Monday, September 24, 2012

بچوں کو بد دعا نہ دینے کی نصیحت


بچوں کو بد دعا نہ دینے کی نصیحت
آ ج بچیوں کو تربیت کا پتہ نہیں ہو تا کئی تو ایسی ہو تی ہیں بچا ری کہ چھو ٹے سے بچے سے اگر غلطی ہوئی یا بچے نے رونا شروع کر دیا تو غصے میں آکر اب اس کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیا کہہ رہی ہیں کبھی اپنے آپ کو کوسنا شروع کر دیتی ہیں میں مر جاتی تو اچھا تھا کبھی بچے کو بد دعائیں دینا شروع کر دیتی ہیں یاد رکھنا کہ بچے کو کبھی بد دعا نہ دینا کوئی زندگی میں ایسا وقت نہ آئے کہ غصے میں آ کے بد دعائیں دینے لگ جا نا ایسا کبھی نہ کرنا ۔ اللہ پا ک کے ہاں ماں کا جو مقام ہو تا ہے ۔ ماں کے دل اور زبا ن سے جو دعا نکلتی ہے وہ سیدھی اوپر جا تی ہے عر ش کے دروازے کھل جا تے ہیں تو دعا اللہ کے یہاں پیش کردی جاتی ہے ، اور قبول کردی جاتی ہے۔ مگر شیطان بڑا مردود ہے وہ ماں کے ذہن میں یہ ڈالتا ہے کہ میں گالی تو دیتی ہوں مگر میر ے دل میں نہیں ہوتی ۔ یہ شیطان کا بڑا پھندا ہے ۔ حقیقت میں تو یہ بدد عا کے الفاظ کہلواتا ہے اور ماں کو تسلی دیتا ہے کہ تو نے کہا تو تھا کہ مر جا ؤ مگر تمہارے دل میں نہیں تھا ۔ کبھی بھی شیطان کے دھو کے میں نہ آنا ۔ بچے کو بد دعا نہ کر نا ۔ کئی مائیں بچوں کو بد دعائیں دے کر ان کی عاقبت خراب کر دیتی ہیں ۔ اپنی زندگی بر با د کر دیتی ہیں ۔
ماں کی بد دعا کا اثر
ایک عورت کو اللہ نے بیٹا دیا مگر غصے میں قابو نہیں پا سکتی تھی ، چھو ٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کو کوسنے لگ جا تی ایک دفعہ بچے نے کوئی بات ایسی کر دی غصہ آیا اور کہنے لگی ۔ کہ تو مر جاتا تو اچھا تھا ۔ اب ماں نے جو الفاظ کہہ دیئے اللہ نے اس کی دعا کو قبول کر لیا مگر بچے کو اس وقت مو ت نہیں دی بلکہ اس بچے کو اللہ تعالیٰ نے نیک بنایا ۔ اچھا بنا یا لائق بنا یا ۔ وہ بچہ بڑا ہو ا عین بھر پو ر جوانی کا وقت تھا یہ نیک بن گیا لو گوں میں عزت ہوئی لو گ نام لیتے کہ بیٹا ہو تو فلاں جیسا ہو ۔ پھر اللہ نے اس کو بخت دیئے کاروبار بھی اچھا ہو گیا تھا لوگوں میں اس کی عزت تھی ۔تذکرے اور چرچے تھے۔ اب ماں نے اس کی شادی کا پروگرام بنا یا ۔ خو بصورت لڑکی کو ڈھونڈا ۔ شادی کی تیاریاں کیں جب شادی میں چند دن باقی تھے ۔ اس وقت اللہ نے اس بیٹے کو مو ت عطا کر دی ۔ اب ماں رونے بیٹھ گئی ۔ میرا تو جوان بیٹا رخصت ہوگیا رو رو کر حال خراب ہو گئے ۔ کسی اللہ والے کو اللہ نے خواب میں بتایا ہم نے اس کی دعا کو ہی قبول کیا تھا جس نے بچپن میں کہا تھا کہ تو مر جا تا تو اچھا تھا۔ہم نے نعمت اس وقت واپس نہیں لی ۔ہم نے اس نعمت کو بھر پور بننے دیا ۔ جب عین شباب کے عالم میں جوانی کے عالم میں یہ پہنچا نعمت پک کر تیا ر ہو گئی ہم نے اس وقت پھل توڑا تا کہ ماں کو سمجھ لگ جائے کہ اس نے کس نعمت کی نا قدر ی کی۔ اب سو چئے اپنی بددعا اپنے سا منے آتی ہیں ۔یہ قصور کس کا ہو ا اولاد کا ہو ا یا ماں باپ کا ہو ا یہ ایک عبرت اور نصیحت پکڑنے کا ایک نمو نہ ہے ۔
حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کی دعا
بی بی مر یم علیہا السلام کے لئے اس کی ماں نے کتنی دعائیں کیں ۔ اور پھر یہ دعا ئیں کر تی رہیں یہی نہیں کہ بچے کی پیدائش ہو گئی تو دعا ئیں بند کر دیں ۔
قرآن مجید میں ہے کہ یہ اس کے بعد بھی دو دعائیں کر تی رہیں ۔
﴿ انی اعیذھا بک و ذریتھا من الشیطٰن الرجیم ﴾ ( ال عمران)
اے اللہ میں نے اپنی بیٹی کو اور اس کی آنے والی ذریت کو شیطا ن رجیم کے خلاف آپ کی پنا ہ میں دیا ۔ گو یا بچی چھو ٹی ہے مگر ماں کی محبت دیکھئے ۔ فقط اس بچے کے لئے ہی دعا ئیں نہیں مانگ رہی اس کی آنے والی نسلوں کے لئے بھی دعا مانگ رہی ہے ۔ اللہ رب العزت کو ماں کی یہ بات اتنی پسند آئی ۔ فرمایا :
﴿ فتقبلھا ربھا بقبول حسن وا نبتھا نبا تا حسنا ﴾ ( ال عمران )
اللہ رب العزت نے پھر اس بچی کو قبول فر مالیا اور پھر اس کی تر بیت فرمائی تو یہ ماں کی دعا تھی اور مر بی تو حقیقت میں اللہ رب العزت ہے ۔ تو ماں کی دعا ؤ ں کو قبولیت حاصل ہے ۔بچو ں کی جسمانی نشوونما اور اخلا قی اور روحانی تر بیت یہ والدین کی ذمہ دا ری ہو تی ہے ۔ جو والدین اس ذمہ دا ری کو احسن انداز میں پو را کر تے ہیں ان کی اولاد دنیا میں ان کے لئے راحت و آرام کا سبب بنتی ہے اور آخرت میں تر قی درجات کا سبب بنتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اولاد کی ذمہ داریا ں پو ری کر نے کی تو فیق عطا فرمائے ۔

No comments:

Post a Comment