شو ہر کے علا وہ کسی اور جگہ اپنے کپڑ ے نہ اُتارنے کی نصیحت
حضرت عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ عنہا فرما تی ہیں کہ رسو ل اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : ” جس عورت نے اپنے شو ہر کے گھر کے علا وہ کسی اور جگہ پر اپنے کپڑ ے اتار ے اس نے اُس پر د ے کو جو اُ س کے اور اللہ کے درمیا ن میں ہے ، ہٹا د یا ۔ “
”کپڑ ے اتارنا “ اجنبیو ں کے سا منے پر دہ نہ کر نے سے کنا یہ ہے ۔ اور ” اپنے شو ہر کے گھر کے علا وہ کسی اور جگہ میں “ اور جگہ میں “ اس کا مفہو م یہ ہے کہ نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی اپنے شو ہر کے گھر ہی میں اپنے کپڑ ے اتار تی ہے یعنی اپنے گھر ہی میں اپنے پر د ے کو اٹھا تی ہے ، غیر و ں کے سا منے بے پر د ہ نہیں ہو تی ۔ اور ” اس نے اس پر د ے کو جو اس کے اور خد ا کے در میا ن میں ہے ہٹا دیا ۔ “ اس جملے کا مفہو م کیا ہے ؟ اس کے لیے کچھ وضا حت کی ضر ور ت ہے ۔
اے میر ی مسلما ن بہن !
اللہ تعالیٰ نے لبا س پہننے کا حکم اس لیے دیا تا کہ ہم اپنی شر م گا ہو ں کو اس کے ذریعہ ڈھا نپیں اور اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کلی طور پر مختار ہے ، جو چا ہتا ہے حکم دیتا ہے ، جب ایک بیو ی کو اپنے رب کا خو ف نہ ہو ، قا بلِ ستر حصوں کو غیر وں کے سا منے کھو ل دے ، اپنے شو ہر کے علا وہ کسی اور جگہ میں کپڑ ے اتاردے یعنی بے پر دہ ہو جا ئے تو اس عورت نے یقینا اس پر دے کو اٹھا دیا جو اس کے اور اس کے رب کے درمیان تھا ، عور ت کو سز ااس کے فعل کی طر ح ملی ، یعنی جیسا عمل ویسی سز ا ، اللہ تعالیٰ نے اس پر پڑ ے ہو ئے پردے کو ہٹا د یا یعنی اس کے فعل قبیح کی وجہ سے اس کو رسو ا کر دیا کہ اب اس عورت کو اس فضیحت ورسو ائی سے بچنے کے لیے کو ئی جگہ نہیں ملتی ۔
” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ ایسی حقیر اور گھٹیا حر کت سے بہت دور ہو تی ہے ۔ ” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ بڑ ی ذمہ دار ی او راما نت دار ی کے احسا س کے ساتھ اپنی زند گی بسر کر تی ہے ، اللہ تعالیٰ نے وہ اما نت آسما ن وز میں کو پیش کی مگر انہو ں نے اس اما نت کو اٹھا نے سے انکا ر کر دیا لیکن اس نیک عورت نے اس اما نت کو بر داشت کر نے کی ذمہ دار ی قبو ل کر لی ۔ ” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ کی شا ن اس سے بر تر اور عا لی ہو تی ہے کہ وہ سٹر کو ں پر یا گھر و ں میں مخص سا ما نِ زینت بنے کہ لو گ اس کی طر ح دیکھیں “اور وہ ( عورت ) ان کی دلکشی کا ذریعہ بنے ۔
” نصیحت پکڑ نے والی بیو ی “ تو دنیا وآ خر ت کا بہتر ین سا ما ن اور قیمتی دو لت ہے ۔
حضرت عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ عنہا فرما تی ہیں کہ رسو ل اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : ” جس عورت نے اپنے شو ہر کے گھر کے علا وہ کسی اور جگہ پر اپنے کپڑ ے اتار ے اس نے اُس پر د ے کو جو اُ س کے اور اللہ کے درمیا ن میں ہے ، ہٹا د یا ۔ “
”کپڑ ے اتارنا “ اجنبیو ں کے سا منے پر دہ نہ کر نے سے کنا یہ ہے ۔ اور ” اپنے شو ہر کے گھر کے علا وہ کسی اور جگہ میں “ اور جگہ میں “ اس کا مفہو م یہ ہے کہ نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی اپنے شو ہر کے گھر ہی میں اپنے کپڑ ے اتار تی ہے یعنی اپنے گھر ہی میں اپنے پر د ے کو اٹھا تی ہے ، غیر و ں کے سا منے بے پر د ہ نہیں ہو تی ۔ اور ” اس نے اس پر د ے کو جو اس کے اور خد ا کے در میا ن میں ہے ہٹا دیا ۔ “ اس جملے کا مفہو م کیا ہے ؟ اس کے لیے کچھ وضا حت کی ضر ور ت ہے ۔
اے میر ی مسلما ن بہن !
اللہ تعالیٰ نے لبا س پہننے کا حکم اس لیے دیا تا کہ ہم اپنی شر م گا ہو ں کو اس کے ذریعہ ڈھا نپیں اور اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کلی طور پر مختار ہے ، جو چا ہتا ہے حکم دیتا ہے ، جب ایک بیو ی کو اپنے رب کا خو ف نہ ہو ، قا بلِ ستر حصوں کو غیر وں کے سا منے کھو ل دے ، اپنے شو ہر کے علا وہ کسی اور جگہ میں کپڑ ے اتاردے یعنی بے پر دہ ہو جا ئے تو اس عورت نے یقینا اس پر دے کو اٹھا دیا جو اس کے اور اس کے رب کے درمیان تھا ، عور ت کو سز ااس کے فعل کی طر ح ملی ، یعنی جیسا عمل ویسی سز ا ، اللہ تعالیٰ نے اس پر پڑ ے ہو ئے پردے کو ہٹا د یا یعنی اس کے فعل قبیح کی وجہ سے اس کو رسو ا کر دیا کہ اب اس عورت کو اس فضیحت ورسو ائی سے بچنے کے لیے کو ئی جگہ نہیں ملتی ۔
” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ ایسی حقیر اور گھٹیا حر کت سے بہت دور ہو تی ہے ۔ ” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ بڑ ی ذمہ دار ی او راما نت دار ی کے احسا س کے ساتھ اپنی زند گی بسر کر تی ہے ، اللہ تعالیٰ نے وہ اما نت آسما ن وز میں کو پیش کی مگر انہو ں نے اس اما نت کو اٹھا نے سے انکا ر کر دیا لیکن اس نیک عورت نے اس اما نت کو بر داشت کر نے کی ذمہ دار ی قبو ل کر لی ۔ ” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ کی شا ن اس سے بر تر اور عا لی ہو تی ہے کہ وہ سٹر کو ں پر یا گھر و ں میں مخص سا ما نِ زینت بنے کہ لو گ اس کی طر ح دیکھیں “اور وہ ( عورت ) ان کی دلکشی کا ذریعہ بنے ۔
” نصیحت پکڑ نے والی بیو ی “ تو دنیا وآ خر ت کا بہتر ین سا ما ن اور قیمتی دو لت ہے ۔
No comments:
Post a Comment