”عورت ناقص العقل ہے“۔
مر د کا عورت پر درجہ بلند ہے اس لیے قدرتی طور پر وہ اس سے کمزور ہے۔ عورت کی بے وفائی ، واجب فرائض کی ادائیگی میں کو تاہی اور سستی اس کی قدر و منزلت کو ضائع کر دیتی ہیں، لیکن عادات و خصلتیں جو شوہر کو ناپسند ہیں عورت کو مارنے پیٹنے اور برابھلا کہنے کا جواز پیدا نہیں کرتیں۔ وہ محبت پیار سے اور تر غیب دے کر اس کی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے ۔ سستی او ر لاپرواہی کی عادتیں باربار کی پندونصائح سے دور ہو سکتی ہیں۔ شوہر کو چاہیے کہ عقل وخرد اور صبر سے کام لے اور حالات کی درستگی کی کوشش کرے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
”عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ تمہارے سامنے بے دست وپاہیں ،(تمہاری حراست میں ) انہیں کسی چیز پر اختیار نہیں ہے تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر قبول کیا ہے اور تم نے ان کو اللہ کے الفاظ سے ازدواجی زندگی کے لیے اپنے اوپر حلال کیا ہے“۔
شوہر بیوی کو گالی دینے سے پہلے ایک لمحہ بھر کے لیے غور کرلے کہ وہ (بیوی) کس کی امانت ہے اور جب وہ عورت کے خلاف اپنے غم وغصہ کا اظہا ر کرنے کی کوشش دل میں لائے تو اس حقیقت کو بھی سامنے رکھے کہ اللہ تعالیٰ جس کی وہ امانت ہے اس سے بہت زیادہ طاقت رکھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے غضب و قہر سے بچ نکلنے کا کو ئی راستہ نہیں ۔
ایک نیک شوہر بہادر، بلند ہمت ، عالی دماغ ، اور دریا دل ہوتا ہے۔ اس کا اپنی بیوی کے ساتھ طرزعمل شریفانہ اور اعلیٰ ضبط و تحمل کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
بیوی کو نظر اندازکرنا
ایک غلطی جو عموماً آج کل خاوند کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ بیوی کو نظر انداز کرتے ہیں بیوی کو وقت نہیں دیتے ۔ یادرکھئے اپنی بیوی کو نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اس کے بارے میں کتنی ہی حکایتیں اور داستانیں معاشرے میں ملتی ہیں ۔ خاوند یہ سمجھتا ہے کہ یہ تو اب ہے ہی بیوی اب اس کو توجہ دینے کی یا محبت دینے کی کیا ضرورت ہے۔
لطیفہ مشہور ہے کہ خاوند بیٹھا کئی گھنٹوں سے کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا ۔ بیوی بیچاری آگے پیچھے طواف کرتی پھر رہی تھی کہ کبھی تو ہماری طرف بھی محبت کی نظر اٹھا کر دیکھیں گے ۔ مگر خاوند کو کام سے فرصت نہیں تھی ۔ چنانچہ جب اس نے دیکھا کہ اب تو سونے کا وقت بالکل ہی قریب آگیا اور اس کی تو آنکھیں ہی بند ہورہی ہیں تو بیوی قریب آئی اور آکر کہنے لگی کاش میں بھی کوئی کتاب ہوتی ۔ اتنے گھنٹے آپ مجھے بھی بیٹھ کر دیکھتے رہتے ۔ اب خاوند نے بیوی کی طرف دیکھا اور کہنے لگا ہاں تمہیں تو کوئی ڈائری ہونا چاہیے تھا تاکہ ہر سال میں ڈائری کو بدل لیا کرتا۔
اگر خاوند کی سوچ ایسی ہوگی تو سوچئے کہ بیوی کو کہاں سکون ملے گا۔ خاوند اگر دوسروں کے ساتھ محبت و پیار سے باتیں کرتا ہے تو بیوی تو ان سے بھی زیادہ پیار کی مستحق ہے۔ اس کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور اس سے بھی محبت کی باتیں کرنی چاہئیں ۔ بلکہ ایک کافر نے اپنے ماحول کے اعتبار سے یہ بات کہی کہ ”جس پیار کی نظر سے خاوند اپنے ہمسائے کی لڑکی کی طرف دیکھ لیتا ہے اگر اس نظر سے ایک بار اپنی بیوی کو دیکھ لے تو اس کا گھر کبھی برباد نہ ہو“۔خاوند کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو بھر پور توجہ دے۔ اس کو محسوس کروائے کہ میرے نزدیک تم بہت کچھ ہو اور میرے دل میں تمہارا بڑا مقام ہے۔ اس طرح بیوی کو تسکین مل جاتی ہے۔
مر د کا عورت پر درجہ بلند ہے اس لیے قدرتی طور پر وہ اس سے کمزور ہے۔ عورت کی بے وفائی ، واجب فرائض کی ادائیگی میں کو تاہی اور سستی اس کی قدر و منزلت کو ضائع کر دیتی ہیں، لیکن عادات و خصلتیں جو شوہر کو ناپسند ہیں عورت کو مارنے پیٹنے اور برابھلا کہنے کا جواز پیدا نہیں کرتیں۔ وہ محبت پیار سے اور تر غیب دے کر اس کی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے ۔ سستی او ر لاپرواہی کی عادتیں باربار کی پندونصائح سے دور ہو سکتی ہیں۔ شوہر کو چاہیے کہ عقل وخرد اور صبر سے کام لے اور حالات کی درستگی کی کوشش کرے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
”عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ تمہارے سامنے بے دست وپاہیں ،(تمہاری حراست میں ) انہیں کسی چیز پر اختیار نہیں ہے تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر قبول کیا ہے اور تم نے ان کو اللہ کے الفاظ سے ازدواجی زندگی کے لیے اپنے اوپر حلال کیا ہے“۔
شوہر بیوی کو گالی دینے سے پہلے ایک لمحہ بھر کے لیے غور کرلے کہ وہ (بیوی) کس کی امانت ہے اور جب وہ عورت کے خلاف اپنے غم وغصہ کا اظہا ر کرنے کی کوشش دل میں لائے تو اس حقیقت کو بھی سامنے رکھے کہ اللہ تعالیٰ جس کی وہ امانت ہے اس سے بہت زیادہ طاقت رکھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے غضب و قہر سے بچ نکلنے کا کو ئی راستہ نہیں ۔
ایک نیک شوہر بہادر، بلند ہمت ، عالی دماغ ، اور دریا دل ہوتا ہے۔ اس کا اپنی بیوی کے ساتھ طرزعمل شریفانہ اور اعلیٰ ضبط و تحمل کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
بیوی کو نظر اندازکرنا
ایک غلطی جو عموماً آج کل خاوند کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ بیوی کو نظر انداز کرتے ہیں بیوی کو وقت نہیں دیتے ۔ یادرکھئے اپنی بیوی کو نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اس کے بارے میں کتنی ہی حکایتیں اور داستانیں معاشرے میں ملتی ہیں ۔ خاوند یہ سمجھتا ہے کہ یہ تو اب ہے ہی بیوی اب اس کو توجہ دینے کی یا محبت دینے کی کیا ضرورت ہے۔
لطیفہ مشہور ہے کہ خاوند بیٹھا کئی گھنٹوں سے کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا ۔ بیوی بیچاری آگے پیچھے طواف کرتی پھر رہی تھی کہ کبھی تو ہماری طرف بھی محبت کی نظر اٹھا کر دیکھیں گے ۔ مگر خاوند کو کام سے فرصت نہیں تھی ۔ چنانچہ جب اس نے دیکھا کہ اب تو سونے کا وقت بالکل ہی قریب آگیا اور اس کی تو آنکھیں ہی بند ہورہی ہیں تو بیوی قریب آئی اور آکر کہنے لگی کاش میں بھی کوئی کتاب ہوتی ۔ اتنے گھنٹے آپ مجھے بھی بیٹھ کر دیکھتے رہتے ۔ اب خاوند نے بیوی کی طرف دیکھا اور کہنے لگا ہاں تمہیں تو کوئی ڈائری ہونا چاہیے تھا تاکہ ہر سال میں ڈائری کو بدل لیا کرتا۔
اگر خاوند کی سوچ ایسی ہوگی تو سوچئے کہ بیوی کو کہاں سکون ملے گا۔ خاوند اگر دوسروں کے ساتھ محبت و پیار سے باتیں کرتا ہے تو بیوی تو ان سے بھی زیادہ پیار کی مستحق ہے۔ اس کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور اس سے بھی محبت کی باتیں کرنی چاہئیں ۔ بلکہ ایک کافر نے اپنے ماحول کے اعتبار سے یہ بات کہی کہ ”جس پیار کی نظر سے خاوند اپنے ہمسائے کی لڑکی کی طرف دیکھ لیتا ہے اگر اس نظر سے ایک بار اپنی بیوی کو دیکھ لے تو اس کا گھر کبھی برباد نہ ہو“۔خاوند کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو بھر پور توجہ دے۔ اس کو محسوس کروائے کہ میرے نزدیک تم بہت کچھ ہو اور میرے دل میں تمہارا بڑا مقام ہے۔ اس طرح بیوی کو تسکین مل جاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment