مذکورہ تین طریقے تو وہ تھے کہ جن کے ذریعے گھر کا جھگڑا گھر ہی میں ختم ہوجائے، لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جھگڑا طول پکڑلیتا ہے تو اس وجہ سے کہ بیوی کی طبیعت میں نافرمانی، سرکشی اور آزادی ہے یا اس بناء پر کہ خاوند کا قصور ہے اور اس کی طرف سے بے جا تشدد اور زیادتی ہے۔ بہرحال اس صورت میں گھر کی بات کا گھر سے باہر نکلنا لازمی ہے، لیکن عام عادت کے مطابق تو یہ ہوتا ہے کہ طرفین کے حامی ایک دوسرے کو برا کہتے ہیں اور الزام لگاتے پھرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں جانبین میں اشتعال پیدا ہوجاتا ہے او رپھر دو شخصوں کی لڑائی خاندانی جھگڑے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔
قرآن کریم نے اس فساد عظیم کو بند کرنے اور باہم صلح و صفائی کرانے کیلئے ایک بہت ہی پاکیزہ طریقہ بتایا ہے، اور وہ یہ ہے کہ برادری کے سربراہ اور معاملہ فہم حضرات یا ارباب حکومت یا فریقین کے اولیاء دوحَکَم (صلح کرانے والے) مقرر کریں۔ ایک مرد کے خاندان سے، دوسرا عورت کے خاندان سے اور دونوں حکم میں یہ اوصاف موجود ہوں ۔
(۱)… دونوں ذی علم ہوں۔
(۲) …دیانت دار ہوں۔
(۳)… نیک نیت ہوں اور دل سے چاہتے ہوں کہ ان میں صلح ہوجائے۔
اور پھر صلح و صفائی کی پوری کوشش کریں، جب ایسے حکم ان دونوں میاں بیوی کے درمیان اخلاص کے ساتھ صلح کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی غیبی امداد ہوگی اور یہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہوں گے، اور ان کے ذریعے دونوں میاں بیوی کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اتفاق و محبت پید افرمائیں گے۔
(از معارف القرآن جلد ۲ بتصرف)
نکاح کا مقصد طلاق دینا نہیں
اسلامی تعلیمات کا اصل رخ یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ اور معاہدہ عمر بھر کیلئے ہو، اس کے توڑنے اور ختم کرنے کی نوبت ہی نہ آئے، کیونکہ نکاح ختم ہونے کا اثر صرف میاں بیوی پرنہیں پڑتا، بلکہ نسل و اولاد کی تباہی و بربادی اور بعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد تک کی نوبت پہنچتی ہے، اور پور امعاشرہ اس سے بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اسی لئے جو اسباب اور وجوہ اس رشتہ کو توڑنے کا سبب بن سکتے ہیں، قرآن و سنت کی تعلیمات نے ان تمام اسباب کو راہ سے ہٹانے کاپورا انتظام کیا ہے۔
زوجین کے ہر معاملہ اور ہر حال کے لئے جو ہدایتیں قرآن و سنت میں مذکور ہیں، ان سب کا حاصل یہی ہے کہ یہ رشتہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا جائے، ٹوٹنے نہ پائے ، نااتفاقی ہونے کی صورت میں جیسا کہ تفصیل سے ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ اول افہام و تفہیم کی پھر زجر و تنبیہ کی ہدایتیں دی گئیں ہیں اور اگر بات زیادہ بڑھ جائے اور اس سے بھی کام نہ چلے تو خاندان ہی کے دو افراد کو حکم اور ثالث بنانے کا ارشاد کس قدر حکیمانہ ہے کہ اگر معاملہ خاندان سے باہر گیا تو بات بڑھ جانے اور دلوں میں اور زیادہ بعد پیدا ہوجانے کا خطرہ ہے۔ کاش ہم بھی ان پاکیزہ تعلیمات پر صحیح طریقہ سے عمل پیر اہوں۔ جذبات سے مغلوب ہونے کے بجائے خوب سوچ سمجھ کر اس بارے میں کوئی اقدام اٹھائیں۔
No comments:
Post a Comment