Saturday, July 28, 2012

رزلٹ وفاق المدارس2012

انفرادى مکتب نتائج

  
  

شادی کے لئے معیار


یوی کے اقارب سے بے اعتنا ئی نہ کریں

بیوی کے اقارب سے بے اعتنا ئی نہ کرنے کی نصیحت
ایک بڑی غلطی عام طور پر جو خاوند لوگ کر لیتے ہیں وہ یہ ہے کہ بیوی کو کہتے ہیں کہ تم سے تو مجھے پیا ر ہے مگر تمہا رے ابو اچھے نہیں لگتے ، امی اچھی نہیں لگتی ، مجھے تمہا رے بھا ئی اچھے نہیں لگتے ۔ عورت کو اگر یہ کہہ دیا جا ئے کہ اس کے قر یب کے محرم مر دوں سے مجھے نفرت ہے تو سو چئے کہ پھر اس بچی کے دل پر کیا بیتے گی ۔ اس لئے کہ بیوی کا اپنے والدین کے ساتھ تعلق جذبا تی لگا ؤ میں داخل ہے اور فطری چیز ہے ۔وہ کبھی بر داشت نہیں کر سکتی کہ اس کے والدین کے بارے میں کوئی الٹی سیدھی با ت کر ے ۔ اگر وہ کسی مجبو ری کی وجہ سے خاموش بھی ہو جائے گی تو دل تو اس کا ضرور دکھے گا ۔ اس کی مثال ایسی سمجھیں کہ خاوند کے اپنے والدین کے با رے میں بیوی کچھ ایسی با تیں کر دے تو خاوند کے دل پر کیا گزرے گی ۔ اسی طرح جب خاوند بیوی کے والدین کے با رے میں بات کر تا ہے تو اس کے دل پر بھی وہی کچھ گزرتا ہے ۔
کبھی یہ با ت بھی ایک لڑائی کا ذریعہ بنتی ہے کہ خاوند چا ہتا ہے کہ میرے رشتے دار مطمئن رہیں اور بیوی چا ہتی ہے کہ میرے رشتہ دار مطمئن رہیں۔ اس کے لئے ایک بہترین نصیحت یہ ہے کہ شادی سے پہلے ان کا ایک با پ اور ایک ماں تھی اب شادی کے بعد دوباپ اور دومائیں ہیں ۔ کیونکہ شریعت نے ساس اور سسر کو ماں اور باپ کا درجہ دیا ۔ توجب بیوی ساس اور سسر کو ماں اورباپ کی نظر سے دیکھے گی تو جھگڑاہی نہیں رہے گا۔اسی طرح جب خا وند بھی ساس اور سسر کو ماں اور باپ کی نظر سے دیکھے گا تو لڑائی کا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا ۔ خاوند کے جتنے رشتے دار ہیں ان سب کے ساتھ شر عی طریقے پر اچھا تعلق رکھنا اور ان کو مطمئن رکھنا بیوی کی ذمہ داری ہو نی چا ہیے اور خاوند کی ذمہ داری یہ ہو کہ وہ بیوی کے رشتے داروں کو خوش رکھے ۔ جب گھر میں یہ ذمہ داریاں اس طرح تقسیم ہو جائیں کہ بیوی ہر وقت یہ سو چے کہ میں اپنے میاں کے رشتے داروں کو ہر وقت کیسے خوش رکھ سکتی ہوں ، اس کی امی کو کیسے خوش رکھوں ، اس کی بہنوں کو کیسے خوش رکھوں ، اس کے دوسرے رشتے داروں کے ساتھ بھی بنا کر رکھوں تو پھر دونوں کے درمیان جھگڑے کا کو ئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا ۔
لیکن آج کل نو جو ان تو عام طور پر یہ غلطی کر لیتے ہیں ۔وہ نہیں سمجھتے کہ اس کی کتنی اہمیت ہے ۔ اس لئے کہتے ہیں کہ خبردار ! تم نے اپنے گھر نہیں جا نا ۔ خبر دار تم نے اپنے گھر والوں سے بات نہیں کر نی ۔ اور یہ معاملہ بڑا عجیب ہو جا تا ہے ۔
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Sunday, July 22, 2012

بچے کی ماں کے دودھ پر پرورش اور اس کی اہمیت

بچے کی ماں کے دودھ پر پرورش اور اس کی اہمیت
عورت بچے کو اپنا دودھ پلائے۔ ماں پر بچے کا یہ حق ہے۔ قرآن نے اولاد کو ماں کا یہی احسان یاد دلا کر ماں کے ساتھ غیر معمولی حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ ماں کا فرض یہ کے وہ بچے کو اپنے دودھ کے ایک ایک قطرے کے ساتھ توحید کا درس دے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہوسلم اور دین کی محبت بھی پلائے اور اس محبت کو اس کے قلب و روح میں بسانے کی کوشش کرے۔ پرورش کی ذمہ داری کسی ملازمہ پر ڈال کر اپنا بوجھ ہلکا نہ کرے بلکہ اس خوشگوار دینی فریضے کو خود انجام دے کر روحانی سکون اور سرور محسوس کرے۔
مسلمان عورت اس امر کونہ بھولے کہ بچوں کی پرورش میں ماں کے دودھ کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
آج کل اکثر عورتیں اپنی ظاہری خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لیے ننھے بچے کو اپنا دودھ پلانے سے پرہیز کرتی ہیں۔ ان کی اپنی خود غرضانہ خواہش انہیں بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے مانع رکھتی ہے۔ بچے کو اس نعمت سے محروم رکھنا اس کے حق میں بہت بڑی نا انصافی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہوسلم نے ان عورتوں کی بہت تعریف و توصیف بیان فرمائی ہے جو بچوں کو اپنا دودھ پلانے کی قدرتی اور پاکیزہ ذمہ داری سے اچھی طرح عہدہ برا ہوتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہوسلم کا ارشاد ہے:
دودھ کے ہر گھونٹ کے عوض جو بچہ اپنی ماں کے چھاتی سے حاصل کرتا ہے عورت کے نامہٴ اعمال میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ اگر عورت اپنے بچے کی خاطر رات کو جاگتی ہے، اسے اللہ کی راہ میں ستر غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے“۔
ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہوسلم نے فرمایا:
جب ایک عورت اپنے ننھے بچے کو اپنا دودھ پلاتی ہے تو دودھ کے ہر گھونٹ کے عوض عورت کو ایک مرتے ہوئے شخص کی زندگی بچانے کے بقدر ثواب ملتا ہے۔ جب وہ اپنے بچے کو خوراک دیتی ہے تو ایک خاص فرشتہ اسے مبارکباد دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہارے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیئے گئے“(کنزالعمال)
نیز دودھ پلانے والی خاتون کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہوسلم نے اس مجاہد کی طرح بتایا جو اللہ کی راہ میں مسلسل پہرہ دے رہا ہو اور اگر اس دوران اس عورت کا انتقال ہو جائے تو وہ شہادت کا اجر پاتی ہے۔
جو خواتین جدید تہذیب کے تقاضوں سے متاثر ہو کر بچے کو دودھ نہیں پلاتیں یا اس خطرے سے اپنے بچے کو اپنے دودھ سے محروم رکھتی ہیں کہ دودھ پلانے سے ان کے حسن و جمال اور ان کی دلکشی اور رعنائی میں فرق آجائے گا اور ان کا شباب تباہ ہو جائے گا، وہ ماں ہوتے ہوئے بھی ماں کی مامتا، ماں کے جذبات اور ماں کے دل سے محروم ہیں، اس لیے کہ بچے کے لیے کوئی بھی دودھ ماں کے دودھ کا بدل نہیں بن سکتا۔ اس انداز سے سوچنے والی خواتین کو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہوسلم نے سخت تنبیہ فرمائی ہے۔ ان نا پسندیدہ محر کات کے تحت اپنے بچوں کو اپنے دودھ سے محروم کرنے والی خواتین کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہوسلم نے نہایت ہی درد ناک انجام سے ڈرایا ہے۔ معراج کی شب کا واقعہ بیان کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہوسلم فرماتے ہی:
﴿ثم انطلق بی فاذا بنساء تنھش ثدیھن الحیات قلت ما بال ھو لاء قیل ھو لا ء یمنعن اولا دھن البانھن ۔
(
تر غیب و ترہیب)
پھر(حضرت جبرائیل علیہ السلام ) مجھے اور آگے لے چلے کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ عورتیں ہیں جن کی چھاتیوں کو سانپ نوچ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون عورتیں ہیں، کہا گیا یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی تھیں“۔
ماں کا دودھ بچے کے لیے فطری غذا ہے جو اس کو بھر پور صحت اور توانائی بخشتا ہے۔ لیکن وہ صرف جسمانی غذا ہی نہیں بلکہ روحانی اور اخلاقی غذا بھی ہے۔ ماں کا دودھ بچے کے قلب و روح، جذبات، احساسات اور اخلاق و کردار پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔
ماں کو بچے سے جو غیر معمولی انس ، محبت ، گہراطبعی لگاوٴ اورا نتہائی قلبی اور روحانی تعلق ہوتا ہے اس میں بڑا حصہ دودھ کا ہے۔ جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی وہ بچے کے سینے میں اپنے لیے وہ جذ بات ہر گز نہیں پاسکتیں جو دودھ پلانے ہی سے پیدا ہوتے ہیں۔اگر انہیں بچوں کی طرف سے سرد مہری بے تعلقی اور بیگانگی کی شکایت ہے تو وہ خود اس کی ذمہ دار ہیں اس لیے کہ عمر کے ابتدائی دو سالوں میں اپنے گرم سینے سے لگا کر انہوں نے جب بچے کے سینے میں مہرو محبت خلوص و یگانگت اور روحانی قلبی تعلق کی گرمی منتقل ہی نہیں کی تو قدرتی طور پر اس کا یہی نتیجہ ہو نا چاہیے۔
اب جب کہ عورت کو اپنا دودھ پلانے سے متعلق اسلامی تعلیمات اور اس فرض کی ادائیگی میں ثواب سے آگاہ کر دیا گیا ہے، کوئی بھی مسلمان عورت جسے اپنے فرائض کی ادائیگی اور عدم ادائیگی سے متعلق خدا کا خوف ہو گا بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے ہر گز گریز نہیں کرے گی۔اگر چہ غیر مسلم طبی ماہرین نے عورت کا بچوں کو اپنا دودھ پلانے کے فوائد اور قدر و قیمت سے متعلق بہت کچھ لکھا ہے، ایک سچی مسلمان عورت کو ایسی ترغیبات کی قطعاََ ضرورت نہیں ہے اس کے لیے اپنے اس قدرتی اور اسلامی فرض کی ادائیگی کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
﴿قل اطیعوا اللہ و الرسول فان تو لو ا فان اللہ لایحب الکٰفرین ( آل عمران ۳۲)
ان سے کہو ” اللہ اوررسول کی اطاعت قبول کر لو “ پھر اگر وہ تمہا ری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لو گو ں سے محبت کر ے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکا ر کر تے ہو ں۔
﴿ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ﴾ (النسا ء۸۰)
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے در اصل اللہ کی اطاعت کی۔
اسلام نے یہ بھی اجازت دی ہے کہ والدہ کے علاوہ دوسری عورت بچہ کو دودھ پلائے اور رضائی ماں کا درجہ بھی تقریباََ حقیقی ماں کے برابر ہے۔ ماں بیماری اور نقاہت کی صورت میں بچے کی عام دودھ سے نشو ونما کر سکتی ہے۔ بہر حال مقصد بچے کو معینہ عرصہ تک دودھ پلانا ہے تاکہ اس کی مناسب نشوو نما ہو۔ والد پر یہ فرض ہے کہ بچہ اور اس کی والدہ کی کفالت کرے اور ان کے مصارف برداشت کرے۔

Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Saturday, July 14, 2012

بیویوں کو کچھ ذاتی خرچ دیں

بیویوں کو کچھ ذاتی خرچ دینے کی نصیحت
ایک بات ذہن میں رکھئے ۔ شر یعت کا یہ مسئلہ ہے کہ خاوند اپنے اخراجات جیسے مر ضی کر ے مگر بیوی کے لئے کچھ ذاتی خر چہ متعین کر دینا چا ہیے ۔ دیکھیں کہ اس نے اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو آپ کے حو الے کر دیا ، آپ کے لئے وقف کر دیا ۔ وہ خود تو کچھ کما تی نہیں، اس کی جملہ ضروریا ت آپ کے ذمے ہیں ۔ بحیثیت انسان اس کا بھی کہیں خرچ کر نے کو دل کر تا ہے ۔ اپنی مر ضی کی کوئی چیز خرید نے کا ، اپنے والدین یا عزیز واقارب کو کچھ دینے کا یا کچھ صدقہ خیرات کرنے کا ۔ تو فقہا ء نے لکھا ہے کہ خاوند کو بیوی کا ہر مہینے کا کچھ ذاتی خر چ متعین کر دینا چا ہیے ۔ وہ ہر مہینے اپنی بیوی کو دے کر بھول جا ئے اس کا حساب اس سے نہ ما نگے ، اب عورت کو اختیا ر ہے کہ وہ چا ہے تو اپنے کپڑے اور جوتوں پر اس کو خر چ کر ے اور اگر چا ہے تو اپنے بچوں پر اس کو خرچ کر ے ، یا چا ہے تو غرباء پر اس کو خرچ کر ے ۔ اس لئے کہ عورت کو بھی تو دل ہے کہ میں اللہ کے راستے میں اس کو خرچ کر وں ، ممکن ہے کہ وہ کسی غریب عورت کی امداد کر نا چا ہتی ہو، کوئی دکھی عورت اس کے علم میں ہو وہ اس عورت کو کچھ دینا چا ہتی ہو یا اللہ کے راستے میں خرچ کر نا چا ہتی ہو ۔ تو عورت کو یہ اختیا ر ہے کہ وہ اپنے پیسے جو جیب خرچ کے ہیں ان کو اپنی مر ضی سے خرچ کرے ۔ آج کل چو نکہ جیب خرچ متعین نہیں کیا جا تا ، لہٰذا گھر کے خرچے کو عورتیں جیب خرچ ہی سمجھ لیتی ہیں ، پھر خا وند جھگڑے کر تے ہیں کہ تم نے یہ پیسے کدھر کئے ، یہ کدھر کئے ، تو بہتر ہے کہ ہم اپنی زندگی کو شریعت و سنت کے مطابق گزاریں ۔
شریعت یہ نہیں کہتی کہ خا وند پر اتنا بو جھ ڈال دے کہ اٹھا نہ سکے ہاں جتنا جیب خرچ آسانی سے د ے سکتا ہے اتنا خرچ متعین کر دے ۔ ممکن ہے کہ وہ اپنے جسم کے لئے ، کپڑوں کے لئے کچھ چیزیں خریدنا چا ہے تو اس کو چھو ٹی چھو ٹی با توں میں خاوند کی منتیں تو نہ کر نی پڑ یں ، اس لئے شر یعت نے عورت کی عزت کا خیال رکھا کہ اپنی ذاتی ضرورت کے لئے ہر وقت کی محتا ج نہ رہے ، فقیروں کی طرح ہا تھ نہ پھیلا تی رہے۔

Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Thursday, July 12, 2012

برما کے مسلمانوں کی دعا


اولاد کی تربیت (بیوی)۔

اولاد کی تربیت کے بارے میں نصیحت
مرد کی نسبت عورت کو بچوں کی تربیت کرنے کے بہتر مواقع میسر ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سورة التحریم کی آیت قوا انفسکم و اھلیکم نارا کی تفسیر میں صحیح بخاری میں یہ قول منقول ہے۔
﴿کلکم راع وکلکم مسئول من رعیتہ الرجل راع علی اھلہ و ھو مسئول۔ المرا ة راعیتہ علی بیت زوجھا وھی مسئولة عنھا۔﴾
تم میں سے ہر ایک نگران و محافظ ہے اور تم میں سے ہر ایک سے پوچھا جائے گا ان لوگوں کی بابت جو تمہاری نگرانی میں ہوں گے۔ مرد اپنے اہل و عیال پر حکمران و نگران ہے اور وہ اپنی رعیت میں اپنے عمل پر اللہ کے سامنے جوابدہ ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حکمران ہے اور وہ اپنی حکومت کے دائرہ میں اپنے عمل کے لئے جوابدہ ہے۔
اس حدیث کا یہ ٹکڑا یہاں خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران ہے۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو صرف کھلانے پلانے ہی کا ذمہ دار نہیں ہے اس کے دین و اخلاق کی حفاظت و نگرانی بھی اس کے ذمہ ہے اور بیوی کی ذمہ داری دوگنی ہے۔ وہ شوہر کے گھر اور مال کی نگران تو ہے ہی ، اس کے بچوں کی تربیت کی خصوصی ذمہ داری بھی اس پر ہے۔ شوہر معاش کے حصول کے لیے زیادہ تر باہر رہتا ہے اور گھر میں بچے اپنی ماوٴں ہی سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔ اس لیے بچوں کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کی دوہری ذمہ داری ان کی ماں پر آتی ہے۔
اسلام کے اکثر مشاہیر نے ولایت اپنی والدہ کے ہاتھوں پائی ہے۔ ماں کی انتھک محنت، مادرانہ شفقت اور اخلاق و روحانی تربیت سے وہ بلند مقا مات تک پہنچے۔
ایک مسلمان بچے کی دینی تعلیم اس دنیا میں اس کے آنکھیں کھولنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ننھے بچے کے کانوں میں اذان اقامت کہی جاتی ہے۔ جو اس کے دل میں ایمان کی شمع روشن کرتی ہے۔ پیدا ہوتے ہی بچے کے کان میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہوسلم کا نام پہنچانے میں بڑی حکمت ہے۔ علامہ ابن قیم اپنی کتاب ”تحفة الودود“ میں فرماتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے کان میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کی آواز پہنچے اور جس شہادت کو وہ شعوری طور پر ادا کرنے کے بعد داخل اسلام ہو گا اس کی تلقین پیدائش کے دن ہی سے کی جائے جس طرح مرنے کے وقت اس کوکلمہ توحید کی تلقین کی جاتی ہے۔ اذان اور اقامت کا دوسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ شیطان جو گھات میں بیٹھا ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ پیدا ہوتے ہی انسان کو آزمائش میں مبتلا کر دے، اذان سنتے ہی بھاگ جاتا ہے اور شیطان کی دعوت سے پہلے بچے کو اسلام اور عبادت الٰہی کی دعوت دے دی جاتی ہے۔
آجکل اکثر و بیشتر خواتین اس امر پر یقین رکھتی ہیں کہ ان کے مادرانہ فرائض میں صرف بچوں کو کھلاناپلانا اور کپڑے پہنانا ہے، جب کے اسلام ان سے اس سے زیادہ کی توقع رکھتا ہے اور جسمانی صحت سے بھی زیادہ روحانی بالیدگی کو ترجیح دیتا ہے۔ عورت پر فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی، روحانی اور اخلاقی تربیت پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھے۔
جس قسم کی محبت کا اظہار آجکل کے والدین اپنے بچوں سے کرتے ہیں وہ سچی محبت نہیں ہے۔ یہ محبت تو سم قاتل ہے۔ ایسے ماں باپ جو اپنے ان فرائض سے غفلت برتتے ہیں جن کی نشاندہی اسلام نے کی ہے، بہت بڑے مجرم اور گنا ہگار ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو گہرے اندھیرو ں میں دھکیلنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسی محبت جو بچوں کو جہنم کا راستہ دکھائے بہت بڑی نا انصافی اور دشمنی ہے۔ والدین کو اپنی محبت کا رخ اس طرف موڑنا چاہیے جس کی نشاندہی شریعت کرتی ہے۔
اولاد اللہ کی طرف سے نعمت اور امانت ہے۔ اس امانت میں کسی طور پر خیانت نہیں ہونی چاہیے۔ والدین ان کی بُری تربیت کر کے خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں اور یوں ان کا مستقبل اور آخرت تباہ کر دیتے ہیں۔
والدین کے لیے اولاد کی صحیح تربیت کے متعلق ہدایات تو بہت ہیں مگر ہم یہاں خاص خاص کا ذکر کرتے ہیں۔
(
۱)…جاننا چاہیے کہ یہ امر بہت ہی خیال رکھنے کے قابل ہے کہ بچپن میں جو عادت بھلی یا بری پختہ ہو جاتی ہے وہ عمر بھر نہیں جاتی۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ بچوں کی عادات پر گہری نظر رکھی جائے۔ بچپن کی عادات اس کے کردار کی تعمیر کرتی ہیں۔
(
۲)…بچے کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے سے پرہیز کرے۔ بعض مائیں بچے میں اطاعت شعاری کی خاطر اسے جن بھوت سے ڈراتی ہیں، یہ بہت بری حرکت ہے، اس سے بچے کا دل کمزور ہو جاتا ہے۔ ابتدائی عمر کا یہ ڈر ساری عمر دل و دماغ پر چھا یا رہتا ہے اور ایسے بچے بالعموم زندگی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے کے لائق نہیں رہتے۔ والدین لاعلمی سے اپنے بچوں میں بہادری کے جذبات ابھارنے کی بجائے انہیں بزدل بنا دیتے ہیں۔
(
۳)…بچوں کی خوراک کے اوقات مقرر ہونے چاہئیں۔ وقت بے وقت کھلا کر ان کی عادات نہ خراب کریں۔ ایسا کرنے سے ان کی صحت پر بھی برا اثر پڑے گا۔
(
۴)…بچپن سے ہی انہیں مسواک کرنے کی عادت ڈالیں۔
(
۵)… بچوں کو ہدایت کریں کہ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوئیں۔
(
۶)…انہیں کھانے پینے ، سونے ، کپڑے پہننے، طہارت خانے میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کے آداب سے آگاہ کریں۔
(
۷)… بچہ جب بولنے کے قابل ہو تو والدہ سب سے پہلے اسے اللہ تعالیٰ کے نام سکھائے۔ بلکہ اس کی قوت گویائی سے بہت پہلے والدین اس کے سامنے قرآنی آیات ، اللہ تعالیٰ کے نام اور کلمہ پڑھا کریں۔ دودھ پیتے بچے کا ذہن جو کچھ سنتا ہے اور دیکھتا ہے اسے قبول کر لیتا ہے اور اپنے دماغ میں محفوظ کر لیتا ہے۔
(
۸)…والدین چھ ماہ کے بچے کے سامنے بھی اپنے ستر سے آزاد نہ ہوں۔
(
۹)…بچے کے دل میں عیش و عشرت کے سامان کی محبت نہ پیدا ہونے دیں اور انہیں نئے نئے فیشنوں سے دور رکھیں۔ ہمیشہ ان کو سادگی کا درس دیں۔
(
۱۰)… انہیں ہمیشہ صاف ستھرا رکھیں۔ ان کی طہارت، نظافت اور غسل کا خیال رکھیں۔ کپڑے بھی پاک صاف ہوں۔ بناوٴ سنگھار اور نمود و نمائش سے پرہیز کریں۔ لڑکی کے کپڑے بھی نہایت سادہ ہوں۔ زرق برق لباس پہنا کر بچوں کے مزاج کو خراب نہ کریں۔
(
۱۱)…عورت خواہ امیر کبیر ہو کبھی کبھار بچوں کو پیوند لگے کپڑے ضرور پہنائے۔
(
۱۲)…جب تک وہ جوانی کی حدود کو نہ چھونے لگے ، بچی کو زیورات نہ پہنائیں ورنہ زیورات اور بناوٴ سنگھار سے محبت بچپن ہی سے اس کے دل میں جڑ پکڑ لے گی۔
(
۱۳)…بچوں کے ہاتھ سے خوراک وغیرہ غریبوں کو دلوائیں تاکہ ان کے دل میں فراخدلی ، سخاوت اور فیاضی گھر کر جائے۔ کبھی کبھی یہ موقع بھی فراہم کریں کہ کھانے پینے کی چیزیں بہن بھائی خود ہی آپس میں تقسیم کر لیں تاکہ ایک دوسرے کے حقوق کا احساس اور انصاف کی عادت پیدا ہو۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ بچوں میں سب سے بڑا ماں کی نگرانی میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں میں تقسیم کرے۔
(
۱۴)…دوسروں کے سامنے بچوں کے عیب نہ بیان کریں اور کسی کے سامنے ان کو شرمندہ کرنے اور ان کی عزت نفس کو ٹھیس لگانے سے بھی سختی کے ساتھ پرہیز کریں۔
(
۱۵)…بچوں کو چیخنے چلانے اور اونچی آ واز میں گفتگو سے منع کریں اور ایسا کرنے سے خود بھی پرہیز کریں۔ درمیانی آواز میں نرمی کے ساتھ گفتگو کرنے کی تاکید کریں۔
(
۱۶)…بچوں کی ہر جاو بے جا ضد پوری نہ کریں بلکہ حکمت کے ساتھ ان کی یہ عادتیں چھڑانے کی کوشش کریں۔ کبھی کبھی مناسب سختی بھی کریں۔ بے جا لاڈ پیار سے ان کو ضدی اور خود سر نہ بنائیں۔
(
۱۷)…بچوں کو عادت ڈالیں کہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کریں۔ہر کام میں نوکروں کا سہارا نہ لیں۔ اس سے بچے کاہل ، سست اور اپاہج بن جاتے ہیں۔ بچوں کو جفاکش، محنتی اور سخت کوش بنائیں۔
(
۱۸)…ان کو باہر کے بچوں کے ساتھ ملنے جلنے سے روکیں۔ بہن بھائی اپنے گھر کی حدود کے اندر مل جل کر کھیلیں جہاں ان کی سب حرکات و سکنات ماں باپ کی نظروں کے سامنے ہوں گی۔
(
۱۹)…ان کو اڑوس پڑوس میں آوارہ پھرنے کی اجازت نہ دیں۔
(
۲۰)…اولاد کو بات بات پر ڈانٹنے، جھڑکنے اور برا بھلا کہنے سے سختی کے ساتھ پرہیز کریں اور ان کی کوتاہیوں پر غصہ ہونے اور نفرت کا اظہار کرنے کی بجائے حکمت و سوز کے ساتھ ان کی تر بیت کرنے کی محبت آمیز کوشش کریں۔ اپنے طرز عمل سے بچوں کے ذہن پر یہ خوف بہر حال غالب رکھیں کہ ان کی کوئی خلاف شرع بات وہ ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔
(
۲۱)…اولاد کے ساتھ ہمیشہ شفقت، محبت اور نرمی کا برتاوٴ کریں اور اپنی حیثیت کے مطابق ان کی ضروریات کو پورا کرکے ان کو خوش رکھیں اور ان میں اطاعت و فرمانبرداری کے جذبات ابھاریں۔
(
۲۲)…اولاد کو پاکیزہ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے لیے اپنی ساری کوشش اور توانائی صرف کردیں۔ اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں۔یہ عورت کی دینی ذمہ داری بھی ہے، اولاد کے ساتھ عظیم احسان اور اپنی ذات کے ساتھ سب سے بڑی بھلائی بھی۔
(
۲۳)…”اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور اس عمر کوپہنچنے کے بعد ان کے بستر الگ کر دو “ گو اس حدیث پر عمل کر وانے کی ذمہ داری
باپ پر ہے مگر والدہ بھی دیکھے کہ اس پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں ۔
(
۲۴)…وا لدہ بچوں کے سامنے کبھی بچوں کی اصلا ح سے مایو سی کا اظہا ر نہ کرے بلکہ ان کی ہمت بڑھا نے کے لیے ان کی معمولی معمولی اچھا ئیو ں کی بھی دل کھو ل کر تعریف
کرے۔ہمیشہ ان کا دل بڑھانے اوران میں خود اعتما د ی اور حوصلہ پیدا کرنے کی کو شش کرے تا کہ یہ کار گاہ حیات میں او نچے سے اونچامقا م حاصل کر سکیں۔
(
۲۵)…والدہ بچوں کو جنوں،پر یوں کے اوٹ پٹانگ قصے کہا نیاں نہ سنا ئے بلکہ ان کو نبیوں کے قصے ، صالحین کی کہا نیا ں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجا ہد انہ کا رنا مے ضرور سناتی رہے ۔ تر بیت و تہذیب کردار سازی اور دین سے شغف کے لیے اس کو انتہائی ضروری سمجھے اور ہزار مصرو فیتوں کے با وجود اس کے لیے وقت نکالے ۔ اکثرو بیشتر ان کو قرآن پاک بھی خوش الحا نی کے ساتھ پڑھ کر سنائے اور مو قع موقع سے نبی صلی اللہ علیہ والہوسلم کی احادیث بھی بتا ئے اور ابتدائی عمر ہی سے ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اجا گر کر نے کی کو شش کر ے ۔
(
۲۶)…بچو ں میں باہم لڑائی ہوجائے تو بچے کی بے جا حما یت نہ کرے ۔ یہ خیا ل رکھے کہ اپنے بچے کے لیے اس کے سینے میں جو جذبات ہیں وہی جذبات دوسروں کے سینے میں اپنے بچوں کے لیے ہیں ۔ ہمیشہ اپنے بچے کے قصوروں پر نگاہ رکھے اور ہر پیش آنے والے نا خوشگوار واقعہ میں اپنے بچے کی کوتاہی اور غلطی کا کھو ج لگا کر حکمت اور مسلسل تو جہ سے اس کو دور کرنے کی پر سوز کو شش کر ے ۔
(
۲۷)…اولاد کے ساتھ ہمیشہ برابری کا سلوک کر ے اور اس معاملے میں بے اعتدالی سے بچنے کو پوری پو ری کو شش کر ے ۔ اگر طبعاً کسی ایک بچے کی طرف زیا دہ میلان ہو تو معذوری ہے لیکن سلوک بر تاؤ اور لین دین میں ہمیشہ انصاف اور مسا وات کا لحاظ رکھے اور کبھی بھی کسی ایک کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک نہ کر ے جس کو دوسرے بچے محسوس کریں۔ اس سے دوسرے بچوں میں احسا س کمتری ،نفرت ، مایوسی اور آ خر کا ر بغا وت پیدا ہو گی اور یہ بر ے جذبات فطری صلا حیتوں کے پر وان چڑھنے میں زبر دست رکاوٹ اور اخلا قی و روحانی تر قی کے لیے سم قاتل ہیں ۔
(
۲۸)… بچوں کے سامنے ہمیشہ اچھا عملی نمونہ پیش کر ے ۔ اس کی اپنی زندگی بچوں کے لیے ایک ہمہ وقتی خاموش معلم ہے جس سے بچے ہر وقت پڑھتے اور سیکھتے رہتے ہیں ۔ بچوں کے سامنے کبھی مذاق میں بھی جھو ٹ نہ بو لے ۔
حضرت عبداللہ ابن عا مر رضی اللہ عنہ اپنا ایک قصہ بیان کر تے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف رکھتے تھے ۔ میری والدہ نے مجھے بلایا اور کہا ” یہاں آمیں تجھے چیز دوں گی “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا ۔ پو چھا ” تم بچے کو کیا دینا چا ہتی ہو “ والدہ بو لیں ” میں اس کو کھجور دینا چاہتی ہوں “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے فرمایا ” اگر تم دینے کا بہانہ کر کے بلاتیں اور بچے کے آنے پر کچھ نہ دیتیں تو تمہارے اعمال نامہ میں یہ جھوٹ لکھ دیا جا تا “۔
(
۲۹)… اپنے بچو ں کو بر ی صحبت سے بچا ئے ۔ ا ٓس پا س کے جن بچو ں کی عا د تیں خر اب ہیں یا وہ لکھنے پڑ ھنے سے بھا گتے ہیں یاتکلف کے کھا نے اور شو خ کپڑ ے پہننے کے عا دی ہیں ان کے پا س بیٹھنے سے اور ان کے ساتھ کھیلنے سے رو کے ۔
(
۳۰)… سو برائیوں کی ایک برا ئی ، ٹیلی ویژن ۔ اگر عورت چا ہتی ہے کہ بچوں کا مستقبل محفوظ رہے ، وہ پڑھ لکھ کر کسی قابل ہو جائیں ، دین و دنیا کی نظروں میں سر خرو ہوں تو ٹیلی ویژن کا داخلہ اپنے گھر میں ممنو ع قرار دیدے ۔
(
۳۱)… بچوں کو ایسے کھلونے لا کر نہ دے جو انسانوں یا حیوانوں کی شبا ہت سے مماثلث رکھتے ہو ں یا ان پر ایسی شکلیں بنی ہو ئی ہوں ۔
(
۳۲)…ان باتوں سے بچوں کو نفرت دلاتی رہے ، غصہ ، جھوٹ بولنا ، کسی کو دیکھ کر جلنا یا حسد کر نا ، چوری ، غیبت ، اپنی بات کی پچ کر نا ، خواہ مخواہ اس کو بنا نا ، بے فائدہ باتیں کر نا ، بات بے با ت ہنسنا یا زیادہ ہنسنا ، دھوکہ دینا ، بھلی بر ی با ت کا نہ سو چنا اور جھٹ منہ سے نکال دینا ۔ ان باتوں میں سے اگر کوئی بات ہو جائے تو فوراً روکے اور سختی سے تنبیہ کر ے ۔
(
۳۳)…بچے سے اگر کوئی بات خوبی کی ظاہر ہو والدین اس پر بر ملا اپنی خوشی کا اظہار کریں ۔ بچے کو شابا ش دیں پیا ر کریں ۔ اگر ہو سکے تو اپنے پا س سے انعام بھی دیں تا کہ اس کا دل بڑھے اور وہ نیکیوں کی طرف مزید مائل ہو ۔ اگر اس کی کوئی بری بات دیکھیں تو ڈانٹنے ڈپٹنے سے پر ہیز کر یں ۔ تنہائی میں اسے سمجھائیں اور اپنی دانست بھر اس برائی کے نتیجہ سے آگاہ کریں ۔ ” تم نے کیسی بر ی حرکت کی ہے ۔ دیکھنے والے دل میں تمہا رے بارے میں کیا خیال کر تے ہوں گے ۔ خبر دار پھر ایسا مت کر نا ۔ نیک بچے ایسا نہیں کیا کرتے “۔ اگر پھر وہی بری حرکت کرے تو اس کو منا سب سزا دیں ۔
(
۳۴ )… عورت غصے کی حالت میں بچے کو کبھی سزانہ دے۔ اگر اس سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو گئی ہے اور اسے سزا دینا ضروری ہو گیا ہے تو پہلے اس کے لیے منا سب سز ا تجویز کر ے اور اپنا غصہ فرو ہونے کے بعد اسے سزا دے ۔ اپنے غصہ کو ٹھنڈا کر نے کے لیے بچے کو سزا دینا سراسر نا انصافی ہے ۔
(
۳۵)…بچوں میں صبح سویر ے اٹھنے کی عادت ڈالے ۔
(
۳۶)… ان کو ا یسی کتب یا رسائل پڑھنے کی اجا زت نہ دے جن میں بے ہودہ قصے کہانیاں ، خلاف شرع مضامین ، تصاویر ہوں یا دوسرے مغربی یا مغرب زدہ لڑیچر جو یقینابچوں کے اخلاق اورکردار پر براا ثر ڈالتے ہیں۔اسلا می کتب پڑھنے کو دے جن سے ان کی دینی سوجھ بوجھ میں اضا فہ ہو ۔ نہ صرف اس سمت میں ا ن کی حوصلہ افزائی کرے بلکہ ایسی کتب خو د شوہر سے کہہ کر ان کے لئے مہیا کرے ۔
(
۳۷)…عورت کو چا ہئے کہ بچے کو باپ سے ڈرا تی رہے کہ غلطی اور شرا رت پر وہ اسے نہ صرف تنبیہ کرے گا بلکہ سزا بھی دے گا ۔ بچے کے دل میں با پ کی محبت اور عزت بھی پیدا کرنے کی کو شش کر ے ۔
(
۳۸)…بچے کو کوئی کام چھپ کر نہ کر نے دے ۔ کھیل ہو ، کھانا ہو یا کوئی اور شغل ، جو کام وہ چھپ کر کرے گا عورت سمجھ جائے کہ بچہ خود اس کام کو برا سمجھتا ہے ۔ اگر وہ واقعی برا ہے۔ تو اس سے چھڑائے اور اگر اچھا ہے جیسے کھا نا پینا تو اس سے کہے کہ سب کے سا منے کھائے پیئے ۔
(
۳۹ )…آتش بازی ، با جہ یا فضول اشیا ء خریدنے کے لیے بچے کو رقم مت دے ۔
(
۴۰)…بچو ں کو ایسے کھیل کھیلنے کی اجازت نہ د ے جن میں پیسوں یا کسی دوسری چیز کی ہار جیت ہو ۔ اسلام کے نقطہ نظر سے یہ جو اء ہے ۔
(
۴۱)… اگر بچے کسی شخص کی سیاہ رنگت یا کوئی اور جسمانی نقص دیکھ کر اس کا تمسخر اڑائیں تو ان کی سر زنش کر ے ۔ انہیں بتائے کہ اچھی بر ی شکلیں اللہ تعالیٰ نے بنا ئی ہیں اور بے شک اللہ عقل کل کا مالک ہے ۔
(
۴۲)…والدین بچوں میں اپنا کام خود کر نے کی عادت ڈالیں تاکہ ان میں سستی اور کاہلی کی عادت نہ پڑ جائے ۔ اپنا بستر خود بچھا ئیں ، صبح سویر ے اٹھ کر تہہ کر کے احتیا ط سے رکھیں ۔ کپڑے الماریوں میں سلیقے سے رکھیں اور اپنے کمرے کی صفائی کا خود خیال رکھیں۔ چیزوں کو ادھر ادھر نہ بکھیریں بلکہ سلیقہ سے رکھیں۔ بچوں کو صاف ستھرا رہنا سکھائیں۔ صفائی میں غفلت برتنے پر ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائیں۔ صفائی کا خیال نہ رکھنا اور اس معاملے میں لاپرواہی برتنا بچوں میں عام ہے۔ والدین اس سمت میں ان کی خاص طور پر تربیت کریں۔ بار بار تاکید کریں اور مایوس ہو کر چھوڑ نہ دیں کہ ان پر تو کوئی اثر ہوتا ہی نہیں، ابھی صاف ستھرے کپڑے پہن کر گیا تھا اور کیسا مٹی میں لت پت ہو کر واپس آگیا ہے۔
(
۴۳)…بچوں کو عاجزی و انکساری کی تعلیم دیں۔ بچے اپنی اشیاء کی تعریف نہ کریں اور نہ انہیں پاکر فخر کریں اور دوسرے بچوں پر اپنی بڑائی جتائیں۔ شیخی بگھارنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
(
۴۴)…بچوں کی موجودگی میں ماں باپ آپس میں تلخ گفتگو اور لڑائی جھگڑا نہ کریں۔
(
۴۵)…مغرب کے بعد بچوں کو گھر سے باہر نہ جانے دیں۔ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ مغرب کے بعد شیاطین کثرت سے نکلتے ہیں اور بچے آسانی سے ان کی شیطنت کے زیر اثر آسکتے ہیں۔
(
۴۶)…ماں باپ لڑکی کی پیدائش پر بھی اسی طرح خوشی منائیں جس طرح لڑکے کی پیدائش پر مناتے ہیں۔ لڑکی ہو یا لڑکا دونوں ہی خدا کا عطیہ ہیں اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے حق میں لڑکی اچھی ہے یا لڑکا۔ لڑکی کی پیدائش پر ناک بھویں چڑھانا اور دل شکستہ ہونا اطاعت شعار مومن کے لیے کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ یہ نا شکری بھی ہے اور خدائے علیم و کریم کی نافرمانی بھی۔
حضرت ابن شریط فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہوسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہوسلم فرمارہے تھے۔
﴿اذا ولدللرجل ابنتہ بعث اللہ عزوجل ملئکتہ یقو لون السلام علیکم یا اھل البیت یکتنفو نھا با جنحتہم و یمسحون با یدیھم علی راسھا ویقو لون ضعیفة خرجت من ضعیفة القیم علیھا معان الی یوم القیمتہ۔ (المعجم الصغیر للطبرانی)
جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں۔ اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے۔ جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک اللہ کی مدد اس کے شامل حال رہے گی۔
(
۴۷)…والدین لڑکیوں کی تر بیت اور پرورش انتہائی خوش دلی، روحانی مسرت اور دینی احساس کے ساتھ کریں اور اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ سے بہشت بریں کی آرزو کریں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فر ماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا:
﴿من کان لہ ثلاث بنات او ثلاث اخوات…او ا ثنتین حتی لو قالوا او واحدة لقال واحدة وجبت لہ الہ الجنة (مشکوة۔ ابن عباس)
جس شخص نے تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی سر پرستی کی انہیں تعلیم و تربیت اور تہذیب سکھائی اور ان کے ساتھ رحم کا سلوک کیا، یہاں تک کہ اللہ ان کو بے نیاز کر دے، تو ایسے شخص کے لیے اللہ نے جنت واجب فرما دی۔ اس پر ایک آدمی بو لا اگر دو ہی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہوسلم نے فرمایا دو لڑکیوں کی پرورش کا بھی یہی صلہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اگر لوگ ایک کے بارے میں پوچھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہوسلم ایک کی پرورش پر بھی یہی بشارت دیتے ۔
حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے رو ایت ہے وہ فرما تی ہیں کہ :
﴿جاء تنی امرئة ومعھا ابنتان لہا تسالنی فلم تجد عندی غیر تمرة واحدة فا عطیتہا ایا ھا فقسمتہا بین ابنتیھا ولم تا کل منھا ثم قامت فخر جت فدخل النبی فحد ثتہ فقال من ابتلی من ھذہ البنات بشیٴ فاحسن الیھن کن لہ سترا من النار (بخاری ۔ مسلم)
ایک دن ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے میرے پاس آئی اور اس نے کچھ مانگا۔ میرے پاس صرف ایک ہی کھجور تھی وہ میں نے اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔ اس عورت نے کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور آدھی آدھی دونوں بچیوں میں بانٹ دی اور خود نہ کھائی۔ اس کے بعد وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور باہر نکل گئی۔ اسی وقت نبی صلی اللہ علیہ وآلہوسلم گھر تشریف لائے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہوسلم کو یہ سارا ماجرا سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہوسلم نے سن کر فرمایا ” جو شخص بھی لڑکیوں کی پیدائش کے ذریعے آزمایا جائے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرکے آزمائش میں کامیاب ہو تو یہ لڑکیاں اس کے لیے قیامت کے روز جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی۔
(
۴۸)…لڑکی کو حقیر نہ جانے، نہ لڑکے کو اس پر کسی معاملہ میں ترجیح دے۔ دونوں کے ساتھ یکساں محبت کا اظہار کرے اور یکساں سلوک کرے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہوسلم نے فرمایا:
﴿من کانت لہ انثی فلم یئد ھا و لم یھنہا ولم یو ثر و لدہ علیھا یعنی الذکور ادخلہ اللہ الجنة (ابو داوٴد)
جس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی اور اس نے جاہلیت کے طریقے پر اسے زندہ دفن نہیں کیا اور نہ اس کو حقیر جانا اور نہ لڑکے کو اس کے مقابلے میں ترجیح دی اور نہ زیادہ سمجھا تو ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرے گا۔
(
۴۹)…لڑکیوں سے کہے کہ جو کام کھانے پکانے، سینے پرونے، کپڑے دھونے، رنگنے ، سینے کا کام گھر میں ہوا کرے اس میں غور کرکے دیکھا کریں اور جب عمر ذرابڑی ہو تو ان کو یہ کام خود کرنے کی تربیت دے۔
(
۵۰)…والدین جائیداد میں لڑکی کا مقررحصّہ پوری خوش دلی اور اہتمام کے ساتھ دیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فرض کردہ حصہ ہے۔ اس میں کمی بیشی کرنے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں۔ لڑکی کا حصہ دینے میں حیلے کرنا یا اپنی صواب دید کے مطابق کچھ دے دلا کر مطمئن ہو جانا اطاعت شعار موٴمن کا کام نہیں ہے۔ ایسا کرنا خیانت بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دین کی خلاف ورزی بھی۔
(
۵۱)…ان تمام عملی تدبیروں کے ساتھ ساتھ نہایت سوز اور دل کی لگن کے ساتھ اولاد کے حق میں دعا بھی کرتی رہے۔ خدائے رحمٰن ، رحیم سے توقع ہے کہ ماں کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی پر سوز دعائیں ضائع نہ فر مائے گا۔

Saturday, July 7, 2012

عشا کے بعد جلدی سوئیں۔


عشاء کے بعد جلد سونے کی عادت ڈالنے کی نصیحت
اللہ تعالیٰ نے رات آرام کے لئے اور دن کام کے لیے بنایا ۔ لہٰذا عشاء کے بعد لمبی محفلیں لگانا معیوب ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ نبی علیہ السلام کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو ناپسند فرماتے تھے اور عشاء کے بعد دیر تک باتیں کرنے کو نا پسند فرماتے تھے ۔ ہاں کوئی دین کا پروگرام ہو تو اس کے لئے تو ساری رات گزرجائے پھربھی تھوڑی ہے ۔
سکون کا باعث تین چیزیں
قرآن مجید پہ نظر ڈا لی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تین چیزیں باعث سکون ہوتی ہیں ۔
(
۱)…ایک بیوی خاوند کے لئے سکون کا باعث ہوتی ہے ۔ چنا نچہ قرآن مجید میں فرمایا۔
(ان خلق لکم من انفسکم ازواجالتسکنوا الیھا ۔ ) ( روم :۲۱)

(
تم میں سے تمہارے لئے جوڑا اس لئے بنایا کہ تم سکون حاصل کرو)
(
۲)… گھر انسان کے لئے سکون کا باعث ہوتا ہے۔اس لئے اس کو مسکن کہتے ہیں۔ جہاں انسان ٹھہرتا ہے ۔ اور ٹھہر اوٴ کوسکون کہتے ہیں۔
(واللہ جعل لکم من بیوتکم سکنا۔ ) ( النحل :۸۰)
(
اور اللہ نے تمہارے لئے تمہارے گھروں میں سکون رکھا )
تو اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو گھر میں بھی سکون ملتا ہے۔
(
۳)…اور تیسرا اللہ تعالیٰ نے رات کو سکون کے لئے بنایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
(ھوالذی جعل لکم اللیل لتسکنوا) (یونس: ۶۸)
(
وہ جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم سکون حاصل کرو)
تو معلوم ہوا کہ تین چیزیں سکون کا باعث ہوتی ہیں۔ ایک گھر ۔ ایک بیوی ۔ایک رات۔
اٹھ کر کہتے ہیں کہ جی ہماری فجر کی نماز چلی گئی۔
تو کیا ہوتا ہے کہ لوگ رات کو ایک دو بجے تک جاگتے ہیں اور اگر نیک ہیں تو اٹھ کر فجر پڑھ لیتے ہیں پھر فجر کے بعد ایسی نیند آتی ہے کہ دوبارہ سوجاتے ہیں ۔پہلے وقتوں کے لوگ تہجددو نیندوں کے درمیان پڑھا کرتے تھے جبکہ آج کل کے نیک لوگ فجر کی نماز دو نیند وں کے درمیا ن پڑھتے ہیں۔ فجر سے پہلے بھی سوئے ہوئے ہوتے ہیں اور فجر کے بعد بھی سوجاتے ہیں ۔ تب جا کر کہیں آٹھ نو بجے ان کی نیند پوری ہوتی ہے ۔ یہ نحوست ہے رات کو دیر سے سونے کی ۔ اگر جلدی سوتے تو صبح کو جاگنا نصیب ہوتا۔
سنن و مستحبات کو ہلکانہ سمجھیں
انسان سنت کی پابندی کرے تو فرائض خودبخود محفوظ ہو جاتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ فرائض کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے سنتو ں کو بنادیا اور سنتوں کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے مستحبات کو بنادیا۔ جو اپنے فرائض کو محفوظ رکھنا چاہے اس کو چاہیے کہ سنتوں کی حفاظت کرے ، فرض خود بخود محفوظ ہو جائیں گے ۔ جو سنتوں کی حفاظت کرنا چاہے اس کو چاہیے کہ وہ مستحبات کی رعایت کرے ، سنتوں کی حفاظت خود بخود ہو جائے گی ، گویا یہ باوٴنڈری لائن ہے۔ اگر مستحبات کی باوٴنڈری لائن کو توڑیں گے تو سنتوں سے محرومی ہو گی ا ور اگر سنتوں کی باوٴنڈ ری لائن کو توڑیں گے تو فرضوں سے محرومی ہوگی اور انسان حرام یعنی گناہ کا مرتکب ہو جائے گا۔اس لئے اپنے فرضوں کو پکا کرنے کے لئے سنتوں کی پابندی کیجئے اور سنتوں کی پابندی کرنے کے لئے مستحبات کی رعایت کیجئے ۔ آج کل نوجوان طبقے میں عام طور پر یہ بات آجاتی ہے۔ اوجی یہ تو سنت ہی ہے نا۔ وہ سنت کو ہلکاسمجھتے ہیں۔ اور یہ بات بڑا فتنہ ہے اس زمانے کا سنت چھوٹی ہو یا بڑی نبی علیہ السلام کی عادت مبارک کے طور پر نبی علیہ السلام عشاء کی نماز سے پہلے سونے کوناپسند فرماتے تھے اور عشاء کی نماز کے بعد زیادہ باتیں کرنے کو ناپسند فرماتے تھے۔

سنت کو ترک کرنے کا وبال
اسی لئے جن گھروں میں رات کو دیر سے سونے کی عادت ہوتی ہے ان گھروں میں فجر کی نماز عام طور پر قضا ہو جاتی ہے۔ بچوں نے تو کیا پڑھنی بڑے بھی اٹھ کر نہیں پڑھتے۔ نیکو کارگھر میں بھی اگر رات کو دیر سے سونے کی عادت ہو تو ان میں بھی فجر کی جماعت تو نکل ہی جاتی ہے۔ کیا ہوا جو مشکل سے اٹھ کر فجر کی نماز اپنی پڑھ لی ورنہ تو بعض دفعہ نماز بھی چلی جاتی ہے۔
نبی علیہ السلام کی مبارک سنت ہے کہ انسان عشاء کے بعد جلدی سوجائے ۔ اگر ہم اس سنت سے محروم ہوں گے تو ہمارے فرض کے اوپر اس کا اثر پڑے گا اور ہم فجر کی نماز یا اس کی تکبیر اولیٰ سے محروم ہوجائیں گے۔ عام گھروں میں اکثر دیکھا گیا کہ عشاء کے بعد کھانے کی محفل ، پھر گپوں کی محفل پھر ٹی وی سکرین کے تماشے تو آدھی رات تو ایسے ہی گزار دیتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ صبح آنکھ نہیں کھلتی ۔ یہ آنکھ کیسے کھلے ۔ جو رات کو سونے کے لئے جلدی نہیں کرے گا وہ صبح کے وقت جلدی نہیں اٹھ سکے گا۔ وہ بیبیاں جو تہجد میں اٹھنا چاہتی ہیں ان کو بھی چاہیے کہ اپنے کام رات سے پہلے پہلے سمیٹ لیں اور عشاء کے بعد جتنا جلدی ممکن ہو سونے کی عادت بنائیں ۔ بچوں کو بھی جلدی سونے کی عادت ڈالیں، خود بھی جلدی سوئیں ۔ ان شاء اللہ اول تو تہجد میں آنکھ کھل جائے گی ، نہ کھلی تو فجر کی نماز میں تو خودبخود آنکھ کھل جائے گی ۔ یہ نہیں ہو گا کہ رات دو بجے سوئے اور دو دو گھڑیوں کا الارم لگاکر سوئے مگر دونوں گھڑیاں چیختی رہیں اٹھنے کی تو فیق پھر بھی نہیں ہوئی ۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو مستحبات کی رعایت کی عادت ڈالیں تاکہ ان کو سنتوں بھری زندگی نصیب ہو۔ سنتوں پر عمل کریں تاکہ فرائض پر ہمیں کامل عمل کی تو فیق نصیب ہو۔ تو جب گھروں میں عشاء کی نماز کے بعد جلدی سونے کی سنت ٹوٹتی ہے تو پھر ان کی فجر کی نمازوں پر ان کی زدپڑتی ہے ۔ کبھی تو تکبیر اولیٰ چلی گئی میاں صاحب کو تو نماز باجماعت میں آنے کی تو فیق نہیں اور عورتوں نے مشکل سے بھاگ دوڑ کے فجر کی نماز وقت میں ادا کرلی تو کر لی ورنہ کئی مرتبہ سورج نکلنے کے بعد آنکھ کھلتی ہے۔
تو عشاء کے بعد جلدی سونے کی عادت ڈالنے سے فرض کی حفاظت ہوتی ہے اس لئے گھروں میں کوشش یہ کریں کہ عشاء کے بعد لمبے بکھیڑے نہ ڈالیں، سب کو یہ بات بتلائیں ۔ اور اس کے فوائد بتائیں کہ جی عشاء کے بعد جتنا جلدی سوئیں گے اتنا جلدی اٹھیں گے۔
بچوں کو جلدی اٹھنے کی عادت ڈالیں

مزید برآں گھر کے اندر جب اس قسم کے معاملات ہوں تو افہام و تفہیم سے طے کر لینے چاہئیں ۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مشورے سے طے کر لیا جائے کہ اتنے بجے لازمی سوجائیں گے۔ بچوں کو بھی اس میں شامل کریں جس کا فائدہ ہے ۔ اس لئے کہ جب بچے رات کو دیر سے سوئیں گے تو صبح دیر سے جاگیں گے اور بچوں کی تربیت غلط ہوگی ۔ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے فرائض کی قدر کیسے آئے گی۔ جب اولاد والے ہو جائیں تو مردوں کوچاہیے کہ چھوٹے بچوں کی تربیت کی خاطر ان کو عادت ایسی ڈالیں کہ جلدی سوئیں اور صبح جلدی جاگیں تاکہ ان کی فجر کی نماز ادا ہو سکے ۔ لہٰذا اس تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ بچوں کی شخصیت شروع سے ہی ایسی بنے ۔
فجر کے وقت جاگنے کے فوائد
فطری تقاضا یہی ہے کہ انسان رات کو سوئے اور دن کو جاگے ۔ جلدی جاگنا نبی علیہ السلام کی سنت بھی ہے اور انسان کی صحت کے لئے بھی اچھا ہے۔ اس لئے کہ جب سورج نکلنے کے قریب ہوتا ہے تو ہو اکے اندر اوزون گیس ہوتی ہے اور وہ انسان کی صحت کے لئے انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ سونے والا بستر پر اس سے محرو م ر ہ جاتا ہے ۔ذرا باہر نکل کر ٹھنڈی ہوا لینی چا ہئے اس میں جسمانی فائدہ بھی ہے اور روحانی فائدہ بھی ہے بالخصوص بچوں کو تو جلدی اٹھانا چاہیے تاکہ ان کے جسم کی نشوونما بھی اچھی ہو اور تربیت بھی اچھی ہو۔
فجر کے بعد سونے کے نقصانات
حدیث پاک میں آیا ہے کہ جو آدمی فجر کے بعد سونے کا عادی ہو اللہ تعالیٰ اس کی یادداشت کو ختم کر دیتے ہیں ۔ جن عورتوں کو فجر کے بعد سونے کی عادت ہو وہ بھلکڑ ہو تی ہیں۔ باتیں بھول جاتی ہیں ، چیزرکھ کر بھول جاتی ہیں، کام کرنا تھا بھول جاتی ہیں، خاوند کو بات کہنی تھی بھول جاتی ہیں ۔ یہ زیادہ بھولنے کی عادت عام طور پر فجر کے بعد زیادہ سونے کی عادت کی وجہ سے ہے۔ چونکہ حدیث پاک میں فرمایا گیا اور بعض روایات میں تو یہ بھی آیا کہ فجر کے بعد سونے والوں کے لئے حلال رزق تنگ کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا ان کو ادھر ادھر کا ملا جلا تو بہت کچھ مل جائے گا مگر حلال رزق کے دروازے بند کر دیئے جائیں گے۔ ہاں کوئی آدمی ایسا ہے کہ جس کی ڈیوٹی ہی رات کی ہے ، وہ اگر ساری رات جاگا فجر پڑھ کر سوگیا تو وہ اس بات سے خارج ہے۔ ہاں وہ اللہ والے جو راتو ں کو جاگتے ہیں ، وہ اشراق کی نماز کے بعد تھوڑی دیر آرام کرتے ہیں۔ اشراق کے بعد سونا بالکل ٹھیک ہے، یہ بزرگوں کی عادت رہی ہے مگر فجر اور اشراق کے درمیان حتیٰ الوسع نہیں سونا چاہیے ۔ سوائے اس کے کہ رات کو انسان اتنا جاگا ہو کہ اب یہ سوچے کہ اب میں نہیں سووٴں گا تو سارا دن مجھے کام کرنے کے اندر رکاوٹ ہوگی۔ پھر اس کی اجازت ہے ، عام عادت نہیں بنانی چاہیے ۔

منوردن
مسلمانوں کا معاشرے میں عشاء کے بعد جلدی سونے اور صبح کے وقت جلدی جاگنے کا معمول ہوتا ہے۔ چنانچہ صحابہٴ کرام کے زمانے میں تہجد کے وقت اگر کوئی آدمی شہر کی گلیوں میں چلتا تھا تو گھرگھر سے قرآن پڑھنے کی یوں آوازآتی تھی جیسے شہد کی مکھیوں کے بھنبھنا نے کی آواز ہوتی ہے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم صبح کے وقت اٹھیں۔ مر د اور عورتیں صبح کے وقت اٹھ کر نماز پڑھیں ۔ اگر تہجد پڑھیں تو کیا ہی بات ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت کریں ۔ درود شریف پڑھیں ۔ استغفار پڑھیں ۔ صبح کے وقت گھر کے اندر عبادت کا کرنا پورے دن کو منور بنا دیتا ہے۔
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner