Thursday, November 29, 2012

الوداع اور استقبا ل کے لمحات


خاوند کا استقبال باہر کی پر یشانیوں کو ختم کر دیتا ہے ۔ یہ استقبا ل اور الوداع یوں سمجھئے کہ عورت کی ازدواجی زندگی پر تو واجب کی ما نند ہے۔
عرب عورتوں سے ایک مر تبہ سوال پو چھا گیا کہ تم اپنے خا وند کو الو داع کر تے ہوئے کیا کہتی ہو ۔ تو مختلف عورتوں نے اپنے مختلف الفاظ بیان کئے ۔
ایک کہنے لگی۔ کہ ﴿فی امان اللہ فی جوار اللہ ﴾ میں یو ں کہتی ہوں ۔
دوسری نے کہا کہ میں کہتی ہوں ۔﴿یا رب اعدہ لی سریعا و سلیما﴾
اے اللہ !ان کو جلد ی سلامتی کے ساتھ واپس لوٹا دینا ۔
ایک نے کہا نے میں تو یوں کہتی ہوں :
﴿یا رب احفظہ لی انہ زوج مثالی واب لا یعود اطفا لی﴾
اے اللہ ان کی حفا ظت کر نا ۔ یہ میرے مثا لی خا وند ہیں ۔ اور میرے بچوں کے ایسے باپ ہیں کہ ان کا کوئی نعم البدل نہیں۔
ایک نے کہا کہ میں تو اپنے خاوند کو الوادع ہو تے ہو ئے کہتی ہوں :
﴿ھل سیعو د لی ثا نیة﴾
ایسا مکھڑا دوبا رہ دیکھنے کی مجھے کب سعادت ملے گی“۔
ایک نے کہا کہ میں تو کہتی ہوں :
﴿اتق اللہ فینا ولا تطعمنا الا حلا لا ﴾
آپ اللہ سے ڈریے گا اور ہمیں وہی لا کر دیجئے گا جو حلا ل ہو ۔
تو کیا ہماری عورتیں بھی اس قسم کا کو ئی پیغام اپنے خا وند کو دیتی ہیں ۔ ان کو تو پتہ ہی نہیں ہو تا کہ خاوند تیا رہوکر کب چلاگیا اور کب گھر میں آگیا ۔ یا د رکھنا جب اپنوں سے کوئی قصور ہو تا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ اپنا بھی قصور ہو تا ہے۔ اگر خاوند آپ کی طرف توجہ نہیں کر تا تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ نہ کچھ قصور تو آپ کا بھی ہے ۔ مانا کی خاوند کا قصور زیادہ ہے مگر تھوڑا سہی، ہے تو آپ کا بھی ۔
استقبا ل کا ایک انو کھا واقعہ
اے میری مسلمان بہن!
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات کے واقعات میں سے ایک واقعہ پڑ ھ لیجئے۔ کہ جب ان کے خاوند گھر لو ٹتے تھے تو وہ ان کاکس قدر اچھا استقبال کر تی تھیں ۔
یہ ایک جلیل القدر اور عظیم المر تبت صحا بیہ ہیں جس کانام ہے: ام سلیم رضی اللہ عنہا ۔ یہ معروف صحا بی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہا اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ہیں ۔ انکا بچہ بیماری کی حالت میں فوت ہو گیا تھا جب کہ ان کے خاوند گھر سے باہر تھے ۔ جب ان کے خاوند ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سفر سے واپس آئے اور بیوی سے پو چھا کہ بچے کا کیا حال ہے ، تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے خود ان کو اس بچے کی مو ت کی خبر نہ دی ، بلکہ پہلے اپنے خاوند کو کھانا کھلا یا پھر رات کے وقت انہوں نے حق زوجیت بھی اداکیا اور اس کے بعد بڑی حکمت سے انہیں یہ غمناک خبر سنائی۔
کتب احادیث میں یہ واقعہ اس طرح مذکو رہے :
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بچہ بیمار تھا ۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اسی حالت میں سفر پر نکل پڑے ۔ بعد میں بچہ فوت ہو گیا ۔ جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گھر واپس تشریف لائے تو پو چھا کہ میرے بچے کا کیا حال ہے بچے کی ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بچہ پہلے سے زیادہ سکون میں ہے ۔ پھر اس نیک بیوی نے اپنے خاوند کی خدمت میں شام کاکھا نا پیش کیا تو انہوں نے کھا نا کھالیا ۔ پھر رات کے وقت انہوں نے حقوق زوجیت بھی ادا کئے ۔ جب فا رغ ہو گئے تو نیک بیوی خود اپنے خا وند کو مخا طب ہو کر سوال کر تی ہے کہ اگر کسی نے کسی سے کوئی چیز ادھار مانگی ہو اور جب تک اللہ نے چا ہا وہ ان کے پاس رہی ہو تو پھر جب چیز کے مالک نے اپنی چیز کی واپسی کا مطالبہ کیا ہو تو کیا اس کو حق حا صل ہے کہ وہ اس چیز کو واپس کر نے سے انکار کر ے ؟ یا جب وہ مالک اپنی چیز اپنے قبضے میں کر لے تو کیا اس کی امانت کو واپس کر نے والے کے لیے یہ منا سب ہے کہ وہ اس پر رونا پیٹنا شروع کر دے ؟
اس سوال پر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جو اب دیا: نہیں
پھر نیک بیوی نے کہا کہ آپ کا بیٹابھی دنیا سے چلا گیا ہے (یعنی اللہ نے اپنی یہ امانت ہم سے واپس لے لی ہے۔
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : وہ کدھر ہے ؟ ام سیلم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وہ اس کو ٹھر ی میں ہے ۔ ابو طلحہ نے اس کا چہرہ دیکھا اور ﴿انا للہ وانا الیہ راجعون ﴾ پڑھا ۔ جب صبح ہو ئی تو ابو طلحہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س جاکر اپنی بیوی کی یہ با ت سنا ئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے ، اس عورت کے اپنے بچے پر صبر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے پیٹ میں ایک اور بچہ پیدا کر دیا ہے ۔ سفیان رحمة اللہ علیہ (اس حدیث کے ایک راوی ) بیان کر تے ہیں کہ ایک انصاری شخص سے میں نے سنا، وہ کہتا تھا کہ میں نے ان کے ہاں نو بچے پیدا ہو تے دیکھے اور وہ سب کے سب قرآن مجیدکے قاری تھے “۔ (صحیح بخاری)
اللہ اکبر ! حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کس قدر دانا عورت تھی ۔ کیا کسی مرد کے لیے بھی اس خبر سے بڑھ کر کوئی پر یشان کن خبر ہو گی کہ اس کو اس کے لخت جگر کی موت کی خبر دی جا ئے اور وہ اس پر ام سلیم رضی اللہ عنہا کی طرح حکمت و دانائی کا اظہا ر کر ے ۔ ایسی خبر سے ایک باپ پر کیا گزرتا ہے اور اسے کتنا بڑا صدمہ پہنچتا ہے ۔ لیکن ام سلیم رضی اللہ عنہا کی عظمت کو سلام !کہ وہ خوف و گھبراہٹ میں مبتلا کر دینے والی ایسی خبر میں بھی اللہ کی تقدیر پر رضاو التسلیم کے ساتھ اپنے خاوند کا استقبال کر رہی ہیں ۔
اس واقعہ پر ہر نیک خاتون کو غور کر نا چا ہیے کہ جب ام سلیم رضی اللہ عنہا کے خاوند نے پہلا سوال اپنے بیمار بیٹے کے بارے میں کیا کہ اس کا کیا حال ہے تو ان کی بیوی نے فوراً یہ نہیں کہہ دیا کہ وہ فوت ہو گیا ہے ، بلکہ اس سمجھدار بیوی نے اپنے خاوند کو غم میں ڈالنے والی خبر ہر گز نہیں دی کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ میرا خاوند تھکا وٹ اور پر یشانی کے عالم میں گھر آیا ہے ۔ پھر اس نیک بیوی نے اس وقت غلط بیانی سے بھی کام نہیں لیا بلکہ اس نے خا وند کے سوال کے جو اب میں یہ کہا تھا کہ ” وہ بچہ پہلے سے زیادہ سکون میں ہے “۔
یعنی ام سلیم رضی اللہ عنہا نے سوال کے جواب میں ” تور یہ“ کیا(توریہ ، یہ ہے کہ ایسی بات کہی جا ئے جس کے دو مفہوم ہوں ) کیونکہ وہ بچہ موت کی وجہ سے واقعتا سکون میں پہنچ چکا تھا…!
پھر وہ سمجھدار بیوی اپنے خاوند کو بچے کی موت کی خبر دینے سے پہلے شام کا کھانا کھلا تی ہے کیونکہ اگر وہ اسے کھا نے سے پہلے خبر دے دیتی تو عین ممکن تھا کہ پر یشانی کے عالم میں وہ کھانا بھی نہ کھا تے …!
پھر وہ اپنے خاوند کو حقوق زوجیت اداکر لینے کا بھی مو قع دیتی ہے ۔ پھر اسکے بعد جب وہ سمجھتی ہے کہ میرا خاوند اب اس قابل ہوگیا ہے کہ وہ غم اوررنج والی خبر سن سکے تو پھر بھی وہ نیک بیوی بچے کی خبر دینے کے لیے ایک عجیب مقد مہ با ند ھتی ہے جسے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی قضا و قدر کو تسلیم کر نے کی ایک تمہید تھی چنا نچہ وہ خود اپنے خاوند پر ایک سوال ڈال دیتی ہے ، وہ یہ کہ اگر کسی کے پاس کسی کی کوئی چیز امانت کے طور پر رکھی ہو اور صا حب ِامانت جب اُس سے امانت کی واپسی کا مطالبہ کر ے تو کیا جس کے پا س امانت رکھی ہو ، اسے یہ حق حاصل ہے کہ اما نت واپس کر تے وقت واویلا شروع کر دے ؟
تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ نہیں ، ا س کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ امانت واپس کرتے وقت واویلا کر ے ۔ پھر ا س جواب کے بعد اس نیک صالح بیوی نے خاوند کو بتا یا کہ آپ کا بیٹا بھی جس کی اما نت تھا، اس نے طلب کر لیا ہے…! 

Tuesday, November 27, 2012

دفعتاً تین طلاقیں دینے سے تینوں کے واقع ہونے کی وجہ


اگر کوئی نادان طلاق کے اس بہترین طریقہ کو اختیار ہی نہ کرے اور اس کو جاننے کی حد تک بھی معلوم نہ کرے، بے سوچے سمجھے محض جوش غضب میں تین طلاقیں دے بیٹھے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے، دین و شریعت پر کچھ الزام نہیں، وہ خود اپنے اوپر روئے اور اپنے کئے پر آنسو بہائے۔ غلط اور غیر مشروع طریقہ اختیارکرنے کی یہی سزا ہے۔ جب خود ہی اس نے اپنی سارے اختیارات اور شریعت کی دی ہوئی آسانیاں نظر انداز کردیں اور بلاوجہ اور بلاضرورت ختم کردیں تو اب اس کی سز ایہ ہے کہ نہ رجعت ہوسکے اور نہ بغیر دوسری شادی کے آپس میں نکاح ہوسکے۔
بعض لوگ اس مشہور مثل ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کا مصداق ہوتے ہیں اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ دلی ارادہ کے بغیر غصہ میں دینے سے تینوں طلاقیں کیوں ہوگئیں؟ اس کے علاوہ بھی وہ طرح طرح کی باتیں اور اعتراضات کرتے ہیں اور عقل سے کورا ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، ان کا جواب عقلی اور عرفی طور پر تو یہی ہے کہ کسی فعل کا جرم و گناہ ہونا اس کے موثر ہونے میں کہیں بھی منع نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی کو ناحق قتل کرنا جرم بھی ہے اور گناہ عظیم بھی ہے، لیکن اس کے باوجود کوئی شخص نادانی میں کسی کو تین گولیاں مار دے یا غصہ میں تلوار سے مار کر قتل کردے تو جس کو گولی مار کریا تلوار سے قتل کیا گیا وہ تو قتل ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی موت تواس کا انتظار نہیں کرتی کہ یہ گولی جائز طریقہ سے ماری گئی ہے یا ناجائز طریقہ سے اور تلوار غصہ میں چلائی گئی ہے یا محبت میں، سمجھ کر ماری گئی ہے یا ناسمجھی میں۔
ایک اور مثال لے لو۔ چوری کرنا باتفاق مذاہب جرم و گناہ ہے مگر جو مال اس طرح غائب کردیا گیا وہ تو ہاتھ سے نکل ہی جاتا ہے۔ یہی حال تمام معاصی اور جرائم کا ہے۔ ان کا جرم و گناہ ہونا ان کے اثر کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتا، تو ایک دم تین طلاقیں دے دینا بے شک جرم و گناہ ہے۔ لیکن کوئی دے گا تو تینوں واقع ہوجائیں گی۔
شرعی جواب یہ ہے کہ متعدد صحیح حدیثوں میں اکٹھی دی جانی والی تین طلاقوں کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے معتبر مانا ہے اور نافذ کیا ہے، اگرچہ اس نامشروع طریقہ سے طلاق کے دینے پر سخت ناراضگی کااظہار بھی فرمایا ہے۔ چنانچہ امام نسائی رحمة اللہ علیہ نے بروایت محمود بن لبیدرحمة اللہ علیہ نقل کیا ہے کہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے متعلق خبر دی گئی جس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جارہاہے، حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، اتنے میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول ! کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟“ (نسائی شریف، کتاب الطلاق، صفحہ ۹۸ جلد ۲ )
تشریح:
یہ بڑی معتبر، صحیح اور مستند حدیث ہے۔ حافظ ابن القیم رحمة اللہ علیہ نے صحیح علیٰ شرط مسلم قرار دیاہے۔ (زادالمعاد) اور جوہر نقی میں علامہ ماوردی رحمة اللہ علیہ نے اس کی سند صحیح اور ابن کثیررحمة اللہ علیہ نے اسناد جید اور ابن حجررحمة اللہ علیہ نے رواہ موٴثقون فرمایا ہے، اور اس حدیث میں تین طلاقیں بیک وقت دینے پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی ناراضگی کا اظہار فرمایا اور بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس شخص کو مستوجب قتل بھی سمجھا، مگر یہ کہیں منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طلاقوں کو کالعدم یا تین کو ایک طلاق رجعی قرار دے کر بیوی اس کے حوالہ کردی ہو، بلکہ قاضی ابوبکر بن عربی رحمة اللہ علیہ نے یہ الفاظ بھی اس حدیث کے متعلق نقل کئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تینوں طلاقوں کو نافذ فرمادیا تھا۔
ان تمام احادیث سے یہ ثابت ہوگیا کہ بیک وقت تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں کالعدم کرنے کی کوشش کرنا یا تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی قرار دینا محض جہالت ہے اور ایسا کرنے سے حرام حلال نہیں ہوسکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح نکاح ایک اہم معاملہ ہے اور اس کے لئے عرصہ سے تیاریاں کی جاتی ہیں اور بڑے غور و فکر اور بہت سوچ سمجھ کر شرعی طریقہ سے کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح طلاق کا معاملہ بھی بڑا اہم معاملہ ہے، بلکہ بعض اعتبار سے نکاح سے بھی زیادہ اہم اور نازک معاملہ ہے اور شریعت اسلامیہ نے اس کا بھی طریقہ بتلایا ہے ۔ اس طریقے کو اختیار کرنا لازم و واجب ہے، اس کو فراموش کرکے طلاق کے سلسلے میں اپنے آپ کو آزاد سمجھنا اور بے سوچے سمجھے جوش غضب میں بے دھڑک طلاق کا استعمال کرنا نہ صرف ناجائز اور گناہ ہے بلکہ معاشرتی طور پر بھی اس کے نتائج بڑے تشویشناک اور پریشان کن ہیں۔ سلامتی اور عافیت صرف اسی طریقہ میں ہے جو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمایا ہے، ضرورت شدیدہ میں اسی طریقہ پر عمل کرنا چاہئے اور غلط روش سے توبہ کرکے ہمیشہ کے لئے اجتناب کرنا چاہئے۔
آپ کی معلومات کے لئے قدرے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ لہذا ان معلومات سے غفلت ہرگز نہ برتی جائے اور خاص طور پر نیچے لکھی گئی باتوں کو بار بار پڑھیں، بلکہ خوب یاد کرلیں اور اپنے دوست احباب کو بھی بتائیں۔
(۱)… جہاں تک ہوسکے طلاق دینے سے پرہیز کیا جائے۔
(۲) …اگر طلاق دینا ضروری ہو تو صرف ایک طلاق دی جائے اور خاوند اپنی بیوی سے یوں کہے ”میں نے تجھے ایک طلاق دی۔
(۳)… اگر کسی وجہ سے یہ طلاق دے دی ہے تو کوشش کی جائے کہ عدت کے اندر اندر رجوع کرلیا جائے اور آئندہ کے لئے احتیاط سے کام لیا جائے اور اب یہ صرف دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو باہم اتحاد و اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کرنے اور طلاق جیسی ناپسندیدہ چیز سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ نبیہ الکریم۔
حلالہ کی شرعی حیثیت
ارشاد خداوندی ہے:
فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ
(سورہٴ بقرہ ۲/۲۳۰)
پس اگر وہ اسے تیسری طلاق بھی دے دے تو اس کے بعد وہ عورت اس (پہلے خاوند) کے لئے حلال نہ ہوگی جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے۔
قرآن پاک کی اس آیت میں جو عمل بتایا گیا ہے اسے ”حلالہ“ کہا جاتا ہے۔ گویا حلالہ یہ ہے کہ جب کوئی عورت تین طلاقوں کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے اورپھر وہ شخص حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے اسے طلاق دے تو اب عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔ چونکہ دوسرے خاوند کے نکاح میں آنا اور اس کا حقوق زوجیت ادا کرنا اس عور ت کو پہلے خاوندکے لئے حلال کردیتا ہے، اس لئے اس عمل کو حلالہ یا تحلیل کہا جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحقیقی بحث کا ذکر ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں، دو طلاقوں کے بعد خاوند عورت سے تین قسم کا سلوک کرسکتا ہے۔
پہلا یہ کہ رجوع کرے اور قرآن پاک میں جو ”امسک بمعروف“ فرمایا گیا ہے اس سے یہی مرادہے۔
دوسرا یہ کہ رجوع نہ کرے اور نہ تیسری طلاق دے بلکہ اسی طرح چھوڑ دے۔ حتیٰ کہ اس کی عدت پوری ہوجائے اور ان کے درمیان جدائی ہوجائے ”اوتسریح باحسان“ سے یہی مراد ہے۔
تیسر ایہ کہ اسے تیسری طلاق دے دے۔ قرآن پاک کی آیت ”فان طلقھا فلا تحل لہ“ سے یہی مراد ہے۔ (فخر الدین رازی، تفسیر کبیر۶/۱۱۱)
حلالہ میں یہ بھی شرط ہے کہ دوسرا خاوند جماع کرے او رپھر طلاق دے ورنہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی۔ یہ بات قرآن پاک سے بھی ثابت ہے اور احادیث مبارکہ سے بھی۔
حضرت امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
عربوں کے ہاں لفظ نکاح کا استعمال مختلف طریقوں پر ہوتا ہے۔ جب وہ کہتے ہیں ”نکح فلان فلانة“ (فلاں مرد نے فلاں عورت سے نکاح کیا) تو یہاں وہ عقد نکاح مراد لیتے ہیں اور جب وہ کہتے ہیں ”نکح (فلان) امراتہ اوزجتہ“ فلاں نے اپنی بیوی (زوجہ) سے نکاح کیا تو اس سے جماع مراد ہوتا ہے۔
فخر الدین رازی تفسیر کبیر ۶/۱۱۲)
چونکہ اس آیت میں لفظ زوج اور لفظ تنکح دونوں وارد ہوئے ہیں۔ اس لئے مندرجہ بالا ضابطہ کے مطابق لفظ تنکح سے مراد جماع ہوگا۔
ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت رفاعہ قرظی نے ایک خاتون (تمیمہ) سے نکاح کیا، پھر اسے طلاق دے دی۔ اب اس خاتون نے دوسرے شخص (حضرت عبدالرحمن بن زبیر) سے نکاح کیا۔ پھر اس خاتون نے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ وہ (دوسرا خاوند) حقوق زوجیت ادا نہیں کرسکتے اور ان کے پاس کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم اس وقت تک پہلے خاوند سے نکاح نہیں کرسکتی جب تک تم اس خاوند کا ذائقہ اور وہ تمہارا ذائقہ نہ چکھ لے۔“ (صحیح بخاری، باب اذا طلاقہا ثلاثاثم تزوجت بعدالعدة ۲/۸۰۱) گویا قرآن و سنت کی روشنی میں حلالہ اسی صورت میں ہوگا جب دوسرا خاوند حقوق زوجیت اد اکرے۔ 

Wednesday, November 21, 2012

خا وند کو دُعاؤ ں کے ساتھ رخصت کر نے کی نصیحت


جب بھی خا وند گھر سے رخصت ہو نے لگے اس کو ہمیشہ دعاکے ذریعے الود اع کہے ۔ فی امان اللہ کہے ۔ دعا دے۔ جیسے ہما ری بڑی عورتیں پہلے وقتوں میں اپنے میاں کو کہتی تھیں۔ یہ کتنی پیا ری بات ہے کہ میری امان اللہ کے حو الے ۔ جب آپ نے اپنی امانت اللہ کو حو الے کر دی تو اللہ تعالیٰ محا فظ ہے وہ آپ کی اما نت کی حفا ظت کر ے گا ۔ آج کتنی عورتیں ہیں جو خا وند کو گھر سے نکلتے ہو ئے یہ الفاظ کہتی ہیں ؟ بہت کم ۔ چو نکہ نہیں کہتی اس لئے ان کے خا وند وں کی حفا ظت بھی نہیں ہو تی ۔ پھر رو تی ہیں کہ خاوند با ہر جا تے ہیں تو ان کو با ہر زیادہ دلچسپی ہو تی ہے ۔ بھئی آپ نے تو اپنی اما نت اللہ کے حو الے ہی نہیں کی ، اب آپ اللہ سے کیا تو قع رکھتی ہیں ،کیوں وہ ان کی حفا طت کر ے ۔ تو نیک بیویاں ہمیشہ خا وند اور بچوں کو گھر سے رخصت ہو تے ہو ئے ان کو دعا دیتی ہیں ۔ اونچی آواز سے کہنے کی عادت ڈالیں بلکہ دروازے تک سا تھ آیا کر یں اور پھر کہا کریں ۔ فی امان اللہ ۔ فی حفظ اللہ ۔ فی جو ار اللہ ۔ کچھ نہ کچھ ایسے لفظ کہا کر یں ۔ یاویسے ہی کہہ دیا کر یں کہ میری امانت اللہ کے حو الے ۔ تو جب آپ اپنی امانت اللہ کے حوالے کر چکیں اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضا ئع نہیں ہو نے دیں گے ۔ اللہ تعالیٰ پہ بھروسہ اور یقین تو ہما ری زندگی کی بنیا د ہے۔تو ایک عادت یہ ہو کہ جب خاوند گھر سے رخصت ہو نے لگے تو دروازے تک جا کر اس کو الوداع کہیں دعا کے ذریعے اور جب خا وند گھر میں آئے جتنی بھی مصروف ہوں ایک منٹ کے لئے آپ کو فا رغ کر کے مسکرا کر اپنے خاوند کا استقبال کر یں ، جب بیو ی مسکر اکر خا وند کا استقبال کرے گی ہنستے مسکرا تے چہر ے کے ساتھ تو ظاہر ہے کہ خاوند کی نظر مسکرا تے چہرے پر پڑے گی تو اس کے دل میں بھی محبت اٹھے گی ۔ آج اس چیز پرعمل کم ہے اس لئے زند گی میں پر یشا نیاں زیا دہ ہیں۔

Tuesday, November 13, 2012

فون پر مختصر بات کر نے کی عادت بنانے کی نصیحت


فو ن پر بات مختصر کر نے کی عادت ڈالیں ۔ اس کا تعلق بندے کی عادت کے ساتھ ہے ۔ کئی عورتوں کو عادت ہو تی ہے کے بس فون کے اوپر بے مقصد گفتگو شروع کر دیتی ہیں …اس لئے فو ن پر مختصر سی با ت کر نے کی عادت ڈالیں ۔ اور اگر دوسری طرف کو ئی غیر محرم مرد ہے تو اپنے لہجے کے اندر سختی رکھیں کہ اگر اس نے دو فقرے بو لنے ہیں تو دو کی جگہ ایک فقرہ ہی بول کر فون بند کر دے ۔ اس کا اللہ نے حکم دیا ہے۔اللہ فر ماتے ہیں ۔
﴿
فلا تخضعن بالقول﴾(الاحزاب :۳۲) یعنی تمہیں غیر محر م سے گفتگو کرنی پڑ جائے تو اپنے لہجے میں لوچ مت پیدا کر و ۔ آج کل تو یہ ہو تا ہے کہ اگر مرد غیر محر م ہے تو ایسی میٹھی بن کے بات کریں گی کہ جیسے سا رے جہاں کی مٹھا س اس میں سمٹ آئی ہو ۔ شریعت میں اس کو حرام کہا گیا ۔
غیر محرم مرد سے بات ذرا جچے تلے میں کر ے ۔ ایک اصول سن لیں ۔ ہمیشہ با ت سے بات بڑھتی ہے ۔ یہ فقرہ یاد رکھ لیں کام آئے گا ۔ ”بات سے بات بڑھتی ہے “ پہلے انسان بات کر تا ہے اور بات کر نے کے بعد ملا قا ت کا دروازہ کھلتا ہے ۔اس کی دلیل قرآن پاک سے ملتی ہے ۔ ایک لا کھ پچیس ہزار پیغمبر علیہم السلام آئے مگر ان میں سے کسی نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کا اظہا ر نہیں کیا ۔دنیا میں صرف حضرت مو سیٰ علیہ السلام تھے جنہوں نے کہا ﴿ارنی انطر الیک ﴾(الا عراف
۱۴۳) اے اللہ میں آپ کو دیکھنا چا ہتا ہوں۔ تو مفسرین نے لکھا کہ ایک لاکھ پچیس ہزار انبیا ء میں سے فقط حضرت موسی علیہ السلام نے یہ دعا کیوں مانگی کہ اے اللہ ! میں آپ کو دنیا میں دیکھنا چا ہتا ہوں ۔ تو مفسرین نے لکھا کہ اس لئے کہ وہ کلیم اللہ تھے ۔ اللہ سے گفتگو کر تے تھے ۔ جب کوئی گفتگو کر تا ہے تو پھر اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ متکلم سے ملا قات کر نے کو جی چا ہتا ہے ۔ تو یہاں سے معلوم ہوا کہ فون پر جب آپ بات بڑھا ئیں گی تو پھر اگلا قدم گنا ہ کی طرف جائے گا ۔ اس لئے پہلے قدم پر ہی اپنے آپ کو روک لیجئے ۔ جس گناہ کو انسان چھو ٹا سمجھے وہ بڑے گناہ کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے اگر کوئی بچی یہ سمجھتی ہے کہ میں تو کزن سے صرف فون پر بات کرتی ہوں تو یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ جس گناہ کو انسان چھو ٹا سمجھتا ہے وہ گنا ہ بڑے گناہ کا سبب بن جا تا ہے ۔ 

Monday, November 5, 2012

گھر کو صاف ستھرا رکھنے کی نصیحت


اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھئے ۔ کچھ عورتوں کی عادت ہو تی ہے کہ طبیعت میں سستی ہو تی ہے ۔ ہر وقت پھیلا ؤ ڈال دیتی ہیں ۔ گھر کے اند ر پھیلا ؤ کا ہونا ، چیزوں کا بے ترتیب پڑا ہو نا ، یہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے ۔ حد یث پاک میں آ یا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
﴿انَّ اللہ جمیل ویجب الجمال ﴾
اللہ تعالیٰ خود بھی خوبصورت ہے اور خو بصورتی کو پسند کر تا ہے
تو جب نبی علیہ السلام نے گو اہی دے دی کہ اللہ تعالیٰ خو بصورتی کو پسند کر تے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر کی بکھر ی پڑی چیز یں اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آتیں ۔ لہٰذا عورت اس نیت سے اپنے گھر کو صاف ستھرا ر کھے کہ میرے گھر کی چیزیں تر تیب سے پڑی ہوں گی اور گھر صاف ستھرا ہو گا تو میرے مالک کو یہ گھر اچھا لگے گا ۔ میری محنت قبول ہو جائے گی ۔ جب آپ گھر میں بیٹھی جھا ڑ ویا وائپیر چلا رہی ہوں تو یوں سمجھئے کہ گھر ہی صاف نہیں ہو رہا بلکہ اللہ تعالیٰ آپ کے دل کے گھر کو بھی صاف فرما رہے ہیں ۔ تو گھر کا جھا ڑو دینا یوں سمجھئے کہ میں بیٹھی اپنے دل کی ظلمت پر جھا ڑ و دے رہی ہوں ۔
گھر کو صاف ستھر ا رکھئے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
﴿ ان اللہ یحب التوا بین و یحب المتطھر ین ﴾
کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے بھی محبت کر تے ہیں اور پاکیزہ رہنے والوں سے بھی محبت کر تے ہیں ۔ اس لئے ہر چیز کا صاف ستھرا ہو نا ، پا کیزہ ہو نا اور گھر کی ہر وہ چیز کا سیٹ ہو نا اللہ تعالیٰ کی خو شنو دی کا سبب بنتا ہے ۔
چیزوں کو تر تیب سے رکھنے کاا جر
نبی علیہ السلام نے ایک حدیث پا ک میں فریا یا کہ عورت جب گھر میں پڑی ہو ئی کسی بے تر تیب چیز کو اٹھا کر تر تیب سے رکھ دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایک نیکی عطا فرماتے ہیں اور ایک گنا ہ معاف فرما دیتے ہیں ۔ اب دیکھئے ہر عورت گھر میں بر تن درست کر تی ہے تو اسے کتنی نیکیاں مل جا تی ہیں اور کتنے گنا ہ معاف ہو جا تے ہیں ۔ کپڑے سمیٹتی ہے ، چیزوں کو سمیٹتی ہے گھر میں روزانہ اپنے گھر کی چیزوں کو سیٹ کر دیتی ہے ۔ جتنی جتنی چیزوں کو اس نے اپنی اپنی جگہ پر رکھا ہر ہر چیز کو رکھنے کے بدلے ایک گنا ہ معا ف ہو ا اور ایک نیکی اللہ نے عطا فر ما دی ۔ اس طر ح دیکھئے کہ ایک عورت گھرمیں کام کاج کے دوران کتنا ثواب حا صل کر سکتی ہے ۔ اگر اس نیت سے گھر کو صاف رکھیں گی کہ لو گ آئیں گے اور تعریف کر یں گے تو یہ آ پ کی ساری محنت صفر ہو گئی ۔ اس لئے کہ مخلوق نے کہہ بھی دیا کہ برا اچھا گھر ہے تو آپ کو کیا مل گیا ۔ اگر اتنی محنت کر کے پسینہ بہا کے فقط لوگوں کی زبان سے ہی آپ نے سننا ہے کہ بھئی بڑا اچھا گھر ہے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ﴿ فقد قیل ﴾ یہ کہا جا چکا ۔ تو یہ نیت مت کر یں ۔ نیت یہ کر یں کہ گھر کو سیٹ کروں کیو نکہ میں گھر والی ہوں اور یہ میری ذمہ داری ہے ۔ اللہ تعالیٰ خوبصورت بھی ہیں اور خوبصورتی کو پسند بھی فر ماتے ہیں ، لہٰذا میں اپنے گھر کو سیٹ کر کے رکھوں گی ۔ سیٹ کر نے کا یہ مطلب نہیں ہو تا کہ اس میں آپ کر سٹل سجا ئیں گی اور اس میں آپ سینکڑوں ڈالر کی چیزیں لا کے رکھیں گی ۔ یہ سیٹ کر نا نہیں بلکہ جتنے و سائل ہوں جیسے بھی ہوں مگر چیز کے اند ر صفا ئی ہو اور سلیقہ مند ی ہو ۔ صفا ئی کے لئے کو ئی ڈالر وں کی ضرورت نہیں بلکہ انسان نے اپنے کپڑے تو دھو نے ہی ہو تے ہیں تو ذرا صاف ستھر ے کپڑے رکھنے کی عادت رکھ لے ۔ اسی طرح چیزوں کو تو سمیٹنا ہی ہو تا ہے تو سلیقہ مند ی سے چیزوں کو رکھ لے ۔ تو صفائی اور سلیقہ کا ہونا یہ گھر کے خوبصورت ہو نے کی دلیل ہوتی ہے ۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ ایسا چپس کا بنا ہو اہو ، ایسے پتھر ہوں کہ با ہر کے ملک سے آئے ہو ئے ہوں تب جا کے گھر خوبصورت ہوتا ہے۔ اس کو سمجھنے کی کو شش کر یں ۔ 

Saturday, November 3, 2012

خواتین کے لئے مواعظ متکلم اسلام


خواتین اسلام کے لیے اصلاحی و علمی بیانات، کتابی شکل میں

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن مدظلہ کے باحیا بہنوں سے کیے گئے بیانات کا حسین گلدستہ
احناف میڈیا اب پیش کرتے ہیں باحیا مسلمان مائوں بہنوں کے لیے ایک عظیم تحفہ۔ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ تعالی نے مختلف مقامات پر خواتین اسلام سے جو علمی و اصلاحی بیانات فرمائے، وہ اب کتابی شکل میں دستیاب ہیں۔ خوش و خرم گھریلو زندگی کے نسخے، اولاد کی تربیت، حقوق و فرائض، اسلام میں عورت کا بلند مقام، عقائد اہلسنت کی تفہیم انتہائی آسان انداز میں اور بہت کچھ۔ بلاشبہ یہ کتاب ہر گھر کی ضرورت ہے۔



Thursday, November 1, 2012

باہمی صلح و صفائی کا ایک عمدہ طریقہ


مذکورہ تین طریقے تو وہ تھے کہ جن کے ذریعے گھر کا جھگڑا گھر ہی میں ختم ہوجائے، لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جھگڑا طول پکڑلیتا ہے تو اس وجہ سے کہ بیوی کی طبیعت میں نافرمانی، سرکشی اور آزادی ہے یا اس بناء پر کہ خاوند کا قصور ہے اور اس کی طرف سے بے جا تشدد اور زیادتی ہے۔ بہرحال اس صورت میں گھر کی بات کا گھر سے باہر نکلنا لازمی ہے، لیکن عام عادت کے مطابق تو یہ ہوتا ہے کہ طرفین کے حامی ایک دوسرے کو برا کہتے ہیں اور الزام لگاتے پھرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں جانبین میں اشتعال پیدا ہوجاتا ہے او رپھر دو شخصوں کی لڑائی خاندانی جھگڑے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔
قرآن کریم نے اس فساد عظیم کو بند کرنے اور باہم صلح و صفائی کرانے کیلئے ایک بہت ہی پاکیزہ طریقہ بتایا ہے، اور وہ یہ ہے کہ برادری کے سربراہ اور معاملہ فہم حضرات یا ارباب حکومت یا فریقین کے اولیاء دوحَکَم (صلح کرانے والے) مقرر کریں۔ ایک مرد کے خاندان سے، دوسرا عورت کے خاندان سے اور دونوں حکم میں یہ اوصاف موجود ہوں ۔
(۱)… دونوں ذی علم ہوں۔
(
۲) …دیانت دار ہوں۔
(
۳)… نیک نیت ہوں اور دل سے چاہتے ہوں کہ ان میں صلح ہوجائے۔
اور پھر صلح و صفائی کی پوری کوشش کریں، جب ایسے حکم ان دونوں میاں بیوی کے درمیان اخلاص کے ساتھ صلح کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی غیبی امداد ہوگی اور یہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہوں گے، اور ان کے ذریعے دونوں میاں بیوی کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اتفاق و محبت پید افرمائیں گے۔
(از معارف القرآن جلد
۲ بتصرف)
نکاح کا مقصد طلاق دینا نہیں
اسلامی تعلیمات کا اصل رخ یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ اور معاہدہ عمر بھر کیلئے ہو، اس کے توڑنے اور ختم کرنے کی نوبت ہی نہ آئے، کیونکہ نکاح ختم ہونے کا اثر صرف میاں بیوی پرنہیں پڑتا، بلکہ نسل و اولاد کی تباہی و بربادی اور بعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد تک کی نوبت پہنچتی ہے، اور پور امعاشرہ اس سے بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اسی لئے جو اسباب اور وجوہ اس رشتہ کو توڑنے کا سبب بن سکتے ہیں، قرآن و سنت کی تعلیمات نے ان تمام اسباب کو راہ سے ہٹانے کاپورا انتظام کیا ہے۔
زوجین کے ہر معاملہ اور ہر حال کے لئے جو ہدایتیں قرآن و سنت میں مذکور ہیں، ان سب کا حاصل یہی ہے کہ یہ رشتہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا جائے، ٹوٹنے نہ پائے ، نااتفاقی ہونے کی صورت میں جیسا کہ تفصیل سے ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ اول افہام و تفہیم کی پھر زجر و تنبیہ کی ہدایتیں دی گئیں ہیں اور اگر بات زیادہ بڑھ جائے اور اس سے بھی کام نہ چلے تو خاندان ہی کے دو افراد کو حکم اور ثالث بنانے کا ارشاد کس قدر حکیمانہ ہے کہ اگر معاملہ خاندان سے باہر گیا تو بات بڑھ جانے اور دلوں میں اور زیادہ بعد پیدا ہوجانے کا خطرہ ہے۔ کاش ہم بھی ان پاکیزہ تعلیمات پر صحیح طریقہ سے عمل پیر اہوں۔ جذبات سے مغلوب ہونے کے بجائے خوب سوچ سمجھ کر اس بارے میں کوئی اقدام اٹھائیں۔