Wednesday, October 3, 2012

طلاق سے پہلے

طلاق سے پہلے
گھروں میں معمولی نوعیت کے جھگڑے اور اختلافات ہوتے ہی رہتے ہیں اور بعض اوقات کوئی بڑا جھگڑ ابھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں اگر خاوند بیوی دونوں برداشت سے کام لیں بلکہ گھر کے دوسرے افراد بھی قابل تعریف کردار ادا کریں تو طلاق کی نوبت نہیں آتی۔ اگر عورت خاوند کی نافرمانی پر اتر آئے تو بھی فوری طور پر طلاق دینے سے منع کیا گیا، بلکہ اصلاح کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن پاک نے جو راستہ بتایاہے وہ اس طرح ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
والتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن (سورہ نساء، آیت ۳۴)
اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی کا تمہیں ڈر ہو تو انہیں پہلے نرمی سے سمجھاؤ اور پھر خواب گاہوں سے انہیں الگ کردو اور (پھر بھی باز نہ آئیں تو) انہیں مارو۔
اس آیت میں اصلاح کا طریقہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ایسی عورتیں جن سے نافرمانی کا ڈر ہو پہلے انہیں زبان سے سمجھایا جائے، ٹھیک ہوجائیں تو بہتر ورنہ گھر کے اندر ان کا سوشل (سماجی)بائیکاٹ کیا جائے۔ ہوسکتا ہے۔ اب وہ سمجھ جائیں اور اگر اب بھی باز نہ آئیں تو ہلکی پھلکی سزا دو، یعنی ایسی سزا دی جائے جو اصلاح کا باعث بنے، اذیت ناک نہ ہو کیونکہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا :
فاتقوا اللہ عزوجل فی النساء (مسند امام احمد جلد
۵ صفحہ ۷۳)
عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
اور ایک روایت میں اس طرح ہے، آپ نے فرمایا:
ولا تضرب الوجہ ولا تقبح ولا تھجر الا فی البیت
(سنن ابی داوٴد ص
۲۹۱)
نہ تو عورت کے چہرے پر مار، اور نہ ناشائستہ کلام کر اور بائیکاٹ بھی گھر کے اندر کر۔
اگر ان مندرجہ بالا صورتوں کو اپنانے کے بعد عورت راہ راست پر آجاتی ہے تو اب طلاق دینے جیسے ناپسندیدہ عمل سے بچنا ضروری ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلاً (سورہٴ نساء، آیت
۳۴)
پس اگر وہ عورتیں تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔
مقصد یہ ہے کہ جب عورت خاوند سے بغاوت نہیں کرتی اور اب اطاعت گزار ہوچکی ہے اور گھر کا سکون بحال ہوچکا ہے تو اب طلاق دے کر اسے پریشان نہ کیا جائے۔
مصالحتی کمیٹی
اگر مندرجہ بالا تین طریقے بھی مفید ثابت نہ رہوں اور اتفاق و اتحاد کی کوئی راہ نہ نکلے بلکہ میاں بیوی کے درمیان عداوت اور اختلاف کی دیوار کھڑی ہوجائے تو اب ذمہ دار حضرات مثلاً حکومتی افراد یا علاقے کے کونسلر یا محلہ دار اور گاؤں کے قابل اعتماد بزرگ حضرات کا فرض ہے کہ وہ دو آدمیوں پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کریں جس میں ایک عورت کے خاندان سے ہو اور دوسرا مرد کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو، کیونکہ رشتہ داری کی بنیاد پر یہ لوگ اندرونی حالات سے زیادہ واقف ہوتے ہیں، یہ حضرات مصالحت کی کوشش کریں۔
نوٹ:۔ مصالحتی کمیٹی میں حسب ضرورت دوسرے مناسب افراد کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ نیز کمیٹی دو سے زیادہ آدمیوں پر بھی مشتمل ہوسکتی ہے۔
اگر ان لوگوں نے خلوص نیت سے کام لیا تو انشاء اللہ تعالیٰ حالات ٹھیک ہوجائیں گے
ارشاد خداوندی ہے:
وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکماً من اھلہ وحکمًا من اھلھا ان یریدا اصلاحاً یوفق اللہ بینھما ان اللہ کان علیمًا خبیرًا
(سورہ نساء، آیت
۳۵)
اگر تمہیں ان کے درمیان ناچاکی کا خوف ہو تو ایک پنچ مرد کے خاندان سے اور ایک پنچ عورت کے خاندان سے مقرر کرو اگر وہ دونوں ان کے درمیان صلح کا ارادہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان (میاں بیوی) کے درمیان موافقت پیدا کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا، خبر رکھنے والا ہے۔
طلاق کی نوبت
اگر ان تمام طریقوں کو اپنانے کے باوجود حالات بہتر نہ ہوسکیں اور خاوند بیوی کے درمیان صلح کی کوئی صورت پیدا نہ ہو بلکہ انکا اکٹھا رہنا ناممکن ہوجائے تو سخت مجبوری کے تحت طلاق دی جائے۔
لیکن طلاق دیتے وقت یہ بات پیش نظر رہے کہ اگر کسی وقت حالات بدل جائیں، ان دونوں کے درمیان صلح ہوجائے اور اب دوبارہ میاں بیوی کی حیثیت اختیار کرنا چاہیں تو کسی قسم کی پریشانی اٹھانا نہ پڑے۔
لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم طلاق کی اقسام، طلاق دینے کے طریقوں اور طلاق کے لئے استعمال ہونے والے الفاظ سے مکمل طور پر آگاہ ہوں، اور ہمیں یہ بھی معلوم ہو کہ طلاق دینے کا بہترین طریقہ کیا ہے!

No comments:

Post a Comment