اپنے میا ں کو اللہ کے راستے میں خر چ کر نے کے لئے کہتی رہا کریں ۔ اس لئے کہ صد قہ بلا ؤ ں کو ٹا لتا ہے ۔ صد قے سے رزق میں بر کت ہو تی ہے ۔ حدیث پا ک میں آیا ہے کہ نبی علیہ السلام نے قسم کھا کر فر ما یا کہ صد قہ دینے سے انسا ن کے ما ل میں کمی نہیں ہو تی ۔ اب بتا ئیے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ویسے ہی کہہ دیتے تو کا فی تھا ۔ لیکن اللہ صادق و امین محبوب نے قسم کھا کر فرمایا کہ صدقہ دینے سے انسان کے مال کے اندر کمی نہیں آ تی ۔ اس لئے اپنے خا وند کو اس صد قہ کے با رے میں وقتاً فو قتاًکہتی رہیں ۔ کبھی پر یشان حال ہو تو مشورہ دیں کہ کچھ صد قہ اللہ کے راستے میں خر چ کر دیں ۔ صد قے کا یہ مطلب نہیں ہو تا کہ جو کچھ ہے سا را کچھ دے کے فا رغ ہو جا ؤ ۔ بلکہ آپ نے اگر پیسہ بھی خرچ کیا تو اللہ کے ہاں وہ بھی صد قے میں شمار کر لیا جا ئے گا ۔
خو د بھی اللہ کے راستے میں خاوند کی اجا زت سے دینے کی عا دت ڈالیں ۔ اپنے بچوں کے ہا تھوں سے بھی دلوا یا کر یں ۔ کو ئی غر یب عورت آجائے ، پیسے دینا چا ہتی ہیں تو اپنی بیٹی کے ہا تھ پہ رکھ کر کہا کر یں کہ بیٹی جا ؤ دے کے آؤ تا کہ بچی کو سبق مل جا ئے کہ میں نے بھی اللہ کے راستے میں خر چ کر نا ہے ۔ یقین کر یں کہ جتنا ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کے با لمقابل اللہ کے راستے میں ہم بہت کم خرچ کر تے ہیں ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں ۔
﴿ و فی امو الھم حق معلوم للسئا ئل والمحروم ﴾ ( المعارج : ۲۵)
” اور وہ جن کے مالوں میں حصہ مقرر ہے سا ئلوں اور مسکینوں کے لئے “
سخا وت کی قدر
یہ دل کی سخا وت اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے کہ نبی علیہ السلام کے پا س حا تم طائی کی بیٹی گر فتا ر ہو کر آئی تو اللہ کے محبوب کو بتا یا گیا ۔ اس کا والد بڑا سخی تھا ۔ اس با ت کو سن کر اللہ کے نبی نے اس بچی کو آزاد کر دیا ۔ کہنے لگی ، میں اکیلی کیسے جا ؤں ۔ چنا نچہ آپ نے دو صحا بہ کو اس کے ساتھ بھیجا کہ وہ اس کو بحفا ظت واپس گھر پہنچا ئیں ۔ وہ کہنے لگی کہ مجھے اکیلی جا تے شر م آ تی ہے ۔ میں آزاد ہو گئی جب کہ میرے قبیلے کے سارے لو گ یہاں قید ہیں ۔ نبی علیہ السلام نے بچی کی بات پر قبیلے کے سارے لوگوں کو معاف فرما دیا ۔ سخا وت اللہ تعالیٰ کو اور اللہ کے محبوب کو اتنی پسند ہے۔
No comments:
Post a Comment