Monday, September 24, 2012

بچوں کو بد دعا نہ دینے کی نصیحت


بچوں کو بد دعا نہ دینے کی نصیحت
آ ج بچیوں کو تربیت کا پتہ نہیں ہو تا کئی تو ایسی ہو تی ہیں بچا ری کہ چھو ٹے سے بچے سے اگر غلطی ہوئی یا بچے نے رونا شروع کر دیا تو غصے میں آکر اب اس کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیا کہہ رہی ہیں کبھی اپنے آپ کو کوسنا شروع کر دیتی ہیں میں مر جاتی تو اچھا تھا کبھی بچے کو بد دعائیں دینا شروع کر دیتی ہیں یاد رکھنا کہ بچے کو کبھی بد دعا نہ دینا کوئی زندگی میں ایسا وقت نہ آئے کہ غصے میں آ کے بد دعائیں دینے لگ جا نا ایسا کبھی نہ کرنا ۔ اللہ پا ک کے ہاں ماں کا جو مقام ہو تا ہے ۔ ماں کے دل اور زبا ن سے جو دعا نکلتی ہے وہ سیدھی اوپر جا تی ہے عر ش کے دروازے کھل جا تے ہیں تو دعا اللہ کے یہاں پیش کردی جاتی ہے ، اور قبول کردی جاتی ہے۔ مگر شیطان بڑا مردود ہے وہ ماں کے ذہن میں یہ ڈالتا ہے کہ میں گالی تو دیتی ہوں مگر میر ے دل میں نہیں ہوتی ۔ یہ شیطان کا بڑا پھندا ہے ۔ حقیقت میں تو یہ بدد عا کے الفاظ کہلواتا ہے اور ماں کو تسلی دیتا ہے کہ تو نے کہا تو تھا کہ مر جا ؤ مگر تمہارے دل میں نہیں تھا ۔ کبھی بھی شیطان کے دھو کے میں نہ آنا ۔ بچے کو بد دعا نہ کر نا ۔ کئی مائیں بچوں کو بد دعائیں دے کر ان کی عاقبت خراب کر دیتی ہیں ۔ اپنی زندگی بر با د کر دیتی ہیں ۔
ماں کی بد دعا کا اثر
ایک عورت کو اللہ نے بیٹا دیا مگر غصے میں قابو نہیں پا سکتی تھی ، چھو ٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کو کوسنے لگ جا تی ایک دفعہ بچے نے کوئی بات ایسی کر دی غصہ آیا اور کہنے لگی ۔ کہ تو مر جاتا تو اچھا تھا ۔ اب ماں نے جو الفاظ کہہ دیئے اللہ نے اس کی دعا کو قبول کر لیا مگر بچے کو اس وقت مو ت نہیں دی بلکہ اس بچے کو اللہ تعالیٰ نے نیک بنایا ۔ اچھا بنا یا لائق بنا یا ۔ وہ بچہ بڑا ہو ا عین بھر پو ر جوانی کا وقت تھا یہ نیک بن گیا لو گوں میں عزت ہوئی لو گ نام لیتے کہ بیٹا ہو تو فلاں جیسا ہو ۔ پھر اللہ نے اس کو بخت دیئے کاروبار بھی اچھا ہو گیا تھا لوگوں میں اس کی عزت تھی ۔تذکرے اور چرچے تھے۔ اب ماں نے اس کی شادی کا پروگرام بنا یا ۔ خو بصورت لڑکی کو ڈھونڈا ۔ شادی کی تیاریاں کیں جب شادی میں چند دن باقی تھے ۔ اس وقت اللہ نے اس بیٹے کو مو ت عطا کر دی ۔ اب ماں رونے بیٹھ گئی ۔ میرا تو جوان بیٹا رخصت ہوگیا رو رو کر حال خراب ہو گئے ۔ کسی اللہ والے کو اللہ نے خواب میں بتایا ہم نے اس کی دعا کو ہی قبول کیا تھا جس نے بچپن میں کہا تھا کہ تو مر جا تا تو اچھا تھا۔ہم نے نعمت اس وقت واپس نہیں لی ۔ہم نے اس نعمت کو بھر پور بننے دیا ۔ جب عین شباب کے عالم میں جوانی کے عالم میں یہ پہنچا نعمت پک کر تیا ر ہو گئی ہم نے اس وقت پھل توڑا تا کہ ماں کو سمجھ لگ جائے کہ اس نے کس نعمت کی نا قدر ی کی۔ اب سو چئے اپنی بددعا اپنے سا منے آتی ہیں ۔یہ قصور کس کا ہو ا اولاد کا ہو ا یا ماں باپ کا ہو ا یہ ایک عبرت اور نصیحت پکڑنے کا ایک نمو نہ ہے ۔
حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کی دعا
بی بی مر یم علیہا السلام کے لئے اس کی ماں نے کتنی دعائیں کیں ۔ اور پھر یہ دعا ئیں کر تی رہیں یہی نہیں کہ بچے کی پیدائش ہو گئی تو دعا ئیں بند کر دیں ۔
قرآن مجید میں ہے کہ یہ اس کے بعد بھی دو دعائیں کر تی رہیں ۔
﴿ انی اعیذھا بک و ذریتھا من الشیطٰن الرجیم ﴾ ( ال عمران)
اے اللہ میں نے اپنی بیٹی کو اور اس کی آنے والی ذریت کو شیطا ن رجیم کے خلاف آپ کی پنا ہ میں دیا ۔ گو یا بچی چھو ٹی ہے مگر ماں کی محبت دیکھئے ۔ فقط اس بچے کے لئے ہی دعا ئیں نہیں مانگ رہی اس کی آنے والی نسلوں کے لئے بھی دعا مانگ رہی ہے ۔ اللہ رب العزت کو ماں کی یہ بات اتنی پسند آئی ۔ فرمایا :
﴿ فتقبلھا ربھا بقبول حسن وا نبتھا نبا تا حسنا ﴾ ( ال عمران )
اللہ رب العزت نے پھر اس بچی کو قبول فر مالیا اور پھر اس کی تر بیت فرمائی تو یہ ماں کی دعا تھی اور مر بی تو حقیقت میں اللہ رب العزت ہے ۔ تو ماں کی دعا ؤ ں کو قبولیت حاصل ہے ۔بچو ں کی جسمانی نشوونما اور اخلا قی اور روحانی تر بیت یہ والدین کی ذمہ دا ری ہو تی ہے ۔ جو والدین اس ذمہ دا ری کو احسن انداز میں پو را کر تے ہیں ان کی اولاد دنیا میں ان کے لئے راحت و آرام کا سبب بنتی ہے اور آخرت میں تر قی درجات کا سبب بنتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اولاد کی ذمہ داریا ں پو ری کر نے کی تو فیق عطا فرمائے ۔

Friday, September 21, 2012

کیا آپ کو رشتہ چاہئے ۔۔؟؟

اگر آپ کو رشتہ مطلوب ہے تو ا س ویب سائٹ پر جائیں اور تلاش کریں۔
http://en.mawada.net/

Thursday, September 20, 2012

طلاق ناپسندیدہ عمل ہے (شوہر)۔

چونکہ طلاق کے ذریعے صرف بیوی خاوند کے درمیان جدائی ہی نہیں ہوتی بلکہ دو خاندانوں کے درمیان نفرت کی دیوار بھی کھڑی ہوجاتی ہے، اور بعض اوقات تو باہمی جھگڑوں کا نہ ختم ہونے والا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں کئی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے اور ان کی آئندہ زندگی برباد ہوکر رہ جاتی ہے۔
اور اگر کوئی عورت کسی اشد مجبوری کے بغیر طلاق کا مطالبہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو سے محروم ہوجاتی ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایما امرأة سألت زوجھا طلاقاً فی غیر مابأس فحرام علیھا رائحة الجنة (جامع ترمذی ص ۱۹۱)
جو عورت کسی اشد مجبور ی کے بغیر اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
ان روایات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کی بات برداشت کرتے ہوئے حتی الامکان طلاق جیسے ناپسندیدہ عمل سے بچنا چاہئے۔ 

Sunday, September 16, 2012

بچو ں کی تر بیت کا خاص خیال رکھیں


بچو ں کی تر بیت کا خاص خیال رکھیں
اولاد کی اچھی تر بیت کر نا بھی عورت کی ذمہ داری ہے کہ بچے ماں کے ساتھ زیاد ہ وقت گزارتے ہیں ، اس لیے جب ماں بچپن میں ہی ان بچوں کی تر بیت کرے گی تو یہ بڑے ہوکر نیک بنیں گے۔ بچے کی مثال پگھلی ہوئی دھا ت کی طرح ہو تی ہے ، اس کو آپ جس سا نچے میں ڈالیں گے اسی کی شکل اختیا ر کر لے گی ۔ تو ماں بچپن سے اسے نیکی سکھائے گی تو بچے بھی نیک بن جائیں گے اور اگر بچپن میں محبت کی وجہ سے اُ ن کی تر بیت نہ کی تو پھر یہ بڑے ہوکر کسی کی بھی بات نہیں سنیں گے۔ یاد رکھئے کہ ” بچپن کی کوتاہیاں بچپن میں بھی انسان سے زائل نہیں ہوتیں “ یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض عورتیں بچوں کے معاملے بالکل ہی لا پر واہ ہوتی ہیں ۔ جس کے اثرات بچوں کی شخصیت پر پڑتے ہیں ۔ اس لئے بچوں کی تر بیت پر خصوصی توجہ دیں۔
بچے پر ماں کا اثر
لہٰذا جو عورتیں ایام حمل میں نماز پرھتی ہیں ، نیکی کر تی ہیں ، سچ بو لتی ہیں ، کسی کا دل نہیں دکھا تی ، اللہ تعالیٰ کو راضی کر تی ہیں ، نیک کام کر تی ہیں ان تمام چیزوں کے اثرات ان کے بچوں پر پڑتے ہیں ۔
اور جب بچے کی ولا دت ہو ئی تو ماں اب بچے کو جو دودھ پلا رہی ہے تو اس کے بھی اثرات ہو تے ہیں ۔ پہلے ماں کے جسم سے خوارک لے رہا تھا اس کے اثرات تھے ، اب دودھ لے رہا ہے اس کے اثرات ہیں ۔ آج کل تو ویسے ہی ڈبوں کا دودھ آگیا … کیا پتہ کس کا دودھ ہے ۔ تو جا نو روں کا دودھ پی کر جا نوروں والی عا دتیں آجا تی ہیں ۔ عورت کو ہر ممکن کو شش کر نی چا ہیے کہ بچے کو اپنا دودھ پلا ئے اگر چہ تھو ڑا ہو ۔ ہاں دودھ کی کمی پو ری کر نے کے لئے اور پلا نا پڑے تو اوربات ہے۔ مگر کچھ عورتیں اس سے بھا گتی ہیں ۔ اب بتا ئیں کہ ماں کے دودھ کی بر کتیں اس بچے کے اندر کیسے آ ئیں گی ۔ ہما رے اسلاف میں جب بچو ں کی پر ورش کا وقت ہو تا تھا تو مائیں اپنے بچوں کو با وضو دودھ پلا یا کر تی تھیں ۔ بچہ دودھ پیتا تھا ، مائیں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتی تھیں ۔ تو بچے کے جسم میں دودھ جا تا تھا اور بچے کے دل میں نو ر جا یا کر تا تھا ۔
با وضو دودھ پلا نے کی بر کت
چنا نچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیہ سات لاکھ ہندؤں نے ان کے ہا تھ پر اسلام قبول کیا ۔ جب گھر گئے ، بڑے خو ش ، ماں نے پو چھا بیٹا بڑے خوش نظر آتے ہو ۔ امی !اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سعادت دی کہ اتنے لو گو ں نے اسلام قبول کیا ۔ ماں نے کہا کہ بیٹا یہ تیرا کمال نہیں ہے یہ میرا کما ل ہے ۔ امی ! آپ نے صحیح کہا ، لیکن کیسے ؟ کہنے لگی کہ بیٹا جب تو چھو ٹا تھا تو میں نے کبھی تجھے بے وضو دودھ نہیں پلایا ۔ یہ وضو کی بر کت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے ہا تھ پر سات لاکھ انسانوں کو کلمہ پڑ ھنے کی تو فیق عطا فر ما دی ۔
اور آج کیا حال ہے کہ بچے کو سینے سے لگا کر فیڈ دے رہی ہو تی ہیں اور بیٹھی ڈرامہ دیکھ رہی ہوتی ہیں ۔گانے چل رہے ہیں،سن رہی ہیں اور بچے کو دودھ پلا رہی ہیں اور پھر کہتی ہیں کہ میری مانتا نہیں،اگر یہی حا ل ہو گا تو بچے نا فرما ن نہیں ہو نگے تو اور کیا ہو گا؟ یا درکھیے : بچوں کی تر بیت مستقل ایک کا م ہے ما ں با پ کو ابتد اء سے ہی بچو ں کی نیکی کی طرف اٹھا نا چا ہئے ۔

Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Thursday, September 13, 2012

دھوکہ بازی

اسلام علیکم
نکاح کے نام پر دھوکہ دینے کا ایک سلسلہ جو میرے خیال میں ہے تو کافی پرانا لیکن بہت سارے لوگوں کے لئے نیا ہوگا اس حوالے سے ہمارے ایک قاری نے کمنٹ لکھی ہے جسے یہاں دیا جارہا ہے۔

Dear mai aap ki site parh rha hu or kash mai shadi sy pehlay parh layta , aap yaqeenan bhot ghree nazar rakhty hay society mai laykin mery saath aik bara ajeeb or na samjh aanay wala silsila hua , aaj kal pakistan mai asy groups bhi active hy jo apni betio ki shadi bahir k larko sy kara tay hay then wo larkia acha khasa pasa batoor kar gold lay kar yeh keh kar pakistan wapis ajti hay shadi k 3 sy 6 month mai k unky walid ya unki walda icu mai admit hay then na to unka ata pata hota hy then saray contacts change ho jaty hay sab kuch badal jata hay chukay dhokay bazi ki hoti hay .or court sy ya to wo yeh keh kar Khula lay lyti hy k Shor laa pata hay ya Nikha per Nikha kar lyti hay sath sath Abortion jasi laantay bhi in mai basti hay . Dear Nikha per Nikha Divorse ki asal haqeeqat ya Khula kin sharyaat per hoti hy or Abortion jasa Gunha is per Deeni nazar rakh kar lazmi kuch aap likhya takay dosri behn betio ko maloom ho saky k Khula , Talaq or Abortion kis qism ka Gunha hay or Nikha kabhi bhi Planed ya is neeyat sy nahi hota k pasnd aaya to theek hy wrna Talaq . Kindly aap is per lazmi kuch likhya ga thx .

Wednesday, September 12, 2012

میاں بیوی کے رشتے (شوہر)۔


میاں بیوی کے رشتے کے اپنے تحفظات بھی ہیں، جیساکہ میاں بیوی کے تعلق اور رشتے سے ظاہر ہے، لیکن ان میں سے کوئی ایک شرائط عقد سے مخل ہونے لگے، رشتے کے لوازمات سے اعراض کرے، اور جھگڑوں کے باعث افہام و تفہیم کی کوئی صورت نہ رہے، اور گھر بگڑنے لگے اورکسی ایک یا دونوں کی ناسمجھی کے باعث فساد اور بگاڑ پیدا ہوجائے، تو ان کا ایک چھت کے نیچے رہنا سوائے وقت ، مال و دولت کے ضیاع کے کچھ نہیں ہوتااور اس کے برے اثرات خاندان او ربچوں پر بھی پڑتے ہیں۔
طلاق کی اجازت میں حکمت الٰہیہ پوشیدہ ہے۔ کیونکہ شریعت نے نہ تو طلاق دینے کا حکم دیا اور نہ ہی اس کی ترغیب دی ہے، بلکہ اس کی اجازت انتہائی ناپسندیدگی کے ساتھ چند قیود لگا کر دی ہے۔
اس لئے اس اعتراف کے بغیر کوئی چارہ نہیں، کہ اگر طلاق اور تفریق کی اجازت نہ ہوتی تو شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ معاشرت میں کئی ایسی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا جس کو سہنا اس کے بس میں نہیں ہوتا اور بگاڑ مزید عام ہوجاتا ۔ گناہ اور شرور بڑھ جاتے اور پھر ان کی زندگی دشوار گزار راستے پر چلنے کی دعوت دیتی اور معشوقات اور آشنا بنانے سے کوئی روک ٹوک نہ ہوتی ،لیکن ان سب حالات سے روکنے، خاندان، عزت اور ارواح کی حفاظت کے لئے شریعت اسلامیہ نے مرد کو طلاق دینے کی اجازت عطا فرمائی ہے، اسی طرح عورت کو بھی اپنے شوہر کے سوء اخلاق، کسی عیب اور ا س سے تکلیف پہنچنے کی بناء پر اجازت دی ہے کہ وہ اپنا معاملہ قاضی کی عدالت میں پیش کرے اور قاضی معاملہ کی نوعیت کو دیکھ کر ان کے درمیان جدائی کا فیصلہ کرے۔

Saturday, September 8, 2012

بچے کو شروع سے ہی صفا ئی کا عادی بنانا


بچے کو شروع سے ہی صفا ئی کا عادی بنانا
بچے کو بچپن ہی سے صفا ئی رکھنا سکھا ئیں ۔ یہ ماں کی ذمہ دا ری ہو تی ہے ۔ ان کو یہ سمجھا ئیں کہ اللہ رب العزت پا کیزہ رہنے والوں سے محبت فرماتے ہیں ۔﴿ واللہ یحب المتطھرین ﴾ اور اللہ تعالیٰ طہا رت کر نے والوں سے محبت فرماتے ہیں ۔کہیں تو فرما یا ﴿الطھو رنصف الا یمان ﴾ پا کیز گی تو آدھا ایمان ہے ۔آپ یو ں سمجھائیں گی کہ اللہ رب العزت تو بچوں کی صفائی کو پسند فرما تے ہیں تو پھر بچہ صا ف رہنا پسند کرے گا ۔ چنا نچہ اچھے لو گ پیدا نہیں ہو تے بلکہ اچھے لوگ تو بنائے جا تے ہیں ۔ مائیں اپنی گو دوں میں لو گوں کو اچھا بنا دیا کر تی ہیں ۔ گر می کے مو سم میں بچے کو روزانہ غسل کروائیں کپڑے گندے دیکھیں تو فو راً بدل دیں بستر نا پاک ہر گز نہ رہنے دیں ۔ فو راً اسے پاک کر دیں ۔ لہٰذا بچوں کی تر بیت کا خاص خیا ل رکھیں ۔ کئی مر تبہ ایسا بھی ہو تا ہے کہ کئی بچے ہیں بہت چھو ٹے ہیں ایک پیٹ میں ہے ۔ دوسرا گو د میں ہے تیسر ے نے انگلی پکڑی ہو ئی ہے ۔ چو تھا صحن کے اند ر شور مچا رہا ہے ۔ پا نچواں پڑ وسی کے بچے کو ایذادے رہا ہے ۔ اب عورت کو سمجھ نہیں آ رہی کھا ئے کدھر کی چوٹ ، بچا ئے کد ھر کی چوٹ ۔ یہ ماں بیچا ری کس پر تو جہ دے اور کس پر تو جہ نہ دے۔ اس با رے میں بھی سن لیجئے۔ ” فتاوی شامی اور فتا ویٰ عالمگیری نے فتویٰ لکھا ہے کہ بچو ں کی تر بیت کی خا طر دو بچو ں کے درمیان منا سب و قفہ رکھنے کے لئے عورت کو دوا کھا نے کی اجازت ہے ۔ اتنا وقفہ ہو کہ جس میں بچوں کی تر بیت اچھی ہو سکے ۔
انما الا عمال بالنیا ت “ اعمال کا دارو مد ارنیت کے اوپر ہو تا ہے اگر یہ دل میں نیت ہو کہ ہم غریب ہیں آ نے والے بچے کو ، کیسے پا لیں گے ، تو یہ کفر کی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں کہ ﴿ ولا تقتلوااولادکم خشیتہ املا ق ﴾ یہ جو خشیتہ املاق کے الفا ظ ہیں مفسر ین نے لکھا کہ یہ شر ط لگا دی گئی ۔ اگر ذہن میں ہے کہ یہ کھا ئیں گے کہاں سے ۔ بچیا ں زیادہ ہو گئیں تو ہم ان کے جہیز کہاں سے بنائیں گے ۔ اگر رزق کا ڈر ہے تو اس ڈر سے اگر کو ئی ایسی با ت کی تو یہ کفر ہے منع ہے حرا م ہے لیکن اگر نیت کو ئی اور ہے ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ صحت اجا زت نہیں دیتی یا تر بیت کا معاملہ ہے کہ عورت چا ہتی ہے کہ میرے بچے تر بیت پا ئیں ۔ بجا ئے اس کے کہ یہ بر ے ہوں اور دنیا میں گنہگار لو گوں کا اضافہ زیادہ ہو جائے ۔ میں بچو ں کی اچھی تر بیت کر نا چا ہتی ہوں لہٰذا تر بیت کی نیت سے اگر کچھ وقفہ رکھنے کے لیے کوئی دوائی کھا نی چا ہے تو فتاویٰ شا می اور عالمگیری میں علما ء نے اس کے با رے میں اجازت لکھی ہے ۔


Wednesday, September 5, 2012

روزانہ ایک حدیث عربی متن اور ترجمہ کے ساتھ باحوالہ حاصل کریں

یہاں اپنا ای میل ایڈریس لکھیں اور ہر روز باحوالہ حدیث عربی متن کے ساتھ حاصل  کریں۔ اپنے دوستوں کو بھی بتائیں اور دعاوں میں یاد رکھیں۔

ENTER YOUR EMAIL ADDRESS AND RECEIVE A HADITH DAILY ARABIC TEXT, WITH ENGLISH TRANSLATION AND REFERENCE.:


Delivered by FeedBurner

Sunday, September 2, 2012

طلاق کی تعریف

طلاق کی تعریف
یہ زوجیت کے رشتے کی گرہ کھولنا ہے جیسے کوئی شخص کہے تو طلاق والی ہے (یا تجھے طلاق ہے) اس کو طلاق صریح کہتے ہیں، یا طلاق کنایہ ہو جیسے شوہر اپنی بیوی کو کہے اپنے گھر چلی جا(دفع ہوجا) برقع اوڑھ لے اور اس میں طلاق کی نیت کرلے۔
طلاق زندگی میں آنے والی مشکلات کا فوری حل نہیں ہے بلکہ اسے پہلے پیار سے سمجھانا، نصیحت کرنا، بستر الگ کردینا اور ہلکی سی پٹائی کرنا یا بڑوں سے فیصلہ کرانا ضروری ہے اس کے بعد دو مرتبہ تک طلاق دینا حلال ہے، البتہ تیسری طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں رہتی، ایک ساتھ تین طلاق دینا جائز نہیں ہے۔
طلاق کا حکم
طلاق میاں بیوی سے ضرر دور کرنے کیلئے مشروع ہے اور جائز ہے اس کے دلائل بہت ہیں۔ مشہور آیت ”الطلاق مرتان“ ہے۔
الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ولایحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدود اللہ فاولئک ھم الظلمون
طلاق دوبار ہے پھر یا تو بطریق شائستہ رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا اور جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکے ہو ان میں سے کچھ واپس لے لو، ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ خدا کی حدودوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں، یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں، ان سے باہرنہ نکلنا اور جو لوگ خدا کی حدوں سے باہر نکل جائیں وہ گناہگار ہوں گے۔
اسی طرح سورئہ طلاق کی آیت نمبر
۱ میں ہے:
یاایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن واحصوا العدة
اے پیغمبر! جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شماررکھو۔
حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ماہواری کے دن طلاق دے دی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس کے طہر تک اسے چھوڑ رکھ اور پھر جب اسے حیض آجائے پھر پاک ہوجائے تو پھر جی چاہے تو اسے رکھ لے ورنہ اسے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دے۔
طلاق کے جواز پر اجماع بھی ہے اور حالات طلاق کے جواز کی دلیل ہیں، کیونکہ کبھی کبھی میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی نہیں رہتی اور کسی ایک کو شدید ضرر لاحق ہوجاتا ہے اور شادی کو باقی رکھنا محض ایک خرابی ہوتا ہے اور شوہر پر خرچے اور رہائش کا انتظام لازم کرنا ا س کے لئے محض نقصان ہوتاہے اور بیوی کو ان حالات میں روکے رکھنا سو معاشرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ہمیشہ بے فائدہ جھگڑے ہوتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی میں بگاڑ کو دور کرنے کے لئے طلاق کو جائز قرار دیاہے۔ جیساکہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیوی کی بدزبانی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طلاق دینے کا حکم دیا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت بغیر کسی وجہ کے شوہر سے طلاق مانگے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
شادی کرنا نظام تناسل برقرار رکھنے کی مصلحت کی بناء پرسنت واجبہ ہے۔ اسی نظام کے قائم رہنے میں مصلحت اور فائدہ ہے۔ لیکن طلاق میں سنت کا تعطل اور مصلحت کو فاسد کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ مفسدین کو پسند نہیں فرماتے، اسی وجہ سے طلاق حلال ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ 
Enter your email addressاپنا ای میل لکھیں اور بذریعہ ای میل نیا مضمون حاصل کریں۔:


Delivered by FeedBurner