Monday, October 8, 2012

طلاق کا غلط طریقہ اور اس کے نقصانات


یوں تو ہمارے معاشرے میں طلاق کے بے شمار غلط سلط طریقے رائج ہیں اور نئے نئے غلط طریقے آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ غلط، ناجائز اور خلاف شرع طریقہ اور بے شمار آفات و مصائب سے بھرا ہو اوہ طریقہ ہے جو ہمارے یہاں بکثرت رائج ہے، اس کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ طریقہ سوفیصد رائج ہے تو شاید مبالغہ نہ ہو، اور پھر اپنی جہالت سے اسی کو طلاق دینے کا واحد طریقہ سمجھا جاتا ہے، اس طریقہ سے ہٹ کر طلاق دینے کو طلاق دینا سمجھا ہی نہیں جاتا، وہ نامراد طریقہ ایک دم تین طلاق دینے کا ہے۔ اسی بناء پر ہر خاص و عام، جاہل، پڑھا لکھا، امیر، غریب، غصہ میں یا غور و فکر کے بعد، زبانی یا تحریری جب طلاق دیں گے دفعتاً تین طلاقیں دیں گے، اس سے کم پر اکتفا ہی نہیں کرتے، بلکہ اتفاق سے شوہر اگر ایک یا دو طلاقیں دینے پر اکتفا کر بھی لے تو اس کو تیسری طلاق دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور طرح طرح کے طعنے دے کر یا دھمکی دے کر یا کسی طرح مزید غصہ دلا کر تیسری طلاق بھی اسی وقت دلوائی جاتی ہے، اور جب تک خاوند تین طلاقیں نہ دے دے، نہ خاوند کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے، نہ بیوی کا، نہ دیگر اہل خانہ کا اور نہ دیگر اقرباء کا، اور اس سے پہلے نہ بچوں کی بربادی کا خیال آتا ہے، نہ گھر اجڑنے کا، نہ دو خاندانوں میں عداوت و دشمنی کا، کوئی بھی اس وقت ہوش سے کام نہیں لیتا، اور جب خاوند بیوی کو طلاق کی تینوں گولیاں مار دیتا ہے تو سب کو سکون ہوجاتا ہے اور ہوش آجاتا ہے۔
پھر جب چھوٹے چھوٹے بچوں کا خیال آتا ہے اور ان کے کھوئے کھوئے معصوم چہرے سامنے آتے ہیں اور گھر اجڑتا نظر آتا ہے تو اوسان خطا ہونے لگتے ہیں اور ہر ایک کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگتا ہے اور دونوں میاں بیوی اپنے کئے پر پشیمان ہوتے ہیں اور معافی و شافی کرکے بہت جلد صلح و آشتی پر تیارہوجاتے ہیں، مگر سر سے پانی پھر جانے کے بعد یہ پشیمانی اور صلح و آشتی کچھ کام نہیں آتی اور نہ رونے دھونے سے کچھ کام چلتا ہے، تینوں طلاق واقع ہوجاتی ہیں، حرمت مغلظہ ثابت ہوجاتی ہے اور بیوی خاوندپر حرام ہوجاتی ہے۔ جس میں رجوع بھی نہیں ہوسکتا اور حلالہ کے بغیر باہم دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ،اور طلاق دینے میں ناجائز طریقہ اختیار کرنے کا گناہ عظیم علیٰحدہ ہوا، پھر اگرناحق طلاق دی ہو تو ناحق طلاق دینا ظلم ہے جو خود گناہ کبیرہ ہے اور حرام ہے۔
اس کے بعد علماء کرام اور مفتیان عظام کے دروازوں کو دستک دی جاتی ہے اور بڑی عاجزی کے ساتھ اپنی درد بھری داستان سنائی جاتی ہے۔ معصوم بچوں کی بربادی کا ذکر ہوتا ہے، آنکھوں سے اشکوں کے دریا بہائے جاتے ہیں اور درخواست کی جاتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی گنجائش نکال کر ان کے گھر کو تباہی سے بچایا جائے، کوئی کفارہ بتلایا جائے جس سے دی ہوئی تین طلاقیں کالعدم ہوجائیں او رہم دوبارہ میاں بیوی بن جائیں۔ مگر اب میاں بیوی کہاں بن سکتے ہیں، دوبارہ میاں بیوی بننے کے جتنے راستے اور جو جو گنجائشیں اللہ اور اس کے رسول نے رکھی تھیں وہ سب اپنی نادانی سے یک لخت ختم کردیں۔ اس وقت لے دے کر صرف یہ طریقہ رہ جاتا ہے کہ عدت گزارنے کے بعدمطلقہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے، پھر نکاح کے بعد یہ دوسرا شخص مطلقہ سے باقاعدہ جماع (ہمبستری) کرے اور جماع کے بعد اپنی خوشی سے اس کو طلاق دے اور پھر مطلقہ اس دوسرے شوہر کی بھی عدت طلاق گزارے، تب کہیں جاکر وہ پہلے خاوندکے لئے حلال ہوسکتی ہے اور اس سے نکاح کرسکتی ہے، مگر مطلقہ کا نکاح ثانی کرتے وقت یہ شرط لگانا کہ دوسرا شوہر نکاح کے بعد اس کو ضرور ہی طلاق دے، خود موجب لعنت ہے۔حدیث پاک میں ایسا کرنے اور کرانے والے پر لعنت آئی ہے۔
اور بعض دفعہ شوہر ثانی بغیر جماع کئے طلاق دے دیتا ہے، بلکہ اسی کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح تو مطلقہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہی نہیں ہوتی، کیونکہ پہلے شوہر پر حلال ہونے کے لئے دوسرے شوہر کا وطی (ہمبستری) کرنا شرط ہے، پھر یہ طریقہ بھی کوئی شخص اپنی غیرت کو بالائے طاق رکھ کر ہی کرسکتا ہے یا بہت ہی سخت مجبوری میں اس کو گوارا کرسکتا ہے۔ سلیم الطبع اور غیرت مند آدمی اس کو نہیں اپنا سکتا۔ اور بعض لوگ دوسرے طریقوں سے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے یہ دوسرے طریقے بہت ہی بدتر ہوتے ہیں، کیونکہ مذکورہ طریقے میں صحیح طرز پر عمل کرنے سے مطلقہ بہرحال پہلے خاوند کے لئے حلال تو ہوجاتی ہے مگر دوسری صورت اختیار کرنے سے مطلقہ پہلے خاوند پر حلال ہی نہیں ہوتی، بدستور حرام رہتی ہے۔
رجوع کی ناجائز شکلیں
چنانچہ بعض جگہ تمام احکام کو پس پشت ڈال کر عذاب قبر، عذاب آخرت اور قہر خداوندی سے بے خوف ہوکر صراحةً تین طلاقیں دینے کے باوجود بغیر کسی حلالہ او رنکاح کے میاں بیوی میں رجوع کرادیا جاتا ہے۔ گھر کے بڑے یا دیگر اہل محلہ یہ کہہ کر ان کی تسلی کردیتے ہیں کہ غصہ میں طلاق نہیں ہوتی، یا گواہوں کے بغیر طلاق نہیں ہوتی ،یا بالکل تنہائی میں طلاق نہیں ہوتی، یا دل میں طلاق دینے کاارادہ نہ ہو تو طلاق نہیں ہوتی، یا بیوی کو طلاق کا علم نہ ہو توطلاق نہیں ہوتی، یا بیوی طلاق نامہ کی رجسٹری واپس کردے اور وصول نہ کرے تو طلاق نہیں ہوتی، یا جب تک وہ طلاق کی تحریر نہ پڑھے اور قبول نہ کرے طلاق نہیں ہوتی، یا محض لکھ کر دینے سے جبکہ خاوند نے زبانی طلاق نہ دی ہو طلاق نہیں ہوتی یا مطلقہ حمل سے ہو تو طلاق نہیں ہوتی۔ یہ سب جاہلوں کی اپنی خودساختہ اور من گھڑت دلیلیں ہیں جو بالکل لچر ہیں۔



ازروئے شروع ان سب صورتوں میں بلاشبہ تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور ان کا رجوع محض حرام کاری کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس طرح ان کی ساری زندگی گناہ میں گزرتی ہے جس میں یہ دونوں مرد و عورت تو گناہگار ہوتے ہی ہیں، ساتھ ہی وہ لوگ بھی گناہگار ہوتے ہیں جنہوں نے ان دونوں کو اس حرام زندگی گزارنے پر آمادہ کیا۔
بعض لوگ تین طلاقیں دینے کے بعد تین کا اقرار نہیں کرتے، یا طلاق سے ہی منکر ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح طلاقیں واقع نہ ہوں گی یا پھر سفید جھوٹ بول کر بجائے تین طلاقوں کے دو لکھواتے ہیں اور بتلاتے ہیں اور مفتی کو دھوکہ دے کر رجو ع کا فتویٰ لے لیتے ہیں اور لوگوں میں مشہور کردیتے ہیں کہ فلاں بڑے مفتی صاحب کا یا فلاں بڑے مدرسہ کا فتویٰ منگوالیا ہے کہ طلاق نہیں ہوئی، لہٰذا رجوع کرسکتا ہے۔
اس طرح عوام کو بھی دھوکا دیتے ہیں تاکہ کسی کے سامنے رسوائی نہ ہو اور پھر ان عیاریوں سے وہ سمجھتے ہیں کہ بیوی حلال ہوگئی جو محض اور محض خود فریبی ہے۔مفتی غیب داں نہیں، وہ تحریر و بیان کا پابند ہے، جوکچھ اس کو بتایا جائے گا وہ اسی کے مطابق جواب لکھ کر دے گا، بیان و تحریر کی ذمہ داری صاحب واقعہ پر ہے، اصل حقیقت چھپا کر ایک یا دو طلاقوں کے حکم کو تین طلاقوں کے حکم پر فٹ کرنے سے بیوی حلال ہرگز نہ ہوگی، بدستور حرام رہے گی۔ ایسے لوگ مفتی اور عوام کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر اللہ جل شانہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے، وہ برابر حق تعالیٰ کے سامنے ہیں اور اس کے قہر و غضب سے نہیں بچ سکتے۔
بعض لوگ تین طلاقوں سے بچنے کے لئے جب فقہ حنفی میں کوئی راستہ نہیں پاتے تو اپنا مسلک حنفی چھوڑ کر غیر مقلدوں سے رجوع کرتے ہیں اور ان سے فتویٰ لے کر رجوع کرلیتے ہیں، ان کے مسلک میں ایک ہی مجلس کے اندر اگر کوئی شخص تین طلاقیں دفعتاً دے دے تو ایک ہی طلاق ہوتی ہے اور دوبارہ رجوع کرسکتا ہے۔ ان کا یہ مسلک قرآن حکیم، احادیث صحیحہ، صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم، تابعین رحمہم اللہ، چاروں اماموں حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ، حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ، حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ اور جمہور امت کے خلاف ہے اور علمی اعتبار سے بھی غلط ہے۔ (اس سلسلہ میں چند حدیثیں آخر میں آرہی ہیں) ان کے مسلک پر عمل کرکے لوگ حرام کاری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ دفعتاً تین مرتبہ طلاق دینے میں مصیبت ہی مصیبت اور گناہ ہی گناہ ہے۔

ہی طلاق کے مسائل سیکھ لئے جاتے (جب کہ مسائل کو سیکھنا اس وقت فرض بھی تھا) اور پھر ان پر عمل کیا ہوتا تو آج یہ روز بد دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ گھر اور بچے برباد نہ ہوتے۔ سکون غارت نہ ہوتا۔ دو خاندانوں میں دشمنی پیدا نہ ہوتی۔ لہٰذا بیک وقت تین طلاقیں دینے سے مکمل اجتناب کرنا واجب ہے اور جہاں تک ممکن ہو غصہ میں ہرگز ہرگز طلاق نہ دی جائے۔ اگر کبھی غصہ میں ایسی نوبت آنے لگے تو فوراً وہاں سے علیٰحدہ ہوجائیں اور جب غصہ ختم ہوجائے اور پھر بھی طلاق دینے کا ارادہ ہو تو اس سلسلہ میں کم از کم پہلے قرآن و سنت کی ان مختصر مندرجہ ذیل تعلیمات کا ضرور مطالعہ کرلیں اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

No comments:

Post a Comment