Wednesday, April 18, 2012

شوہر کو سر زنش کے اختیار میں نصیحت (برائے شوہر)۔

شوہر کو سر زنش کے اختیار میں نصیحت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (وعاشر وھن بالمعروف)”اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر ایک بڑے اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے ہدایت فرمائی :
الاواستو صوا بالنساء خیر ا فانما ھن عوان عند کم لیس تملکون منھن شیئا غیر ذلک الا ان یاتین بفا حشة مبینتہ فان فعلن فاھجروھن فی المضاجع واضربوھن ضربا غیر مبرح فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلا الا ان لکم علی نسائکم حقا ولنسائکم علیکم حقا فحقکم علیھن ان لا یوطئن فرشکم من تکرھون ولا یاذن فی بیوتکم لمن تکرھون الا وحقھن علیکم ان تحسنوا الیھن فی کسوتھن وطعامھن (سنن الترمذی ۔ باب ۷۸۹ماجاء فی حق المراة علی زوجھا، روایت عمرو )
لوگو! سنو! عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آوٴ کیونکہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں ۔ تمہیں ان کے ساتھ سختی کا برتاوٴ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ سوائے اس صورت کے جب ان کی طرف سے کھلی ہو ئی نافرمانی سامنے آئے ۔ اگر وہ ایسا کر بیٹھیں تو پھر خواب گاہوں میں ان سے علیٰحدہ رہو اور انہیں ماروتو ایسا نہ مارنا کہ کوئی شدید چوٹ آئے ۔ اورپھر جب وہ تمہارے کہنے پر چلنے لگیں تو ان کو خواہ مخواہ ستانے کے بہانے نہ ڈھونڈو ۔ دیکھو سنو! تمہارے کچھ حقوق تمہاری بیویوں پر ہیں اور تمہاری بیویوں کے کچھ حقوق تمہارے اوپر ہیں۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر وں کو ان لوگوں سے نہ روندوائیں جن کو تم ناپسند کرتے ہواور تمہارے گھروں میں ایسے لوگوں کو ہرگز نہ گھسنے دیں جن کا آنا تمہیں ناگوار ہو اور سنو ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں اچھا کھلاوٴ اور اچھا پہناوٴ۔
حکیم ابن معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔ انہوں ( معاویہ رضی اللہ عنہ )نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ۔
ماحق زوجة احد نا علیہ ؟ قال ان تطعمہا اذاطعمت وتکسو ھااذا(اکتسیت) ولا تضرب الوجہ ولاتقبح ولا تہجرالافی البیت ) ( ابو داوٴد)
کسی شخص کی بیوی کا اس کے شوہر پر کیا حق ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس کا حق یہ ہے کہ جب تو کھائے تو اسے کھلائے اور جب تو پہنے تو اسے پہنائے اور اس کے چہرہ پر نہ مارے ، اور اس کو بد دعا کے الفاظ نہ کہے ، اور اگر اس سے ترک تعلق کرے تو صرف گھر میں کرے
آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیوی کی طرف سے نافرمانی اور شرارت ظاہر ہو تو قرآن کی ہدایت کے مطابق پہلے اس کو نر می سے سمجھا ئے ۔ اگر اس سے بھی وہ ٹھیک نہ ہو تو گھر میں اپنا بستر الگ کرلے اور بات باہر نہ پہنچنے دے کیونکہ یہ شرافت کے خلاف ہے۔ اس سے بھی اگر ٹھیک نہ ہو تو پھر اس کو ماراجاسکتا ہے ۔لیکن چہرہ پر نہیں بلکہ دوسرے حصہ جسم پر اور اس میں بھی یہ ہدایت ہے کہ ہڈی کو توڑ دینے والی یا زخمی کر دینے والی مار نہ ماری جائے۔ مار کا مقصد بیوی کو زخمی کرنا بلکہ حالات کے بگاڑ کا احساس دلانا ہے ۔اگر بیوی کی کسی غلطی یا کمزوری کی وجہ سے شوہر خفا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ فوراً مار کٹائی شروع کردے یا گھر چھوڑ کر باہر جاسوئے ۔بعض شوہر غصے میں بکتے جھکتے گھر سے نکل جاتے ہیں اور اپنی دانست میں بیوی کو سزا دینے کے لیے کہیں اور جاسوتے ہیں اور اس طرح کی بات گلی کوچے کوچے عام ہوجاتی ہے۔
بیوی کو تنبیہ کرتے وقت اسے بیوی کو گالی دینے، اس کی بے عزتی کرنے اور اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ کہ ”بیوی کو نہ مارو اور نہ گالی دو۔ایک دوسرے موقع پرآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سباب المسلم فسوق و قتالہ کفر)
(
صحیح بخاری ، کتاب الایمان بہ روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ صحیح مسلم کتاب الایمان )
ایک مسلمان کو گالی دینا غیر اخلاقی فعل ہے اور اس سے لڑنا کفر کا کام ہے“۔
یہ حدیث ہر مسلمان کے لیے ہے اس میں کسی خاص و عام کی تخصیص نہیں ۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ بعض شوہر بیوی کو حقیر سمجھ کر خواہ مخواہ اسے گالی دینا اور معمولی معمولی باتوں پر مارنا پیٹنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔شوہر جہاں تک دوسرے مردوں کا تعلق ہے اس حدیث کو صحیح جان کر عمل پیرا ہوتا ہے مگر خود کو اعلیٰ مخلوق سمجھتے ہوئے بیوی کے ساتھ بدسلوکی کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس حدیث کا تعلق زیادہ تر زن شوہر سے ہے۔ مزید براں بیوی کی حیثیت ایک مسلمان کی بھی ہے اور و ہ اللہ کے نام سے اس کے ساتھ وابستہ ہوئی ہے وہ ا س کی حفاظت اور زیر کفالت میں بطور امانت ، نکاح کے متبرک بندھن سے بندھ کرآئی ہے۔ اس لیے شوہر پر واجب ہے کہ اس کی عزت و تو قیر کرے۔
شوہر کو یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ بیوی اس کے پاس بطور امانت ہے جو اسے اللہ کے نام پر سپرد کی گئی ہے ۔ وہ اس سے اچھا برا، جیسا چاہے سلوک نہیں کر سکتا ۔
ایک شوہر جب بیوی کے ساتھ گالی گلوچ کرتا ہے اور بازاری زبان استعمال کرتا ہے تو اسے علم ہونا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ وہ بیوی کو بیاہ کر اپنے گھر لاتا ہے اور وہ اللہ کے نام سے اس کے رحم و کرم پر اس کے حوالے کی گئی ہے۔ اللہ کی امانت کی کسی طور پر تذلیل نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی اس سے برا سلوک، کیا ایسا کرکے وہ اللہ تعالیٰ کی ناشکرگزاری کا مرتکب نہیں ٹھہرایا جائے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
الدنیا کلھا متاع وخیر متاع الدنیا المراة الصالحة (بہ روایت حضرت عبد اللہ بن عمر وابن عاص ، صحیح مسلم)
دنیا کل کی کل برتنے کی چیز ہے اور اس دنیا کی بہترین متاع نیک عورت (بیوی)ہے“۔
حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کامل ایمان والاوہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور تم سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں بہترین ہوں“۔
شوہر کو چاہیے کہ عفوو درگزر کی روش اختیار کرے اور بیوی کی کوتاہیوں ، نادانیوں اور سرکشیوں سے چشم پوشی کرے ۔عورت عقل و خر د کے اعتبار سے کمزور اور نہایت ہی جذباتی ہوتی ہے۔ صبر و سکون رحمت و شفقت اور دلسوزی کے ساتھ اس کو سدھارنے کی کوشش کرے اور صبرو ضبط سے کام لیتے ہوئے اس کے ساتھ نباہ کرے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(
یایھاالذین امنو اان من ازواجکم واولادکم عدوالکم فاحذروھم وان تعفوا وتصفحوا وتغفروا فان اللہ غفور رحیم ) (التغابن ۱۴)
مومنو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض اولاد تمہارے دشمن ہیں ۔ سو ان سے بچتے رہو اور اگر تم عفوو کرم ، درگزر اور چشم پوشی سے کام لو تو یقین رکھو کہ خدا بہت ہی زیادہ رحم کرنے والا ہے“۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں :
(استو صو ابالنساء خیر ا فانھن خلقن من ضلع وان اعوج شیٴ فی الضلع اعلاہ فان ذھبت تقیمہ کسر تہ وان ترکتہ لم یزل اعوج فاستوصوا بالنساء ) (بہ روایت حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ، مسلم، بخاری )
عورت کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں سب سے زیادہ اوپر کا حصہ ٹیڑھا ہے ۔ اس کو سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی ۔ اور اگر اس کو چھوڑے رہو تو ٹیڑھی رہے گی۔ پس عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو

Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

No comments:

Post a Comment