شوہر کے لیے بناوٴ سنگھار کی نصیحت
آجکل کی آزادی پسند مسلم خواتین نے کفار کے برے اطوار میں سے یہ طور بھی اپنا لیا ہے کہ غیروں کے سامنے بناوٴ سنگھار کرکے آتی ہیں اور اپنی لوچدار آوازسے ان کے دلوں کو گرماتی ہیں جبکہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ مسلم بیوی بناوٴ سنگھار صرف اپنے شوہر کے لئے کرے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ گھر میں تو عورت برے حالوں میں رہتی ہے اور جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو بن ٹھن کر۔ اسے اس امر کا ذرا احسا س نہیں ہوتا کہ شوہر کے سامنے نہ تو کنگھی پٹی، نہ کپڑوں کی صفائی ستھرائی اور نہ گفتگو میں نرمی اور لوچ لیکن جو نہی باہر نکلی تو کپڑوں کا بھی اہتمام ۔ چال اور گفتگو میں بھی شگفتگی ۔ یہ سب کچھ کس کے لئے؟ کیا غیروں کے لئے؟ باہر تو نا محرم ہی ہونگے جو للچائی ہوئی نگاہوں سے اس کی خوبصورتی کو جسے بناوٴ سنگھار نے چار چاند لگادیئے ہونگے ،دیکھیں گے ، جو منہ پھٹ ہو نگے وہ تو سرعام ہی اس کی تعریف میں رطب اللسان ہو جائیں گے اور دوسرے دل ہی دل میں اس کی خوبصورتی پر مرمٹنے کے لئے تیار ۔
سورة النور ۳۱ میں اس کی صاف طور پر ممانعت کردی گئی ہے۔
﴿ولا یبدین زینتھن الاما ظھر منھا ولیضربن بخمر ھن علی جیوبھن ولا یبدین زینتھن الا لبعو لتھن او ابائھن اواباء بعولتھن اوابنائھن اوابناء بعولتھن اواخوانھن اوبنی اخوانھن اوبنی اخواتھن اونسائھن اوماملکت ایمانھن اوالتبعین غیراولی الا ربة من الرجال اوالطفل الذین لم یظھر واعلی عورت النساء﴾ (النور۳۱)
”اپنی زینت نہ دکھائیں اس کے سوا جو از خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینے پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈال لیا کریں اور اپنی زینت نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے شوہر، باپ ،شوہر کے باپ، اپنے بیٹے ،شوہروں کے بیٹے ،بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے ، اپنے دین کی عورتیں ، اپنی کنیزیں اوروہ زیر دست مرد جو کسی قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ۔ “
عورت سے اس معاملے میں اب تک جو لغزش ، غلطی او ر کوتاہی ہو تی رہی ہے اس سے توبہ کرے اور آیندہ کے لیے اپنے طرزِ عمل کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق اصلاح کرلے۔
عورت پر واجب ہے کہ اپنے شوہر کے سامنے بن سنور کر رہے۔ اس کے لئے یہ قطعی حرام ہے کہ غیر وں کو اپنی سج دھج دکھائے ، ایسی عورت جو نامحرموں کے لئے سجاوٹ کرتی ہے اسلام کی نظر میں قابل ملامت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا موازنہ قیامت کے دن کی تاریکی سے کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایسی عورت بغیر کسی نور کے ہوگی ۔ ایک اور حدیث میں ہے:
(ایماامراة استعطرت فمرت علی قوم لیجد وا من ریحھا فھی زانیة (بہ روایت اشعری ۔ نسائی)
”جو عورت خوشبو لگاکر لوگوں کے پاس سے گزرتی ہے اس کی مثال ایک زانیہ کی سی ہے۔“
عورت کے لئے ضروری ہے کہ صفائی ، سلیقہ اور آرائش و زیبائش کا پورا پورا اہتمام کرے ۔ گھر کو بھی صاف ستھرا رکھے اور ہر چیز کو سلیقے سے سجائے اور سلیقے سے استعمال کرے ۔ صاف ستھرا گھر ، قرینے سے سجے ہوئے صاف ستھرے کمرے ، گھریلو کاموں میں سلیقہ اور سگھڑپن اور بناوٴ سنگھار کی ہوئی بیوی کی پاکیزہ مسکراہٹ سے نہ صرف گھریلو زندگی پیار و محبت اور خیرو برکت سے مالامال ہوتی ہے بلکہ ایک بیوی کے لئے اپنی عاقبت سنوارنے اور اللہ کو خوش کرنے کا بھی یہی ذریعہ ہے۔
ایک بار زوجہ عثمان ابن مطعون رضی اللہ عنہ سے حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات ہوئی تو آپ نے دیکھا کہ بیگم عثمان نہایت سادہ کپڑوں میں ہیں اور کوئی بناوٴ سنگھار بھی نہیں کیا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بہت تعجب ہو ا اور ان سے پوچھا:
”بی بی ! کیاعثمان کہیں باہر سفرپر گئے ہوئے ہیں ۔“
اس تعجب سے اندازہ کیجئے کہ سہاگنوں کا اپنے شوہروں کے لئے بناوٴ سنگھار کرناکیسا پسندیدہ فعل ہے ۔ ایک صحابیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ وہ اپنے ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوپہننے سے منع فرمایا تو کہنے لگیں ”یارسول اللہ !( صلی اللہ علیہ وسلم )اگر عورت شوہر کے لئے بناوٴ سنگھارنہ کرے گی تو اس کی نظروں سے گر جائے گی (نسائی )
بیوی پر شوہر کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اس کی خاطربن سنور کررہے ۔ اسلام نے مرد کویہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مجبور کرے کہ وہ اس کے لئے بناوٴ سنگھار کرے ۔ شریعت کے اس دستور کا اسلامی قوانین پر ایک مشہور اور مستند کتاب میں ذکر ہے۔ کبیری میں لکھاہے:
”مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ بیوی کو مارے اگر وہ خود کونہ بنائے سنوارے جب مرد ایسا چا ہے۔“
آجکل کی آزادی پسند مسلم خواتین نے کفار کے برے اطوار میں سے یہ طور بھی اپنا لیا ہے کہ غیروں کے سامنے بناوٴ سنگھار کرکے آتی ہیں اور اپنی لوچدار آوازسے ان کے دلوں کو گرماتی ہیں جبکہ اسلام کا یہ حکم ہے کہ مسلم بیوی بناوٴ سنگھار صرف اپنے شوہر کے لئے کرے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ گھر میں تو عورت برے حالوں میں رہتی ہے اور جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو بن ٹھن کر۔ اسے اس امر کا ذرا احسا س نہیں ہوتا کہ شوہر کے سامنے نہ تو کنگھی پٹی، نہ کپڑوں کی صفائی ستھرائی اور نہ گفتگو میں نرمی اور لوچ لیکن جو نہی باہر نکلی تو کپڑوں کا بھی اہتمام ۔ چال اور گفتگو میں بھی شگفتگی ۔ یہ سب کچھ کس کے لئے؟ کیا غیروں کے لئے؟ باہر تو نا محرم ہی ہونگے جو للچائی ہوئی نگاہوں سے اس کی خوبصورتی کو جسے بناوٴ سنگھار نے چار چاند لگادیئے ہونگے ،دیکھیں گے ، جو منہ پھٹ ہو نگے وہ تو سرعام ہی اس کی تعریف میں رطب اللسان ہو جائیں گے اور دوسرے دل ہی دل میں اس کی خوبصورتی پر مرمٹنے کے لئے تیار ۔
سورة النور ۳۱ میں اس کی صاف طور پر ممانعت کردی گئی ہے۔
﴿ولا یبدین زینتھن الاما ظھر منھا ولیضربن بخمر ھن علی جیوبھن ولا یبدین زینتھن الا لبعو لتھن او ابائھن اواباء بعولتھن اوابنائھن اوابناء بعولتھن اواخوانھن اوبنی اخوانھن اوبنی اخواتھن اونسائھن اوماملکت ایمانھن اوالتبعین غیراولی الا ربة من الرجال اوالطفل الذین لم یظھر واعلی عورت النساء﴾ (النور۳۱)
”اپنی زینت نہ دکھائیں اس کے سوا جو از خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینے پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈال لیا کریں اور اپنی زینت نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے شوہر، باپ ،شوہر کے باپ، اپنے بیٹے ،شوہروں کے بیٹے ،بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے ، اپنے دین کی عورتیں ، اپنی کنیزیں اوروہ زیر دست مرد جو کسی قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ۔ “
عورت سے اس معاملے میں اب تک جو لغزش ، غلطی او ر کوتاہی ہو تی رہی ہے اس سے توبہ کرے اور آیندہ کے لیے اپنے طرزِ عمل کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق اصلاح کرلے۔
عورت پر واجب ہے کہ اپنے شوہر کے سامنے بن سنور کر رہے۔ اس کے لئے یہ قطعی حرام ہے کہ غیر وں کو اپنی سج دھج دکھائے ، ایسی عورت جو نامحرموں کے لئے سجاوٹ کرتی ہے اسلام کی نظر میں قابل ملامت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا موازنہ قیامت کے دن کی تاریکی سے کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایسی عورت بغیر کسی نور کے ہوگی ۔ ایک اور حدیث میں ہے:
(ایماامراة استعطرت فمرت علی قوم لیجد وا من ریحھا فھی زانیة (بہ روایت اشعری ۔ نسائی)
”جو عورت خوشبو لگاکر لوگوں کے پاس سے گزرتی ہے اس کی مثال ایک زانیہ کی سی ہے۔“
عورت کے لئے ضروری ہے کہ صفائی ، سلیقہ اور آرائش و زیبائش کا پورا پورا اہتمام کرے ۔ گھر کو بھی صاف ستھرا رکھے اور ہر چیز کو سلیقے سے سجائے اور سلیقے سے استعمال کرے ۔ صاف ستھرا گھر ، قرینے سے سجے ہوئے صاف ستھرے کمرے ، گھریلو کاموں میں سلیقہ اور سگھڑپن اور بناوٴ سنگھار کی ہوئی بیوی کی پاکیزہ مسکراہٹ سے نہ صرف گھریلو زندگی پیار و محبت اور خیرو برکت سے مالامال ہوتی ہے بلکہ ایک بیوی کے لئے اپنی عاقبت سنوارنے اور اللہ کو خوش کرنے کا بھی یہی ذریعہ ہے۔
ایک بار زوجہ عثمان ابن مطعون رضی اللہ عنہ سے حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات ہوئی تو آپ نے دیکھا کہ بیگم عثمان نہایت سادہ کپڑوں میں ہیں اور کوئی بناوٴ سنگھار بھی نہیں کیا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بہت تعجب ہو ا اور ان سے پوچھا:
”بی بی ! کیاعثمان کہیں باہر سفرپر گئے ہوئے ہیں ۔“
اس تعجب سے اندازہ کیجئے کہ سہاگنوں کا اپنے شوہروں کے لئے بناوٴ سنگھار کرناکیسا پسندیدہ فعل ہے ۔ ایک صحابیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ وہ اپنے ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوپہننے سے منع فرمایا تو کہنے لگیں ”یارسول اللہ !( صلی اللہ علیہ وسلم )اگر عورت شوہر کے لئے بناوٴ سنگھارنہ کرے گی تو اس کی نظروں سے گر جائے گی (نسائی )
بیوی پر شوہر کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اس کی خاطربن سنور کررہے ۔ اسلام نے مرد کویہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مجبور کرے کہ وہ اس کے لئے بناوٴ سنگھار کرے ۔ شریعت کے اس دستور کا اسلامی قوانین پر ایک مشہور اور مستند کتاب میں ذکر ہے۔ کبیری میں لکھاہے:
”مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ بیوی کو مارے اگر وہ خود کونہ بنائے سنوارے جب مرد ایسا چا ہے۔“
No comments:
Post a Comment