سترو حجاب کے بارے میں نصیحت
﴿ینساء النبی لستن کاحد من النساء ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا ْوقر ن فی بیوتکن ولا تبرجن تبر ج الجاھلیة الا ولی واقمن الصلوة واتین الزکوة واطعن اللہ روسولہ انما یرید اللہ لیذ ھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا﴾(الاحزاب ۳۲۔۳۳)
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو نرم اور شیریں انداز سے بات نہ کیا کرو ۔ مبادادل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص (منافق) لالچ میں پڑ جائے بلکہ صاف سیدھی بات کرو اور اپنے گھر وں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو۔ زکوة دو اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو ۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گندگی کو دور کردے اور تمہیں پاک کردے جیسا کہ تمہیں ہو نا چاہیے ۔“
ان آیات میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کیا گیا ہے مگر مقصود تمام مسلمان گھروں میں ان اصلا حات کا نافذ کر نا ہے۔ ازواج مطہرات کو مخاطب کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے اس پاکیزہ طرز زندگی کی ابتداء ہوگی تو باقی سارے مسلمان گھرانوں کی خواتین اس کی تقلید کریں گی کیونکہ یہی گھران کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا۔بعض عورتیں اس مغالطے میں مبتلا ہو گئی ہیں یا کردی گئی ہیں کہ یہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے متعلق احکام ہیں ، یہاں عام عورتوں سے تو بات نہیں ہو رہی۔یہ بات ان کی غلط فہمی اور مغالطے کا بہت بڑا سبب بن گئی ۔ قرآن مجید میں یہ اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا کہ ازواج مطہرات کو مسلمان خواتین کے لیے ان تمام معاملات میں جو صرف خواتین سے متعلق اور ان کے لیے مخصوص ہیں نمونہ بننا ہے۔
آواز کا فتنہ
ضرورت پیش آنے پر کسی مرد سے بات کرنے میں مضائقہ نہیں ہے، لیکن ایسے مواقع پر عورت کا لہجہ اور انداز گفتگو ایسا ہونا چاہیے جس سے با ت کرنے والے مرد کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہ گزرسکے کہ اس عورت سے کوئی اور توقع بھی قائم کی جاسکتی ہے۔ اس کے لہجے میں کوئی لوچ نہ ہو، اس کی باتوں میں کوئی لگاوٹ نہ ہو، اس کی آواز میں دانستہ کوئی شیرینی گھلی ہوئی نہ ہو جو سننے والے مرد کے جذبات میں انکیخت پیدا کر دے اور اسے آگے قدم بڑھانے کی ہمت دلائے اس طرزِگفتگو کے متعلق اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ یہ کسی ایسی عورت کو زیب نہیں دیتا جس کے دل میں خدا کا خوف اور بدی سے پرہیز کا جذبہ ہو ۔ یہ فاسقات و فاجرات کا طرز کلام ہے نہ کہ مومنات متقیات کا۔ سورة النور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (ولا یضربن بار جلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن )(النور۳۱)
”اور وہ (عورتیں )زمین پر اس طرح پاوٴں مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہے اس کا علم لوگوں کو ہوجائے۔“
رب العلمین کا صاف منشایہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنی آواز یا اپنے زیوروں کی جھنکار غیر مردوں کو نہ سنائیں اور اگر بصورت اجنبیوں سے بولنا پڑجائے تو پوری احتیاط سے بات کریں ۔ اسی بنا پر عورت کے لیے اذان دینا ممنوع ہے۔
قرارفی البیوت
عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا گھر ہے۔ اس کو اسی دائرہ میں رہ کر اطمینا ن کے ساتھ فرائض انجام دینے چاہیں اور گھر سے باہر صرف بضرورت ہی نکلنا چاہیے۔
” نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے ” عورت مستور رہنے کے قابل چیز ہے۔ جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے اور اللہ کی رحمت سے قریب تر وہ اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھرمیں ہو “۔
عورتوں کا مخلوط اداروں میں کام کر نے کا معاملہ جن میں مردوں سے براہ راست سابقہ ہوتا ہو اور وہ ان کے لئے فردوس نظر بنتی ہوں روئے اسلام مسلم خواتین کے لئے قطعاً نا جا ئز بلکہ حرام کے درجے میں ہے ۔
مرد اپنے اختیا ر سے جہاں چا ہے جا سکتا ہے لیکن عورت خواہ کنواری ہو یا شادی شدہ بیوہ ہو یا مطلقہ سفر میں محرم کے بغیر نہیں نکل سکتی ۔ سفر کی مد ت میں البتہ اختلاف ہے ۔ ایک روایت میں تین دن اور اکثر روایت میں ایک دن رات کی مد ت مقرر ہے ۔ ان ہدایات کااصل مفا دیہ ہے کہ عورت کو تنہا سفر کے لیے نقل و حرکت کی آزادی نہ دی جائے ۔ حد یہ ہے کہ حج کے لیے جو ایک فرض عبادت ہے عورت محرم کے بغیر نہیں جا سکتی چا ہے وہ مالی حیثیت سے ذاتی طور پر استطاعت رکھتی ہو ۔ اس کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے ۔
شو ہر کی اجازت عام ضرورت و حوائج کے علا وہ عورت کو گھر سے نکلنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہا یت سخت انداز سے مما نعت فرمائی ہے حدیث میں ہے کہ حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
﴿ اذا خر جت المراة من بیتھا و زوجھا کا رہ لعھنا کل ملک فی السماء و کل شیء مرت علیہ غیر الجن والا نس حتی تر جع﴾
” جب عورت اپنے شوہر کی مر ضی کے خلاف گھر سے نکلتی ہے تو آسمان کا ہر وہ فرشتہ اس پر لعنت بھیجتا ہے اور جن وانس کے سوا ہر وہ چیز ، جس پر سے وہ گزرتی ہے ، پھٹکار بھیجتی ہے تا وقتیکہ وہ واپس نہ ہو “۔
سنن ابی داؤ د میں ایک طویل روایت ہے جس میں بیان ہے کہ آ نحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مسجد سے نکلتے وقت مرد اور عوتیں مل جا تے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ہدایت فرمائی :
﴿ استا خرن فا نہ لیس لکن ان تحققن الطریق ، علیکن بحا فا ت الطریق فکا نت المراة تلصق بالجدار ان ثو بھا یتعلق با لجدار من لصوقھا ﴾ ( ابو داؤ د )
” تم پیچھے ہو جا ؤ ۔ تمہا رے لئے راستہ کے بیچ میں چلنا ٹھیک نہیں ہے ۔ تم راستہ کے کنا رہ سے چلو چنانچہ اس حکم کے بعد عورتیں بالکل دیوار سے لگ جا تیں ۔یہاں تک کہ ان کی چادریں دیوار سے الجھتی تھیں۔“
عورت ایسا زیور پہن کر با ہر نہیں نکل سکتی جس میں جھنکار ہو ۔ عطر لگا کر گھر سے نکلنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے مما نعت فرمائی ہے ۔
﴿ المراة اذا استعطرت فمر ت با لمجلس فھی کذا ( ای زانیہ) ﴾ (ترمذی)
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عورت عطر لگا کر لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہے وہ آوارہ قسم کی عورت ہے ۔“
با ہر جانے کی صورت میں عورت کو اپنی خوشبو لگا نے کی اجازت ہے جس کا چا ہے رنگ ہو مگر وہ پھیلنے والی خو شبو نہ ہو ۔ایک روایت میں ہے کہ ایک عورت پھیلنے والی خوشبو لگا کر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے آرہی تھی ۔ حضرت ابو ہر یر رضی اللہ عنہ نے اس کو ہدایت کی کہ گھر جاکر اس طرح غسل کر و جیسے غسل جنا بت کیا جا تاہے۔
صلوٰة با جما عت اور خواتین
اسلام کاا ہم تر ین رکن صلوة ہے اور نماز با جما عت کی احادیث میں بے انتہا تاکید و تر غیب ملتی ہے ۔لیکن مسلمان عورت کے لئے بر عکس ہدا یا ت احادیث میں ملتی ہیں۔ اس کو اس با ت کی تر غیب دی گئی ہے کہ وہ نماز گھر میں ادا کر ے سنن ابی دا ؤ دمیں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿ صلو ة المراة فی بیتھا افضل من صلو تھا فی حجرتھا وصلو تھا فی مخد عھا افضل من صلو تھا فی بیتھا﴾
( ابو داؤد ، باب ما جاء فی خروج النسا ء الی المسا جد )
” عورت کا اپنی کو ٹھڑی میں نما ز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے کمرے میں نماز پڑھے اور اس کا اپنے چور خانہ میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنی کو ٹھڑ ی میں نماز پڑھے۔“
یہی تر غیب امام احمد اور طبرانی نے ام حمید سا عد یہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے ۔
” انہوں نے عر ض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جی چا ہتا ہے کہ آپ کے سا تھ نماز پڑھوں ۔ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے مگر تیرا ایک گو شے میں نمازپڑ ھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے گھر کے دالا ن میں نما ز پڑ ھے اور تیر ا د الا ن میں نما ز پڑ ھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑ ھے اورتیر ا اپنے محلہ کی مسجد میں نما ز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تو جا مع مسجد میں نماز پڑھے “۔
جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ یہ نماز بغیر جما عت کے ادا ہی نہیں ہو تی لیکن اس سے بھی عورت مستثنیٰ ہے ۔ چنا نچہ سنن ابی دا ؤ د ہی کی روایت ہے ۔
﴿ الجمعة حق واجب علی کل مسلم فی جما عة الا علی اربعة عبد مملو ک اوا مراة اوصبی اومریض﴾ (سنن ابی دا ؤد )
” جمعہ کی نماز با جما عت اداکرنا ہر مسلمان پر لا زم ہے مگر چار شخص مستثنیٰ ہیں ۔ غلام ، عورت ، بچہ اور مریض“
عورتوں کو مسجد میں آنے سے قطعی طور پر منع نہیں کیا گیا ۔ لیکن اس کو بہت سی پابندیوں کے ساتھ مسجد میں آنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس طرح اس معاملے میں اس کی حوصلہ افزائی کے بجائے حو صلہ شکنی کی گئی ہے۔
﴿ینساء النبی لستن کاحد من النساء ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا ْوقر ن فی بیوتکن ولا تبرجن تبر ج الجاھلیة الا ولی واقمن الصلوة واتین الزکوة واطعن اللہ روسولہ انما یرید اللہ لیذ ھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا﴾(الاحزاب ۳۲۔۳۳)
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو نرم اور شیریں انداز سے بات نہ کیا کرو ۔ مبادادل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص (منافق) لالچ میں پڑ جائے بلکہ صاف سیدھی بات کرو اور اپنے گھر وں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو۔ زکوة دو اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو ۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گندگی کو دور کردے اور تمہیں پاک کردے جیسا کہ تمہیں ہو نا چاہیے ۔“
ان آیات میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کیا گیا ہے مگر مقصود تمام مسلمان گھروں میں ان اصلا حات کا نافذ کر نا ہے۔ ازواج مطہرات کو مخاطب کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے اس پاکیزہ طرز زندگی کی ابتداء ہوگی تو باقی سارے مسلمان گھرانوں کی خواتین اس کی تقلید کریں گی کیونکہ یہی گھران کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا۔بعض عورتیں اس مغالطے میں مبتلا ہو گئی ہیں یا کردی گئی ہیں کہ یہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے متعلق احکام ہیں ، یہاں عام عورتوں سے تو بات نہیں ہو رہی۔یہ بات ان کی غلط فہمی اور مغالطے کا بہت بڑا سبب بن گئی ۔ قرآن مجید میں یہ اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا کہ ازواج مطہرات کو مسلمان خواتین کے لیے ان تمام معاملات میں جو صرف خواتین سے متعلق اور ان کے لیے مخصوص ہیں نمونہ بننا ہے۔
آواز کا فتنہ
ضرورت پیش آنے پر کسی مرد سے بات کرنے میں مضائقہ نہیں ہے، لیکن ایسے مواقع پر عورت کا لہجہ اور انداز گفتگو ایسا ہونا چاہیے جس سے با ت کرنے والے مرد کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہ گزرسکے کہ اس عورت سے کوئی اور توقع بھی قائم کی جاسکتی ہے۔ اس کے لہجے میں کوئی لوچ نہ ہو، اس کی باتوں میں کوئی لگاوٹ نہ ہو، اس کی آواز میں دانستہ کوئی شیرینی گھلی ہوئی نہ ہو جو سننے والے مرد کے جذبات میں انکیخت پیدا کر دے اور اسے آگے قدم بڑھانے کی ہمت دلائے اس طرزِگفتگو کے متعلق اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ یہ کسی ایسی عورت کو زیب نہیں دیتا جس کے دل میں خدا کا خوف اور بدی سے پرہیز کا جذبہ ہو ۔ یہ فاسقات و فاجرات کا طرز کلام ہے نہ کہ مومنات متقیات کا۔ سورة النور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (ولا یضربن بار جلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن )(النور۳۱)
”اور وہ (عورتیں )زمین پر اس طرح پاوٴں مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہے اس کا علم لوگوں کو ہوجائے۔“
رب العلمین کا صاف منشایہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنی آواز یا اپنے زیوروں کی جھنکار غیر مردوں کو نہ سنائیں اور اگر بصورت اجنبیوں سے بولنا پڑجائے تو پوری احتیاط سے بات کریں ۔ اسی بنا پر عورت کے لیے اذان دینا ممنوع ہے۔
قرارفی البیوت
عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا گھر ہے۔ اس کو اسی دائرہ میں رہ کر اطمینا ن کے ساتھ فرائض انجام دینے چاہیں اور گھر سے باہر صرف بضرورت ہی نکلنا چاہیے۔
” نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے ” عورت مستور رہنے کے قابل چیز ہے۔ جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے اور اللہ کی رحمت سے قریب تر وہ اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھرمیں ہو “۔
عورتوں کا مخلوط اداروں میں کام کر نے کا معاملہ جن میں مردوں سے براہ راست سابقہ ہوتا ہو اور وہ ان کے لئے فردوس نظر بنتی ہوں روئے اسلام مسلم خواتین کے لئے قطعاً نا جا ئز بلکہ حرام کے درجے میں ہے ۔
مرد اپنے اختیا ر سے جہاں چا ہے جا سکتا ہے لیکن عورت خواہ کنواری ہو یا شادی شدہ بیوہ ہو یا مطلقہ سفر میں محرم کے بغیر نہیں نکل سکتی ۔ سفر کی مد ت میں البتہ اختلاف ہے ۔ ایک روایت میں تین دن اور اکثر روایت میں ایک دن رات کی مد ت مقرر ہے ۔ ان ہدایات کااصل مفا دیہ ہے کہ عورت کو تنہا سفر کے لیے نقل و حرکت کی آزادی نہ دی جائے ۔ حد یہ ہے کہ حج کے لیے جو ایک فرض عبادت ہے عورت محرم کے بغیر نہیں جا سکتی چا ہے وہ مالی حیثیت سے ذاتی طور پر استطاعت رکھتی ہو ۔ اس کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے ۔
شو ہر کی اجازت عام ضرورت و حوائج کے علا وہ عورت کو گھر سے نکلنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہا یت سخت انداز سے مما نعت فرمائی ہے حدیث میں ہے کہ حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
﴿ اذا خر جت المراة من بیتھا و زوجھا کا رہ لعھنا کل ملک فی السماء و کل شیء مرت علیہ غیر الجن والا نس حتی تر جع﴾
” جب عورت اپنے شوہر کی مر ضی کے خلاف گھر سے نکلتی ہے تو آسمان کا ہر وہ فرشتہ اس پر لعنت بھیجتا ہے اور جن وانس کے سوا ہر وہ چیز ، جس پر سے وہ گزرتی ہے ، پھٹکار بھیجتی ہے تا وقتیکہ وہ واپس نہ ہو “۔
سنن ابی داؤ د میں ایک طویل روایت ہے جس میں بیان ہے کہ آ نحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مسجد سے نکلتے وقت مرد اور عوتیں مل جا تے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ہدایت فرمائی :
﴿ استا خرن فا نہ لیس لکن ان تحققن الطریق ، علیکن بحا فا ت الطریق فکا نت المراة تلصق بالجدار ان ثو بھا یتعلق با لجدار من لصوقھا ﴾ ( ابو داؤ د )
” تم پیچھے ہو جا ؤ ۔ تمہا رے لئے راستہ کے بیچ میں چلنا ٹھیک نہیں ہے ۔ تم راستہ کے کنا رہ سے چلو چنانچہ اس حکم کے بعد عورتیں بالکل دیوار سے لگ جا تیں ۔یہاں تک کہ ان کی چادریں دیوار سے الجھتی تھیں۔“
عورت ایسا زیور پہن کر با ہر نہیں نکل سکتی جس میں جھنکار ہو ۔ عطر لگا کر گھر سے نکلنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے مما نعت فرمائی ہے ۔
﴿ المراة اذا استعطرت فمر ت با لمجلس فھی کذا ( ای زانیہ) ﴾ (ترمذی)
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عورت عطر لگا کر لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہے وہ آوارہ قسم کی عورت ہے ۔“
با ہر جانے کی صورت میں عورت کو اپنی خوشبو لگا نے کی اجازت ہے جس کا چا ہے رنگ ہو مگر وہ پھیلنے والی خو شبو نہ ہو ۔ایک روایت میں ہے کہ ایک عورت پھیلنے والی خوشبو لگا کر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے آرہی تھی ۔ حضرت ابو ہر یر رضی اللہ عنہ نے اس کو ہدایت کی کہ گھر جاکر اس طرح غسل کر و جیسے غسل جنا بت کیا جا تاہے۔
صلوٰة با جما عت اور خواتین
اسلام کاا ہم تر ین رکن صلوة ہے اور نماز با جما عت کی احادیث میں بے انتہا تاکید و تر غیب ملتی ہے ۔لیکن مسلمان عورت کے لئے بر عکس ہدا یا ت احادیث میں ملتی ہیں۔ اس کو اس با ت کی تر غیب دی گئی ہے کہ وہ نماز گھر میں ادا کر ے سنن ابی دا ؤ دمیں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿ صلو ة المراة فی بیتھا افضل من صلو تھا فی حجرتھا وصلو تھا فی مخد عھا افضل من صلو تھا فی بیتھا﴾
( ابو داؤد ، باب ما جاء فی خروج النسا ء الی المسا جد )
” عورت کا اپنی کو ٹھڑی میں نما ز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے کمرے میں نماز پڑھے اور اس کا اپنے چور خانہ میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنی کو ٹھڑ ی میں نماز پڑھے۔“
یہی تر غیب امام احمد اور طبرانی نے ام حمید سا عد یہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے ۔
” انہوں نے عر ض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جی چا ہتا ہے کہ آپ کے سا تھ نماز پڑھوں ۔ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے مگر تیرا ایک گو شے میں نمازپڑ ھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے گھر کے دالا ن میں نما ز پڑ ھے اور تیر ا د الا ن میں نما ز پڑ ھنا اس سے بہتر ہے کہ تو اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑ ھے اورتیر ا اپنے محلہ کی مسجد میں نما ز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تو جا مع مسجد میں نماز پڑھے “۔
جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ یہ نماز بغیر جما عت کے ادا ہی نہیں ہو تی لیکن اس سے بھی عورت مستثنیٰ ہے ۔ چنا نچہ سنن ابی دا ؤ د ہی کی روایت ہے ۔
﴿ الجمعة حق واجب علی کل مسلم فی جما عة الا علی اربعة عبد مملو ک اوا مراة اوصبی اومریض﴾ (سنن ابی دا ؤد )
” جمعہ کی نماز با جما عت اداکرنا ہر مسلمان پر لا زم ہے مگر چار شخص مستثنیٰ ہیں ۔ غلام ، عورت ، بچہ اور مریض“
عورتوں کو مسجد میں آنے سے قطعی طور پر منع نہیں کیا گیا ۔ لیکن اس کو بہت سی پابندیوں کے ساتھ مسجد میں آنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس طرح اس معاملے میں اس کی حوصلہ افزائی کے بجائے حو صلہ شکنی کی گئی ہے۔
No comments:
Post a Comment