اگر کوئی نادان طلاق کے اس بہترین طریقہ کو اختیار ہی نہ کرے اور اس کو جاننے کی حد تک بھی معلوم نہ کرے، بے سوچے سمجھے محض جوش غضب میں تین طلاقیں دے بیٹھے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے، دین و شریعت پر کچھ الزام نہیں، وہ خود اپنے اوپر روئے اور اپنے کئے پر آنسو بہائے۔ غلط اور غیر مشروع طریقہ اختیارکرنے کی یہی سزا ہے۔ جب خود ہی اس نے اپنی سارے اختیارات اور شریعت کی دی ہوئی آسانیاں نظر انداز کردیں اور بلاوجہ اور بلاضرورت ختم کردیں تو اب اس کی سز ایہ ہے کہ نہ رجعت ہوسکے اور نہ بغیر دوسری شادی کے آپس میں نکاح ہوسکے۔
بعض لوگ اس مشہور مثل ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کا مصداق ہوتے ہیں اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ دلی ارادہ کے بغیر غصہ میں دینے سے تینوں طلاقیں کیوں ہوگئیں؟ اس کے علاوہ بھی وہ طرح طرح کی باتیں اور اعتراضات کرتے ہیں اور عقل سے کورا ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، ان کا جواب عقلی اور عرفی طور پر تو یہی ہے کہ کسی فعل کا جرم و گناہ ہونا اس کے موثر ہونے میں کہیں بھی منع نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی کو ناحق قتل کرنا جرم بھی ہے اور گناہ عظیم بھی ہے، لیکن اس کے باوجود کوئی شخص نادانی میں کسی کو تین گولیاں مار دے یا غصہ میں تلوار سے مار کر قتل کردے تو جس کو گولی مار کریا تلوار سے قتل کیا گیا وہ تو قتل ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی موت تواس کا انتظار نہیں کرتی کہ یہ گولی جائز طریقہ سے ماری گئی ہے یا ناجائز طریقہ سے اور تلوار غصہ میں چلائی گئی ہے یا محبت میں، سمجھ کر ماری گئی ہے یا ناسمجھی میں۔
ایک اور مثال لے لو۔ چوری کرنا باتفاق مذاہب جرم و گناہ ہے مگر جو مال اس طرح غائب کردیا گیا وہ تو ہاتھ سے نکل ہی جاتا ہے۔ یہی حال تمام معاصی اور جرائم کا ہے۔ ان کا جرم و گناہ ہونا ان کے اثر کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتا، تو ایک دم تین طلاقیں دے دینا بے شک جرم و گناہ ہے۔ لیکن کوئی دے گا تو تینوں واقع ہوجائیں گی۔
شرعی جواب یہ ہے کہ متعدد صحیح حدیثوں میں اکٹھی دی جانی والی تین طلاقوں کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے معتبر مانا ہے اور نافذ کیا ہے، اگرچہ اس نامشروع طریقہ سے طلاق کے دینے پر سخت ناراضگی کااظہار بھی فرمایا ہے۔ چنانچہ امام نسائی رحمة اللہ علیہ نے بروایت محمود بن لبیدرحمة اللہ علیہ نقل کیا ہے کہ:
”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے متعلق خبر دی گئی جس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جارہاہے، حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، اتنے میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول ! کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟“ (نسائی شریف، کتاب الطلاق، صفحہ ۹۸ جلد ۲ )
تشریح:
یہ بڑی معتبر، صحیح اور مستند حدیث ہے۔ حافظ ابن القیم رحمة اللہ علیہ نے صحیح علیٰ شرط مسلم قرار دیاہے۔ (زادالمعاد) اور جوہر نقی میں علامہ ماوردی رحمة اللہ علیہ نے اس کی سند صحیح اور ابن کثیررحمة اللہ علیہ نے اسناد جید اور ابن حجررحمة اللہ علیہ نے رواہ موٴثقون فرمایا ہے، اور اس حدیث میں تین طلاقیں بیک وقت دینے پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی ناراضگی کا اظہار فرمایا اور بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس شخص کو مستوجب قتل بھی سمجھا، مگر یہ کہیں منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طلاقوں کو کالعدم یا تین کو ایک طلاق رجعی قرار دے کر بیوی اس کے حوالہ کردی ہو، بلکہ قاضی ابوبکر بن عربی رحمة اللہ علیہ نے یہ الفاظ بھی اس حدیث کے متعلق نقل کئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تینوں طلاقوں کو نافذ فرمادیا تھا۔
ان تمام احادیث سے یہ ثابت ہوگیا کہ بیک وقت تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں کالعدم کرنے کی کوشش کرنا یا تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی قرار دینا محض جہالت ہے اور ایسا کرنے سے حرام حلال نہیں ہوسکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح نکاح ایک اہم معاملہ ہے اور اس کے لئے عرصہ سے تیاریاں کی جاتی ہیں اور بڑے غور و فکر اور بہت سوچ سمجھ کر شرعی طریقہ سے کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح طلاق کا معاملہ بھی بڑا اہم معاملہ ہے، بلکہ بعض اعتبار سے نکاح سے بھی زیادہ اہم اور نازک معاملہ ہے اور شریعت اسلامیہ نے اس کا بھی طریقہ بتلایا ہے ۔ اس طریقے کو اختیار کرنا لازم و واجب ہے، اس کو فراموش کرکے طلاق کے سلسلے میں اپنے آپ کو آزاد سمجھنا اور بے سوچے سمجھے جوش غضب میں بے دھڑک طلاق کا استعمال کرنا نہ صرف ناجائز اور گناہ ہے بلکہ معاشرتی طور پر بھی اس کے نتائج بڑے تشویشناک اور پریشان کن ہیں۔ سلامتی اور عافیت صرف اسی طریقہ میں ہے جو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمایا ہے، ضرورت شدیدہ میں اسی طریقہ پر عمل کرنا چاہئے اور غلط روش سے توبہ کرکے ہمیشہ کے لئے اجتناب کرنا چاہئے۔
آپ کی معلومات کے لئے قدرے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ لہذا ان معلومات سے غفلت ہرگز نہ برتی جائے اور خاص طور پر نیچے لکھی گئی باتوں کو بار بار پڑھیں، بلکہ خوب یاد کرلیں اور اپنے دوست احباب کو بھی بتائیں۔
(۱)… جہاں تک ہوسکے طلاق دینے سے پرہیز کیا جائے۔
(۲) …اگر طلاق دینا ضروری ہو تو صرف ایک طلاق دی جائے اور خاوند اپنی بیوی سے یوں کہے ”میں نے تجھے ایک طلاق دی۔“
یہ بڑی معتبر، صحیح اور مستند حدیث ہے۔ حافظ ابن القیم رحمة اللہ علیہ نے صحیح علیٰ شرط مسلم قرار دیاہے۔ (زادالمعاد) اور جوہر نقی میں علامہ ماوردی رحمة اللہ علیہ نے اس کی سند صحیح اور ابن کثیررحمة اللہ علیہ نے اسناد جید اور ابن حجررحمة اللہ علیہ نے رواہ موٴثقون فرمایا ہے، اور اس حدیث میں تین طلاقیں بیک وقت دینے پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی ناراضگی کا اظہار فرمایا اور بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس شخص کو مستوجب قتل بھی سمجھا، مگر یہ کہیں منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طلاقوں کو کالعدم یا تین کو ایک طلاق رجعی قرار دے کر بیوی اس کے حوالہ کردی ہو، بلکہ قاضی ابوبکر بن عربی رحمة اللہ علیہ نے یہ الفاظ بھی اس حدیث کے متعلق نقل کئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تینوں طلاقوں کو نافذ فرمادیا تھا۔
ان تمام احادیث سے یہ ثابت ہوگیا کہ بیک وقت تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں کالعدم کرنے کی کوشش کرنا یا تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی قرار دینا محض جہالت ہے اور ایسا کرنے سے حرام حلال نہیں ہوسکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح نکاح ایک اہم معاملہ ہے اور اس کے لئے عرصہ سے تیاریاں کی جاتی ہیں اور بڑے غور و فکر اور بہت سوچ سمجھ کر شرعی طریقہ سے کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح طلاق کا معاملہ بھی بڑا اہم معاملہ ہے، بلکہ بعض اعتبار سے نکاح سے بھی زیادہ اہم اور نازک معاملہ ہے اور شریعت اسلامیہ نے اس کا بھی طریقہ بتلایا ہے ۔ اس طریقے کو اختیار کرنا لازم و واجب ہے، اس کو فراموش کرکے طلاق کے سلسلے میں اپنے آپ کو آزاد سمجھنا اور بے سوچے سمجھے جوش غضب میں بے دھڑک طلاق کا استعمال کرنا نہ صرف ناجائز اور گناہ ہے بلکہ معاشرتی طور پر بھی اس کے نتائج بڑے تشویشناک اور پریشان کن ہیں۔ سلامتی اور عافیت صرف اسی طریقہ میں ہے جو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمایا ہے، ضرورت شدیدہ میں اسی طریقہ پر عمل کرنا چاہئے اور غلط روش سے توبہ کرکے ہمیشہ کے لئے اجتناب کرنا چاہئے۔
آپ کی معلومات کے لئے قدرے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ لہذا ان معلومات سے غفلت ہرگز نہ برتی جائے اور خاص طور پر نیچے لکھی گئی باتوں کو بار بار پڑھیں، بلکہ خوب یاد کرلیں اور اپنے دوست احباب کو بھی بتائیں۔
(۱)… جہاں تک ہوسکے طلاق دینے سے پرہیز کیا جائے۔
(۲) …اگر طلاق دینا ضروری ہو تو صرف ایک طلاق دی جائے اور خاوند اپنی بیوی سے یوں کہے ”میں نے تجھے ایک طلاق دی۔“
(۳)… اگر کسی وجہ سے یہ طلاق دے دی ہے تو کوشش کی جائے کہ عدت کے اندر اندر رجوع کرلیا جائے اور آئندہ کے لئے احتیاط سے کام لیا جائے اور اب یہ صرف دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو باہم اتحاد و اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کرنے اور طلاق جیسی ناپسندیدہ چیز سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ نبیہ الکریم۔
حلالہ کی شرعی حیثیت
ارشاد خداوندی ہے:
فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ
(سورہٴ بقرہ ۲/۲۳۰)
پس اگر وہ اسے تیسری طلاق بھی دے دے تو اس کے بعد وہ عورت اس (پہلے خاوند) کے لئے حلال نہ ہوگی جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے۔
قرآن پاک کی اس آیت میں جو عمل بتایا گیا ہے اسے ”حلالہ“ کہا جاتا ہے۔ گویا حلالہ یہ ہے کہ جب کوئی عورت تین طلاقوں کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے اورپھر وہ شخص حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے اسے طلاق دے تو اب عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔ چونکہ دوسرے خاوند کے نکاح میں آنا اور اس کا حقوق زوجیت ادا کرنا اس عور ت کو پہلے خاوندکے لئے حلال کردیتا ہے، اس لئے اس عمل کو حلالہ یا تحلیل کہا جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحقیقی بحث کا ذکر ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں، دو طلاقوں کے بعد خاوند عورت سے تین قسم کا سلوک کرسکتا ہے۔
پہلا یہ کہ رجوع کرے اور قرآن پاک میں جو ”امسک بمعروف“ فرمایا گیا ہے اس سے یہی مرادہے۔
دوسرا یہ کہ رجوع نہ کرے اور نہ تیسری طلاق دے بلکہ اسی طرح چھوڑ دے۔ حتیٰ کہ اس کی عدت پوری ہوجائے اور ان کے درمیان جدائی ہوجائے ”اوتسریح باحسان“ سے یہی مراد ہے۔
تیسر ایہ کہ اسے تیسری طلاق دے دے۔ قرآن پاک کی آیت ”فان طلقھا فلا تحل لہ“ سے یہی مراد ہے۔ (فخر الدین رازی، تفسیر کبیر۶/۱۱۱)
حلالہ میں یہ بھی شرط ہے کہ دوسرا خاوند جماع کرے او رپھر طلاق دے ورنہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی۔ یہ بات قرآن پاک سے بھی ثابت ہے اور احادیث مبارکہ سے بھی۔
حضرت امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
عربوں کے ہاں لفظ نکاح کا استعمال مختلف طریقوں پر ہوتا ہے۔ جب وہ کہتے ہیں ”نکح فلان فلانة“ (فلاں مرد نے فلاں عورت سے نکاح کیا) تو یہاں وہ عقد نکاح مراد لیتے ہیں اور جب وہ کہتے ہیں ”نکح (فلان) امراتہ اوزجتہ“ فلاں نے اپنی بیوی (زوجہ) سے نکاح کیا تو اس سے جماع مراد ہوتا ہے۔فخر الدین رازی تفسیر کبیر ۶/۱۱۲)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو باہم اتحاد و اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کرنے اور طلاق جیسی ناپسندیدہ چیز سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ نبیہ الکریم۔
حلالہ کی شرعی حیثیت
ارشاد خداوندی ہے:
فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ
(سورہٴ بقرہ ۲/۲۳۰)
پس اگر وہ اسے تیسری طلاق بھی دے دے تو اس کے بعد وہ عورت اس (پہلے خاوند) کے لئے حلال نہ ہوگی جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے۔
قرآن پاک کی اس آیت میں جو عمل بتایا گیا ہے اسے ”حلالہ“ کہا جاتا ہے۔ گویا حلالہ یہ ہے کہ جب کوئی عورت تین طلاقوں کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے اورپھر وہ شخص حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے اسے طلاق دے تو اب عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔ چونکہ دوسرے خاوند کے نکاح میں آنا اور اس کا حقوق زوجیت ادا کرنا اس عور ت کو پہلے خاوندکے لئے حلال کردیتا ہے، اس لئے اس عمل کو حلالہ یا تحلیل کہا جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحقیقی بحث کا ذکر ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں، دو طلاقوں کے بعد خاوند عورت سے تین قسم کا سلوک کرسکتا ہے۔
پہلا یہ کہ رجوع کرے اور قرآن پاک میں جو ”امسک بمعروف“ فرمایا گیا ہے اس سے یہی مرادہے۔
دوسرا یہ کہ رجوع نہ کرے اور نہ تیسری طلاق دے بلکہ اسی طرح چھوڑ دے۔ حتیٰ کہ اس کی عدت پوری ہوجائے اور ان کے درمیان جدائی ہوجائے ”اوتسریح باحسان“ سے یہی مراد ہے۔
تیسر ایہ کہ اسے تیسری طلاق دے دے۔ قرآن پاک کی آیت ”فان طلقھا فلا تحل لہ“ سے یہی مراد ہے۔ (فخر الدین رازی، تفسیر کبیر۶/۱۱۱)
حلالہ میں یہ بھی شرط ہے کہ دوسرا خاوند جماع کرے او رپھر طلاق دے ورنہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی۔ یہ بات قرآن پاک سے بھی ثابت ہے اور احادیث مبارکہ سے بھی۔
حضرت امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
عربوں کے ہاں لفظ نکاح کا استعمال مختلف طریقوں پر ہوتا ہے۔ جب وہ کہتے ہیں ”نکح فلان فلانة“ (فلاں مرد نے فلاں عورت سے نکاح کیا) تو یہاں وہ عقد نکاح مراد لیتے ہیں اور جب وہ کہتے ہیں ”نکح (فلان) امراتہ اوزجتہ“ فلاں نے اپنی بیوی (زوجہ) سے نکاح کیا تو اس سے جماع مراد ہوتا ہے۔فخر الدین رازی تفسیر کبیر ۶/۱۱۲)
چونکہ اس آیت میں لفظ زوج اور لفظ تنکح دونوں وارد ہوئے ہیں۔ اس لئے مندرجہ بالا ضابطہ کے مطابق لفظ تنکح سے مراد جماع ہوگا۔
ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت رفاعہ قرظی نے ایک خاتون (تمیمہ) سے نکاح کیا، پھر اسے طلاق دے دی۔ اب اس خاتون نے دوسرے شخص (حضرت عبدالرحمن بن زبیر) سے نکاح کیا۔ پھر اس خاتون نے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ وہ (دوسرا خاوند) حقوق زوجیت ادا نہیں کرسکتے اور ان کے پاس کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم اس وقت تک پہلے خاوند سے نکاح نہیں کرسکتی جب تک تم اس خاوند کا ذائقہ اور وہ تمہارا ذائقہ نہ چکھ لے۔“ (صحیح بخاری، باب اذا طلاقہا ثلاثاثم تزوجت بعدالعدة ۲/۸۰۱) گویا قرآن و سنت کی روشنی میں حلالہ اسی صورت میں ہوگا جب دوسرا خاوند حقوق زوجیت اد اکرے۔
ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت رفاعہ قرظی نے ایک خاتون (تمیمہ) سے نکاح کیا، پھر اسے طلاق دے دی۔ اب اس خاتون نے دوسرے شخص (حضرت عبدالرحمن بن زبیر) سے نکاح کیا۔ پھر اس خاتون نے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ وہ (دوسرا خاوند) حقوق زوجیت ادا نہیں کرسکتے اور ان کے پاس کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم اس وقت تک پہلے خاوند سے نکاح نہیں کرسکتی جب تک تم اس خاوند کا ذائقہ اور وہ تمہارا ذائقہ نہ چکھ لے۔“ (صحیح بخاری، باب اذا طلاقہا ثلاثاثم تزوجت بعدالعدة ۲/۸۰۱) گویا قرآن و سنت کی روشنی میں حلالہ اسی صورت میں ہوگا جب دوسرا خاوند حقوق زوجیت اد اکرے۔
No comments:
Post a Comment