اولاد کی تربیت کے بارے میں نصیحت
مرد کی نسبت عورت کو بچوں کی تربیت کرنے کے بہتر مواقع میسر ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سورة التحریم کی آیت قوا انفسکم و اھلیکم نارا کی تفسیر میں صحیح بخاری میں یہ قول منقول ہے۔
﴿کلکم راع وکلکم مسئول من رعیتہ الرجل راع علی اھلہ و ھو مسئول۔ المرا ة راعیتہ علی بیت زوجھا وھی مسئولة عنھا۔﴾
”تم میں سے ہر ایک نگران و محافظ ہے اور تم میں سے ہر ایک سے پوچھا جائے گا ان لوگوں کی بابت جو تمہاری نگرانی میں ہوں گے۔ مرد اپنے اہل و عیال پر حکمران و نگران ہے اور وہ اپنی رعیت میں اپنے عمل پر اللہ کے سامنے جوابدہ ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حکمران ہے اور وہ اپنی حکومت کے دائرہ میں اپنے عمل کے لئے جوابدہ ہے۔“
اس حدیث کا یہ ٹکڑا یہاں خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران ہے۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو صرف کھلانے پلانے ہی کا ذمہ دار نہیں ہے اس کے دین و اخلاق کی حفاظت و نگرانی بھی اس کے ذمہ ہے اور بیوی کی ذمہ داری دوگنی ہے۔ وہ شوہر کے گھر اور مال کی نگران تو ہے ہی ، اس کے بچوں کی تربیت کی خصوصی ذمہ داری بھی اس پر ہے۔ شوہر معاش کے حصول کے لیے زیادہ تر باہر رہتا ہے اور گھر میں بچے اپنی ماوٴں ہی سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔ اس لیے بچوں کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کی دوہری ذمہ داری ان کی ماں پر آتی ہے۔
اسلام کے اکثر مشاہیر نے ولایت اپنی والدہ کے ہاتھوں پائی ہے۔ ماں کی انتھک محنت، مادرانہ شفقت اور اخلاق و روحانی تربیت سے وہ بلند مقا مات تک پہنچے۔
ایک مسلمان بچے کی دینی تعلیم اس دنیا میں اس کے آنکھیں کھولنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ننھے بچے کے کانوں میں اذان اقامت کہی جاتی ہے۔ جو اس کے دل میں ایمان کی شمع روشن کرتی ہے۔ پیدا ہوتے ہی بچے کے کان میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام پہنچانے میں بڑی حکمت ہے۔ علامہ ابن قیم اپنی کتاب ”تحفة الودود“ میں فرماتے ہیں۔
”اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے کان میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کی آواز پہنچے اور جس شہادت کو وہ شعوری طور پر ادا کرنے کے بعد داخل اسلام ہو گا اس کی تلقین پیدائش کے دن ہی سے کی جائے جس طرح مرنے کے وقت اس کوکلمہ توحید کی تلقین کی جاتی ہے۔ اذان اور اقامت کا دوسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ شیطان جو گھات میں بیٹھا ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ پیدا ہوتے ہی انسان کو آزمائش میں مبتلا کر دے، اذان سنتے ہی بھاگ جاتا ہے اور شیطان کی دعوت سے پہلے بچے کو اسلام اور عبادت الٰہی کی دعوت دے دی جاتی ہے۔
آجکل اکثر و بیشتر خواتین اس امر پر یقین رکھتی ہیں کہ ان کے مادرانہ فرائض میں صرف بچوں کو کھلاناپلانا اور کپڑے پہنانا ہے، جب کے اسلام ان سے اس سے زیادہ کی توقع رکھتا ہے اور جسمانی صحت سے بھی زیادہ روحانی بالیدگی کو ترجیح دیتا ہے۔ عورت پر فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی، روحانی اور اخلاقی تربیت پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھے۔
جس قسم کی محبت کا اظہار آجکل کے والدین اپنے بچوں سے کرتے ہیں وہ سچی محبت نہیں ہے۔ یہ محبت تو سم قاتل ہے۔ ایسے ماں باپ جو اپنے ان فرائض سے غفلت برتتے ہیں جن کی نشاندہی اسلام نے کی ہے، بہت بڑے مجرم اور گنا ہگار ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو گہرے اندھیرو ں میں دھکیلنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسی محبت جو بچوں کو جہنم کا راستہ دکھائے بہت بڑی نا انصافی اور دشمنی ہے۔ والدین کو اپنی محبت کا رخ اس طرف موڑنا چاہیے جس کی نشاندہی شریعت کرتی ہے۔
اولاد اللہ کی طرف سے نعمت اور امانت ہے۔ اس امانت میں کسی طور پر خیانت نہیں ہونی چاہیے۔ والدین ان کی بُری تربیت کر کے خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں اور یوں ان کا مستقبل اور آخرت تباہ کر دیتے ہیں۔
والدین کے لیے اولاد کی صحیح تربیت کے متعلق ہدایات تو بہت ہیں مگر ہم یہاں خاص خاص کا ذکر کرتے ہیں۔
(۱)…جاننا چاہیے کہ یہ امر بہت ہی خیال رکھنے کے قابل ہے کہ بچپن میں جو عادت بھلی یا بری پختہ ہو جاتی ہے وہ عمر بھر نہیں جاتی۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ بچوں کی عادات پر گہری نظر رکھی جائے۔ بچپن کی عادات اس کے کردار کی تعمیر کرتی ہیں۔
(۲)…بچے کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے سے پرہیز کرے۔ بعض مائیں بچے میں اطاعت شعاری کی خاطر اسے جن بھوت سے ڈراتی ہیں، یہ بہت بری حرکت ہے، اس سے بچے کا دل کمزور ہو جاتا ہے۔ ابتدائی عمر کا یہ ڈر ساری عمر دل و دماغ پر چھا یا رہتا ہے اور ایسے بچے بالعموم زندگی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے کے لائق نہیں رہتے۔ والدین لاعلمی سے اپنے بچوں میں بہادری کے جذبات ابھارنے کی بجائے انہیں بزدل بنا دیتے ہیں۔
(۳)…بچوں کی خوراک کے اوقات مقرر ہونے چاہئیں۔ وقت بے وقت کھلا کر ان کی عادات نہ خراب کریں۔ ایسا کرنے سے ان کی صحت پر بھی برا اثر پڑے گا۔
(۴)…بچپن سے ہی انہیں مسواک کرنے کی عادت ڈالیں۔
(۵)… بچوں کو ہدایت کریں کہ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوئیں۔
(۶)…انہیں کھانے پینے ، سونے ، کپڑے پہننے، طہارت خانے میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کے آداب سے آگاہ کریں۔
(۷)… بچہ جب بولنے کے قابل ہو تو والدہ سب سے پہلے اسے اللہ تعالیٰ کے نام سکھائے۔ بلکہ اس کی قوت گویائی سے بہت پہلے والدین اس کے سامنے قرآنی آیات ، اللہ تعالیٰ کے نام اور کلمہ پڑھا کریں۔ دودھ پیتے بچے کا ذہن جو کچھ سنتا ہے اور دیکھتا ہے اسے قبول کر لیتا ہے اور اپنے دماغ میں محفوظ کر لیتا ہے۔
(۸)…والدین چھ ماہ کے بچے کے سامنے بھی اپنے ستر سے آزاد نہ ہوں۔
(۹)…بچے کے دل میں عیش و عشرت کے سامان کی محبت نہ پیدا ہونے دیں اور انہیں نئے نئے فیشنوں سے دور رکھیں۔ ہمیشہ ان کو سادگی کا درس دیں۔
(۱۰)… انہیں ہمیشہ صاف ستھرا رکھیں۔ ان کی طہارت، نظافت اور غسل کا خیال رکھیں۔ کپڑے بھی پاک صاف ہوں۔ بناوٴ سنگھار اور نمود و نمائش سے پرہیز کریں۔ لڑکی کے کپڑے بھی نہایت سادہ ہوں۔ زرق برق لباس پہنا کر بچوں کے مزاج کو خراب نہ کریں۔
(۱۱)…عورت خواہ امیر کبیر ہو کبھی کبھار بچوں کو پیوند لگے کپڑے ضرور پہنائے۔
(۱۲)…جب تک وہ جوانی کی حدود کو نہ چھونے لگے ، بچی کو زیورات نہ پہنائیں ورنہ زیورات اور بناوٴ سنگھار سے محبت بچپن ہی سے اس کے دل میں جڑ پکڑ لے گی۔
(۱۳)…بچوں کے ہاتھ سے خوراک وغیرہ غریبوں کو دلوائیں تاکہ ان کے دل میں فراخدلی ، سخاوت اور فیاضی گھر کر جائے۔ کبھی کبھی یہ موقع بھی فراہم کریں کہ کھانے پینے کی چیزیں بہن بھائی خود ہی آپس میں تقسیم کر لیں تاکہ ایک دوسرے کے حقوق کا احساس اور انصاف کی عادت پیدا ہو۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ بچوں میں سب سے بڑا ماں کی نگرانی میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں میں تقسیم کرے۔
(۱۴)…دوسروں کے سامنے بچوں کے عیب نہ بیان کریں اور کسی کے سامنے ان کو شرمندہ کرنے اور ان کی عزت نفس کو ٹھیس لگانے سے بھی سختی کے ساتھ پرہیز کریں۔
(۱۵)…بچوں کو چیخنے چلانے اور اونچی آ واز میں گفتگو سے منع کریں اور ایسا کرنے سے خود بھی پرہیز کریں۔ درمیانی آواز میں نرمی کے ساتھ گفتگو کرنے کی تاکید کریں۔
(۱۶)…بچوں کی ہر جاو بے جا ضد پوری نہ کریں بلکہ حکمت کے ساتھ ان کی یہ عادتیں چھڑانے کی کوشش کریں۔ کبھی کبھی مناسب سختی بھی کریں۔ بے جا لاڈ پیار سے ان کو ضدی اور خود سر نہ بنائیں۔
(۱۷)…بچوں کو عادت ڈالیں کہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کریں۔ہر کام میں نوکروں کا سہارا نہ لیں۔ اس سے بچے کاہل ، سست اور اپاہج بن جاتے ہیں۔ بچوں کو جفاکش، محنتی اور سخت کوش بنائیں۔
(۱۸)…ان کو باہر کے بچوں کے ساتھ ملنے جلنے سے روکیں۔ بہن بھائی اپنے گھر کی حدود کے اندر مل جل کر کھیلیں جہاں ان کی سب حرکات و سکنات ماں باپ کی نظروں کے سامنے ہوں گی۔
(۱۹)…ان کو اڑوس پڑوس میں آوارہ پھرنے کی اجازت نہ دیں۔
(۲۰)…اولاد کو بات بات پر ڈانٹنے، جھڑکنے اور برا بھلا کہنے سے سختی کے ساتھ پرہیز کریں اور ان کی کوتاہیوں پر غصہ ہونے اور نفرت کا اظہار کرنے کی بجائے حکمت و سوز کے ساتھ ان کی تر بیت کرنے کی محبت آمیز کوشش کریں۔ اپنے طرز عمل سے بچوں کے ذہن پر یہ خوف بہر حال غالب رکھیں کہ ان کی کوئی خلاف شرع بات وہ ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔
(۲۱)…اولاد کے ساتھ ہمیشہ شفقت، محبت اور نرمی کا برتاوٴ کریں اور اپنی حیثیت کے مطابق ان کی ضروریات کو پورا کرکے ان کو خوش رکھیں اور ان میں اطاعت و فرمانبرداری کے جذبات ابھاریں۔
(۲۲)…اولاد کو پاکیزہ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے لیے اپنی ساری کوشش اور توانائی صرف کردیں۔ اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں۔یہ عورت کی دینی ذمہ داری بھی ہے، اولاد کے ساتھ عظیم احسان اور اپنی ذات کے ساتھ سب سے بڑی بھلائی بھی۔
(۲۳)…”اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور اس عمر کوپہنچنے کے بعد ان کے بستر الگ کر دو “ گو اس حدیث پر عمل کر وانے کی ذمہ داری
باپ پر ہے مگر والدہ بھی دیکھے کہ اس پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں ۔
(۲۴)…وا لدہ بچوں کے سامنے کبھی بچوں کی اصلا ح سے مایو سی کا اظہا ر نہ کرے بلکہ ان کی ہمت بڑھا نے کے لیے ان کی معمولی معمولی اچھا ئیو ں کی بھی دل کھو ل کر تعریف
کرے۔ہمیشہ ان کا دل بڑھانے اوران میں خود اعتما د ی اور حوصلہ پیدا کرنے کی کو شش کرے تا کہ یہ کار گاہ حیات میں او نچے سے اونچامقا م حاصل کر سکیں۔
(۲۵)…والدہ بچوں کو جنوں،پر یوں کے اوٹ پٹانگ قصے کہا نیاں نہ سنا ئے بلکہ ان کو نبیوں کے قصے ، صالحین کی کہا نیا ں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجا ہد انہ کا رنا مے ضرور سناتی رہے ۔ تر بیت و تہذیب کردار سازی اور دین سے شغف کے لیے اس کو انتہائی ضروری سمجھے اور ہزار مصرو فیتوں کے با وجود اس کے لیے وقت نکالے ۔ اکثرو بیشتر ان کو قرآن پاک بھی خوش الحا نی کے ساتھ پڑھ کر سنائے اور مو قع موقع سے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث بھی بتا ئے اور ابتدائی عمر ہی سے ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اجا گر کر نے کی کو شش کر ے ۔
(۲۶)…بچو ں میں باہم لڑائی ہوجائے تو بچے کی بے جا حما یت نہ کرے ۔ یہ خیا ل رکھے کہ اپنے بچے کے لیے اس کے سینے میں جو جذبات ہیں وہی جذبات دوسروں کے سینے میں اپنے بچوں کے لیے ہیں ۔ ہمیشہ اپنے بچے کے قصوروں پر نگاہ رکھے اور ہر پیش آنے والے نا خوشگوار واقعہ میں اپنے بچے کی کوتاہی اور غلطی کا کھو ج لگا کر حکمت اور مسلسل تو جہ سے اس کو دور کرنے کی پر سوز کو شش کر ے ۔
(۲۷)…اولاد کے ساتھ ہمیشہ برابری کا سلوک کر ے اور اس معاملے میں بے اعتدالی سے بچنے کو پوری پو ری کو شش کر ے ۔ اگر طبعاً کسی ایک بچے کی طرف زیا دہ میلان ہو تو معذوری ہے لیکن سلوک بر تاؤ اور لین دین میں ہمیشہ انصاف اور مسا وات کا لحاظ رکھے اور کبھی بھی کسی ایک کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک نہ کر ے جس کو دوسرے بچے محسوس کریں۔ اس سے دوسرے بچوں میں احسا س کمتری ،نفرت ، مایوسی اور آ خر کا ر بغا وت پیدا ہو گی اور یہ بر ے جذبات فطری صلا حیتوں کے پر وان چڑھنے میں زبر دست رکاوٹ اور اخلا قی و روحانی تر قی کے لیے سم قاتل ہیں ۔
(۲۸)… بچوں کے سامنے ہمیشہ اچھا عملی نمونہ پیش کر ے ۔ اس کی اپنی زندگی بچوں کے لیے ایک ہمہ وقتی خاموش معلم ہے جس سے بچے ہر وقت پڑھتے اور سیکھتے رہتے ہیں ۔ بچوں کے سامنے کبھی مذاق میں بھی جھو ٹ نہ بو لے ۔
حضرت عبداللہ ابن عا مر رضی اللہ عنہ اپنا ایک قصہ بیان کر تے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف رکھتے تھے ۔ میری والدہ نے مجھے بلایا اور کہا ” یہاں آمیں تجھے چیز دوں گی “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا ۔ پو چھا ” تم بچے کو کیا دینا چا ہتی ہو “ والدہ بو لیں ” میں اس کو کھجور دینا چاہتی ہوں “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے فرمایا ” اگر تم دینے کا بہانہ کر کے بلاتیں اور بچے کے آنے پر کچھ نہ دیتیں تو تمہارے اعمال نامہ میں یہ جھوٹ لکھ دیا جا تا “۔
(۲۹)… اپنے بچو ں کو بر ی صحبت سے بچا ئے ۔ ا ٓس پا س کے جن بچو ں کی عا د تیں خر اب ہیں یا وہ لکھنے پڑ ھنے سے بھا گتے ہیں یاتکلف کے کھا نے اور شو خ کپڑ ے پہننے کے عا دی ہیں ان کے پا س بیٹھنے سے اور ان کے ساتھ کھیلنے سے رو کے ۔
(۳۰)… سو برائیوں کی ایک برا ئی ، ٹیلی ویژن ۔ اگر عورت چا ہتی ہے کہ بچوں کا مستقبل محفوظ رہے ، وہ پڑھ لکھ کر کسی قابل ہو جائیں ، دین و دنیا کی نظروں میں سر خرو ہوں تو ٹیلی ویژن کا داخلہ اپنے گھر میں ممنو ع قرار دیدے ۔
(۳۱)… بچوں کو ایسے کھلونے لا کر نہ دے جو انسانوں یا حیوانوں کی شبا ہت سے مماثلث رکھتے ہو ں یا ان پر ایسی شکلیں بنی ہو ئی ہوں ۔
(۳۲)…ان باتوں سے بچوں کو نفرت دلاتی رہے ، غصہ ، جھوٹ بولنا ، کسی کو دیکھ کر جلنا یا حسد کر نا ، چوری ، غیبت ، اپنی بات کی پچ کر نا ، خواہ مخواہ اس کو بنا نا ، بے فائدہ باتیں کر نا ، بات بے با ت ہنسنا یا زیادہ ہنسنا ، دھوکہ دینا ، بھلی بر ی با ت کا نہ سو چنا اور جھٹ منہ سے نکال دینا ۔ ان باتوں میں سے اگر کوئی بات ہو جائے تو فوراً روکے اور سختی سے تنبیہ کر ے ۔
(۳۳)…بچے سے اگر کوئی بات خوبی کی ظاہر ہو والدین اس پر بر ملا اپنی خوشی کا اظہار کریں ۔ بچے کو شابا ش دیں پیا ر کریں ۔ اگر ہو سکے تو اپنے پا س سے انعام بھی دیں تا کہ اس کا دل بڑھے اور وہ نیکیوں کی طرف مزید مائل ہو ۔ اگر اس کی کوئی بری بات دیکھیں تو ڈانٹنے ڈپٹنے سے پر ہیز کر یں ۔ تنہائی میں اسے سمجھائیں اور اپنی دانست بھر اس برائی کے نتیجہ سے آگاہ کریں ۔ ” تم نے کیسی بر ی حرکت کی ہے ۔ دیکھنے والے دل میں تمہا رے بارے میں کیا خیال کر تے ہوں گے ۔ خبر دار پھر ایسا مت کر نا ۔ نیک بچے ایسا نہیں کیا کرتے “۔ اگر پھر وہی بری حرکت کرے تو اس کو منا سب سزا دیں ۔
(۳۴ )… عورت غصے کی حالت میں بچے کو کبھی سزانہ دے۔ اگر اس سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو گئی ہے اور اسے سزا دینا ضروری ہو گیا ہے تو پہلے اس کے لیے منا سب سز ا تجویز کر ے اور اپنا غصہ فرو ہونے کے بعد اسے سزا دے ۔ اپنے غصہ کو ٹھنڈا کر نے کے لیے بچے کو سزا دینا سراسر نا انصافی ہے ۔
(۳۵)…بچوں میں صبح سویر ے اٹھنے کی عادت ڈالے ۔
(۳۶)… ان کو ا یسی کتب یا رسائل پڑھنے کی اجا زت نہ دے جن میں بے ہودہ قصے کہانیاں ، خلاف شرع مضامین ، تصاویر ہوں یا دوسرے مغربی یا مغرب زدہ لڑیچر جو یقینابچوں کے اخلاق اورکردار پر براا ثر ڈالتے ہیں۔اسلا می کتب پڑھنے کو دے جن سے ان کی دینی سوجھ بوجھ میں اضا فہ ہو ۔ نہ صرف اس سمت میں ا ن کی حوصلہ افزائی کرے بلکہ ایسی کتب خو د شوہر سے کہہ کر ان کے لئے مہیا کرے ۔
(۳۷)…عورت کو چا ہئے کہ بچے کو باپ سے ڈرا تی رہے کہ غلطی اور شرا رت پر وہ اسے نہ صرف تنبیہ کرے گا بلکہ سزا بھی دے گا ۔ بچے کے دل میں با پ کی محبت اور عزت بھی پیدا کرنے کی کو شش کر ے ۔
(۳۸)…بچے کو کوئی کام چھپ کر نہ کر نے دے ۔ کھیل ہو ، کھانا ہو یا کوئی اور شغل ، جو کام وہ چھپ کر کرے گا عورت سمجھ جائے کہ بچہ خود اس کام کو برا سمجھتا ہے ۔ اگر وہ واقعی برا ہے۔ تو اس سے چھڑائے اور اگر اچھا ہے جیسے کھا نا پینا تو اس سے کہے کہ سب کے سا منے کھائے پیئے ۔
(۳۹ )…آتش بازی ، با جہ یا فضول اشیا ء خریدنے کے لیے بچے کو رقم مت دے ۔
(۴۰)…بچو ں کو ایسے کھیل کھیلنے کی اجازت نہ د ے جن میں پیسوں یا کسی دوسری چیز کی ہار جیت ہو ۔ اسلام کے نقطہ نظر سے یہ جو اء ہے ۔
(۴۱)… اگر بچے کسی شخص کی سیاہ رنگت یا کوئی اور جسمانی نقص دیکھ کر اس کا تمسخر اڑائیں تو ان کی سر زنش کر ے ۔ انہیں بتائے کہ اچھی بر ی شکلیں اللہ تعالیٰ نے بنا ئی ہیں اور بے شک اللہ عقل کل کا مالک ہے ۔
(۴۲)…والدین بچوں میں اپنا کام خود کر نے کی عادت ڈالیں تاکہ ان میں سستی اور کاہلی کی عادت نہ پڑ جائے ۔ اپنا بستر خود بچھا ئیں ، صبح سویر ے اٹھ کر تہہ کر کے احتیا ط سے رکھیں ۔ کپڑے الماریوں میں سلیقے سے رکھیں اور اپنے کمرے کی صفائی کا خود خیال رکھیں۔ چیزوں کو ادھر ادھر نہ بکھیریں بلکہ سلیقہ سے رکھیں۔ بچوں کو صاف ستھرا رہنا سکھائیں۔ صفائی میں غفلت برتنے پر ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائیں۔ صفائی کا خیال نہ رکھنا اور اس معاملے میں لاپرواہی برتنا بچوں میں عام ہے۔ والدین اس سمت میں ان کی خاص طور پر تربیت کریں۔ بار بار تاکید کریں اور مایوس ہو کر چھوڑ نہ دیں کہ ان پر تو کوئی اثر ہوتا ہی نہیں، ابھی صاف ستھرے کپڑے پہن کر گیا تھا اور کیسا مٹی میں لت پت ہو کر واپس آگیا ہے۔
(۴۳)…بچوں کو عاجزی و انکساری کی تعلیم دیں۔ بچے اپنی اشیاء کی تعریف نہ کریں اور نہ انہیں پاکر فخر کریں اور دوسرے بچوں پر اپنی بڑائی جتائیں۔ شیخی بگھارنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
(۴۴)…بچوں کی موجودگی میں ماں باپ آپس میں تلخ گفتگو اور لڑائی جھگڑا نہ کریں۔
(۴۵)…مغرب کے بعد بچوں کو گھر سے باہر نہ جانے دیں۔ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ مغرب کے بعد شیاطین کثرت سے نکلتے ہیں اور بچے آسانی سے ان کی شیطنت کے زیر اثر آسکتے ہیں۔
(۴۶)…ماں باپ لڑکی کی پیدائش پر بھی اسی طرح خوشی منائیں جس طرح لڑکے کی پیدائش پر مناتے ہیں۔ لڑکی ہو یا لڑکا دونوں ہی خدا کا عطیہ ہیں اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے حق میں لڑکی اچھی ہے یا لڑکا۔ لڑکی کی پیدائش پر ناک بھویں چڑھانا اور دل شکستہ ہونا اطاعت شعار مومن کے لیے کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ یہ نا شکری بھی ہے اور خدائے علیم و کریم کی نافرمانی بھی۔
حضرت ابن شریط فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے تھے۔
﴿اذا ولدللرجل ابنتہ بعث اللہ عزوجل ملئکتہ یقو لون السلام علیکم یا اھل البیت یکتنفو نھا با جنحتہم و یمسحون با یدیھم علی راسھا ویقو لون ضعیفة خرجت من ضعیفة القیم علیھا معان الی یوم القیمتہ۔ (المعجم الصغیر للطبرانی)﴾
جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں۔ اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے۔ جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک اللہ کی مدد اس کے شامل حال رہے گی۔“
(۴۷)…والدین لڑکیوں کی تر بیت اور پرورش انتہائی خوش دلی، روحانی مسرت اور دینی احساس کے ساتھ کریں اور اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ سے بہشت بریں کی آرزو کریں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فر ماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا:
﴿من کان لہ ثلاث بنات او ثلاث اخوات…او ا ثنتین حتی لو قالوا او واحدة لقال واحدة وجبت لہ الہ الجنة (مشکوة۔ ابن عباس)﴾
جس شخص نے تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی سر پرستی کی انہیں تعلیم و تربیت اور تہذیب سکھائی اور ان کے ساتھ رحم کا سلوک کیا، یہاں تک کہ اللہ ان کو بے نیاز کر دے، تو ایسے شخص کے لیے اللہ نے جنت واجب فرما دی۔ اس پر ایک آدمی بو لا اگر دو ہی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دو لڑکیوں کی پرورش کا بھی یہی صلہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اگر لوگ ایک کے بارے میں پوچھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک کی پرورش پر بھی یہی بشارت دیتے ۔
حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے رو ایت ہے وہ فرما تی ہیں کہ :
﴿جاء تنی امرئة ومعھا ابنتان لہا تسالنی فلم تجد عندی غیر تمرة واحدة فا عطیتہا ایا ھا فقسمتہا بین ابنتیھا ولم تا کل منھا ثم قامت فخر جت فدخل النبی فحد ثتہ فقال من ابتلی من ھذہ البنات بشیٴ فاحسن الیھن کن لہ سترا من النار (بخاری ۔ مسلم)﴾
ایک دن ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے میرے پاس آئی اور اس نے کچھ مانگا۔ میرے پاس صرف ایک ہی کھجور تھی وہ میں نے اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔ اس عورت نے کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور آدھی آدھی دونوں بچیوں میں بانٹ دی اور خود نہ کھائی۔ اس کے بعد وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور باہر نکل گئی۔ اسی وقت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لائے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ سارا ماجرا سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سن کر فرمایا ” جو شخص بھی لڑکیوں کی پیدائش کے ذریعے آزمایا جائے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرکے آزمائش میں کامیاب ہو تو یہ لڑکیاں اس کے لیے قیامت کے روز جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی۔
(۴۸)…لڑکی کو حقیر نہ جانے، نہ لڑکے کو اس پر کسی معاملہ میں ترجیح دے۔ دونوں کے ساتھ یکساں محبت کا اظہار کرے اور یکساں سلوک کرے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
﴿من کانت لہ انثی فلم یئد ھا و لم یھنہا ولم یو ثر و لدہ علیھا یعنی الذکور ادخلہ اللہ الجنة (ابو داوٴد)﴾
جس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی اور اس نے جاہلیت کے طریقے پر اسے زندہ دفن نہیں کیا اور نہ اس کو حقیر جانا اور نہ لڑکے کو اس کے مقابلے میں ترجیح دی اور نہ زیادہ سمجھا تو ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرے گا۔
(۴۹)…لڑکیوں سے کہے کہ جو کام کھانے پکانے، سینے پرونے، کپڑے دھونے، رنگنے ، سینے کا کام گھر میں ہوا کرے اس میں غور کرکے دیکھا کریں اور جب عمر ذرابڑی ہو تو ان کو یہ کام خود کرنے کی تربیت دے۔
(۵۰)…والدین جائیداد میں لڑکی کا مقررحصّہ پوری خوش دلی اور اہتمام کے ساتھ دیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فرض کردہ حصہ ہے۔ اس میں کمی بیشی کرنے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں۔ لڑکی کا حصہ دینے میں حیلے کرنا یا اپنی صواب دید کے مطابق کچھ دے دلا کر مطمئن ہو جانا اطاعت شعار موٴمن کا کام نہیں ہے۔ ایسا کرنا خیانت بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دین کی خلاف ورزی بھی۔
(۵۱)…ان تمام عملی تدبیروں کے ساتھ ساتھ نہایت سوز اور دل کی لگن کے ساتھ اولاد کے حق میں دعا بھی کرتی رہے۔ خدائے رحمٰن ، رحیم سے توقع ہے کہ ماں کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی پر سوز دعائیں ضائع نہ فر مائے گا۔
مرد کی نسبت عورت کو بچوں کی تربیت کرنے کے بہتر مواقع میسر ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سورة التحریم کی آیت قوا انفسکم و اھلیکم نارا کی تفسیر میں صحیح بخاری میں یہ قول منقول ہے۔
﴿کلکم راع وکلکم مسئول من رعیتہ الرجل راع علی اھلہ و ھو مسئول۔ المرا ة راعیتہ علی بیت زوجھا وھی مسئولة عنھا۔﴾
”تم میں سے ہر ایک نگران و محافظ ہے اور تم میں سے ہر ایک سے پوچھا جائے گا ان لوگوں کی بابت جو تمہاری نگرانی میں ہوں گے۔ مرد اپنے اہل و عیال پر حکمران و نگران ہے اور وہ اپنی رعیت میں اپنے عمل پر اللہ کے سامنے جوابدہ ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حکمران ہے اور وہ اپنی حکومت کے دائرہ میں اپنے عمل کے لئے جوابدہ ہے۔“
اس حدیث کا یہ ٹکڑا یہاں خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران ہے۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو صرف کھلانے پلانے ہی کا ذمہ دار نہیں ہے اس کے دین و اخلاق کی حفاظت و نگرانی بھی اس کے ذمہ ہے اور بیوی کی ذمہ داری دوگنی ہے۔ وہ شوہر کے گھر اور مال کی نگران تو ہے ہی ، اس کے بچوں کی تربیت کی خصوصی ذمہ داری بھی اس پر ہے۔ شوہر معاش کے حصول کے لیے زیادہ تر باہر رہتا ہے اور گھر میں بچے اپنی ماوٴں ہی سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔ اس لیے بچوں کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کی دوہری ذمہ داری ان کی ماں پر آتی ہے۔
اسلام کے اکثر مشاہیر نے ولایت اپنی والدہ کے ہاتھوں پائی ہے۔ ماں کی انتھک محنت، مادرانہ شفقت اور اخلاق و روحانی تربیت سے وہ بلند مقا مات تک پہنچے۔
ایک مسلمان بچے کی دینی تعلیم اس دنیا میں اس کے آنکھیں کھولنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ننھے بچے کے کانوں میں اذان اقامت کہی جاتی ہے۔ جو اس کے دل میں ایمان کی شمع روشن کرتی ہے۔ پیدا ہوتے ہی بچے کے کان میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام پہنچانے میں بڑی حکمت ہے۔ علامہ ابن قیم اپنی کتاب ”تحفة الودود“ میں فرماتے ہیں۔
”اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے کان میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کی آواز پہنچے اور جس شہادت کو وہ شعوری طور پر ادا کرنے کے بعد داخل اسلام ہو گا اس کی تلقین پیدائش کے دن ہی سے کی جائے جس طرح مرنے کے وقت اس کوکلمہ توحید کی تلقین کی جاتی ہے۔ اذان اور اقامت کا دوسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ شیطان جو گھات میں بیٹھا ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ پیدا ہوتے ہی انسان کو آزمائش میں مبتلا کر دے، اذان سنتے ہی بھاگ جاتا ہے اور شیطان کی دعوت سے پہلے بچے کو اسلام اور عبادت الٰہی کی دعوت دے دی جاتی ہے۔
آجکل اکثر و بیشتر خواتین اس امر پر یقین رکھتی ہیں کہ ان کے مادرانہ فرائض میں صرف بچوں کو کھلاناپلانا اور کپڑے پہنانا ہے، جب کے اسلام ان سے اس سے زیادہ کی توقع رکھتا ہے اور جسمانی صحت سے بھی زیادہ روحانی بالیدگی کو ترجیح دیتا ہے۔ عورت پر فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی، روحانی اور اخلاقی تربیت پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھے۔
جس قسم کی محبت کا اظہار آجکل کے والدین اپنے بچوں سے کرتے ہیں وہ سچی محبت نہیں ہے۔ یہ محبت تو سم قاتل ہے۔ ایسے ماں باپ جو اپنے ان فرائض سے غفلت برتتے ہیں جن کی نشاندہی اسلام نے کی ہے، بہت بڑے مجرم اور گنا ہگار ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو گہرے اندھیرو ں میں دھکیلنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسی محبت جو بچوں کو جہنم کا راستہ دکھائے بہت بڑی نا انصافی اور دشمنی ہے۔ والدین کو اپنی محبت کا رخ اس طرف موڑنا چاہیے جس کی نشاندہی شریعت کرتی ہے۔
اولاد اللہ کی طرف سے نعمت اور امانت ہے۔ اس امانت میں کسی طور پر خیانت نہیں ہونی چاہیے۔ والدین ان کی بُری تربیت کر کے خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں اور یوں ان کا مستقبل اور آخرت تباہ کر دیتے ہیں۔
والدین کے لیے اولاد کی صحیح تربیت کے متعلق ہدایات تو بہت ہیں مگر ہم یہاں خاص خاص کا ذکر کرتے ہیں۔
(۱)…جاننا چاہیے کہ یہ امر بہت ہی خیال رکھنے کے قابل ہے کہ بچپن میں جو عادت بھلی یا بری پختہ ہو جاتی ہے وہ عمر بھر نہیں جاتی۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ بچوں کی عادات پر گہری نظر رکھی جائے۔ بچپن کی عادات اس کے کردار کی تعمیر کرتی ہیں۔
(۲)…بچے کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے سے پرہیز کرے۔ بعض مائیں بچے میں اطاعت شعاری کی خاطر اسے جن بھوت سے ڈراتی ہیں، یہ بہت بری حرکت ہے، اس سے بچے کا دل کمزور ہو جاتا ہے۔ ابتدائی عمر کا یہ ڈر ساری عمر دل و دماغ پر چھا یا رہتا ہے اور ایسے بچے بالعموم زندگی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے کے لائق نہیں رہتے۔ والدین لاعلمی سے اپنے بچوں میں بہادری کے جذبات ابھارنے کی بجائے انہیں بزدل بنا دیتے ہیں۔
(۳)…بچوں کی خوراک کے اوقات مقرر ہونے چاہئیں۔ وقت بے وقت کھلا کر ان کی عادات نہ خراب کریں۔ ایسا کرنے سے ان کی صحت پر بھی برا اثر پڑے گا۔
(۴)…بچپن سے ہی انہیں مسواک کرنے کی عادت ڈالیں۔
(۵)… بچوں کو ہدایت کریں کہ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوئیں۔
(۶)…انہیں کھانے پینے ، سونے ، کپڑے پہننے، طہارت خانے میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کے آداب سے آگاہ کریں۔
(۷)… بچہ جب بولنے کے قابل ہو تو والدہ سب سے پہلے اسے اللہ تعالیٰ کے نام سکھائے۔ بلکہ اس کی قوت گویائی سے بہت پہلے والدین اس کے سامنے قرآنی آیات ، اللہ تعالیٰ کے نام اور کلمہ پڑھا کریں۔ دودھ پیتے بچے کا ذہن جو کچھ سنتا ہے اور دیکھتا ہے اسے قبول کر لیتا ہے اور اپنے دماغ میں محفوظ کر لیتا ہے۔
(۸)…والدین چھ ماہ کے بچے کے سامنے بھی اپنے ستر سے آزاد نہ ہوں۔
(۹)…بچے کے دل میں عیش و عشرت کے سامان کی محبت نہ پیدا ہونے دیں اور انہیں نئے نئے فیشنوں سے دور رکھیں۔ ہمیشہ ان کو سادگی کا درس دیں۔
(۱۰)… انہیں ہمیشہ صاف ستھرا رکھیں۔ ان کی طہارت، نظافت اور غسل کا خیال رکھیں۔ کپڑے بھی پاک صاف ہوں۔ بناوٴ سنگھار اور نمود و نمائش سے پرہیز کریں۔ لڑکی کے کپڑے بھی نہایت سادہ ہوں۔ زرق برق لباس پہنا کر بچوں کے مزاج کو خراب نہ کریں۔
(۱۱)…عورت خواہ امیر کبیر ہو کبھی کبھار بچوں کو پیوند لگے کپڑے ضرور پہنائے۔
(۱۲)…جب تک وہ جوانی کی حدود کو نہ چھونے لگے ، بچی کو زیورات نہ پہنائیں ورنہ زیورات اور بناوٴ سنگھار سے محبت بچپن ہی سے اس کے دل میں جڑ پکڑ لے گی۔
(۱۳)…بچوں کے ہاتھ سے خوراک وغیرہ غریبوں کو دلوائیں تاکہ ان کے دل میں فراخدلی ، سخاوت اور فیاضی گھر کر جائے۔ کبھی کبھی یہ موقع بھی فراہم کریں کہ کھانے پینے کی چیزیں بہن بھائی خود ہی آپس میں تقسیم کر لیں تاکہ ایک دوسرے کے حقوق کا احساس اور انصاف کی عادت پیدا ہو۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ بچوں میں سب سے بڑا ماں کی نگرانی میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں میں تقسیم کرے۔
(۱۴)…دوسروں کے سامنے بچوں کے عیب نہ بیان کریں اور کسی کے سامنے ان کو شرمندہ کرنے اور ان کی عزت نفس کو ٹھیس لگانے سے بھی سختی کے ساتھ پرہیز کریں۔
(۱۵)…بچوں کو چیخنے چلانے اور اونچی آ واز میں گفتگو سے منع کریں اور ایسا کرنے سے خود بھی پرہیز کریں۔ درمیانی آواز میں نرمی کے ساتھ گفتگو کرنے کی تاکید کریں۔
(۱۶)…بچوں کی ہر جاو بے جا ضد پوری نہ کریں بلکہ حکمت کے ساتھ ان کی یہ عادتیں چھڑانے کی کوشش کریں۔ کبھی کبھی مناسب سختی بھی کریں۔ بے جا لاڈ پیار سے ان کو ضدی اور خود سر نہ بنائیں۔
(۱۷)…بچوں کو عادت ڈالیں کہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کریں۔ہر کام میں نوکروں کا سہارا نہ لیں۔ اس سے بچے کاہل ، سست اور اپاہج بن جاتے ہیں۔ بچوں کو جفاکش، محنتی اور سخت کوش بنائیں۔
(۱۸)…ان کو باہر کے بچوں کے ساتھ ملنے جلنے سے روکیں۔ بہن بھائی اپنے گھر کی حدود کے اندر مل جل کر کھیلیں جہاں ان کی سب حرکات و سکنات ماں باپ کی نظروں کے سامنے ہوں گی۔
(۱۹)…ان کو اڑوس پڑوس میں آوارہ پھرنے کی اجازت نہ دیں۔
(۲۰)…اولاد کو بات بات پر ڈانٹنے، جھڑکنے اور برا بھلا کہنے سے سختی کے ساتھ پرہیز کریں اور ان کی کوتاہیوں پر غصہ ہونے اور نفرت کا اظہار کرنے کی بجائے حکمت و سوز کے ساتھ ان کی تر بیت کرنے کی محبت آمیز کوشش کریں۔ اپنے طرز عمل سے بچوں کے ذہن پر یہ خوف بہر حال غالب رکھیں کہ ان کی کوئی خلاف شرع بات وہ ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔
(۲۱)…اولاد کے ساتھ ہمیشہ شفقت، محبت اور نرمی کا برتاوٴ کریں اور اپنی حیثیت کے مطابق ان کی ضروریات کو پورا کرکے ان کو خوش رکھیں اور ان میں اطاعت و فرمانبرداری کے جذبات ابھاریں۔
(۲۲)…اولاد کو پاکیزہ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے لیے اپنی ساری کوشش اور توانائی صرف کردیں۔ اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں۔یہ عورت کی دینی ذمہ داری بھی ہے، اولاد کے ساتھ عظیم احسان اور اپنی ذات کے ساتھ سب سے بڑی بھلائی بھی۔
(۲۳)…”اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور اس عمر کوپہنچنے کے بعد ان کے بستر الگ کر دو “ گو اس حدیث پر عمل کر وانے کی ذمہ داری
باپ پر ہے مگر والدہ بھی دیکھے کہ اس پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں ۔
(۲۴)…وا لدہ بچوں کے سامنے کبھی بچوں کی اصلا ح سے مایو سی کا اظہا ر نہ کرے بلکہ ان کی ہمت بڑھا نے کے لیے ان کی معمولی معمولی اچھا ئیو ں کی بھی دل کھو ل کر تعریف
کرے۔ہمیشہ ان کا دل بڑھانے اوران میں خود اعتما د ی اور حوصلہ پیدا کرنے کی کو شش کرے تا کہ یہ کار گاہ حیات میں او نچے سے اونچامقا م حاصل کر سکیں۔
(۲۵)…والدہ بچوں کو جنوں،پر یوں کے اوٹ پٹانگ قصے کہا نیاں نہ سنا ئے بلکہ ان کو نبیوں کے قصے ، صالحین کی کہا نیا ں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجا ہد انہ کا رنا مے ضرور سناتی رہے ۔ تر بیت و تہذیب کردار سازی اور دین سے شغف کے لیے اس کو انتہائی ضروری سمجھے اور ہزار مصرو فیتوں کے با وجود اس کے لیے وقت نکالے ۔ اکثرو بیشتر ان کو قرآن پاک بھی خوش الحا نی کے ساتھ پڑھ کر سنائے اور مو قع موقع سے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث بھی بتا ئے اور ابتدائی عمر ہی سے ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اجا گر کر نے کی کو شش کر ے ۔
(۲۶)…بچو ں میں باہم لڑائی ہوجائے تو بچے کی بے جا حما یت نہ کرے ۔ یہ خیا ل رکھے کہ اپنے بچے کے لیے اس کے سینے میں جو جذبات ہیں وہی جذبات دوسروں کے سینے میں اپنے بچوں کے لیے ہیں ۔ ہمیشہ اپنے بچے کے قصوروں پر نگاہ رکھے اور ہر پیش آنے والے نا خوشگوار واقعہ میں اپنے بچے کی کوتاہی اور غلطی کا کھو ج لگا کر حکمت اور مسلسل تو جہ سے اس کو دور کرنے کی پر سوز کو شش کر ے ۔
(۲۷)…اولاد کے ساتھ ہمیشہ برابری کا سلوک کر ے اور اس معاملے میں بے اعتدالی سے بچنے کو پوری پو ری کو شش کر ے ۔ اگر طبعاً کسی ایک بچے کی طرف زیا دہ میلان ہو تو معذوری ہے لیکن سلوک بر تاؤ اور لین دین میں ہمیشہ انصاف اور مسا وات کا لحاظ رکھے اور کبھی بھی کسی ایک کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک نہ کر ے جس کو دوسرے بچے محسوس کریں۔ اس سے دوسرے بچوں میں احسا س کمتری ،نفرت ، مایوسی اور آ خر کا ر بغا وت پیدا ہو گی اور یہ بر ے جذبات فطری صلا حیتوں کے پر وان چڑھنے میں زبر دست رکاوٹ اور اخلا قی و روحانی تر قی کے لیے سم قاتل ہیں ۔
(۲۸)… بچوں کے سامنے ہمیشہ اچھا عملی نمونہ پیش کر ے ۔ اس کی اپنی زندگی بچوں کے لیے ایک ہمہ وقتی خاموش معلم ہے جس سے بچے ہر وقت پڑھتے اور سیکھتے رہتے ہیں ۔ بچوں کے سامنے کبھی مذاق میں بھی جھو ٹ نہ بو لے ۔
حضرت عبداللہ ابن عا مر رضی اللہ عنہ اپنا ایک قصہ بیان کر تے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف رکھتے تھے ۔ میری والدہ نے مجھے بلایا اور کہا ” یہاں آمیں تجھے چیز دوں گی “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا ۔ پو چھا ” تم بچے کو کیا دینا چا ہتی ہو “ والدہ بو لیں ” میں اس کو کھجور دینا چاہتی ہوں “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ سے فرمایا ” اگر تم دینے کا بہانہ کر کے بلاتیں اور بچے کے آنے پر کچھ نہ دیتیں تو تمہارے اعمال نامہ میں یہ جھوٹ لکھ دیا جا تا “۔
(۲۹)… اپنے بچو ں کو بر ی صحبت سے بچا ئے ۔ ا ٓس پا س کے جن بچو ں کی عا د تیں خر اب ہیں یا وہ لکھنے پڑ ھنے سے بھا گتے ہیں یاتکلف کے کھا نے اور شو خ کپڑ ے پہننے کے عا دی ہیں ان کے پا س بیٹھنے سے اور ان کے ساتھ کھیلنے سے رو کے ۔
(۳۰)… سو برائیوں کی ایک برا ئی ، ٹیلی ویژن ۔ اگر عورت چا ہتی ہے کہ بچوں کا مستقبل محفوظ رہے ، وہ پڑھ لکھ کر کسی قابل ہو جائیں ، دین و دنیا کی نظروں میں سر خرو ہوں تو ٹیلی ویژن کا داخلہ اپنے گھر میں ممنو ع قرار دیدے ۔
(۳۱)… بچوں کو ایسے کھلونے لا کر نہ دے جو انسانوں یا حیوانوں کی شبا ہت سے مماثلث رکھتے ہو ں یا ان پر ایسی شکلیں بنی ہو ئی ہوں ۔
(۳۲)…ان باتوں سے بچوں کو نفرت دلاتی رہے ، غصہ ، جھوٹ بولنا ، کسی کو دیکھ کر جلنا یا حسد کر نا ، چوری ، غیبت ، اپنی بات کی پچ کر نا ، خواہ مخواہ اس کو بنا نا ، بے فائدہ باتیں کر نا ، بات بے با ت ہنسنا یا زیادہ ہنسنا ، دھوکہ دینا ، بھلی بر ی با ت کا نہ سو چنا اور جھٹ منہ سے نکال دینا ۔ ان باتوں میں سے اگر کوئی بات ہو جائے تو فوراً روکے اور سختی سے تنبیہ کر ے ۔
(۳۳)…بچے سے اگر کوئی بات خوبی کی ظاہر ہو والدین اس پر بر ملا اپنی خوشی کا اظہار کریں ۔ بچے کو شابا ش دیں پیا ر کریں ۔ اگر ہو سکے تو اپنے پا س سے انعام بھی دیں تا کہ اس کا دل بڑھے اور وہ نیکیوں کی طرف مزید مائل ہو ۔ اگر اس کی کوئی بری بات دیکھیں تو ڈانٹنے ڈپٹنے سے پر ہیز کر یں ۔ تنہائی میں اسے سمجھائیں اور اپنی دانست بھر اس برائی کے نتیجہ سے آگاہ کریں ۔ ” تم نے کیسی بر ی حرکت کی ہے ۔ دیکھنے والے دل میں تمہا رے بارے میں کیا خیال کر تے ہوں گے ۔ خبر دار پھر ایسا مت کر نا ۔ نیک بچے ایسا نہیں کیا کرتے “۔ اگر پھر وہی بری حرکت کرے تو اس کو منا سب سزا دیں ۔
(۳۴ )… عورت غصے کی حالت میں بچے کو کبھی سزانہ دے۔ اگر اس سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو گئی ہے اور اسے سزا دینا ضروری ہو گیا ہے تو پہلے اس کے لیے منا سب سز ا تجویز کر ے اور اپنا غصہ فرو ہونے کے بعد اسے سزا دے ۔ اپنے غصہ کو ٹھنڈا کر نے کے لیے بچے کو سزا دینا سراسر نا انصافی ہے ۔
(۳۵)…بچوں میں صبح سویر ے اٹھنے کی عادت ڈالے ۔
(۳۶)… ان کو ا یسی کتب یا رسائل پڑھنے کی اجا زت نہ دے جن میں بے ہودہ قصے کہانیاں ، خلاف شرع مضامین ، تصاویر ہوں یا دوسرے مغربی یا مغرب زدہ لڑیچر جو یقینابچوں کے اخلاق اورکردار پر براا ثر ڈالتے ہیں۔اسلا می کتب پڑھنے کو دے جن سے ان کی دینی سوجھ بوجھ میں اضا فہ ہو ۔ نہ صرف اس سمت میں ا ن کی حوصلہ افزائی کرے بلکہ ایسی کتب خو د شوہر سے کہہ کر ان کے لئے مہیا کرے ۔
(۳۷)…عورت کو چا ہئے کہ بچے کو باپ سے ڈرا تی رہے کہ غلطی اور شرا رت پر وہ اسے نہ صرف تنبیہ کرے گا بلکہ سزا بھی دے گا ۔ بچے کے دل میں با پ کی محبت اور عزت بھی پیدا کرنے کی کو شش کر ے ۔
(۳۸)…بچے کو کوئی کام چھپ کر نہ کر نے دے ۔ کھیل ہو ، کھانا ہو یا کوئی اور شغل ، جو کام وہ چھپ کر کرے گا عورت سمجھ جائے کہ بچہ خود اس کام کو برا سمجھتا ہے ۔ اگر وہ واقعی برا ہے۔ تو اس سے چھڑائے اور اگر اچھا ہے جیسے کھا نا پینا تو اس سے کہے کہ سب کے سا منے کھائے پیئے ۔
(۳۹ )…آتش بازی ، با جہ یا فضول اشیا ء خریدنے کے لیے بچے کو رقم مت دے ۔
(۴۰)…بچو ں کو ایسے کھیل کھیلنے کی اجازت نہ د ے جن میں پیسوں یا کسی دوسری چیز کی ہار جیت ہو ۔ اسلام کے نقطہ نظر سے یہ جو اء ہے ۔
(۴۱)… اگر بچے کسی شخص کی سیاہ رنگت یا کوئی اور جسمانی نقص دیکھ کر اس کا تمسخر اڑائیں تو ان کی سر زنش کر ے ۔ انہیں بتائے کہ اچھی بر ی شکلیں اللہ تعالیٰ نے بنا ئی ہیں اور بے شک اللہ عقل کل کا مالک ہے ۔
(۴۲)…والدین بچوں میں اپنا کام خود کر نے کی عادت ڈالیں تاکہ ان میں سستی اور کاہلی کی عادت نہ پڑ جائے ۔ اپنا بستر خود بچھا ئیں ، صبح سویر ے اٹھ کر تہہ کر کے احتیا ط سے رکھیں ۔ کپڑے الماریوں میں سلیقے سے رکھیں اور اپنے کمرے کی صفائی کا خود خیال رکھیں۔ چیزوں کو ادھر ادھر نہ بکھیریں بلکہ سلیقہ سے رکھیں۔ بچوں کو صاف ستھرا رہنا سکھائیں۔ صفائی میں غفلت برتنے پر ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائیں۔ صفائی کا خیال نہ رکھنا اور اس معاملے میں لاپرواہی برتنا بچوں میں عام ہے۔ والدین اس سمت میں ان کی خاص طور پر تربیت کریں۔ بار بار تاکید کریں اور مایوس ہو کر چھوڑ نہ دیں کہ ان پر تو کوئی اثر ہوتا ہی نہیں، ابھی صاف ستھرے کپڑے پہن کر گیا تھا اور کیسا مٹی میں لت پت ہو کر واپس آگیا ہے۔
(۴۳)…بچوں کو عاجزی و انکساری کی تعلیم دیں۔ بچے اپنی اشیاء کی تعریف نہ کریں اور نہ انہیں پاکر فخر کریں اور دوسرے بچوں پر اپنی بڑائی جتائیں۔ شیخی بگھارنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
(۴۴)…بچوں کی موجودگی میں ماں باپ آپس میں تلخ گفتگو اور لڑائی جھگڑا نہ کریں۔
(۴۵)…مغرب کے بعد بچوں کو گھر سے باہر نہ جانے دیں۔ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ مغرب کے بعد شیاطین کثرت سے نکلتے ہیں اور بچے آسانی سے ان کی شیطنت کے زیر اثر آسکتے ہیں۔
(۴۶)…ماں باپ لڑکی کی پیدائش پر بھی اسی طرح خوشی منائیں جس طرح لڑکے کی پیدائش پر مناتے ہیں۔ لڑکی ہو یا لڑکا دونوں ہی خدا کا عطیہ ہیں اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے حق میں لڑکی اچھی ہے یا لڑکا۔ لڑکی کی پیدائش پر ناک بھویں چڑھانا اور دل شکستہ ہونا اطاعت شعار مومن کے لیے کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ یہ نا شکری بھی ہے اور خدائے علیم و کریم کی نافرمانی بھی۔
حضرت ابن شریط فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے تھے۔
﴿اذا ولدللرجل ابنتہ بعث اللہ عزوجل ملئکتہ یقو لون السلام علیکم یا اھل البیت یکتنفو نھا با جنحتہم و یمسحون با یدیھم علی راسھا ویقو لون ضعیفة خرجت من ضعیفة القیم علیھا معان الی یوم القیمتہ۔ (المعجم الصغیر للطبرانی)﴾
جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں۔ اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے۔ جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک اللہ کی مدد اس کے شامل حال رہے گی۔“
(۴۷)…والدین لڑکیوں کی تر بیت اور پرورش انتہائی خوش دلی، روحانی مسرت اور دینی احساس کے ساتھ کریں اور اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ سے بہشت بریں کی آرزو کریں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فر ماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا:
﴿من کان لہ ثلاث بنات او ثلاث اخوات…او ا ثنتین حتی لو قالوا او واحدة لقال واحدة وجبت لہ الہ الجنة (مشکوة۔ ابن عباس)﴾
جس شخص نے تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی سر پرستی کی انہیں تعلیم و تربیت اور تہذیب سکھائی اور ان کے ساتھ رحم کا سلوک کیا، یہاں تک کہ اللہ ان کو بے نیاز کر دے، تو ایسے شخص کے لیے اللہ نے جنت واجب فرما دی۔ اس پر ایک آدمی بو لا اگر دو ہی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دو لڑکیوں کی پرورش کا بھی یہی صلہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اگر لوگ ایک کے بارے میں پوچھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک کی پرورش پر بھی یہی بشارت دیتے ۔
حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے رو ایت ہے وہ فرما تی ہیں کہ :
﴿جاء تنی امرئة ومعھا ابنتان لہا تسالنی فلم تجد عندی غیر تمرة واحدة فا عطیتہا ایا ھا فقسمتہا بین ابنتیھا ولم تا کل منھا ثم قامت فخر جت فدخل النبی فحد ثتہ فقال من ابتلی من ھذہ البنات بشیٴ فاحسن الیھن کن لہ سترا من النار (بخاری ۔ مسلم)﴾
ایک دن ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے میرے پاس آئی اور اس نے کچھ مانگا۔ میرے پاس صرف ایک ہی کھجور تھی وہ میں نے اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔ اس عورت نے کھجور کے دو ٹکڑے کیے اور آدھی آدھی دونوں بچیوں میں بانٹ دی اور خود نہ کھائی۔ اس کے بعد وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور باہر نکل گئی۔ اسی وقت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لائے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ سارا ماجرا سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سن کر فرمایا ” جو شخص بھی لڑکیوں کی پیدائش کے ذریعے آزمایا جائے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرکے آزمائش میں کامیاب ہو تو یہ لڑکیاں اس کے لیے قیامت کے روز جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی۔
(۴۸)…لڑکی کو حقیر نہ جانے، نہ لڑکے کو اس پر کسی معاملہ میں ترجیح دے۔ دونوں کے ساتھ یکساں محبت کا اظہار کرے اور یکساں سلوک کرے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
﴿من کانت لہ انثی فلم یئد ھا و لم یھنہا ولم یو ثر و لدہ علیھا یعنی الذکور ادخلہ اللہ الجنة (ابو داوٴد)﴾
جس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی اور اس نے جاہلیت کے طریقے پر اسے زندہ دفن نہیں کیا اور نہ اس کو حقیر جانا اور نہ لڑکے کو اس کے مقابلے میں ترجیح دی اور نہ زیادہ سمجھا تو ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرے گا۔
(۴۹)…لڑکیوں سے کہے کہ جو کام کھانے پکانے، سینے پرونے، کپڑے دھونے، رنگنے ، سینے کا کام گھر میں ہوا کرے اس میں غور کرکے دیکھا کریں اور جب عمر ذرابڑی ہو تو ان کو یہ کام خود کرنے کی تربیت دے۔
(۵۰)…والدین جائیداد میں لڑکی کا مقررحصّہ پوری خوش دلی اور اہتمام کے ساتھ دیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فرض کردہ حصہ ہے۔ اس میں کمی بیشی کرنے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں۔ لڑکی کا حصہ دینے میں حیلے کرنا یا اپنی صواب دید کے مطابق کچھ دے دلا کر مطمئن ہو جانا اطاعت شعار موٴمن کا کام نہیں ہے۔ ایسا کرنا خیانت بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دین کی خلاف ورزی بھی۔
(۵۱)…ان تمام عملی تدبیروں کے ساتھ ساتھ نہایت سوز اور دل کی لگن کے ساتھ اولاد کے حق میں دعا بھی کرتی رہے۔ خدائے رحمٰن ، رحیم سے توقع ہے کہ ماں کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی پر سوز دعائیں ضائع نہ فر مائے گا۔
No comments:
Post a Comment