Wednesday, August 22, 2012

طلاق کی دھمکی نہ دیں(شوہر)۔

طلاق کی دھمکی نہ دینے کی نصیحت
﴿الذی بیدہ عقدة النکا ح﴾ ( البقرہ ۲۳۷)
وہ (مرد) جس کے ہا تھ میں نکا ح کی گرہ ہے
قانو نی طور پر مرد کو طلاق دینے اور نکاح کی گرہ کھولنے کا کا مل اختیا ر ہے ۔ تجدید اگر ہے تو وہ اخلا قی ہے ۔ اگر وہ کسی حقیقی سبب کے بغیر ایسا کر تا ہے تو بہت بڑا ظلم کر تا ہے جس کی اسے اللہ کے ہاں جو اب دہی کرنا ہو گی ۔
ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
﴿ابغض الحلال الی اللہ الطلاق ﴾ ( رواہ ابوداؤد ، کتا ب النکاح )
اللہ کے نزدیک حلا ل چیزوں میں سب سے بر ی چیز طلا ق ہے
لفظ طلاق ایک اصطلا ح ہے جس سے شوہروں کو بچنا چا ہئے ۔ اسے ہلکے پھلکے انداز میں نہیں لینا چا ہئے ۔ آج کل بہت سے خاوند کم علمی عقلی اور غصہ میں اپنی بیویوں کو طلا ق دے دیتے ہیں ۔ کچھ شوہر اپنی بیویوں کے سا تھ گرم سرد بحث میں اور غصہ سے بے قابو ہو کر یہ فعل کر گزرتے ہیں ۔ غصہ میں اندھے ہو کر ایک سا تھ تین طلاق دے دیتے ہیں ۔ شادی کی عمارت اسی وقت ڈھیر ہو جا تی ہے اور ان کے درمیان زن و شو کا رشتہ ختم ۔ جب غصہ ذرا ٹھنڈا پڑ تا ہے تو وہ اپنی اس حر کت پر پشیمان ہو تے ہیں۔
ہا ئے اس زود پشیمان کا پشیمان ہو نا
اب آنسو بہا نے سے فا ئدہ ! نا قا بل تلا فی نقصا ن تو ہو چکا ۔ اب کوئی راستہ با قی نہیں رہا جس سے تین طلاق دینے کے بعد میاں بیوی دوبارہ اکھٹے ہو سکیں ۔ جس شخص نے بھی غصہ کی حالت میں طلاق دی بعد میں ضرور پچھتا یا اور اب پچھتا ئے کیا ہوت جب چڑیا ں چگ گئیں کھیت۔
پچھتا نے پر ہی کیا موقوف ، پڑا روتا رہے ، ٹسوئے بہا تا رہے ، کسی کا اس میں کیا دوش ، اس نے تو خود ہی تلا فی کے سارے راستے مسدود کر دیئے ۔ محبت کر نے والی بیوی گئی ،بچے اس گھر سے محروم ہو گئے جس میں انہیں حفا ظت اور رہنما ئی ملتی تھی ، جہا ں ماں کی محبت تھی اور با پ کی شفقت ۔ آناً فا ناً سب ختم ہو گیا ۔
ایک سا تھ تین طلاق دینے سے مو ثر تو ہو جا تی ہے لیکن یہ طر یقہ بہت نا معقول ہے اور بہت بڑا گناہ ۔ نسا ئی شریف میں درج ذیل حدیث اس بر ائی کی طرف اشارہ کرتی ہے :
﴿عن رجل طلق امرا تہ ثلث تطلیقات جمیعاً مقام غضبان ثم قال: ایلعب بکتاب اللہ عزوجل وانا بین اظھر کم ؟ حتی قام رجل فقال یا رسول اللہ ! الا اقتلہ ؟﴾ ( سنن النسا ئی ، کتاب الطلا ق ، بہ رو ایت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ )
محمود بن لیبد رضی اللہ عنہ سے رو ایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا یا گیا کہ ایک شخص نے بیک وقت بیوی کو تین طلاق دیدی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں اٹھ کھڑے ہوئے اور فر ما یا ” کیا کتاب اللہ عزوجل کو کھلو نا سمجھ لیا گیا ہے جبکہ میں ابھی تم لوگوں میں موجود ہو ں“ایک شخص نے اٹھ کر کہا ” اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا میں اس شخص کو قتل کر دوں ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کو دیکھتے ہو ئے ایک صحا بی نے بلا تو قف اس شخص کو جس نے بیک وقت تین طلاق دی تھیں قتل کر نے کی اجا زت ما نگی ۔ اس حقیقت کے باوجود آج کل کے شوہروں نے قرآن اور شریعت کے قوانین کو مذاق بنا لیا ہے ۔ بہت سے لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ احمقانہ تیز گفتگو کے دوران انتہا ئی غصہ میں آکر تین طلاق دینے کی حما قت کر بیٹھتے ہیں ۔ وہ مرد ، عورتوں سے بڑھ کر عقل کی نا پختگی اور کم ظرفی کا اظہار کر تے ہیں ۔ شوہروں میں کچھ تعداد ایسے شوہروں کی بھی ہو گی جنہیں شریعت کے قوانین کا علم نہیں ۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ طلاق ہو تی ہی تین ہیں جو بیک وقت دی جائیں۔حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو نا قص العقل پیدا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق دینے کا اختیا ر صرف مرد کو حا صل ہے ۔ اگر کہیں یہ حق عورتوں کو تفویض کر دیا گیا ہو تا تو طلاق روزانہ کا معمول ہوجاتا ۔ اپنی کم عقلی کی وجہ سے وہ اپنے کا موں کے نتائج کو محسوس نہ کر سکتی ۔ لیکن آج کل بہت سے مرد حضرات بھی کم عقلی اور ذود رنجی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ ایک شخص جب غصہ میں اندھا ہو کر تین طلاق دیتا ہے تو وہ عقلمند ی کے اعتبا ر سے عورت سے بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔ طلا ق ایک تباہ کن فعل ہے ۔ اس پر عمل درآمد بڑی سوچ بچا ر کے بعد کیا جا نا چا ہئے ۔ حالات جب حد سے گزر جا ئیں اور ان کے سدھر نے کی کوئی صورت با قی نہ رہے تو مرد بڑے تحمل اور بردباری سے ہر پہلو پر غور کر کے یہ قد م اٹھا ئے تاکہ اسے بعد میں پچھتا نا نہ پڑے ۔
اگر شوہر طلاق دینے کا ارادہ کر لے تو اسے چائیے کہ بیوی کوطہر (جب وہ حیض سے نہ ہو) میں صرف ایک طلاق دے ۔نکاح کے بندھن کہ توڑنے کے لیے ایک طلاق کا فی ہے لیکن مصالحت کی صورت میں پھر زن و شوہر کی صورت میں اکھٹے ہو سکتے ہیں۔
آجکل شر یعت کے قوانین سے لا علمی کی بنا پر بعض شوہر طلاق کے لفظ کو غیر اہم تصور کرتے ہیں۔ بیوی سے بات چیت میں ذرا سی تلخی آ جانے پر طلاق داغ دیتے ہیں ۔ شوہر وقتاََ فوقتاََ طلاق دیتا رہتا ہے اور بیوی سے ازواجی تعلقات بھی بدستور قائم رکھتا ہے ۔ یہ حرام کاری اور زنا ہے۔ اس لئے یہا ں طلا ق کے مو ضو ع کو اختصا ر سے در ج کیا جاتا ہے ۔
Enter your email addressاپنا ای میل لکھیں اور بذریعہ ای میل نیا مضمون حاصل کریں۔:


Delivered by FeedBurner

No comments:

Post a Comment