Sunday, September 2, 2012

طلاق کی تعریف

طلاق کی تعریف
یہ زوجیت کے رشتے کی گرہ کھولنا ہے جیسے کوئی شخص کہے تو طلاق والی ہے (یا تجھے طلاق ہے) اس کو طلاق صریح کہتے ہیں، یا طلاق کنایہ ہو جیسے شوہر اپنی بیوی کو کہے اپنے گھر چلی جا(دفع ہوجا) برقع اوڑھ لے اور اس میں طلاق کی نیت کرلے۔
طلاق زندگی میں آنے والی مشکلات کا فوری حل نہیں ہے بلکہ اسے پہلے پیار سے سمجھانا، نصیحت کرنا، بستر الگ کردینا اور ہلکی سی پٹائی کرنا یا بڑوں سے فیصلہ کرانا ضروری ہے اس کے بعد دو مرتبہ تک طلاق دینا حلال ہے، البتہ تیسری طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں رہتی، ایک ساتھ تین طلاق دینا جائز نہیں ہے۔
طلاق کا حکم
طلاق میاں بیوی سے ضرر دور کرنے کیلئے مشروع ہے اور جائز ہے اس کے دلائل بہت ہیں۔ مشہور آیت ”الطلاق مرتان“ ہے۔
الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ولایحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدود اللہ فاولئک ھم الظلمون
طلاق دوبار ہے پھر یا تو بطریق شائستہ رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا اور جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکے ہو ان میں سے کچھ واپس لے لو، ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ خدا کی حدودوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں، یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں، ان سے باہرنہ نکلنا اور جو لوگ خدا کی حدوں سے باہر نکل جائیں وہ گناہگار ہوں گے۔
اسی طرح سورئہ طلاق کی آیت نمبر
۱ میں ہے:
یاایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن واحصوا العدة
اے پیغمبر! جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شماررکھو۔
حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ماہواری کے دن طلاق دے دی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس کے طہر تک اسے چھوڑ رکھ اور پھر جب اسے حیض آجائے پھر پاک ہوجائے تو پھر جی چاہے تو اسے رکھ لے ورنہ اسے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دے۔
طلاق کے جواز پر اجماع بھی ہے اور حالات طلاق کے جواز کی دلیل ہیں، کیونکہ کبھی کبھی میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی نہیں رہتی اور کسی ایک کو شدید ضرر لاحق ہوجاتا ہے اور شادی کو باقی رکھنا محض ایک خرابی ہوتا ہے اور شوہر پر خرچے اور رہائش کا انتظام لازم کرنا ا س کے لئے محض نقصان ہوتاہے اور بیوی کو ان حالات میں روکے رکھنا سو معاشرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ہمیشہ بے فائدہ جھگڑے ہوتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی میں بگاڑ کو دور کرنے کے لئے طلاق کو جائز قرار دیاہے۔ جیساکہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیوی کی بدزبانی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طلاق دینے کا حکم دیا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت بغیر کسی وجہ کے شوہر سے طلاق مانگے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
شادی کرنا نظام تناسل برقرار رکھنے کی مصلحت کی بناء پرسنت واجبہ ہے۔ اسی نظام کے قائم رہنے میں مصلحت اور فائدہ ہے۔ لیکن طلاق میں سنت کا تعطل اور مصلحت کو فاسد کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ مفسدین کو پسند نہیں فرماتے، اسی وجہ سے طلاق حلال ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ 
Enter your email addressاپنا ای میل لکھیں اور بذریعہ ای میل نیا مضمون حاصل کریں۔:


Delivered by FeedBurner

No comments:

Post a Comment