی چلتی رہتی ہیں ساری عمر میاں بیوی کو ایک دوسرے سے ذہنی اور روحانی طور پر لطف اندوز ہو نے کا مو قع ہی نہیں ملتا جنسی نظام کے فطری تقا ضوں کے تحت مبا شرت بھی کر تے ہیں بچے بھی پیدا ہو جا تے ہیں لیکن دونوں کے درمیان ایک طر ح کی بیگا نگی کی دیوار ہمیشہ حا ئل رہتی ہے ایک دوسرے کا جیون ساتھی ہو نے کے با وجود اجنبی سا تھی ہو تے ہیں دونوں کو اپنے اپنے خا ندانو ں سے اپنی اپنی دلچسپیاں ، ہمدردیاں، اور وابستگیا ں قائم رہتی ہیں اور میاں بیوی کے آپس کے تعلقات پر بھی چھا ئی رہتی ہیں۔


اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیوی کے ماں با پ اپنی بیٹی کے ساتھ تو زیادہ تعلق اور اپنا ئیت کا اظہار کر تے ہیں لیکن داماد کو غیرت کی نظروں سے دیکھتے ہیں لہٰذا داماد اپنے آپ کو بیوی اور اس کی ماں باپ کے درمیان ایک طرح کا غیر محسوس کر تا ہے ۔ غیریت کا یہ احساس اس کے دل میں ہمیشہ کھٹکتا رہتا ہے اور یوں میاں بیوی کے آپس کے تعلقات بھی متاثر ہو کر رہ جا تے ہیں ۔ والدین کو چا ہیے کہ بیٹی تو ان کی بیٹی ہے ہی ، لہٰذا بیٹی کے بجا ئے داماد پر زیادہ تو جہ دیں تا کہ وہ بھی اپنے آپ کو نئے کنبے کا ایک فرد تصور کر ے بیوی بھی اپنے میاں کی اس الجھن کو ختم کر نے کے لئے مو ثر کردار ادا کر سکتی ہے کہ اپنے رویے سے احساس دلا دے کہ وہ اس کا میاں اصل میں دونوں ایک ہی ہیں اس طرح اس کے والدین دونوں میں تفر یق پیدا کر نے سے گریز کریں گے اور داماد کو بھی اپنی بیٹی کی طرح ہی قبول کر لیں گے اور دونوں کو اپنے فیصلے آپ کر نے کی اجا زت دے دیں گے بسا اوقات بیوی کا تعلق کسی کھا تے پیتے گھر انے سے ہوتا ہے اس کے والدین عمو ماً اسے طرح طرح کی تحا ئف وغیرہ سے نو ازتے رہتے ہیں لیکن بیٹی کے میاں کو عموماً نظر انداز کر دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات بیوی اگر ان تحا ئف میں سے کوئی چیز میاں کو دے دے تو وہ اس کو بھی برا مناتے ہیں اس قسم کے یک طرفہ حسن سلوک سے بھی میاں بیوی کے درمیان تلخیاں پیدا ہو نے لگتی ہیں جن کا اصل سبب بیوی کے ماں باپ ہو تے ہیں والدین کو چا ہیے کہ اگر انہوں نے یہ شوق پورا کر نا ہی ہے تو پھر بیٹی اور داماد دونوں ہی کو اپنے تحا ئف سے نوازیں بصورت دیگر بیوی کو چا ہیے کہ اپنے والدین سے تحائف وصول کر نے سے گریز کر ے ۔
بعض اوقات لڑکی کی ساس اپنی بہو کی خرید و فروخت یا دوسری سر گرمیوں پر کڑی نکتہ چینی کر تی ہے جس سے بہو اور بیٹے کے آپس کے تعلقات متا ثر ہو نے کا خدشہ ہو تا ہے بہو کے لئے اس صورت حال سے بیٹے کے لئے ایک نسخہ تجویز ہے جو یہ ہے کہ وہ اپنی ساس کی خریدو فروخت اور ان کی پسند کے دیگر مشا غل کی بھر پور تعر یف کر ے ،……وغیرہ وغیرہ یوں آپ کی ساس انشاء اللہ عزوجل آپ پر نقطہ چینی کر نا چھوڑے دے گی ۔
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Friday, August 3, 2012

بچے پر ما ں کے دو دھ کے اثرات

بچے پر ما ں کے دو دھ کے اثرات
بچے کیلئے پہلا تحفہ جو ماں اسے پیش کر سکتی ہیں وہ ماں کا اپنا دودھ ہی ہوتا ہے۔ ماں کو چاہیے کہ بچے کو اپنا دودھ ضرور پلائے ہاں اگر دودھ میڈیکلی ٹھیک نہیں ۔ بچے کیلئے نقصان دہ ہے تو یہ اور بات ہے لیکن اگر ماں کا دودھ بچے کیلئے ٹھیک ہے تو اس سے بہتر غذا بچے کو اور کوئی نہیں مل سکتی۔ ہر ماں کو چاہیئے کہ ضرور دودھ پلائے ۔ تاکہ بچے کے اندر ماں کی محبت آجائے۔
اگر ماں دودھ ہی نہیں پلائے گی تو ماں کی محبت بچے کے اندر کیسے آئے گی بعض ما ئیں شروع سے ہی بچے کو ڈبوں کے دودھ پر لگا دیتی ہیں پھر جب ڈبے کا دودھ پی کر بچے بڑے ہوتے ہیں ماں کو ماں نہیں سمجھتے اس لئے کسی شاعر نے کہا #
طفل سے بو آئے کیا ماں باپ کے اعتبار کی
دودھ ڈبے کا پیا تعلیم ہے سرکا ر کی
جب نہ دین کی تعلیم پائی ہے نہ ما ں کا دود ھ پیا ہے تو پھر اس میں اچھے اخلاق کہا ں سے آئیں گے ۔
ایک ماں اپنے بیٹے سے نا راض ہو ئی کہنے لگی بیٹے تم نے میری با ت نہ مانی تو کبھی بھی تمہیں اپنا دودھ معاف نہیں کر وں گی ۔ اس نے مسکرا کر کہا امی میں تو نیڈو کے ڈبے کا دودھ پی کر بڑا ہوا ہوں آپ نے مجھے اپنا دودھ پلا یا ہی نہیں ۔ مجھے معاف کیا کر یں گی ۔ تو ایسا واقعی دیکھا گیا کہ ڈبوں کے دودھ کے اثرات اور ہو تے ہیں اور ماں کے دودھ کے اثرات اور ہو تے ہیں ۔
بچے کو دودھ پلانے کے آداب
ما ں کو چا ہئے کہ بچے کو دودھ خود پلائے خود بسم اللہ پڑ ھ لے ۔ اور جتنی دیر بچہ دودھ پیتا رہے ماں اللہ کے ذکر میں مشغول رہے ۔ ماں اللہ رب العزت کی یاد میں مشغول رہے ۔ ماں دعائیں کر تی رہے اللہ میرے دودھ کے ایک ایک قطرے میں میرے بیٹے کو علم کا سمندر عطا فرما۔ تو ما ں کی اس وقت کی دعائیں اللہ کے ہاں قبول ہوتی ہیں۔
با وضو اپنے بچوں کو دودھ پلا ئے تو وہ ما ں بڑی خو ش نصیب ہے ۔ اور اگر نہیں پلا سکتی تو کم از کم دودھ پلاتے وقت دل میں اللہ کا ذکر تو کر سکتی ہے ۔ اور یہ نہ کرے کہ ادھر دودھ پلا رہی ہیں ادھر بیٹھی ڈرامہ دیکھ رہی ہیں ۔ اگر گناہ کی حالت میں دودھ پلا ئیں گی تو بچہ نا فرمان بنے گا۔ اللہ ربّ ا لعزت کا بھی اورماں با پ کا بھی ۔ بعد میں رونے کا پھر کیا فائدہ اس لئے بچپن سے ہی بچے کی تر بیت ٹھیک رکھی جا ئے ۔ اگر ماں کا دودھ کم ہوتو اس کو چا ہئیے کہ ڈاکٹر سے مشورہ کر کے اپنا علا ج کر وائے ۔ فوراً ڈبے کے دودھ پر ڈالنے کی کیا ضرورت ، بچیا ں عام طور پر یہ غلطی کر لیتی ہیں ۔ سمجھتی ہیں کہ ہمارا دودھ پو را نہیں اور تھوڑا تھوڑا ڈبے کا دینا شروع کر دیتی ہیں ۔اب ڈبے کے دودھ کا ذائقہ کچھ اور ، اور ماں کے دودھ کا ذائقہ کچھ اور ۔ عام طو ر پر بچے ماں کا دودھ چھوڑکر ڈبے کا دودھ لینا شروع کر دیتے ہیں تو ایسا ہر گز نہ کر یں ۔ جب تک کوئی بہت بڑی مجبو ری نہ ہو ۔ ورنہ تو بچے کو اپنا دودھ پلا ئیں ۔ پھر دیکھیں کہ آپ کی محبت بچے کے دل میں کیسے سرائیت کر جا تی ہے ۔ یہ ماں اپنا دودھ پلا ئے گی تو بچے کے اندر ماں کے اخلا ق بھی آ ئیں گے ۔ ماں کی ایمانی کیفیت کی بر کا ت بھی بچے کے اند رآئیں گی ۔
فیڈ ر ، چو سنیاں بیماری کا مر کز
یہ بات ذہن میں رکھنا کہ اکثر عورتیں جو ڈبوں کے دودھ پلا تی ہیں تو ان کے بچے بیمار رہتے ہیں اس بیماری کا سبب ان کی فیڈر اور چوسنیا ں ہیں ۔ یہ فیڈر اور چوسنیاں تو بیماری کی سینٹر ہو تی ہیں جہاں پر جر اثیم بیکٹیریا پر ورش پا تے ہیں ۔ لا کھوں کروڑوں کی تعدا دمیں آپ جتنا مر ضی ان کودھو تی رہیں ، جتنا مر ضی گرم پانی میں ڈالتی رہیں ۔ چو نکہ وہ ربڑ کے بنے ہو تے ہیں اس لئے اس کے اندر بیکٹیر یا کا چھپنا آسان ہو تا ہے یا تو یہ کریں کہ اگر ڈبے کا دودھ ہی مجبو راً پلا نا ہے تو ہر دوسرے دن اس کا فیڈر اور چوسنی کا نیپل بدلتے رہیں ۔ تاکہ بیکٹیریا اس میں پیدا ہی نہ ہو سکیں ۔ اور اگر اتنا نہیں کر سکتیں تو پھر دوسرا طر یقہ یہ ہے کہ بچے کو سٹیل کے برتن اور چمچ کے ساتھ دودھ پلا ئیں جو ما ں بچے کو سٹیل کے صاف بر تنوں میں دودھ پلا تی ہے اس بچی کے پیٹ میں کوئی خرابی نہیں آ تی ۔ یا تو اپنا دودھ پلا ئیں یا سٹیل کے بر تنوں چمچ کے ساتھ دودھ پلا ئیں ۔ اگر یہ بھی نہیں کر پاتی اور فیڈ ر چوسنی دینی پڑتی ہے تو پھر ہر دوسرے تیسرے دن اسکو بد لتی رہیں ۔ ایک فیڈر مہینہ چلانا وہ تو بچے کے منہ میں بیکٹیریا کی ایک برگیڈ فوج داخل کر نے کی مانند ہے ۔ اب یہ بچہ بیما ر ہو گا مگر قصور ماں کا ہو گا ۔ معصوم بچے ہو تے ہیں یہ ماں باپ کی لا علمی اور لا پر واہیوں کی وجہ سے بیچار ے صحت کے بجائے بچپن سے بیمار ہو تے ہیں ۔ سا ری عمر اس کمزوری کے اثرات ہو تے ہیں ۔ اس لئے سب سے ا چھا تو یہی ہے کہ اپنا دودھ ہو ۔ جس کی بر کتیں بھی ساتھ جا رہی ہوں۔
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner