Friday, April 27, 2012

شو ہر کے علا وہ کسی اور جگہ اپنے کپڑ ے نہ اُتارنے کی نصیحت

شو ہر کے علا وہ کسی اور جگہ اپنے کپڑ ے نہ اُتارنے کی نصیحت
حضرت عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ عنہا فرما تی ہیں کہ رسو ل اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : ” جس عورت نے اپنے شو ہر کے گھر کے علا وہ کسی اور جگہ پر اپنے کپڑ ے اتار ے اس نے اُس پر د ے کو جو اُ س کے اور اللہ کے درمیا ن میں ہے ، ہٹا د یا ۔
کپڑ ے اتارنا “ اجنبیو ں کے سا منے پر دہ نہ کر نے سے کنا یہ ہے ۔ اور ” اپنے شو ہر کے گھر کے علا وہ کسی اور جگہ میں “ اور جگہ میں “ اس کا مفہو م یہ ہے کہ نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی اپنے شو ہر کے گھر ہی میں اپنے کپڑ ے اتار تی ہے یعنی اپنے گھر ہی میں اپنے پر د ے کو اٹھا تی ہے ، غیر و ں کے سا منے بے پر د ہ نہیں ہو تی ۔ اور ” اس نے اس پر د ے کو جو اس کے اور خد ا کے در میا ن میں ہے ہٹا دیا ۔ “ اس جملے کا مفہو م کیا ہے ؟ اس کے لیے کچھ وضا حت کی ضر ور ت ہے ۔
اے میر ی مسلما ن بہن !
اللہ تعالیٰ نے لبا س پہننے کا حکم اس لیے دیا تا کہ ہم اپنی شر م گا ہو ں کو اس کے ذریعہ ڈھا نپیں اور اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کلی طور پر مختار ہے ، جو چا ہتا ہے حکم دیتا ہے ، جب ایک بیو ی کو اپنے رب کا خو ف نہ ہو ، قا بلِ ستر حصوں کو غیر وں کے سا منے کھو ل دے ، اپنے شو ہر کے علا وہ کسی اور جگہ میں کپڑ ے اتاردے یعنی بے پر دہ ہو جا ئے تو اس عورت نے یقینا اس پر دے کو اٹھا دیا جو اس کے اور اس کے رب کے درمیان تھا ، عور ت کو سز ااس کے فعل کی طر ح ملی ، یعنی جیسا عمل ویسی سز ا ، اللہ تعالیٰ نے اس پر پڑ ے ہو ئے پردے کو ہٹا د یا یعنی اس کے فعل قبیح کی وجہ سے اس کو رسو ا کر دیا کہ اب اس عورت کو اس فضیحت ورسو ائی سے بچنے کے لیے کو ئی جگہ نہیں ملتی ۔
نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ ایسی حقیر اور گھٹیا حر کت سے بہت دور ہو تی ہے ۔ ” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ بڑ ی ذمہ دار ی او راما نت دار ی کے احسا س کے ساتھ اپنی زند گی بسر کر تی ہے ، اللہ تعالیٰ نے وہ اما نت آسما ن وز میں کو پیش کی مگر انہو ں نے اس اما نت کو اٹھا نے سے انکا ر کر دیا لیکن اس نیک عورت نے اس اما نت کو بر داشت کر نے کی ذمہ دار ی قبو ل کر لی ۔ ” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ کی شا ن اس سے بر تر اور عا لی ہو تی ہے کہ وہ سٹر کو ں پر یا گھر و ں میں مخص سا ما نِ زینت بنے کہ لو گ اس کی طر ح دیکھیں “اور وہ ( عورت ) ان کی دلکشی کا ذریعہ بنے ۔
نصیحت پکڑ نے والی بیو ی “ تو دنیا وآ خر ت کا بہتر ین سا ما ن اور قیمتی دو لت ہے ۔

Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Wednesday, April 25, 2012

”عورت ناقص العقل ہے“۔ (برائے شوہر)۔

عورت ناقص العقل ہے“۔
مر د کا عورت پر درجہ بلند ہے اس لیے قدرتی طور پر وہ اس سے کمزور ہے۔ عورت کی بے وفائی ، واجب فرائض کی ادائیگی میں کو تاہی اور سستی اس کی قدر و منزلت کو ضائع کر دیتی ہیں، لیکن عادات و خصلتیں جو شوہر کو ناپسند ہیں عورت کو مارنے پیٹنے اور برابھلا کہنے کا جواز پیدا نہیں کرتیں۔ وہ محبت پیار سے اور تر غیب دے کر اس کی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے ۔ سستی او ر لاپرواہی کی عادتیں باربار کی پندونصائح سے دور ہو سکتی ہیں۔ شوہر کو چاہیے کہ عقل وخرد اور صبر سے کام لے اور حالات کی درستگی کی کوشش کرے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ تمہارے سامنے بے دست وپاہیں ،(تمہاری حراست میں ) انہیں کسی چیز پر اختیار نہیں ہے تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر قبول کیا ہے اور تم نے ان کو اللہ کے الفاظ سے ازدواجی زندگی کے لیے اپنے اوپر حلال کیا ہے“۔
شوہر بیوی کو گالی دینے سے پہلے ایک لمحہ بھر کے لیے غور کرلے کہ وہ (بیوی) کس کی امانت ہے اور جب وہ عورت کے خلاف اپنے غم وغصہ کا اظہا ر کرنے کی کوشش دل میں لائے تو اس حقیقت کو بھی سامنے رکھے کہ اللہ تعالیٰ جس کی وہ امانت ہے اس سے بہت زیادہ طاقت رکھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے غضب و قہر سے بچ نکلنے کا کو ئی راستہ نہیں ۔
ایک نیک شوہر بہادر، بلند ہمت ، عالی دماغ ، اور دریا دل ہوتا ہے۔ اس کا اپنی بیوی کے ساتھ طرزعمل شریفانہ اور اعلیٰ ضبط و تحمل کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
بیوی کو نظر اندازکرنا
ایک غلطی جو عموماً آج کل خاوند کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ بیوی کو نظر انداز کرتے ہیں بیوی کو وقت نہیں دیتے ۔ یادرکھئے اپنی بیوی کو نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اس کے بارے میں کتنی ہی حکایتیں اور داستانیں معاشرے میں ملتی ہیں ۔ خاوند یہ سمجھتا ہے کہ یہ تو اب ہے ہی بیوی اب اس کو توجہ دینے کی یا محبت دینے کی کیا ضرورت ہے۔
لطیفہ مشہور ہے کہ خاوند بیٹھا کئی گھنٹوں سے کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا ۔ بیوی بیچاری آگے پیچھے طواف کرتی پھر رہی تھی کہ کبھی تو ہماری طرف بھی محبت کی نظر اٹھا کر دیکھیں گے ۔ مگر خاوند کو کام سے فرصت نہیں تھی ۔ چنانچہ جب اس نے دیکھا کہ اب تو سونے کا وقت بالکل ہی قریب آگیا اور اس کی تو آنکھیں ہی بند ہورہی ہیں تو بیوی قریب آئی اور آکر کہنے لگی کاش میں بھی کوئی کتاب ہوتی ۔ اتنے گھنٹے آپ مجھے بھی بیٹھ کر دیکھتے رہتے ۔ اب خاوند نے بیوی کی طرف دیکھا اور کہنے لگا ہاں تمہیں تو کوئی ڈائری ہونا چاہیے تھا تاکہ ہر سال میں ڈائری کو بدل لیا کرتا۔
اگر خاوند کی سوچ ایسی ہوگی تو سوچئے کہ بیوی کو کہاں سکون ملے گا۔ خاوند اگر دوسروں کے ساتھ محبت و پیار سے باتیں کرتا ہے تو بیوی تو ان سے بھی زیادہ پیار کی مستحق ہے۔ اس کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور اس سے بھی محبت کی باتیں کرنی چاہئیں ۔ بلکہ ایک کافر نے اپنے ماحول کے اعتبار سے یہ بات کہی کہ ”جس پیار کی نظر سے خاوند اپنے ہمسائے کی لڑکی کی طرف دیکھ لیتا ہے اگر اس نظر سے ایک بار اپنی بیوی کو دیکھ لے تو اس کا گھر کبھی برباد نہ ہو“۔خاوند کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو بھر پور توجہ دے۔ اس کو محسوس کروائے کہ میرے نزدیک تم بہت کچھ ہو اور میرے دل میں تمہارا بڑا مقام ہے۔ اس طرح بیوی کو تسکین مل جاتی ہے۔
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Friday, April 20, 2012

شوہر کے لیے بناوٴ سنگھار کی نصیحت

شوہر کے لیے بناوٴ سنگھار کی نصیحت
آجکل کی آزادی پسند مسلم خواتین نے کفار کے برے اطوار میں سے یہ طور بھی اپنا لیا ہے کہ غیروں کے سامنے بناوٴ سنگھار کرکے آتی ہیں اور اپنی لوچدار آوازسے ان کے دلوں کو گرماتی ہیں جبکہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ مسلم بیوی بناوٴ سنگھار صرف اپنے شوہر کے لئے کرے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ گھر میں تو عورت برے حالوں میں رہتی ہے اور جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو بن ٹھن کر۔ اسے اس امر کا ذرا احسا س نہیں ہوتا کہ شوہر کے سامنے نہ تو کنگھی پٹی، نہ کپڑوں کی صفائی ستھرائی اور نہ گفتگو میں نرمی اور لوچ لیکن جو نہی باہر نکلی تو کپڑوں کا بھی اہتمام ۔ چال اور گفتگو میں بھی شگفتگی ۔ یہ سب کچھ کس کے لئے؟ کیا غیروں کے لئے؟ باہر تو نا محرم ہی ہونگے جو للچائی ہوئی نگاہوں سے اس کی خوبصورتی کو جسے بناوٴ سنگھار نے چار چاند لگادیئے ہونگے ،دیکھیں گے ، جو منہ پھٹ ہو نگے وہ تو سرعام ہی اس کی تعریف میں رطب اللسان ہو جائیں گے اور دوسرے دل ہی دل میں اس کی خوبصورتی پر مرمٹنے کے لئے تیار ۔
سورة النور ۳۱ میں اس کی صاف طور پر ممانعت کردی گئی ہے۔
﴿ولا یبدین زینتھن الاما ظھر منھا ولیضربن بخمر ھن علی جیوبھن ولا یبدین زینتھن الا لبعو لتھن او ابائھن اواباء بعولتھن اوابنائھن اوابناء بعولتھن اواخوانھن اوبنی اخوانھن اوبنی اخواتھن اونسائھن اوماملکت ایمانھن اوالتبعین غیراولی الا ربة من الرجال اوالطفل الذین لم یظھر واعلی عورت النساء﴾ (النور۳۱)
اپنی زینت نہ دکھائیں اس کے سوا جو از خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینے پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈال لیا کریں اور اپنی زینت نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے شوہر، باپ ،شوہر کے باپ، اپنے بیٹے ،شوہروں کے بیٹے ،بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے ، اپنے دین کی عورتیں ، اپنی کنیزیں اوروہ زیر دست مرد جو کسی قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ۔
عورت سے اس معاملے میں اب تک جو لغزش ، غلطی او ر کوتاہی ہو تی رہی ہے اس سے توبہ کرے اور آیندہ کے لیے اپنے طرزِ عمل کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق اصلاح کرلے۔
عورت پر واجب ہے کہ اپنے شوہر کے سامنے بن سنور کر رہے۔ اس کے لئے یہ قطعی حرام ہے کہ غیر وں کو اپنی سج دھج دکھائے ، ایسی عورت جو نامحرموں کے لئے سجاوٹ کرتی ہے اسلام کی نظر میں قابل ملامت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا موازنہ قیامت کے دن کی تاریکی سے کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایسی عورت بغیر کسی نور کے ہوگی ۔ ایک اور حدیث میں ہے:
(ایماامراة استعطرت فمرت علی قوم لیجد وا من ریحھا فھی زانیة (بہ روایت اشعری ۔ نسائی)
جو عورت خوشبو لگاکر لوگوں کے پاس سے گزرتی ہے اس کی مثال ایک زانیہ کی سی ہے۔
عورت کے لئے ضروری ہے کہ صفائی ، سلیقہ اور آرائش و زیبائش کا پورا پورا اہتمام کرے ۔ گھر کو بھی صاف ستھرا رکھے اور ہر چیز کو سلیقے سے سجائے اور سلیقے سے استعمال کرے ۔ صاف ستھرا گھر ، قرینے سے سجے ہوئے صاف ستھرے کمرے ، گھریلو کاموں میں سلیقہ اور سگھڑپن اور بناوٴ سنگھار کی ہوئی بیوی کی پاکیزہ مسکراہٹ سے نہ صرف گھریلو زندگی پیار و محبت اور خیرو برکت سے مالامال ہوتی ہے بلکہ ایک بیوی کے لئے اپنی عاقبت سنوارنے اور اللہ کو خوش کرنے کا بھی یہی ذریعہ ہے۔
ایک بار زوجہ عثمان ابن مطعون رضی اللہ عنہ سے حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات ہوئی تو آپ نے دیکھا کہ بیگم عثمان نہایت سادہ کپڑوں میں ہیں اور کوئی بناوٴ سنگھار بھی نہیں کیا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بہت تعجب ہو ا اور ان سے پوچھا:
بی بی ! کیاعثمان کہیں باہر سفرپر گئے ہوئے ہیں ۔
اس تعجب سے اندازہ کیجئے کہ سہاگنوں کا اپنے شوہروں کے لئے بناوٴ سنگھار کرناکیسا پسندیدہ فعل ہے ۔ ایک صحابیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ وہ اپنے ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوپہننے سے منع فرمایا تو کہنے لگیں ”یارسول اللہ !( صلی اللہ علیہ وسلم )اگر عورت شوہر کے لئے بناوٴ سنگھارنہ کرے گی تو اس کی نظروں سے گر جائے گی (نسائی )
بیوی پر شوہر کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اس کی خاطربن سنور کررہے ۔ اسلام نے مرد کویہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مجبور کرے کہ وہ اس کے لئے بناوٴ سنگھار کرے ۔ شریعت کے اس دستور کا اسلامی قوانین پر ایک مشہور اور مستند کتاب میں ذکر ہے۔ کبیری میں لکھاہے:
مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ بیوی کو مارے اگر وہ خود کونہ بنائے سنوارے جب مرد ایسا چا ہے۔

Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Wednesday, April 18, 2012

شوہر کو سر زنش کے اختیار میں نصیحت (برائے شوہر)۔

شوہر کو سر زنش کے اختیار میں نصیحت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (وعاشر وھن بالمعروف)”اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر ایک بڑے اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے ہدایت فرمائی :
الاواستو صوا بالنساء خیر ا فانما ھن عوان عند کم لیس تملکون منھن شیئا غیر ذلک الا ان یاتین بفا حشة مبینتہ فان فعلن فاھجروھن فی المضاجع واضربوھن ضربا غیر مبرح فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلا الا ان لکم علی نسائکم حقا ولنسائکم علیکم حقا فحقکم علیھن ان لا یوطئن فرشکم من تکرھون ولا یاذن فی بیوتکم لمن تکرھون الا وحقھن علیکم ان تحسنوا الیھن فی کسوتھن وطعامھن (سنن الترمذی ۔ باب ۷۸۹ماجاء فی حق المراة علی زوجھا، روایت عمرو )
لوگو! سنو! عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آوٴ کیونکہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں ۔ تمہیں ان کے ساتھ سختی کا برتاوٴ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ سوائے اس صورت کے جب ان کی طرف سے کھلی ہو ئی نافرمانی سامنے آئے ۔ اگر وہ ایسا کر بیٹھیں تو پھر خواب گاہوں میں ان سے علیٰحدہ رہو اور انہیں ماروتو ایسا نہ مارنا کہ کوئی شدید چوٹ آئے ۔ اورپھر جب وہ تمہارے کہنے پر چلنے لگیں تو ان کو خواہ مخواہ ستانے کے بہانے نہ ڈھونڈو ۔ دیکھو سنو! تمہارے کچھ حقوق تمہاری بیویوں پر ہیں اور تمہاری بیویوں کے کچھ حقوق تمہارے اوپر ہیں۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر وں کو ان لوگوں سے نہ روندوائیں جن کو تم ناپسند کرتے ہواور تمہارے گھروں میں ایسے لوگوں کو ہرگز نہ گھسنے دیں جن کا آنا تمہیں ناگوار ہو اور سنو ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں اچھا کھلاوٴ اور اچھا پہناوٴ۔
حکیم ابن معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔ انہوں ( معاویہ رضی اللہ عنہ )نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ۔
ماحق زوجة احد نا علیہ ؟ قال ان تطعمہا اذاطعمت وتکسو ھااذا(اکتسیت) ولا تضرب الوجہ ولاتقبح ولا تہجرالافی البیت ) ( ابو داوٴد)
کسی شخص کی بیوی کا اس کے شوہر پر کیا حق ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس کا حق یہ ہے کہ جب تو کھائے تو اسے کھلائے اور جب تو پہنے تو اسے پہنائے اور اس کے چہرہ پر نہ مارے ، اور اس کو بد دعا کے الفاظ نہ کہے ، اور اگر اس سے ترک تعلق کرے تو صرف گھر میں کرے
آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیوی کی طرف سے نافرمانی اور شرارت ظاہر ہو تو قرآن کی ہدایت کے مطابق پہلے اس کو نر می سے سمجھا ئے ۔ اگر اس سے بھی وہ ٹھیک نہ ہو تو گھر میں اپنا بستر الگ کرلے اور بات باہر نہ پہنچنے دے کیونکہ یہ شرافت کے خلاف ہے۔ اس سے بھی اگر ٹھیک نہ ہو تو پھر اس کو ماراجاسکتا ہے ۔لیکن چہرہ پر نہیں بلکہ دوسرے حصہ جسم پر اور اس میں بھی یہ ہدایت ہے کہ ہڈی کو توڑ دینے والی یا زخمی کر دینے والی مار نہ ماری جائے۔ مار کا مقصد بیوی کو زخمی کرنا بلکہ حالات کے بگاڑ کا احساس دلانا ہے ۔اگر بیوی کی کسی غلطی یا کمزوری کی وجہ سے شوہر خفا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ فوراً مار کٹائی شروع کردے یا گھر چھوڑ کر باہر جاسوئے ۔بعض شوہر غصے میں بکتے جھکتے گھر سے نکل جاتے ہیں اور اپنی دانست میں بیوی کو سزا دینے کے لیے کہیں اور جاسوتے ہیں اور اس طرح کی بات گلی کوچے کوچے عام ہوجاتی ہے۔
بیوی کو تنبیہ کرتے وقت اسے بیوی کو گالی دینے، اس کی بے عزتی کرنے اور اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ کہ ”بیوی کو نہ مارو اور نہ گالی دو۔ایک دوسرے موقع پرآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر)
(
صحیح بخاری ، کتاب الایمان بہ روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ صحیح مسلم کتاب الایمان )
ایک مسلمان کو گالی دینا غیر اخلاقی فعل ہے اور اس سے لڑنا کفر کا کام ہے“۔
یہ حدیث ہر مسلمان کے لیے ہے اس میں کسی خاص و عام کی تخصیص نہیں ۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ بعض شوہر بیوی کو حقیر سمجھ کر خواہ مخواہ اسے گالی دینا اور معمولی معمولی باتوں پر مارنا پیٹنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔شوہر جہاں تک دوسرے مردوں کا تعلق ہے اس حدیث کو صحیح جان کر عمل پیرا ہوتا ہے مگر خود کو اعلیٰ مخلوق سمجھتے ہوئے بیوی کے ساتھ بدسلوکی کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس حدیث کا تعلق زیادہ تر زن شوہر سے ہے۔ مزید براں بیوی کی حیثیت ایک مسلمان کی بھی ہے اور و ہ اللہ کے نام سے اس کے ساتھ وابستہ ہوئی ہے وہ ا س کی حفاظت اور زیر کفالت میں بطور امانت ، نکاح کے متبرک بندھن سے بندھ کرآئی ہے۔ اس لیے شوہر پر واجب ہے کہ اس کی عزت و تو قیر کرے۔
شوہر کو یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ بیوی اس کے پاس بطور امانت ہے جو اسے اللہ کے نام پر سپرد کی گئی ہے ۔ وہ اس سے اچھا برا، جیسا چاہے سلوک نہیں کر سکتا ۔
ایک شوہر جب بیوی کے ساتھ گالی گلوچ کرتا ہے اور بازاری زبان استعمال کرتا ہے تو اسے علم ہونا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ وہ بیوی کو بیاہ کر اپنے گھر لاتا ہے اور وہ اللہ کے نام سے اس کے رحم و کرم پر اس کے حوالے کی گئی ہے۔ اللہ کی امانت کی کسی طور پر تذلیل نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی اس سے برا سلوک، کیا ایسا کرکے وہ اللہ تعالیٰ کی ناشکرگزاری کا مرتکب نہیں ٹھہرایا جائے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
الدنیا کلھا متاع وخیر متاع الدنیا المراة الصالحة (بہ روایت حضرت عبد اللہ بن عمر وابن عاص ، صحیح مسلم)
دنیا کل کی کل برتنے کی چیز ہے اور اس دنیا کی بہترین متاع نیک عورت (بیوی)ہے“۔
حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کامل ایمان والاوہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور تم سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں بہترین ہوں“۔
شوہر کو چاہیے کہ عفوو درگزر کی روش اختیار کرے اور بیوی کی کوتاہیوں ، نادانیوں اور سرکشیوں سے چشم پوشی کرے ۔عورت عقل و خر د کے اعتبار سے کمزور اور نہایت ہی جذباتی ہوتی ہے۔ صبر و سکون رحمت و شفقت اور دلسوزی کے ساتھ اس کو سدھارنے کی کوشش کرے اور صبرو ضبط سے کام لیتے ہوئے اس کے ساتھ نباہ کرے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(
یایھاالذین امنو اان من ازواجکم واولادکم عدوالکم فاحذروھم وان تعفوا وتصفحوا وتغفروا فان اللہ غفور رحیم ) (التغابن ۱۴)
مومنو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض اولاد تمہارے دشمن ہیں ۔ سو ان سے بچتے رہو اور اگر تم عفوو کرم ، درگزر اور چشم پوشی سے کام لو تو یقین رکھو کہ خدا بہت ہی زیادہ رحم کرنے والا ہے“۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں :
(استو صو ابالنساء خیر ا فانھن خلقن من ضلع وان اعوج شیٴ فی الضلع اعلاہ فان ذھبت تقیمہ کسر تہ وان ترکتہ لم یزل اعوج فاستوصوا بالنساء ) (بہ روایت حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ، مسلم، بخاری )
عورت کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں سب سے زیادہ اوپر کا حصہ ٹیڑھا ہے ۔ اس کو سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی ۔ اور اگر اس کو چھوڑے رہو تو ٹیڑھی رہے گی۔ پس عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو

Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Monday, April 16, 2012

سترو حجاب کے بارے میں نصیحت

سترو حجاب کے بارے میں نصیحت
﴿ینساء النبی لستن کاحد من النساء ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا ْوقر ن فی بیوتکن ولا تبرجن تبر ج الجاھلیة الا ولی واقمن الصلوة واتین الزکوة واطعن اللہ روسولہ انما یرید اللہ لیذ ھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا﴾(الاحزاب ۳۲۔۳۳)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو نرم اور شیریں انداز سے بات نہ کیا کرو ۔ مبادادل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص (منافق) لالچ میں پڑ جائے بلکہ صاف سیدھی بات کرو اور اپنے گھر وں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو۔ زکوة دو اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو ۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گندگی کو دور کردے اور تمہیں پاک کردے جیسا کہ تمہیں ہو نا چاہیے ۔
ان آیات میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کیا گیا ہے مگر مقصود تمام مسلمان گھروں میں ان اصلا حات کا نافذ کر نا ہے۔ ازواج مطہرات کو مخاطب کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے اس پاکیزہ طرز زندگی کی ابتداء ہوگی تو باقی سارے مسلمان گھرانوں کی خواتین اس کی تقلید کریں گی کیونکہ یہی گھران کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا۔بعض عورتیں اس مغالطے میں مبتلا ہو گئی ہیں یا کردی گئی ہیں کہ یہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے متعلق احکام ہیں ، یہاں عام عورتوں سے تو بات نہیں ہو رہی۔یہ بات ان کی غلط فہمی اور مغالطے کا بہت بڑا سبب بن گئی ۔ قرآن مجید میں یہ اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا کہ ازواج مطہرات کو مسلمان خواتین کے لیے ان تمام معاملات میں جو صرف خواتین سے متعلق اور ان کے لیے مخصوص ہیں نمونہ بننا ہے۔
آواز کا فتنہ
ضرورت پیش آنے پر کسی مرد سے بات کرنے میں مضائقہ نہیں ہے، لیکن ایسے مواقع پر عورت کا لہجہ اور انداز گفتگو ایسا ہونا چاہیے جس سے با ت کرنے والے مرد کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہ گزرسکے کہ اس عورت سے کوئی اور توقع بھی قائم کی جاسکتی ہے۔ اس کے لہجے میں کوئی لوچ نہ ہو، اس کی باتوں میں کوئی لگاوٹ نہ ہو، اس کی آواز میں دانستہ کوئی شیرینی گھلی ہوئی نہ ہو جو سننے والے مرد کے جذبات میں انکیخت پیدا کر دے اور اسے آگے قدم بڑھانے کی ہمت دلائے اس طرزِگفتگو کے متعلق اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ یہ کسی ایسی عورت کو زیب نہیں دیتا جس کے دل میں خدا کا خوف اور بدی سے پرہیز کا جذبہ ہو ۔ یہ فاسقات و فاجرات کا طرز کلام ہے نہ کہ مومنات متقیات کا۔ سورة النور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (ولا یضربن بار جلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن )(النور۳۱)
اور وہ (عورتیں )زمین پر اس طرح پاوٴں مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہے اس کا علم لوگوں کو ہوجائے۔
رب العلمین کا صاف منشایہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنی آواز یا اپنے زیوروں کی جھنکار غیر مردوں کو نہ سنائیں اور اگر بصورت اجنبیوں سے بولنا پڑجائے تو پوری احتیاط سے بات کریں ۔ اسی بنا پر عورت کے لیے اذان دینا ممنوع ہے۔
قرارفی البیوت
عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا گھر ہے۔ اس کو اسی دائرہ میں رہ کر اطمینا ن کے ساتھ فرائض انجام دینے چاہیں اور گھر سے باہر صرف بضرورت ہی نکلنا چاہیے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے ” عورت مستور رہنے کے قابل چیز ہے۔ جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے اور اللہ کی رحمت سے قریب تر وہ اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھرمیں ہو “۔
عورتوں کا مخلوط اداروں میں کام کر نے کا معاملہ جن میں مردوں سے براہ راست سابقہ ہوتا ہو اور وہ ان کے لئے فردوس نظر بنتی ہوں روئے اسلام مسلم خواتین کے لئے قطعاً نا جا ئز بلکہ حرام کے درجے میں ہے ۔
مرد اپنے اختیا ر سے جہاں چا ہے جا سکتا ہے لیکن عورت خواہ کنواری ہو یا شادی شدہ بیوہ ہو یا مطلقہ سفر میں محرم کے بغیر نہیں نکل سکتی ۔ سفر کی مد ت میں البتہ اختلاف ہے ۔ ایک روایت میں تین دن اور اکثر روایت میں ایک دن رات کی مد ت مقرر ہے ۔ ان ہدایات کااصل مفا دیہ ہے کہ عورت کو تنہا سفر کے لیے نقل و حرکت کی آزادی نہ دی جائے ۔ حد یہ ہے کہ حج کے لیے جو ایک فرض عبادت ہے عورت محرم کے بغیر نہیں جا سکتی چا ہے وہ مالی حیثیت سے ذاتی طور پر استطاعت رکھتی ہو ۔ اس کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے ۔
شو ہر کی اجازت عام ضرورت و حوائج کے علا وہ عورت کو گھر سے نکلنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہا یت سخت انداز سے مما نعت فرمائی ہے حدیث میں ہے کہ حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
﴿ اذا خر جت المراة من بیتھا و زوجھا کا رہ لعھنا کل ملک فی السماء و کل شیء مرت علیہ غیر الجن والا نس حتی تر جع
جب عورت اپنے شوہر کی مر ضی کے خلاف گھر سے نکلتی ہے تو آسمان کا ہر وہ فرشتہ اس پر لعنت بھیجتا ہے اور جن وانس کے سوا ہر وہ چیز ، جس پر سے وہ گزرتی ہے ، پھٹکار بھیجتی ہے تا وقتیکہ وہ واپس نہ ہو “۔
سنن ابی داؤ د میں ایک طویل روایت ہے جس میں بیان ہے کہ آ نحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مسجد سے نکلتے وقت مرد اور عوتیں مل جا تے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ہدایت فرمائی :
﴿ استا خرن فا نہ لیس لکن ان تحققن الطریق ، علیکن بحا فا ت الطریق فکا نت المراة تلصق بالجدار ان ثو بھا یتعلق با لجدار من لصوقھا ﴾ ( ابو داؤ د )
تم پیچھے ہو جا ؤ ۔ تمہا رے لئے راستہ کے بیچ میں چلنا ٹھیک نہیں ہے ۔ تم راستہ کے کنا رہ سے چلو چنانچہ اس حکم کے بعد عورتیں بالکل دیوار سے لگ جا تیں ۔یہاں تک کہ ان کی چادریں دیوار سے الجھتی تھیں۔
عورت ایسا زیور پہن کر با ہر نہیں نکل سکتی جس میں جھنکار ہو ۔ عطر لگا کر گھر سے نکلنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے مما نعت فرمائی ہے ۔
﴿ المراة اذا استعطرت فمر ت با لمجلس فھی کذا ( ای زانیہ) ﴾ (ترمذی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عورت عطر لگا کر لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہے وہ آوارہ قسم کی عورت ہے ۔
با ہر جانے کی صورت میں عورت کو اپنی خوشبو لگا نے کی اجازت ہے جس کا چا ہے رنگ ہو مگر وہ پھیلنے والی خو شبو نہ ہو ۔ایک روایت میں ہے کہ ایک عورت پھیلنے والی خوشبو لگا کر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے آرہی تھی ۔ حضرت ابو ہر یر رضی اللہ عنہ نے اس کو ہدایت کی کہ گھر جاکر اس طرح غسل کر و جیسے غسل جنا بت کیا جا تاہے۔
صلوٰة با جما عت اور خواتین
اسلام کاا ہم تر ین رکن صلوة ہے اور نماز با جما عت کی احادیث میں بے انتہا تاکید و تر غیب ملتی ہے ۔لیکن مسلمان عورت کے لئے بر عکس ہدا یا ت احادیث میں ملتی ہیں۔ اس کو اس با ت کی تر غیب دی گئی ہے کہ وہ نماز گھر میں ادا کر ے سنن ابی دا ؤ دمیں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿ صلو ة المراة فی بیتھا افضل من صلو تھا فی حجرتھا وصلو تھا فی مخد عھا افضل من صلو تھا فی بیتھا﴾
(
ابو داؤد ، باب ما جاء فی خروج النسا ء الی المسا جد )
عورت کا اپنی کو ٹھڑی میں نما ز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے کمرے میں نماز پڑھے اور اس کا اپنے چور خانہ میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنی کو ٹھڑ ی میں نماز پڑھے۔
یہی تر غیب امام احمد اور طبرانی نے ام حمید سا عد یہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے ۔
انہوں نے عر ض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جی چا ہتا ہے کہ آپ کے سا تھ نماز پڑھوں ۔ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے مگر تیرا ایک گو شے میں نمازپڑ ھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے گھر کے دالا ن میں نما ز پڑ ھے اور تیر ا د الا ن میں نما ز پڑ ھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑ ھے اورتیر ا اپنے محلہ کی مسجد میں نما ز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تو جا مع مسجد میں نماز پڑھے “۔
جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ یہ نماز بغیر جما عت کے ادا ہی نہیں ہو تی لیکن اس سے بھی عورت مستثنیٰ ہے ۔ چنا نچہ سنن ابی دا ؤ د ہی کی روایت ہے ۔
﴿ الجمعة حق واجب علی کل مسلم فی جما عة الا علی اربعة عبد مملو ک اوا مراة اوصبی اومریض﴾ (سنن ابی دا ؤد )
جمعہ کی نماز با جما عت اداکرنا ہر مسلمان پر لا زم ہے مگر چار شخص مستثنیٰ ہیں ۔ غلام ، عورت ، بچہ اور مریض
عورتوں کو مسجد میں آنے سے قطعی طور پر منع نہیں کیا گیا ۔ لیکن اس کو بہت سی پابندیوں کے ساتھ مسجد میں آنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس طرح اس معاملے میں اس کی حوصلہ افزائی کے بجائے حو صلہ شکنی کی گئی ہے۔ 
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Friday, April 13, 2012

علیٰحدہ رہائش کے بارے میں نصیحت (برائے شوہر)۔

علیٰحدہ رہائش کے بارے میں نصیحت
شوہرپر لازم ہے کہ وہ بیوی کی رہائش کے لیے علیٰحدہ کوارٹر کا بندوبست کرے۔کوارٹر جو بیوی کی رہائش کے لیے مخصوص ہو اس میں خاوند کا کوئی عزیز بھی مقیم نہ ہو تا کہ وہ بغیر کسی دخل اندازی کے مکمل خلوت محسوس کرے ۔ اگر بیوی سسرال والوں کے ساتھ مل جل کر اور اکھٹے رہنا چاہے تو اس کی اجازت ہے ۔
ایک ہی بڑی بلڈنگ یا گھر میں اگر کئی خاندان رہتے ہیں تو اس میں بیوی کی رہائش کے لیے چند کمرے مخصوص کیے جاسکتے ہیں ۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کا اپنے کوارٹر یا کمروں پر مکمل اختیار ہو اور اس کے سوا کسی کو ان میں داخل ہونے یا خلل اندازی کی اجازت نہ ہو۔ سسرال والوں کا قطعاً کوئی حق نہیں کہ اس کے کمرے یا کمروں میں داخل ہوں اور اس میں پڑے ہوئے سامان کا جائزہ لیں ۔ بعض گمراہ خوش دامنیں اس بری عادت میں ملوث ہوتی ہیں ۔
بے شک بیوی اپنی رہائش کے لیے علیٰحدہ کوارٹر کی مستحق ہے لیکن وہ اس پر اصرار نہیں کر سکتی کہ وہ کسی خاص گھر یا علاقہ یا شہر میں رہے گی۔ رہائش کے لیے جہاں اور جو کمرے خاوند اس کے لیے مہیا کردے گا وہ ان سے مطمئن ہوگی ۔
جس طرح بیوی کو حق ہے کہ وہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کو اپنے کواٹر یا کمروں میں آنے سے روک دے اسی طرح شوہر کو بھی حق ہے کہ وہ بیوی کے عزیزوں کو گھر میں داخلے سے منع کردے عام طور پر خاوند اپنے اس فرض کی ادائیگی میں ناکام رہتے ہیں اور بیوی کو اس کے علیٰحدہ رہائش کے حق سے محروم رکھتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کے زیر اثر ہوتے ہیں جن کا اصرار ہوتا ہے کہ شادی شدہ بچے بھی ان کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہیں اور ایک ہی چھت کے نیچے رہیں جہاں ان کا مکمل اختیار ہوتا ہے او ر ان کی بہو کو اپنے سسرال والوں سے دب کر رہنا پڑتا ہے۔ اسلامی اقدار کی روسے یہ غیر اخلاقی ، غیر قانونی اور انصاف کے منافی ہے۔
شوہر کے والدین کو احساس ہونا چاہیے کہ ناانصافی کے اس رویہ سے وہ اپنی بہو کے حقوق پر جو شریعت اسلامیہ کی طرف سے اسے ملے ہیں ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ خاوند اور اس کے عزیزوں کا خیال ہوتا ہے کہ اکھٹے رہنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ لیکن جہاں مسئلہ دوسروں کے حقوق کا ہوا نہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود غرضی سے اپنے فائدے سوچیں ۔ اسلامی قوانین کے مطابق سسرال والوں کی خدمت کرنا بیوی کے فرائض میں شامل ہے ۔ اگر وہ خود اپنی مرضی سے ان کاکام کاج کر دیتی ہے تو یہ اس کی سعادت مندی ہے۔ ایسا کرکے وہ بہت بڑے ثواب کی حقدار ہوجاتی ہیں ۔ لیکن کسی صورت میں بھی ان کی خدمت کرنا اس کے سر تھوپا نہیں جا سکتا اور نہ ہی وہ ایسا کرنے پر مجبور کی جاسکتی ہے۔ سسرال والے تو کجا خود اس کا شوہر بھی اس معاملے میں بیوی کو حکم دینے کا مجاز نہیں ہے۔ شوہر اور اس کے عزیزوں کو چاہیے کہ اس مسئلہ کو غور سے پڑھیں ، سمجھیں اور اس پر عمل کریں ۔
اکثر شوہروں کی مائیں اپنی بہووٴں کے لیے مصیبتیں کھڑی کر دیتی ہیں۔ وہ ان کو اپنے زیر اثر اور محتاج رکھنے کے لیے اپنے بیٹوں پر ناجائز دباوٴ ڈالتی ہیں۔ اس قسم کا رویہ حالات کو خراب کرنے کا باعث بنتا ہے ۔ لڑائی جھگڑوں کے بعد نوبت گھر کے ٹوٹنے تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر بیوی کے حقوق کاآغاز میں ہی خیال رکھ لیا جائے تو بہت سے ازدواجی مسئلے اور پیچیدگیاں پیدا ہونے سے بچ جائیں ۔
شوہر کی والدہ ماضی کی طرف جھانک کر دیکھ لے۔ آج وہ ساس ہے لیکن کل وہ اسی گھر میں بہو بن کر آئی تھی ۔ اس وقت جو اس سے سلوک کیا گیا تھا اسے اچھی طرح یاد ہوگا۔ ایسی باتیں اور واقعات ذہن پر انمٹ پختہ نشانات چھوڑ جاتے ہیں۔ اگر اسے اپنے سسرال والوں سے تکلیفیں پہنچی تھیں جن کی تلخی وہ آج محسوس کر رہی ہے تو کیا وہ چاہے گی کہ اس کی بہو بھی تلخ یادوں کو اپنے دل میں بٹھا لے اور دل میں ہر وقت بد دعائیں دیتی رہے۔ اگر آغاز میں اس کے شوہر کے رشتہ داروں کا اس سے سلوک بہتر تھا تو اس کی حلاوت آج بھی وہ محسوس کرتی ہے ۔ کیا وہ نہ چاہے گی کہ اس کے حسن سلوک سے اس کی بہوبے دام غلام بن جائے اور اسے ماں کی طرح چاہے؟ اپنی بیٹی کو تو وہ کسی کی بیوی بناکر رخصت کر چکی ہے۔ اب تو اسے بہو کے ساتھ ہی رہنا ہے ۔ تو کیوں نہ اسے اپنی بیٹی بنا لے اور پیار سے اس کا من جیت لے۔
خاوند کے والدین ذرا سوچیں کہ شادی کے بعد عورت اپنے والدین کی بھی خدمت نہیں کرتی تو اس سے یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ان کی خدمت کرے گی۔ اگر وہ ان کی خدمت کرتی ہے تو یہ اسکی نیکی ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ محبت کا اظہا ر ۔
والدین کا اصرار کہ بیٹا ان کی بات مانے اور بیوی کے اپنے مطالبات ۔والدین کی خواہش کہ بہو ان کے ساتھ رہے اوران کے اپنے وزنی دلائل کہ اخراجات میں کمی ہوگی ، گھر کی حفاظت بہتر طور سے ہوسکے گی۔ اکھٹے رہنے سے محبت بڑھے گی وغیرہ وغیرہ ۔ جبکہ بیوی کی مرضی کہ وہ الگ رہے گی۔ جو چاہے کھائے پکائے اور جس طرح چاہے رہے بسے ۔ ان دو حالات کے درمیان شوہربیچارہ پس کر رہ جاتا ہے۔ ایسے متضاد حالات میں بیٹے کو چاہیے کہ شریعت کے قوانین اور ضابطہ اخلاق سے مدد لے۔ اگر والدین کی ہدایات ماننے اور ان کی خواہشات پر عمل کرنے سے بیوی کے جائز او ر واجب حقوق تلف ہوتے ہیں تو اس پر لازم ہے کہ اس معاملے میں ان کا حکم ماننے سے انکار کردے ۔ جبکہ دوسرے لوگ بہو کو صبرکی تلقین کر سکتے ہیں ۔ اور اسے شوہر کی خواہشات ، جو شریعت کے منافی نہ ہوں ، کا احترام کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ بیوی کے حقوق کے غاصب افراد کو اسے نصیحت کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ انہیں تو چاہیے کہ خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور اپنی زیادتیوں اور خامیوں کا جائزہ لیں جو انہوں نے معصوم جان پر روا رکھی ہیں۔ قیامت کے دن ان کی بہو، اپنے شوہر اور ان کے خلاف استغاثہ دائر کرے گی کہ ان لوگوں نے اس کے حقوق پامال کیے وہ حقوق جو خود اللہ کی طرف سے اسے دیئے گئے تھے۔
علیٰحدہ رہائش بیوی کا حق
یہ بہت ہی نازک اور پیچیدہ مسئلہ ہے اس کے صحیح طور پر حل نہ ہونے کی صورت میں مایوسی اور تلخی پیدا ہوتی ہے۔ بہت سی شادیاں اس مسئلہ کی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہیں۔ شوہر کو علم ہونا چاہیے کہ رہائش کے لیے علیٰحدہ کوارٹر بیوی کا حق ہے۔ اس حق کی کسی طور خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے ۔ اگر بیوی اپنے اس حق کو استعمال کرتی ہے اور اس پر اصرار کرتی ہے تو خاوند کو شریعت کی رو سے اس کے لئے علیٰحدہ گھر مہیا کرنا ہوگا۔
خاوند کے والدین کی خواہش کہ بہو ان کے ساتھ ہی رہے شریعت کی رو سے قابل قبول نہیں ہے۔اگر شوہر بیو ی کے اس واجب حق کو پورا نہیں کرتا تو وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ علیٰحدہ رہائشی کوارٹر کا یہ مطلب نہیں کہ ضروری طور پر علیٰحدہ گھر ہو۔ اگر گھر کافی بڑا ہے تو اس میں بیوی کے لیے کمرے مختص کئے جا سکتے ہیں جن کے تالے اور چابیاں اس کے پاس ہوں ۔
اپنے گھر میں خلوت اس کا غیر متنازعہ حق ہے اور حقیقت میں بہت ضروری بھی ہے۔ اکثر اوقات ساس بہو خلو ت میں مداخلت کرتی ہے ۔ وہ اسے غیر قانونی حرکت نہیں بلکہ اپنا حق تصور کرتی ہے صرف اس وجہ سے کہ بہو اس کے بیٹے کی بیوی ہوتی ہے۔ لیکن شریعت ساس کو ایسا حق نہیں دیتی جس سے بہوکی خلوت میں مداخلت اس کے لیے جائز ہوجائے شرعی طور پر بہو کا حق ہے کہ خوش دامن کو اپنے کمروں میں آنے سے روک دے ۔ اچھی اور نیک بیویاں اپنی خوش دامن کا بہت احترام کرتی ہیں لیکن اس کو بھی نہیں چاہیے کہ اس بات کا ناجائز فائدہ اٹھائے ۔ وہ بھی بہو سے محبت کرے اور اس کے کمرے میں داخل ہونے سے پیشتر اجازت لے۔
بعض خوشدامنیں اپنی بہوکی الماریاں کھول کر سامان اور اشیاء کا جائزہ لینا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ یہ خلوت میں مداخلت کی بدترین مثال ہے۔ بیوی کی علیٰحدہ رہائش کے حق سے متعلق حضرت مولانا مسیح اللہ رحمة علیہ لکھتے ہیں:
شوہر اس بات کو اپنے دماغ میں بٹھالے کہ کسی ایسے شخص کا حکم نہیں ماننا جو اللہ تعالیٰ کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہو اور شریعت کے قواعد کے خلاف عمل کرتا ہو۔ اگر بیوی کی خواہش ہے کہ وہ اپنے سسرال والوں سے الگ رہے تو یہ اس کا حق ہے جسے شوہر کو ہر صورت میں پورا کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ان دنوں الگ رہنے میں بہت سے فائدے ہیں ۔ آئے دن بحث مباحثے ،لڑائی جھگڑے ، ایک دوسرے کے متعلق برے احساسات ، خیالات اور دیگر کئی طرح کے مصائب وآلام سسرال والوں کے ساتھ اکھٹا رہنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات عمر رسیدہ عورتیں اپنی بہووٴں کو تنگ کرتی ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج کل کی لڑکیا ں بداطوار اور برُے اخلاق کی حامل ہیں اور ان کا رویہ اپنی خوشدامنوں کے ساتھ ترشی ، درشتی اور سختی کا ہے تب بھی صورت حال اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ لڑائی جھگڑے اور نااتفاقی سے پہلو بچایا جائے جس سے بعض اوقات برے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
بیوی کو الگ رہائش مہیا کر کے شوہر صحیح اور اچھی پو زیشن میں ہوتا ہے کہ بیوی اور والدہ کے ساتھ مناسب سلوک کرسکے ۔ الگ رہائش کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیٹا اپنے والدین سے تعلقات منقطع کرلے۔
 اگر بیوی کی یہ خواہش ہے تو وہ ایسی نامعقول اور غیر قانونی خواہش کے مطالبے کو نہیں مان سکتا ۔
الگ رہائش سے بہو اور ساس میں تعلقات زیادہ بہتر ہوں گے اور ان کی آپس میں محبت بڑھے گی۔ دونو ں اپنے اپنے دائرہ کار میں رہیں گی اور ایک دوسرے کے حقوق کو پامال نہیں کریں گی ۔ ان میں اختلافات کی خلیج بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جائے گی اور شوہر چکی کے دوپاٹوں میں پسنے سے بچ جائے گا۔
اگر بیوی علیٰحدہ رہنے پر بضد ہے اور شوہر انکار کردیتا ہے تو وہ شرعی عدالت میں اپنے حق کے حصول کے لیے دعویٰ دائر کرسکتی ہے، جواس کی معروضات سننے کے بعد اس کے حق میں فیصلہ دے گی اور شوہر کو مجبور کردے گی کہ وہ بیوی کا جائز اور واجب حق اسے دے ۔ اگر بیوی کسی وجہ سے اپنا حق حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو شوہر کو یہ نہ بھول جانا چاہیے کہ ایک عد الت اور بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت جہاں اسے کٹہرہ میں لا کھڑا کیا جائے گا۔ اور اس عدالت کا وقت بھی بہت دور نہیں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عقلمند موٴمن وہ ہے جو آخرت کی تیاری کرتا ہے۔ یہ کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ اپنے کندھوں پر گناہوں کا بوجھ لادے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہو۔
شریعت شوہر کو ایسی اجازت نہیں دیتی کہ والدین کے ایسے احکام مانے جن سے بیوی کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔


Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Wednesday, April 11, 2012

اپنے گھر میں قرار سے رہنے کی نصیحت

اپنے گھر میں قرار سے رہنے کی نصیحت
اے میری مسلمان بہن !
ایک’ نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “کا اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ اس کے لیے محفوظ اور بہترین مقام اس کا گھر ہے، اس لیے وہ گھر سے باہر زیا دہ نہیں نکلتی ۔
نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی “کا اللہ کے کلام پر ایمان ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وقرن فی بیوتکن ﴾(الاحزاب:۳۳
یعنی تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو“اس آیت مبارکہ میں عورتوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں، اس میں خطاب تو ازوج مطہرات رضی اللہ عنہن کو ہے لیکن دوسری عورتیں بھی معنی و مفہوم کے اعتبار سے اس میں داخل ہیں، کیونکہ حکم عام ہے، تخصیص پر کوئی دلیل نہیں ہے شریعت مطہرہ تمام عورتوں کو اپنے گھر وں میں قرار سے رہنے کا حکم دیتی ہے اور بلا ضرورت گھر سے نکلنے سے منع کرتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ازواج نبی علیہ السلام کو بھی اپنے گھروں سے وابستہ رہنے کا حکم دیا اوران کو احتراماً اس حکم کا مخاطب بنایا ۔(تفسیر الجامع للقرطبی ۱/۱۱۷)
ابن کثیر رحمة اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ” یعنی اپنے گھروں سے وابستہ رہو، بلا ضرورت گھر سے نہ نکلو ۔ جیسے شرعی حاجات ، مثلاً مسجد میں شرط پائے جانے کی صورت میں نماز پڑھنا۔(تفسیر ابن کثیر۳/۸۲)
محمد بن سیر ین رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ”مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آپ حج اور عمرہ کیوں نہیں کرتیں جس طرح آپ رضی اللہ عنہا کی دوسری بہنیں حج و عمرہ کرتی ہیں ؟ حضرت سودہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ میں نے حج بھی کیا ہے اور عمرہ بھی کیا ہے ، میرے اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے گھر میں سکونت اختیار کروں ، پس خداکی قسم ! میں اپنے گھر سے نہیں نکلوں گی یہا ں تک کہ میں اللہ کو پیاری ہوجاوٴ ں “محمد بن سیر ین رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم !وہ اپنے حجر ے کے دروازے سے باہر نہیں نکلیں،یہاں تک کہ ان کا جنازہ وہیں سے نکالاگیا ۔(الدر المنثور۵/۱۹۲)
ابن عربی رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں: ” میں ایک ہزار سے زائد بستیوں میں گیاہوں میں نے نابلس (شہر )سے زیادہ کسی اور علاقے کی عورتوں کو زیادہ پاک دامن اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں دیکھا، میں وہاں مقیم رہا، میں نے دن کے وقت کسی راستہ میں کسی عورت کو نہیں دیکھا، سوائے جمعہ کے دن کے ، جمعہ پڑھنے کے لیے گھر سے نکلتی تھیں اور مسجد ان سے بھر جاتی تھی ، اور نماز ختم ہوتے ہی اپنے گھر وں کو واپس چلی جاتی تھیں ، پھر دوسرے جمعہ تک میری نگاہ کسی عورت پر نہیں پڑتی تھی ۔
(
تفسیر القرطبی ۱/۱۱۸)
علامہ کمال الدین الادھمی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : گھروں میں پابندہو کر رہنا خیر کا وہ دروازہ ہے کہ جو عورت اس دروازے سے داخل ہوجائے تو وہ اپنی جان ،مال ، عزت وآبرو اور شرافت کو محفوظ و مامون کر لیتی ہے، اور عورت عصمت و عفت کا اعلیٰ نمونہ بن جاتی ہے، گھر وہ جگہ ہے جہاں عورت اپنے گھر کے ضروری کام ، اپنے شوہر اور اولاد کی ذمہ داری اور دینی امور کو انجام دیتی ہے ان کاموں سے کوئی امر مانع نہیں ہوتا ، بلکہ اس کو عبادت وریاضت اور دینی و اخلاقی کتب پڑھنے کا کھلاوقت ملتا ہے ، یوں وہ زندگی کی حقیقی لذت سے بہر ہ یاب ہوتی ہے اور محسوس کرتی ہے کہ وہ سعادت و فلاح اور حقیقی نعمتوں سے فیض یاب اور مستفید ہورہی ہے ، کیوں نہ ہو؟ اس نے اپنے رب کو بھی اور اپنے خاوند کے حقوق ادا کرکے راضی کیا ہے، عورت کے لیے اس سے بڑی سعادت کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ اس کارب اس سے راضی ہے اور اس کا شوہر بھی اس سے خوش ہے، آوارہ اور بے حیا عورت کا حال اس کے خلاف ہے، وہ اپنے گھر میں ایک لمحہ کے لیے بھی ٹکتی نہیں ہے بلکہ کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر دن رات گھومتی پھرتی ہے ہر ایک کے ساتھ اختلا ط کر تی ہے ، خو اہ وہ جا ئز ہو یا نا جا ئز جب گھر آتی ہے تو جو کچھ باہر دیکھا ہوتا ہے، اس کے دماغ میں ایک ایک چیز کی فرمائش موجود ہوتی ہے ، پھر وہ اپنے شوہر سے ہر فرمائش پوری کرنے پر اصرار کرتی ہے، حالانکہ بسااوقات شوہر کی حالت اس کی فرمائش پوری کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہوتی ، نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ دونوں میں اختلاف و نزاع کی آگ بھڑک اٹھتی ہے ، تم دیکھتے ہوکہ ایسی عورت کو گھر کے کاموں سے دلچسپی نہیں ہوتی اور نہ ہی اپنی اولا د کی تربیت کی پر واہ ہوتی ہے، اپنے رب اور اپنے شوہر کے حقوق ادا نہیں کرتی ، بلکہ ستم بالائے ستم یہ کہ وہ دین و ادب کی کتابوں کا بھی مذاق اڑاتی ہے اور اس کی ساری توجہ ، اخلاق سوز اور باغیا نہ لڑیچر پر مرکوز ہوتی ہے، انہیں کو وہ پڑھتی ہے۔ جب خاوند اس کو سمجھا نے کی کو شش کرتا ہے تو وہ اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتی ہے، اور اس پر سب وشتم کی بوچھاڑ کر دیتی ہے۔
ہر وقت ایسی حیا باختہ عورت کو تنگ دل اور بد خلق دیکھو گے یہ اصل میں اس کے کیے کی اس کو سزا ہوتی ہے۔ اللہ جل شانہ ، فرماتے ہیں :
﴿ومن اعرض عن ذکر ی فان لہ معیشة ضنکا ونحشرہ یوم القیٰمة اعمی ﴾(طہ ۱۲)
یعنی ”جو شخص میری یاد سے منہ پھیرتا ہے اس کی زندگی تنگ ہو جاتی ہے اور قیامت کے دن ہم اس کو اندھا اٹھا ئیں گے۔
یہ ساری خرابی عورت کے گھر سے نکلنے اور شرعی احکا م کی پا بند ی نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی گھر سے نکلنے کا پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ حاصل شدہ نعمت کو حقیر جاننے لگتی ہے اور اپنے شوہر کو استخفا ف کی نظر سے دیکھتی ہے ، اس لیے کہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو گھر سے ز یادہ پر تعیش زندگی اور اپنے شوہر سے زیادہ دل کش انسان کو دیکھتی ہے، خصوصاً جبکہ اس کا خاوند عمر رسیدہ یا تنگ دستی کا شکار ہو، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف و نزاع کی زہر آلودفضا پیدا ہونے لگتی ہے، جس کی وجہ سے بسا اوقات معاملہ طلاق و افتراق کی حد تک پہنچ جاتا ہے، پھر شادی ، آبادی کی بجائے بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔
جو عورت اپنے گھر سے وابستہ رہتی ہے وہ سب سے زیادہ خوش حال نظر آئے گی اور اپنے خاوند کے ساتھ بڑی اچھی ہو گی ، کسی اور کی طرف نگاہ نہیں اُٹھائے گی کسی نعمت کی نا شکری نہیں کرے گی ، خواہ وہ معمولی سی نعمت کیوں نہ ہو، شیطان کو بھی میاں بیوی کے درمیان اختلاف ڈالنے کا موقع نہیں ملتا وہ اپنے شوہر کے ساتھ خوش باش زندگی گزارتی ہے ، یہ ساری برکت گھر میں رہنے کی وجہ سے حاصل ہوئی ۔
اے میری مسلمان بہن!
اسلام یہ چاہتا ہے کہ نیک بیوی کی معاشرت بہتر سے بہتر ہو، وہ شک و شبہ کے مواقع سے دور رہے، اسی مقصد کے پیشِ نظر جب عورت اپنی کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلے تو اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک بڑی چادر میں ڈھانپ لے ، نظر وں کو جھکاتے ہوئے بڑے ادب کے ساتھ چلے اور راستہ کے بیچ میں نہ چلے ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” راستہ کے بیچ میں چلنا عورتوں کے لیے جائز نہیں ہے ۔
(
البیہقی فی شعب الایمان ۷۸۲۱)
نیک بیوی راستہ کے کنارے کنارے چلتی ہے ،اس کے بیچ میں نہیں چلتی ، اگر راستہ کے بیچ میں چلے گی تو مردوں کی نظر یں اس پر لازماً پڑیں گیں ، اور عورت کا احترام و وقار بھی جاتا رہے گا۔ لیکن راستہ کی ایک جانب چلنے میں یہ قباحت بہت کم پیدا ہوگی ، نیز وہ شک و شبہ کے موقع سے بھی بچے گی ، کیونکہ وہ حجاب میں نکلی ہے اور احترام اور وقار کے ساتھ جارہی ہے، ہر ایسی چیز سے دور ہے جو اس کے لیے کسی قسم کے شبہات کو پیدا کر سکتی ہو۔
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner