Saturday, July 7, 2012

عشا کے بعد جلدی سوئیں۔


عشاء کے بعد جلد سونے کی عادت ڈالنے کی نصیحت
اللہ تعالیٰ نے رات آرام کے لئے اور دن کام کے لیے بنایا ۔ لہٰذا عشاء کے بعد لمبی محفلیں لگانا معیوب ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ نبی علیہ السلام کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو ناپسند فرماتے تھے اور عشاء کے بعد دیر تک باتیں کرنے کو نا پسند فرماتے تھے ۔ ہاں کوئی دین کا پروگرام ہو تو اس کے لئے تو ساری رات گزرجائے پھربھی تھوڑی ہے ۔
سکون کا باعث تین چیزیں
قرآن مجید پہ نظر ڈا لی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تین چیزیں باعث سکون ہوتی ہیں ۔
(
۱)…ایک بیوی خاوند کے لئے سکون کا باعث ہوتی ہے ۔ چنا نچہ قرآن مجید میں فرمایا۔
(ان خلق لکم من انفسکم ازواجالتسکنوا الیھا ۔ ) ( روم :۲۱)

(
تم میں سے تمہارے لئے جوڑا اس لئے بنایا کہ تم سکون حاصل کرو)
(
۲)… گھر انسان کے لئے سکون کا باعث ہوتا ہے۔اس لئے اس کو مسکن کہتے ہیں۔ جہاں انسان ٹھہرتا ہے ۔ اور ٹھہر اوٴ کوسکون کہتے ہیں۔
(واللہ جعل لکم من بیوتکم سکنا۔ ) ( النحل :۸۰)
(
اور اللہ نے تمہارے لئے تمہارے گھروں میں سکون رکھا )
تو اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو گھر میں بھی سکون ملتا ہے۔
(
۳)…اور تیسرا اللہ تعالیٰ نے رات کو سکون کے لئے بنایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
(ھوالذی جعل لکم اللیل لتسکنوا) (یونس: ۶۸)
(
وہ جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم سکون حاصل کرو)
تو معلوم ہوا کہ تین چیزیں سکون کا باعث ہوتی ہیں۔ ایک گھر ۔ ایک بیوی ۔ایک رات۔
اٹھ کر کہتے ہیں کہ جی ہماری فجر کی نماز چلی گئی۔
تو کیا ہوتا ہے کہ لوگ رات کو ایک دو بجے تک جاگتے ہیں اور اگر نیک ہیں تو اٹھ کر فجر پڑھ لیتے ہیں پھر فجر کے بعد ایسی نیند آتی ہے کہ دوبارہ سوجاتے ہیں ۔پہلے وقتوں کے لوگ تہجددو نیندوں کے درمیان پڑھا کرتے تھے جبکہ آج کل کے نیک لوگ فجر کی نماز دو نیند وں کے درمیا ن پڑھتے ہیں۔ فجر سے پہلے بھی سوئے ہوئے ہوتے ہیں اور فجر کے بعد بھی سوجاتے ہیں ۔ تب جا کر کہیں آٹھ نو بجے ان کی نیند پوری ہوتی ہے ۔ یہ نحوست ہے رات کو دیر سے سونے کی ۔ اگر جلدی سوتے تو صبح کو جاگنا نصیب ہوتا۔
سنن و مستحبات کو ہلکانہ سمجھیں
انسان سنت کی پابندی کرے تو فرائض خودبخود محفوظ ہو جاتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ فرائض کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے سنتو ں کو بنادیا اور سنتوں کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے مستحبات کو بنادیا۔ جو اپنے فرائض کو محفوظ رکھنا چاہے اس کو چاہیے کہ سنتوں کی حفاظت کرے ، فرض خود بخود محفوظ ہو جائیں گے ۔ جو سنتوں کی حفاظت کرنا چاہے اس کو چاہیے کہ وہ مستحبات کی رعایت کرے ، سنتوں کی حفاظت خود بخود ہو جائے گی ، گویا یہ باوٴنڈری لائن ہے۔ اگر مستحبات کی باوٴنڈری لائن کو توڑیں گے تو سنتوں سے محرومی ہو گی ا ور اگر سنتوں کی باوٴنڈ ری لائن کو توڑیں گے تو فرضوں سے محرومی ہوگی اور انسان حرام یعنی گناہ کا مرتکب ہو جائے گا۔اس لئے اپنے فرضوں کو پکا کرنے کے لئے سنتوں کی پابندی کیجئے اور سنتوں کی پابندی کرنے کے لئے مستحبات کی رعایت کیجئے ۔ آج کل نوجوان طبقے میں عام طور پر یہ بات آجاتی ہے۔ اوجی یہ تو سنت ہی ہے نا۔ وہ سنت کو ہلکاسمجھتے ہیں۔ اور یہ بات بڑا فتنہ ہے اس زمانے کا سنت چھوٹی ہو یا بڑی نبی علیہ السلام کی عادت مبارک کے طور پر نبی علیہ السلام عشاء کی نماز سے پہلے سونے کوناپسند فرماتے تھے اور عشاء کی نماز کے بعد زیادہ باتیں کرنے کو ناپسند فرماتے تھے۔

سنت کو ترک کرنے کا وبال
اسی لئے جن گھروں میں رات کو دیر سے سونے کی عادت ہوتی ہے ان گھروں میں فجر کی نماز عام طور پر قضا ہو جاتی ہے۔ بچوں نے تو کیا پڑھنی بڑے بھی اٹھ کر نہیں پڑھتے۔ نیکو کارگھر میں بھی اگر رات کو دیر سے سونے کی عادت ہو تو ان میں بھی فجر کی جماعت تو نکل ہی جاتی ہے۔ کیا ہوا جو مشکل سے اٹھ کر فجر کی نماز اپنی پڑھ لی ورنہ تو بعض دفعہ نماز بھی چلی جاتی ہے۔
نبی علیہ السلام کی مبارک سنت ہے کہ انسان عشاء کے بعد جلدی سوجائے ۔ اگر ہم اس سنت سے محروم ہوں گے تو ہمارے فرض کے اوپر اس کا اثر پڑے گا اور ہم فجر کی نماز یا اس کی تکبیر اولیٰ سے محروم ہوجائیں گے۔ عام گھروں میں اکثر دیکھا گیا کہ عشاء کے بعد کھانے کی محفل ، پھر گپوں کی محفل پھر ٹی وی سکرین کے تماشے تو آدھی رات تو ایسے ہی گزار دیتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ صبح آنکھ نہیں کھلتی ۔ یہ آنکھ کیسے کھلے ۔ جو رات کو سونے کے لئے جلدی نہیں کرے گا وہ صبح کے وقت جلدی نہیں اٹھ سکے گا۔ وہ بیبیاں جو تہجد میں اٹھنا چاہتی ہیں ان کو بھی چاہیے کہ اپنے کام رات سے پہلے پہلے سمیٹ لیں اور عشاء کے بعد جتنا جلدی ممکن ہو سونے کی عادت بنائیں ۔ بچوں کو بھی جلدی سونے کی عادت ڈالیں، خود بھی جلدی سوئیں ۔ ان شاء اللہ اول تو تہجد میں آنکھ کھل جائے گی ، نہ کھلی تو فجر کی نماز میں تو خودبخود آنکھ کھل جائے گی ۔ یہ نہیں ہو گا کہ رات دو بجے سوئے اور دو دو گھڑیوں کا الارم لگاکر سوئے مگر دونوں گھڑیاں چیختی رہیں اٹھنے کی تو فیق پھر بھی نہیں ہوئی ۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو مستحبات کی رعایت کی عادت ڈالیں تاکہ ان کو سنتوں بھری زندگی نصیب ہو۔ سنتوں پر عمل کریں تاکہ فرائض پر ہمیں کامل عمل کی تو فیق نصیب ہو۔ تو جب گھروں میں عشاء کی نماز کے بعد جلدی سونے کی سنت ٹوٹتی ہے تو پھر ان کی فجر کی نمازوں پر ان کی زدپڑتی ہے ۔ کبھی تو تکبیر اولیٰ چلی گئی میاں صاحب کو تو نماز باجماعت میں آنے کی تو فیق نہیں اور عورتوں نے مشکل سے بھاگ دوڑ کے فجر کی نماز وقت میں ادا کرلی تو کر لی ورنہ کئی مرتبہ سورج نکلنے کے بعد آنکھ کھلتی ہے۔
تو عشاء کے بعد جلدی سونے کی عادت ڈالنے سے فرض کی حفاظت ہوتی ہے اس لئے گھروں میں کوشش یہ کریں کہ عشاء کے بعد لمبے بکھیڑے نہ ڈالیں، سب کو یہ بات بتلائیں ۔ اور اس کے فوائد بتائیں کہ جی عشاء کے بعد جتنا جلدی سوئیں گے اتنا جلدی اٹھیں گے۔
بچوں کو جلدی اٹھنے کی عادت ڈالیں

مزید برآں گھر کے اندر جب اس قسم کے معاملات ہوں تو افہام و تفہیم سے طے کر لینے چاہئیں ۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مشورے سے طے کر لیا جائے کہ اتنے بجے لازمی سوجائیں گے۔ بچوں کو بھی اس میں شامل کریں جس کا فائدہ ہے ۔ اس لئے کہ جب بچے رات کو دیر سے سوئیں گے تو صبح دیر سے جاگیں گے اور بچوں کی تربیت غلط ہوگی ۔ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے فرائض کی قدر کیسے آئے گی۔ جب اولاد والے ہو جائیں تو مردوں کوچاہیے کہ چھوٹے بچوں کی تربیت کی خاطر ان کو عادت ایسی ڈالیں کہ جلدی سوئیں اور صبح جلدی جاگیں تاکہ ان کی فجر کی نماز ادا ہو سکے ۔ لہٰذا اس تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ بچوں کی شخصیت شروع سے ہی ایسی بنے ۔
فجر کے وقت جاگنے کے فوائد
فطری تقاضا یہی ہے کہ انسان رات کو سوئے اور دن کو جاگے ۔ جلدی جاگنا نبی علیہ السلام کی سنت بھی ہے اور انسان کی صحت کے لئے بھی اچھا ہے۔ اس لئے کہ جب سورج نکلنے کے قریب ہوتا ہے تو ہو اکے اندر اوزون گیس ہوتی ہے اور وہ انسان کی صحت کے لئے انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ سونے والا بستر پر اس سے محرو م ر ہ جاتا ہے ۔ذرا باہر نکل کر ٹھنڈی ہوا لینی چا ہئے اس میں جسمانی فائدہ بھی ہے اور روحانی فائدہ بھی ہے بالخصوص بچوں کو تو جلدی اٹھانا چاہیے تاکہ ان کے جسم کی نشوونما بھی اچھی ہو اور تربیت بھی اچھی ہو۔
فجر کے بعد سونے کے نقصانات
حدیث پاک میں آیا ہے کہ جو آدمی فجر کے بعد سونے کا عادی ہو اللہ تعالیٰ اس کی یادداشت کو ختم کر دیتے ہیں ۔ جن عورتوں کو فجر کے بعد سونے کی عادت ہو وہ بھلکڑ ہو تی ہیں۔ باتیں بھول جاتی ہیں ، چیزرکھ کر بھول جاتی ہیں، کام کرنا تھا بھول جاتی ہیں، خاوند کو بات کہنی تھی بھول جاتی ہیں ۔ یہ زیادہ بھولنے کی عادت عام طور پر فجر کے بعد زیادہ سونے کی عادت کی وجہ سے ہے۔ چونکہ حدیث پاک میں فرمایا گیا اور بعض روایات میں تو یہ بھی آیا کہ فجر کے بعد سونے والوں کے لئے حلال رزق تنگ کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا ان کو ادھر ادھر کا ملا جلا تو بہت کچھ مل جائے گا مگر حلال رزق کے دروازے بند کر دیئے جائیں گے۔ ہاں کوئی آدمی ایسا ہے کہ جس کی ڈیوٹی ہی رات کی ہے ، وہ اگر ساری رات جاگا فجر پڑھ کر سوگیا تو وہ اس بات سے خارج ہے۔ ہاں وہ اللہ والے جو راتو ں کو جاگتے ہیں ، وہ اشراق کی نماز کے بعد تھوڑی دیر آرام کرتے ہیں۔ اشراق کے بعد سونا بالکل ٹھیک ہے، یہ بزرگوں کی عادت رہی ہے مگر فجر اور اشراق کے درمیان حتیٰ الوسع نہیں سونا چاہیے ۔ سوائے اس کے کہ رات کو انسان اتنا جاگا ہو کہ اب یہ سوچے کہ اب میں نہیں سووٴں گا تو سارا دن مجھے کام کرنے کے اندر رکاوٹ ہوگی۔ پھر اس کی اجازت ہے ، عام عادت نہیں بنانی چاہیے ۔

منوردن
مسلمانوں کا معاشرے میں عشاء کے بعد جلدی سونے اور صبح کے وقت جلدی جاگنے کا معمول ہوتا ہے۔ چنانچہ صحابہٴ کرام کے زمانے میں تہجد کے وقت اگر کوئی آدمی شہر کی گلیوں میں چلتا تھا تو گھرگھر سے قرآن پڑھنے کی یوں آوازآتی تھی جیسے شہد کی مکھیوں کے بھنبھنا نے کی آواز ہوتی ہے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم صبح کے وقت اٹھیں۔ مر د اور عورتیں صبح کے وقت اٹھ کر نماز پڑھیں ۔ اگر تہجد پڑھیں تو کیا ہی بات ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت کریں ۔ درود شریف پڑھیں ۔ استغفار پڑھیں ۔ صبح کے وقت گھر کے اندر عبادت کا کرنا پورے دن کو منور بنا دیتا ہے۔
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

No comments:

Post a Comment