علیٰحدہ رہائش کے بارے میں نصیحت
شوہرپر لازم ہے کہ وہ بیوی کی رہائش کے لیے علیٰحدہ کوارٹر کا بندوبست کرے۔کوارٹر جو بیوی کی رہائش کے لیے مخصوص ہو اس میں خاوند کا کوئی عزیز بھی مقیم نہ ہو تا کہ وہ بغیر کسی دخل اندازی کے مکمل خلوت محسوس کرے ۔ اگر بیوی سسرال والوں کے ساتھ مل جل کر اور اکھٹے رہنا چاہے تو اس کی اجازت ہے ۔
ایک ہی بڑی بلڈنگ یا گھر میں اگر کئی خاندان رہتے ہیں تو اس میں بیوی کی رہائش کے لیے چند کمرے مخصوص کیے جاسکتے ہیں ۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کا اپنے کوارٹر یا کمروں پر مکمل اختیار ہو اور اس کے سوا کسی کو ان میں داخل ہونے یا خلل اندازی کی اجازت نہ ہو۔ سسرال والوں کا قطعاً کوئی حق نہیں کہ اس کے کمرے یا کمروں میں داخل ہوں اور اس میں پڑے ہوئے سامان کا جائزہ لیں ۔ بعض گمراہ خوش دامنیں اس بری عادت میں ملوث ہوتی ہیں ۔
بے شک بیوی اپنی رہائش کے لیے علیٰحدہ کوارٹر کی مستحق ہے لیکن وہ اس پر اصرار نہیں کر سکتی کہ وہ کسی خاص گھر یا علاقہ یا شہر میں رہے گی۔ رہائش کے لیے جہاں اور جو کمرے خاوند اس کے لیے مہیا کردے گا وہ ان سے مطمئن ہوگی ۔
جس طرح بیوی کو حق ہے کہ وہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کو اپنے کواٹر یا کمروں میں آنے سے روک دے اسی طرح شوہر کو بھی حق ہے کہ وہ بیوی کے عزیزوں کو گھر میں داخلے سے منع کردے عام طور پر خاوند اپنے اس فرض کی ادائیگی میں ناکام رہتے ہیں اور بیوی کو اس کے علیٰحدہ رہائش کے حق سے محروم رکھتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کے زیر اثر ہوتے ہیں جن کا اصرار ہوتا ہے کہ شادی شدہ بچے بھی ان کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہیں اور ایک ہی چھت کے نیچے رہیں جہاں ان کا مکمل اختیار ہوتا ہے او ر ان کی بہو کو اپنے سسرال والوں سے دب کر رہنا پڑتا ہے۔ اسلامی اقدار کی روسے یہ غیر اخلاقی ، غیر قانونی اور انصاف کے منافی ہے۔
شوہر کے والدین کو احساس ہونا چاہیے کہ ناانصافی کے اس رویہ سے وہ اپنی بہو کے حقوق پر جو شریعت اسلامیہ کی طرف سے اسے ملے ہیں ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ خاوند اور اس کے عزیزوں کا خیال ہوتا ہے کہ اکھٹے رہنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ لیکن جہاں مسئلہ دوسروں کے حقوق کا ہوا نہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود غرضی سے اپنے فائدے سوچیں ۔ اسلامی قوانین کے مطابق سسرال والوں کی خدمت کرنا بیوی کے فرائض میں شامل ہے ۔ اگر وہ خود اپنی مرضی سے ان کاکام کاج کر دیتی ہے تو یہ اس کی سعادت مندی ہے۔ ایسا کرکے وہ بہت بڑے ثواب کی حقدار ہوجاتی ہیں ۔ لیکن کسی صورت میں بھی ان کی خدمت کرنا اس کے سر تھوپا نہیں جا سکتا اور نہ ہی وہ ایسا کرنے پر مجبور کی جاسکتی ہے۔ سسرال والے تو کجا خود اس کا شوہر بھی اس معاملے میں بیوی کو حکم دینے کا مجاز نہیں ہے۔ شوہر اور اس کے عزیزوں کو چاہیے کہ اس مسئلہ کو غور سے پڑھیں ، سمجھیں اور اس پر عمل کریں ۔
اکثر شوہروں کی مائیں اپنی بہووٴں کے لیے مصیبتیں کھڑی کر دیتی ہیں۔ وہ ان کو اپنے زیر اثر اور محتاج رکھنے کے لیے اپنے بیٹوں پر ناجائز دباوٴ ڈالتی ہیں۔ اس قسم کا رویہ حالات کو خراب کرنے کا باعث بنتا ہے ۔ لڑائی جھگڑوں کے بعد نوبت گھر کے ٹوٹنے تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر بیوی کے حقوق کاآغاز میں ہی خیال رکھ لیا جائے تو بہت سے ازدواجی مسئلے اور پیچیدگیاں پیدا ہونے سے بچ جائیں ۔
شوہر کی والدہ ماضی کی طرف جھانک کر دیکھ لے۔ آج وہ ساس ہے لیکن کل وہ اسی گھر میں بہو بن کر آئی تھی ۔ اس وقت جو اس سے سلوک کیا گیا تھا اسے اچھی طرح یاد ہوگا۔ ایسی باتیں اور واقعات ذہن پر انمٹ پختہ نشانات چھوڑ جاتے ہیں۔ اگر اسے اپنے سسرال والوں سے تکلیفیں پہنچی تھیں جن کی تلخی وہ آج محسوس کر رہی ہے تو کیا وہ چاہے گی کہ اس کی بہو بھی تلخ یادوں کو اپنے دل میں بٹھا لے اور دل میں ہر وقت بد دعائیں دیتی رہے۔ اگر آغاز میں اس کے شوہر کے رشتہ داروں کا اس سے سلوک بہتر تھا تو اس کی حلاوت آج بھی وہ محسوس کرتی ہے ۔ کیا وہ نہ چاہے گی کہ اس کے حسن سلوک سے اس کی بہوبے دام غلام بن جائے اور اسے ماں کی طرح چاہے؟ اپنی بیٹی کو تو وہ کسی کی بیوی بناکر رخصت کر چکی ہے۔ اب تو اسے بہو کے ساتھ ہی رہنا ہے ۔ تو کیوں نہ اسے اپنی بیٹی بنا لے اور پیار سے اس کا من جیت لے۔
خاوند کے والدین ذرا سوچیں کہ شادی کے بعد عورت اپنے والدین کی بھی خدمت نہیں کرتی تو اس سے یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ان کی خدمت کرے گی۔ اگر وہ ان کی خدمت کرتی ہے تو یہ اسکی نیکی ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ محبت کا اظہا ر ۔
والدین کا اصرار کہ بیٹا ان کی بات مانے اور بیوی کے اپنے مطالبات ۔والدین کی خواہش کہ بہو ان کے ساتھ رہے اوران کے اپنے وزنی دلائل کہ اخراجات میں کمی ہوگی ، گھر کی حفاظت بہتر طور سے ہوسکے گی۔ اکھٹے رہنے سے محبت بڑھے گی وغیرہ وغیرہ ۔ جبکہ بیوی کی مرضی کہ وہ الگ رہے گی۔ جو چاہے کھائے پکائے اور جس طرح چاہے رہے بسے ۔ ان دو حالات کے درمیان شوہربیچارہ پس کر رہ جاتا ہے۔ ایسے متضاد حالات میں بیٹے کو چاہیے کہ شریعت کے قوانین اور ضابطہ اخلاق سے مدد لے۔ اگر والدین کی ہدایات ماننے اور ان کی خواہشات پر عمل کرنے سے بیوی کے جائز او ر واجب حقوق تلف ہوتے ہیں تو اس پر لازم ہے کہ اس معاملے میں ان کا حکم ماننے سے انکار کردے ۔ جبکہ دوسرے لوگ بہو کو صبرکی تلقین کر سکتے ہیں ۔ اور اسے شوہر کی خواہشات ، جو شریعت کے منافی نہ ہوں ، کا احترام کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ بیوی کے حقوق کے غاصب افراد کو اسے نصیحت کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ انہیں تو چاہیے کہ خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور اپنی زیادتیوں اور خامیوں کا جائزہ لیں جو انہوں نے معصوم جان پر روا رکھی ہیں۔ قیامت کے دن ان کی بہو، اپنے شوہر اور ان کے خلاف استغاثہ دائر کرے گی کہ ان لوگوں نے اس کے حقوق پامال کیے وہ حقوق جو خود اللہ کی طرف سے اسے دیئے گئے تھے۔
علیٰحدہ رہائش بیوی کا حق
یہ بہت ہی نازک اور پیچیدہ مسئلہ ہے اس کے صحیح طور پر حل نہ ہونے کی صورت میں مایوسی اور تلخی پیدا ہوتی ہے۔ بہت سی شادیاں اس مسئلہ کی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہیں۔ شوہر کو علم ہونا چاہیے کہ رہائش کے لیے علیٰحدہ کوارٹر بیوی کا حق ہے۔ اس حق کی کسی طور خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے ۔ اگر بیوی اپنے اس حق کو استعمال کرتی ہے اور اس پر اصرار کرتی ہے تو خاوند کو شریعت کی رو سے اس کے لئے علیٰحدہ گھر مہیا کرنا ہوگا۔
خاوند کے والدین کی خواہش کہ بہو ان کے ساتھ ہی رہے شریعت کی رو سے قابل قبول نہیں ہے۔اگر شوہر بیو ی کے اس واجب حق کو پورا نہیں کرتا تو وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ علیٰحدہ رہائشی کوارٹر کا یہ مطلب نہیں کہ ضروری طور پر علیٰحدہ گھر ہو۔ اگر گھر کافی بڑا ہے تو اس میں بیوی کے لیے کمرے مختص کئے جا سکتے ہیں جن کے تالے اور چابیاں اس کے پاس ہوں ۔
اپنے گھر میں خلوت اس کا غیر متنازعہ حق ہے اور حقیقت میں بہت ضروری بھی ہے۔ اکثر اوقات ساس بہو خلو ت میں مداخلت کرتی ہے ۔ وہ اسے غیر قانونی حرکت نہیں بلکہ اپنا حق تصور کرتی ہے صرف اس وجہ سے کہ بہو اس کے بیٹے کی بیوی ہوتی ہے۔ لیکن شریعت ساس کو ایسا حق نہیں دیتی جس سے بہوکی خلوت میں مداخلت اس کے لیے جائز ہوجائے شرعی طور پر بہو کا حق ہے کہ خوش دامن کو اپنے کمروں میں آنے سے روک دے ۔ اچھی اور نیک بیویاں اپنی خوش دامن کا بہت احترام کرتی ہیں لیکن اس کو بھی نہیں چاہیے کہ اس بات کا ناجائز فائدہ اٹھائے ۔ وہ بھی بہو سے محبت کرے اور اس کے کمرے میں داخل ہونے سے پیشتر اجازت لے۔
بعض خوشدامنیں اپنی بہوکی الماریاں کھول کر سامان اور اشیاء کا جائزہ لینا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ یہ خلوت میں مداخلت کی بدترین مثال ہے۔ بیوی کی علیٰحدہ رہائش کے حق سے متعلق حضرت مولانا مسیح اللہ رحمة علیہ لکھتے ہیں:
”شوہر اس بات کو اپنے دماغ میں بٹھالے کہ کسی ایسے شخص کا حکم نہیں ماننا جو اللہ تعالیٰ کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہو اور شریعت کے قواعد کے خلاف عمل کرتا ہو۔ اگر بیوی کی خواہش ہے کہ وہ اپنے سسرال والوں سے الگ رہے تو یہ اس کا حق ہے جسے شوہر کو ہر صورت میں پورا کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ان دنوں الگ رہنے میں بہت سے فائدے ہیں ۔ آئے دن بحث مباحثے ،لڑائی جھگڑے ، ایک دوسرے کے متعلق برے احساسات ، خیالات اور دیگر کئی طرح کے مصائب وآلام سسرال والوں کے ساتھ اکھٹا رہنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات عمر رسیدہ عورتیں اپنی بہووٴں کو تنگ کرتی ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج کل کی لڑکیا ں بداطوار اور برُے اخلاق کی حامل ہیں اور ان کا رویہ اپنی خوشدامنوں کے ساتھ ترشی ، درشتی اور سختی کا ہے تب بھی صورت حال اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ لڑائی جھگڑے اور نااتفاقی سے پہلو بچایا جائے جس سے بعض اوقات برے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ “
بیوی کو الگ رہائش مہیا کر کے شوہر صحیح اور اچھی پو زیشن میں ہوتا ہے کہ بیوی اور والدہ کے ساتھ مناسب سلوک کرسکے ۔ الگ رہائش کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیٹا اپنے والدین سے تعلقات منقطع کرلے۔
شوہرپر لازم ہے کہ وہ بیوی کی رہائش کے لیے علیٰحدہ کوارٹر کا بندوبست کرے۔کوارٹر جو بیوی کی رہائش کے لیے مخصوص ہو اس میں خاوند کا کوئی عزیز بھی مقیم نہ ہو تا کہ وہ بغیر کسی دخل اندازی کے مکمل خلوت محسوس کرے ۔ اگر بیوی سسرال والوں کے ساتھ مل جل کر اور اکھٹے رہنا چاہے تو اس کی اجازت ہے ۔
ایک ہی بڑی بلڈنگ یا گھر میں اگر کئی خاندان رہتے ہیں تو اس میں بیوی کی رہائش کے لیے چند کمرے مخصوص کیے جاسکتے ہیں ۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کا اپنے کوارٹر یا کمروں پر مکمل اختیار ہو اور اس کے سوا کسی کو ان میں داخل ہونے یا خلل اندازی کی اجازت نہ ہو۔ سسرال والوں کا قطعاً کوئی حق نہیں کہ اس کے کمرے یا کمروں میں داخل ہوں اور اس میں پڑے ہوئے سامان کا جائزہ لیں ۔ بعض گمراہ خوش دامنیں اس بری عادت میں ملوث ہوتی ہیں ۔
بے شک بیوی اپنی رہائش کے لیے علیٰحدہ کوارٹر کی مستحق ہے لیکن وہ اس پر اصرار نہیں کر سکتی کہ وہ کسی خاص گھر یا علاقہ یا شہر میں رہے گی۔ رہائش کے لیے جہاں اور جو کمرے خاوند اس کے لیے مہیا کردے گا وہ ان سے مطمئن ہوگی ۔
جس طرح بیوی کو حق ہے کہ وہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کو اپنے کواٹر یا کمروں میں آنے سے روک دے اسی طرح شوہر کو بھی حق ہے کہ وہ بیوی کے عزیزوں کو گھر میں داخلے سے منع کردے عام طور پر خاوند اپنے اس فرض کی ادائیگی میں ناکام رہتے ہیں اور بیوی کو اس کے علیٰحدہ رہائش کے حق سے محروم رکھتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کے زیر اثر ہوتے ہیں جن کا اصرار ہوتا ہے کہ شادی شدہ بچے بھی ان کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہیں اور ایک ہی چھت کے نیچے رہیں جہاں ان کا مکمل اختیار ہوتا ہے او ر ان کی بہو کو اپنے سسرال والوں سے دب کر رہنا پڑتا ہے۔ اسلامی اقدار کی روسے یہ غیر اخلاقی ، غیر قانونی اور انصاف کے منافی ہے۔
شوہر کے والدین کو احساس ہونا چاہیے کہ ناانصافی کے اس رویہ سے وہ اپنی بہو کے حقوق پر جو شریعت اسلامیہ کی طرف سے اسے ملے ہیں ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ خاوند اور اس کے عزیزوں کا خیال ہوتا ہے کہ اکھٹے رہنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ لیکن جہاں مسئلہ دوسروں کے حقوق کا ہوا نہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود غرضی سے اپنے فائدے سوچیں ۔ اسلامی قوانین کے مطابق سسرال والوں کی خدمت کرنا بیوی کے فرائض میں شامل ہے ۔ اگر وہ خود اپنی مرضی سے ان کاکام کاج کر دیتی ہے تو یہ اس کی سعادت مندی ہے۔ ایسا کرکے وہ بہت بڑے ثواب کی حقدار ہوجاتی ہیں ۔ لیکن کسی صورت میں بھی ان کی خدمت کرنا اس کے سر تھوپا نہیں جا سکتا اور نہ ہی وہ ایسا کرنے پر مجبور کی جاسکتی ہے۔ سسرال والے تو کجا خود اس کا شوہر بھی اس معاملے میں بیوی کو حکم دینے کا مجاز نہیں ہے۔ شوہر اور اس کے عزیزوں کو چاہیے کہ اس مسئلہ کو غور سے پڑھیں ، سمجھیں اور اس پر عمل کریں ۔
اکثر شوہروں کی مائیں اپنی بہووٴں کے لیے مصیبتیں کھڑی کر دیتی ہیں۔ وہ ان کو اپنے زیر اثر اور محتاج رکھنے کے لیے اپنے بیٹوں پر ناجائز دباوٴ ڈالتی ہیں۔ اس قسم کا رویہ حالات کو خراب کرنے کا باعث بنتا ہے ۔ لڑائی جھگڑوں کے بعد نوبت گھر کے ٹوٹنے تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر بیوی کے حقوق کاآغاز میں ہی خیال رکھ لیا جائے تو بہت سے ازدواجی مسئلے اور پیچیدگیاں پیدا ہونے سے بچ جائیں ۔
شوہر کی والدہ ماضی کی طرف جھانک کر دیکھ لے۔ آج وہ ساس ہے لیکن کل وہ اسی گھر میں بہو بن کر آئی تھی ۔ اس وقت جو اس سے سلوک کیا گیا تھا اسے اچھی طرح یاد ہوگا۔ ایسی باتیں اور واقعات ذہن پر انمٹ پختہ نشانات چھوڑ جاتے ہیں۔ اگر اسے اپنے سسرال والوں سے تکلیفیں پہنچی تھیں جن کی تلخی وہ آج محسوس کر رہی ہے تو کیا وہ چاہے گی کہ اس کی بہو بھی تلخ یادوں کو اپنے دل میں بٹھا لے اور دل میں ہر وقت بد دعائیں دیتی رہے۔ اگر آغاز میں اس کے شوہر کے رشتہ داروں کا اس سے سلوک بہتر تھا تو اس کی حلاوت آج بھی وہ محسوس کرتی ہے ۔ کیا وہ نہ چاہے گی کہ اس کے حسن سلوک سے اس کی بہوبے دام غلام بن جائے اور اسے ماں کی طرح چاہے؟ اپنی بیٹی کو تو وہ کسی کی بیوی بناکر رخصت کر چکی ہے۔ اب تو اسے بہو کے ساتھ ہی رہنا ہے ۔ تو کیوں نہ اسے اپنی بیٹی بنا لے اور پیار سے اس کا من جیت لے۔
خاوند کے والدین ذرا سوچیں کہ شادی کے بعد عورت اپنے والدین کی بھی خدمت نہیں کرتی تو اس سے یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ان کی خدمت کرے گی۔ اگر وہ ان کی خدمت کرتی ہے تو یہ اسکی نیکی ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ محبت کا اظہا ر ۔
والدین کا اصرار کہ بیٹا ان کی بات مانے اور بیوی کے اپنے مطالبات ۔والدین کی خواہش کہ بہو ان کے ساتھ رہے اوران کے اپنے وزنی دلائل کہ اخراجات میں کمی ہوگی ، گھر کی حفاظت بہتر طور سے ہوسکے گی۔ اکھٹے رہنے سے محبت بڑھے گی وغیرہ وغیرہ ۔ جبکہ بیوی کی مرضی کہ وہ الگ رہے گی۔ جو چاہے کھائے پکائے اور جس طرح چاہے رہے بسے ۔ ان دو حالات کے درمیان شوہربیچارہ پس کر رہ جاتا ہے۔ ایسے متضاد حالات میں بیٹے کو چاہیے کہ شریعت کے قوانین اور ضابطہ اخلاق سے مدد لے۔ اگر والدین کی ہدایات ماننے اور ان کی خواہشات پر عمل کرنے سے بیوی کے جائز او ر واجب حقوق تلف ہوتے ہیں تو اس پر لازم ہے کہ اس معاملے میں ان کا حکم ماننے سے انکار کردے ۔ جبکہ دوسرے لوگ بہو کو صبرکی تلقین کر سکتے ہیں ۔ اور اسے شوہر کی خواہشات ، جو شریعت کے منافی نہ ہوں ، کا احترام کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ بیوی کے حقوق کے غاصب افراد کو اسے نصیحت کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ انہیں تو چاہیے کہ خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور اپنی زیادتیوں اور خامیوں کا جائزہ لیں جو انہوں نے معصوم جان پر روا رکھی ہیں۔ قیامت کے دن ان کی بہو، اپنے شوہر اور ان کے خلاف استغاثہ دائر کرے گی کہ ان لوگوں نے اس کے حقوق پامال کیے وہ حقوق جو خود اللہ کی طرف سے اسے دیئے گئے تھے۔
علیٰحدہ رہائش بیوی کا حق
یہ بہت ہی نازک اور پیچیدہ مسئلہ ہے اس کے صحیح طور پر حل نہ ہونے کی صورت میں مایوسی اور تلخی پیدا ہوتی ہے۔ بہت سی شادیاں اس مسئلہ کی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہیں۔ شوہر کو علم ہونا چاہیے کہ رہائش کے لیے علیٰحدہ کوارٹر بیوی کا حق ہے۔ اس حق کی کسی طور خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے ۔ اگر بیوی اپنے اس حق کو استعمال کرتی ہے اور اس پر اصرار کرتی ہے تو خاوند کو شریعت کی رو سے اس کے لئے علیٰحدہ گھر مہیا کرنا ہوگا۔
خاوند کے والدین کی خواہش کہ بہو ان کے ساتھ ہی رہے شریعت کی رو سے قابل قبول نہیں ہے۔اگر شوہر بیو ی کے اس واجب حق کو پورا نہیں کرتا تو وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ علیٰحدہ رہائشی کوارٹر کا یہ مطلب نہیں کہ ضروری طور پر علیٰحدہ گھر ہو۔ اگر گھر کافی بڑا ہے تو اس میں بیوی کے لیے کمرے مختص کئے جا سکتے ہیں جن کے تالے اور چابیاں اس کے پاس ہوں ۔
اپنے گھر میں خلوت اس کا غیر متنازعہ حق ہے اور حقیقت میں بہت ضروری بھی ہے۔ اکثر اوقات ساس بہو خلو ت میں مداخلت کرتی ہے ۔ وہ اسے غیر قانونی حرکت نہیں بلکہ اپنا حق تصور کرتی ہے صرف اس وجہ سے کہ بہو اس کے بیٹے کی بیوی ہوتی ہے۔ لیکن شریعت ساس کو ایسا حق نہیں دیتی جس سے بہوکی خلوت میں مداخلت اس کے لیے جائز ہوجائے شرعی طور پر بہو کا حق ہے کہ خوش دامن کو اپنے کمروں میں آنے سے روک دے ۔ اچھی اور نیک بیویاں اپنی خوش دامن کا بہت احترام کرتی ہیں لیکن اس کو بھی نہیں چاہیے کہ اس بات کا ناجائز فائدہ اٹھائے ۔ وہ بھی بہو سے محبت کرے اور اس کے کمرے میں داخل ہونے سے پیشتر اجازت لے۔
بعض خوشدامنیں اپنی بہوکی الماریاں کھول کر سامان اور اشیاء کا جائزہ لینا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ یہ خلوت میں مداخلت کی بدترین مثال ہے۔ بیوی کی علیٰحدہ رہائش کے حق سے متعلق حضرت مولانا مسیح اللہ رحمة علیہ لکھتے ہیں:
”شوہر اس بات کو اپنے دماغ میں بٹھالے کہ کسی ایسے شخص کا حکم نہیں ماننا جو اللہ تعالیٰ کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہو اور شریعت کے قواعد کے خلاف عمل کرتا ہو۔ اگر بیوی کی خواہش ہے کہ وہ اپنے سسرال والوں سے الگ رہے تو یہ اس کا حق ہے جسے شوہر کو ہر صورت میں پورا کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ان دنوں الگ رہنے میں بہت سے فائدے ہیں ۔ آئے دن بحث مباحثے ،لڑائی جھگڑے ، ایک دوسرے کے متعلق برے احساسات ، خیالات اور دیگر کئی طرح کے مصائب وآلام سسرال والوں کے ساتھ اکھٹا رہنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات عمر رسیدہ عورتیں اپنی بہووٴں کو تنگ کرتی ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج کل کی لڑکیا ں بداطوار اور برُے اخلاق کی حامل ہیں اور ان کا رویہ اپنی خوشدامنوں کے ساتھ ترشی ، درشتی اور سختی کا ہے تب بھی صورت حال اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ لڑائی جھگڑے اور نااتفاقی سے پہلو بچایا جائے جس سے بعض اوقات برے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ “
بیوی کو الگ رہائش مہیا کر کے شوہر صحیح اور اچھی پو زیشن میں ہوتا ہے کہ بیوی اور والدہ کے ساتھ مناسب سلوک کرسکے ۔ الگ رہائش کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیٹا اپنے والدین سے تعلقات منقطع کرلے۔
اگر بیوی کی یہ خواہش ہے تو وہ ایسی نامعقول اور غیر قانونی خواہش کے مطالبے کو نہیں مان سکتا ۔
الگ رہائش سے بہو اور ساس میں تعلقات زیادہ بہتر ہوں گے اور ان کی آپس میں محبت بڑھے گی۔ دونو ں اپنے اپنے دائرہ کار میں رہیں گی اور ایک دوسرے کے حقوق کو پامال نہیں کریں گی ۔ ان میں اختلافات کی خلیج بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جائے گی اور شوہر چکی کے دوپاٹوں میں پسنے سے بچ جائے گا۔
اگر بیوی علیٰحدہ رہنے پر بضد ہے اور شوہر انکار کردیتا ہے تو وہ شرعی عدالت میں اپنے حق کے حصول کے لیے دعویٰ دائر کرسکتی ہے، جواس کی معروضات سننے کے بعد اس کے حق میں فیصلہ دے گی اور شوہر کو مجبور کردے گی کہ وہ بیوی کا جائز اور واجب حق اسے دے ۔ اگر بیوی کسی وجہ سے اپنا حق حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو شوہر کو یہ نہ بھول جانا چاہیے کہ ایک عد الت اور بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت جہاں اسے کٹہرہ میں لا کھڑا کیا جائے گا۔ اور اس عدالت کا وقت بھی بہت دور نہیں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عقلمند موٴمن وہ ہے جو آخرت کی تیاری کرتا ہے۔ یہ کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ اپنے کندھوں پر گناہوں کا بوجھ لادے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہو۔
شریعت شوہر کو ایسی اجازت نہیں دیتی کہ والدین کے ایسے احکام مانے جن سے بیوی کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔
الگ رہائش سے بہو اور ساس میں تعلقات زیادہ بہتر ہوں گے اور ان کی آپس میں محبت بڑھے گی۔ دونو ں اپنے اپنے دائرہ کار میں رہیں گی اور ایک دوسرے کے حقوق کو پامال نہیں کریں گی ۔ ان میں اختلافات کی خلیج بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جائے گی اور شوہر چکی کے دوپاٹوں میں پسنے سے بچ جائے گا۔
اگر بیوی علیٰحدہ رہنے پر بضد ہے اور شوہر انکار کردیتا ہے تو وہ شرعی عدالت میں اپنے حق کے حصول کے لیے دعویٰ دائر کرسکتی ہے، جواس کی معروضات سننے کے بعد اس کے حق میں فیصلہ دے گی اور شوہر کو مجبور کردے گی کہ وہ بیوی کا جائز اور واجب حق اسے دے ۔ اگر بیوی کسی وجہ سے اپنا حق حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو شوہر کو یہ نہ بھول جانا چاہیے کہ ایک عد الت اور بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت جہاں اسے کٹہرہ میں لا کھڑا کیا جائے گا۔ اور اس عدالت کا وقت بھی بہت دور نہیں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عقلمند موٴمن وہ ہے جو آخرت کی تیاری کرتا ہے۔ یہ کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ اپنے کندھوں پر گناہوں کا بوجھ لادے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہو۔
شریعت شوہر کو ایسی اجازت نہیں دیتی کہ والدین کے ایسے احکام مانے جن سے بیوی کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔
No comments:
Post a Comment