Tuesday, June 26, 2012

بیوی کے زبان دراز ہونے پر شوہر کیلئے نصیحت (برائے شوہر)۔


بیوی کے زبان دراز ہونے پر شوہر کیلئے نصیحت
بعض مردوں کو اپنی بیویوں کے زبان دراز ہو نے کا شکوہ ہوتا ہے اور وہ اس سلسلہ میں اپنی بیویوں کو قصو روار اور بد اخلاق قرار دیتے ہیں حالانکہ مرداگر سمجھدار ہو تو بیوی کے بد زبان اور بد اخلاق ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم لوگ بیویوں پر بے جا ظلم و زیادتی کرتے ہیں اور اوپر سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ زبان نہ کھولیں ۔ اگر وہ اپنی صفائی بھی پیش کرنا چاہیں تو ہم انہیں فوراً زبان دراز اور بد اخلاق ہونے کی ڈگری جاری کر دیتے ہیں۔
سمجھدار شوہر وہ ہے جو بیوی کے زبان دراز ہونے کی وجوہات تلاش کرکے ان کا سد باب کرتا ہے نہ کہ وہ جو سید ھا بیوی کی زبان کا ٹنے کو لپکتا ہے ۔ آپ اپنی بیوی کو زبان چلانے کا موقع ہی نہ دیں تو پھر وہ کیسے زبان چلائے گی۔ اگر آپ کے جائز شکووں کو زبان درازی خیال کرتے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے۔ اپنے دل کی بھڑاس آپ کے سامنے نکال لے تو اس میں فائدہ ہے ، بجائے اس کے کہ وہ گھر کی باتیں سارے محلے میں سناتی پھرے اور آپ کے سامنے خاموش رہے۔
بعض اوقات عورت کی گفتگو کا انداز ہی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اسے بد اخلاقی اور زبان درازی خیال کر لیتے ہیں حالانکہ وہ دل سے آپ کو چاہنے والی ہوتی ہے ۔ سمجھدار شوہر وہی ہے جو ان نزاکتوں کو خوب سمجھتااور بیوی کے لیے مہربان ہو۔ اس کے جائز شکوے خوشی سے سنے ۔ اس کو اجازت دے کہ دوسروں کی بجائے مجھ (شوہر ) پر اپناغصہ جیسے چاہو نکالا کرو۔ اس کے سامنے خود زبان درازی نہ کرتا ہو اور نہ ہی اس پر ہاتھ اٹھاتا ہو۔ کبھی کبھار ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ بیوی غصے میں آکر آپ کو واقعی ناز یبا جملے کہہ بیٹھے ۔ ایسے موقع پر اس پر کوئی حکم صادر کرنے سے پہلے آپ خود یہ سوچ لیں کہ اس نے اگر آج آپ کو کچھ سخت الفاظ کہہ دیئے ہیں تو کیا آپ نے کبھی اسے سخت الفاظ نہیں کہے ۔ کبھی اسے برا بھلا نہیں کہا۔ کبھی اسے گندی گالیاں نہیں دیں ۔ کبھی اس پر غصے کا اظہار نہیں کیا۔ آپ تو اپنا ماضی بھول جائیں اور یہ نہ سوچیں کہ آپ کے ایسے بے شمار غلط رویوں پر کبھی اس بیوی نے اُف تک نہ کہا اور آج ایک مرتبہ اس کی زبان سے کچھ سخت جملے نکلے ہیں تو آپ اسے جان سے ماردینے پر تلے بیٹھے ہیں ……!
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی بیوی واقعی بڑی بدزبان اور بد اخلاق ہو ۔ ایسی صورت میں بہادری یہ نہیں کہ آپ اسے اٹھا کر گھر سے باہر جا پھینکیں اور ہمیشہ کے لیے اپنا دروازہ اس پر بند کردیں بلکہ بہادری یہ ہے کہ آپ اسے خوش اَ خلاق اور خوش گفتار بنادیں ۔ اس کا رویہ اور طرزِ زندگی درست کردیں ۔ اس کا کردار اور گفتار بااخلاق بنادیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو بے شمار بد اخلاقوں کو بااخلاق بنادیں مگر آپ ایک عورت کو نہ بدل سکیں۔ آپ یہ کام نہیں کر سکتے تو دنیا میں اور کوئی اہم کام کی آپ توقع کیسے کر سکتے ہیں ؟
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Saturday, June 23, 2012

سو تیلی اولاد (بیوی)۔

سو تیلی اولاد کے با رے میں نصیحت
دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات عورت کا اپنے شو ہر کی پہلی بیوی سے اولا د کے ساتھ سلوک بہت خراب اوردلوں کو لرزا دینے والا ہوتا ہے ۔ ایک عورت جب وہ ایسے مرد سے شادی کر تی ہے جس کی پہلے سے اولاد ہو تی ہے کو بہت سنبھل سنبھل کر چلنا چا ہیے ۔ آج کل کے جہا لت کے دور میں شروع شروع میں اکثر بچے اپنی نئی ماں سے خائف رہتے ہیں اور اسے بن بلا یا مہمان تصور کر تے ہیں ۔ اسلامی تعلیمات سے لا علمی اور اسلامی اقدار اور تر بیت میں کمی کے با عث وہ اپنی نئی ماں کے صحیح مقام اور رتبہ کو جاننے سے قاصر رہتے ہیں ۔ عام طور پر وہ اپنی سوتیلی ماں کے سا تھ گستا خانہ ، نا روا ، نا فرما نبرداری اورغیر اسلامی رویہ اپنا تے ہیں جسے وہ اپنے ذہن میں ایک نا مہر بان ، ظالم اور ان کی ضرورت کا خیال نہ رکھنے والی تصور کر تے ہیں ۔
سو تیلی اولاد کے ذہنوں سے اس تصور کو دور کر نے کی کو شش کرنا عورت کا پہلا کام ہو نا چاہیے۔ یہ ایک دن کا کام نہیں ۔ یقینا اس کے لئے وقت اور صبر درکار ہو گا ۔ عورت کو ہر حال میں بچوں کے اعتماد کو جیتنا اوربحال کرنا ہو گا ۔ اسے ایسے راستے اختیا ر کر نا ہوں گے جن سے وہ ان کے دلوں کو جیت سکے ۔ اس کے لئے انتہا ئی درجے کی سوجھ بوجھ اور صبر کی ضرورت ہو گی ۔
عورت ہر گز ان کے باپ کے پاس ان کی غلطی یا نا فرما نی کی شکایت نہ کر ے۔ اس سے ان کے دل اور سخت ہو جا ئیں گے اور وہ اپنی ماں کے ساتھ دشمنی میں بہت آگے بڑھ جا ئیں گے ۔ اگر کبھی کبھا ر اس کی اشد ضرورت پیش آبھی جا ئے بچوں کے نا رواسلوک اور غلطیوں پر سر زنش کے لیے ان کے باپ کو بتا ئے بغیر چارہ نہ ہو تو وہ ایسا تنہا ئی میں کر ے تاکہ بچے اس سے آگا ہی نہ پا سکیں ۔ نیز وہ اپنے شو ہر سے وعدہ لے لے کہ وہ بچوں کو اس امر سے آگاہ نہیں کر ے گا کہ شکایت ان کی ماں نے کی ہے ۔ اب یہ باپ پر مو قوف ہے کہ بیوی کو شریک کیے بغیر وہ خود ان سے کس طرح نپٹتا ہے ۔
شوہر جب اپنے بچوں کو سر زنش کر رہا ہو تو کبھی کبھار وہ خود بچوں کی طرفداری کرے اور شوہر کے آگے ان کے لیے ڈھا ل بن کر کھڑی ہو جا ئے ۔ شوہر بیوی کے اس رویے کا ہر گز برا نہیں منا ئے گا بلکہ ایک طرح کی فرحت محسوس کر ے گا ۔ وہ سمجھے گا کہ بچوں کی طرفداری کے اظہار سے بچے اپنی نئی ماں کے ساتھ جلد مانو س ہو جا ئیں گے اور اسے اپنا ہمدرد اورمحافظ سمجھیں گے ۔اس قسم کے دوسرے طریقوں سے اسے بچوں کے دلوں کو جیتنا ہو گا ۔
سو تیلے بچوں کے ساتھ سلوک کے لیے عورت کو تھوڑی سی سمجھ داری اورصبر کی ضرورت ہو گی ۔ عقلمند ی کے طریقے اپنا کر وہ بچوں کے دل جیت لے گی اور یوں خود کو اور اپنے شوہر کو بہت سے مصائب سے بچا لے گی جن کا سامنا ایسے بہت سے گھروں کو کرنا پڑتا ہے جہاں سو تیلی ماں اور بچے ہو تے ہیں ۔
بعض عورتیں بہت غیر معقول رویہ اختیار کر تی ہیں اور کو شش کر تی ہیں کہ سو تیلے بچوں اور اس کے شوہر کے درمیان اختلافات کی دیوار کھڑی ہو جائے ۔ وہ چا ہتی ہیں کہ خاوند کے دل سے بچوں کی محبت کھرچ کر نکال دیں ۔ یہ بہت ظالمانہ فعل ہے اور گنا ہ عظیم۔ وہ یہ کیوں بھول جا تی ہیں کہ ایسے نا رواطرز عمل سے اپنی خوشیوں کی منز ل کو خود سے دور کر رہی ہیں۔
سو تیلے بچے اس کے پاس امانت ہیں ۔ اسے ان سے محبت کر نی چا ہیے ۔ ان کے مسائل کو سمجھنا چا ہیے اور ان کے حل کرنے میں ان کی مدد کر نی چا ہیے ۔ عورت کو چا ہیے کہ سو تیلے بچوں کو ان کاصحیح مقام دے اور ان کو تحفظ فراہم کر ے ۔ وہ ان کے ساتھ دشمنی مول نہ لے۔ہمسری اور رقابت نہ کر ے ۔ بعض اوقات سو تیلی ماں اپنی نو جوان سو تیلی بچیوں کی ہمسری کرنے لگتی ہے ۔ایسا رویہ ایک عورت کے لیے جب کہ وہ ماں کی حیثیت رکھتی ہو شایان شان نہیں بیوی کبھی بھی خاوند کو اس امتحان میں نہ ڈالے جہاں اسے مجبور ہو کر دونوں میں سے ایک کا انتخاب کر نا پڑے ، بیوی یا بچوں کا ۔ بعض اوقات بیوی محسوس کر تی ہے کہ اس کا خاوند اپنے بچوں کی بے جا طور پر طرفداری کر تا ہے اور کسی وقت اس کے ساتھ سلوک بہتر نہیں ہو تا۔ مگر بیوی کو چا ہیے کہ اپنی نا پسند یدگی کا اظہار کسی طور شو ہر کو نہ ہونے پا ئے ۔ اگر وہ اپنے دل میں بھی ملال نہ لا ئے تو سب سے بہتر ہے ۔ ذہن کی پختگی اورصبر انسان کے مر تبے اور شان میں اضا فہ کرتا ہے ۔
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Wednesday, June 20, 2012

بیوی کے شکوہ مزاج ہونے پر شوہر کیلئے نصیحت (برائے شوہر)۔

بیوی کے شکوہ مزاج ہونے پر شوہر کیلئے نصیحت
ہوسکتا ہے کہ آپ کی بیوی کا مزاج شکایتی ہو اور آئے دن وہ آپ کو اپنے دکھڑے سناتی رہتی ہو۔ آپ سارے دن کے تھکے ماندہ گھر لوٹیں اور آگے سے وہ شکایتوں کا رجسڑ کھول کر بیٹھ جائے ۔ ایسی صورت میں اچھا اور سمجھدار شوہر وہ ہے جو یہ جانتا ہوکہ میں نے برداشت سے کام لینا ہے ، میرے علاوہ اور کون ہے جو اس کے دکھڑے سنے گا، اس لیے آپ کو چاہیے کہ اس کے شکوے توجہ سے سنیں ۔ اس کی شکایتوں پر اسے برابھلا نہ کہیں آپ کا یہ عمل آ پ کے لیے بڑا خوشگوار ثابت ہوگا اور اس کا بوجھ ہلکاہو جائے گا۔ لیکن اگر آپ غصے کا رویہ ظاہر کریں گے تو اس کے کئی نقصانات پیدا ہوں گے مثلاً:
(
۱)…اگر وہ آپ کو اپنے شکوے نہیں سنائے گی تو دل ہی دل میں کڑھتی اور جلتی بجھتی رہے گی اور کئی بیماریوں میں مبتلا ہو جائے گی ۔
(
۲)…اگر وہ آپ کے سامنے شکوے رکھ کر دل کا غبار ہلکا نہیں کرے گی تو پھر بچوں پر غصہ نکالے گی ۔ ان کی تربیت کی طرف پوری توجہ نہیں دے گی ۔
(
۳)…بچوں پر نہیں تو آپ کے گھر کے دوسرے افراد مثلاً ساس، سسر اور نندوں وغیرہ کے ساتھ بدتمیزی کرے گی۔ گھر میں توڑ پھوڑاور نقصان کرے گی۔
(
۴)…یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے والدین اور بہنوں بھائیوں کو جاکر آپ کی شکایتیں کرے ، انہیں آپ کے خلاف بھڑکائے اور آپ کو ظالم اور خود کو مظلوم ظاہر کرے ، ظاہر ہے اس سے دو گھرانوں میں نفرت کی آگ بھڑکے گی ۔
(
۵)… یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی سہیلیوں اور گھر میں آنے والی محلے کی دوسری عورتوں کے سامنے شکوے کرے۔ اس کا نقصان یہ ہو گا کہ سارے محلے اور رشتہ داروں میں آپ اور آپ کے گھروالوں کو ظالم سمجھاجائے گا۔
ان تمام نقصانات کا حل یہی ہے کہ آپ کی بیوی اپنے سارے دکھڑے آپ کے سامنے ہی پیش کرے ۔اس طرح گھر کی بات گھر کی چار دیواری بلکہ صرف میاں بیوی کے اندر ہی رہے گی اور وہیں حل ہو جایا کرے گی۔ نہ گھر میں شور وغوغا ہو گا نہ محلے میں ڈھنڈ ورا پیٹا جائے گا اور نہ خاندانوں کی باہمی لڑائیوں کو سرا ٹھانے کا موقع ملے گا۔
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Saturday, June 16, 2012

اگر شوہر دوسری شادی کر لیتا ہے تو؟

اگر شوہر دوسری شادی کر لیتا ہے تو؟
اگر ایسا اتفاق ہو جائے کہ مرد دوسری شادی رچالے تو پہلی بیوی کو نہ تو ایسا سوچنا چاہیے اور نہ ہی ایسا بر تاؤ کرنا چا ہیے جیسا کہ غیر مسلم عورتیں کرتی ہیں۔
وہ تو شوہر کی دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتیں کیونکہ ان کے معاشرہ میں یہ قا بل قبو ل نہیں۔
یاد رکھو!اللہ تعالیٰ نے مرد کو ایک سے زا ٰئد شا دیو ں کی اجا زت دی ہے ، اسلا م کی رو سے ایک مر د کو حق حا صل کہ وہ ایک سے زائد عورتوں سے شاد ی کرے۔
دوسری شادی کی صورت میں پہلی بیوی نہ اس طرح برتاوکرے جیسے اس کی دنیا اندھیرا ہو گئی ہو اور اس کی زندگی سے رو شنی مفقود ہو گئی ہو ۔ایسا ہوجانے کی صورت میں ذہنی طو ر پراسے جھٹکاضرور لگے گااور وہ غمزدہ بھی ہو گی مگر اسے حالا ت کا مقابلہ سو جھ بو جھ ، عقلمندی، ذہن کی پختگی اور صبر سے کرنا ہو گا ۔ اسے اپنی نفسا نی خواہشات جن کو شیطان ابھا رتا ہے کو دبا نا ہو گا اور احسا سات کو بے لگا م ہو نے سے روکنا ہو گا ۔
اگر ان حالات کا مقابلہ وہ حسد ، نفرت ، بغض ، کینہ اور عداوت سے کر ے گی تو اس کو یہ امر یا درکھنا چا ہیے کہ اس کی حا لت مزید خراب ہو جائے گی ۔ شوہر کو دوسری بیوی سے بد ظن اور علیٰحدہ کر نے کی اسکی کو ششیں بار آ ور نہیں ہو ں گی ۔ اپنے نا رواسلوک سے اس کا خاوند اس طرف سے بر گشتہ ہو جائے گا اور اسے وہ کٹنی نظر آنے لگے گی ۔ عورت اپنے برے روئیے سے کچھ اپنا ہی نقصان کر ے گی اور فا ئدہ کچھ حاصل نہ ہو گا ۔
پہلی بیوی کو اپنے خاوند کی دوسری شادی کی حقیقت کو عزت اور پر وقار طریقے سے قبول کر لینا چا ہیے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتی ۔ اسے ایسی کوشش سے احتراز کر نا ہو گا جس سے وہ اپنے خاوند کو اللہ کی طرف سے دیئے گئے حق سے دستبر دار ہونے کے لیے مجبور کر ے ۔
عورت کو چا ہیے کہ اپنے خاوند کے دوسری شادی کے فیصلے کو پر وقاررویئے سے قبول کر لے۔ اس طرح وہ اپنے خاوند کی عزت اور محبت کو پا لے گی ۔ اس کے علاوہ اس کے لیے ثواب اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مزید ہو گی ۔ یقینا نقصا ن میں نہ رہے گی ۔ اپنے نفس پر قابو پا کر نئے حالا ت سے سمجھوتہ کر نا ہی اس کے حق میں بہتر ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں اپنے نفس سے جنگ کر نے کے لیے ہی تو بھیجا ہے ۔
نفس کے خلاف مجاہد ہ ہر مسلمان پر خواہ وہ مرد ہو یا عورت فرض ہے اور جب تک وہ اس زمین پر مقیم ہے اسے نفس اما رہ کے خلاف نبرد آزما ہو نا پڑے گا ۔ ایک مسلمان کو اس امر کی اجازت نہیں کہ ایسی خواہشات کی پیروی کر ے جن کی اسلام نے اجازت نہیں دی ۔ پہلی بیوی کو یہ جان لینا چا ہیے کہ ردّعمل حسد کی بنا پر ہے ۔ اس پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خا طر حسد کو ترک کر دے۔
یاد رکھو ! ایک مسلمان اس دنیا میں آزاد نہیں کہ جو مر ضی میںآ ئے کہے اور کرے ۔ ہماری رہا ئش ، ہماری سوچ ، ہمارے احساسات و کردار پر لا تعداد بندشیں اللہ کی طرف سے عائد ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ﴿الدنیا سجن المو من و جنة الکافر
(
بہ روایت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ ، مسلم کتاب الزہد۔ ترمذی کتاب الزھد ۔ ابن ماجہ ۔ ابواب الزہد)
دنیا موٴمن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے “۔
اچھی اور سچی مسلمان عورت اپنے خاوند کی دوسری بیوی کی عزت کر یگی ۔ اپنے مجروح جذبات پر قابو پا ئے گی ۔ خواہ اس کے لیے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو پھر بھی وہ سوت کے ساتھ مہر بانی اور شا ئستگی سے پیش آئیگی ۔ اسلامی طور طریقے اپنانے سے اس کے شو ہر کی دوسری بیوی کے ساتھ تعلقات صحت مندانہ ماحول میں ترقی کر یں گے اور ان دونوں میں آپس میں پیا ر و محبت بڑھے گا ۔
عورت کو اپنے شوہر سے دوسری بیوی کے متعلق حقارت آمیز ، طعن آمیز اور تمسخر آمیز گفتگو نہیں کرنی چا ہیے ۔ کیا وہ یہ سمجھتی ہے ایسا کر نے سے خاوند کو دوسری بیوی سے بر گشتہ کر نے میں کامیاب ہو جائے گی ؟ اس کے بر عکس اس کا یہ طرز عمل خاوند اور دوسری بیوی کے تعلقا ت کو مزید استوار کر نے کا با عث ہو گا ۔وہ اپنی پہلی بیوی کی نا جائز غیبت پر نالاں ہو کر دوسری بیوی کی طرف زیادہ رجوع کر ے گا ۔ وہ سمجھے گا کہ دوسری بیوی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے جس وجہ سے وہ اس کی زیادہ تو جہ اور ہمدردی کی مستحق ہو گی ۔
اگر تجزیہ کیا جائے تو عقد ہ کھلے گا کہ اس کے خاوند کی دوسری شادی اللہ تعالیٰ کی رضا سے ہوئی ہے ۔ اسے ایک سچی مسلمان عورت ہونے کے نا طے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوجا نا چا ہیے اور صبر کرنا چا ہیے ۔ ایسا با عزت رویہ اپنا کر وہ یقینا فا ئدہ میں رہے گی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
ایک عورت ، جب اس کا شوہر دوسری عورت سے شادی کر تا ہے ، اس پر صبر کرتی ہے ، ایک شہید کا ثواب پائیگی “۔
عورت اپنے صبر کی بدولت اور دوسری شادی کی حقیقت کو پر وقار اور حوصلہ مندی سے قبول کرنے کی صورت میں بہت بڑا ثواب کما ئیگی اور اللہ کے ہاں بڑا رتبہ پا ئے گی پھر وہ کیوں غمزدہ اور مایوسی کا شکار ہو ؟ بہتر ہے کہ وہ جان لے کہ اس کا برا طرز عمل اس کی اپنی شادی کو تباہی کے غار میں دھکیل دینے میں معاون ثا بت ہو گا ۔
دنیوی زندگی ، بہر حال مصیبتوں ، کو ششوں اور سختیوں سے عبا رت ہے جس سے ہر ایک مسلمان کو دو چار ہونا پڑتا ہے اور ان سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔ مکمل خوشی کا ملنا اس دنیا میں تو ممکن نہیں ۔ اس کے لیے جنت ہے اور اس میں پہنچنے کے لیے نیک اعمال کی ضرورت ۔ اگر وہ یہ خیال کر تا ہے کہ سختیاں اور مصیبتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہیں اور اس پر برداشت و صبر کی روش اختیار کر تا ہے تو اسے کوئی دکھ اور رنج نہیں ہو تا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ عارضی ہے اور اس دنیا کا رنج و غم بھی عارضی ہے ۔ اصل زندگی آخرت کی ہے جو مستقل جائے قرار ہے ۔ اس دنیا میں اگر انسان نے نیک اعمال کئے ہو ں گے تکلیف میں اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے صبر و استقامت کا مظاہر کیا ہو گا تو اسے اس دنیا میں بھی رنج و تکلیف محسوس نہ ہو گی اور آخرت میں اس کے لئے جنت کا وعدہ اللہ نے کیا ہو ا ہے ۔

Thursday, June 14, 2012

بے جا تنقید نہ کرنے کی نصیحت (برائے شوہر)۔

بے جا تنقید نہ کرنے کی نصیحت
بعض مردوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت اپنی بیویوں کے کاموں پر تنقید ی نگاہ رکھتے ہیں۔ ہرکام میں سوالات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں ؟ یہ کیا کیا؟ یہ کیوں کیا؟ یہ کیسے کیا؟ وہ کیو ں نہ کیا؟ یہ پہلے کیوں کیا؟ وہ بعد میں کیوں کیا؟ اس طرح کی تنقیداور بے جا سوالات سے عورت چڑ چڑاتی ہے اور ظاہر ہے اگر وہ بھی آگے سے ترکی بہ ترکی جواب دے تو آپ کو غصہ آئے گا اور بات بڑھے گی ۔ اور اگر وہ آپ پر غصہ نہ کرے گی تو دل ہی دل میں کڑھے گی یا گھر کے سامان یا بچوں پر اپنا غصہ نکالے گی۔
بیوی کو طعنہ نہ دینے کی نصیحت
کہتے ہیں تلوار کا زخم تو مندمل ہو جاتا ہے مگر زبان کا زخم مندمل نہیں ہوتا ۔ یہی حال طعنوں کا ہے ۔ کسی کو طعنہ دینے سے بظاہر کو ئی نقصان ہوتا نظر نہیں آتا مگر اندر ہی اندر وہ طعنہ اپنا اثر دکھاتا ہے بعض ماہرین ِ نفسیات کا کہنا ہے کہ کئی عورتیں پیچیدہ امراض کا شکار اس لیے ہوتی ہیں کہ انہیں زندگی بھر دوسروں سے طعنے سننا پڑتے ہیں ۔ کبھی خاوند اسے طعنے دے رہا ہے ، کبھی ساس طعنے دے رہی ہے، کبھی نندوں کی باری ہے اور کبھی جیٹھانیاں اور دیورانیاں اس پر برس رہی ہیں ۔اگر آپ سمجھدار شوہر ہیں تو آپ کبھی اپنی بیوی کو طعنے نہ دیں ۔ اس پر طنز یہ جملے نہ کسیں ۔ اس سے یا تو وہ نفسیاتی مریض بن جائے گی یا پھر برداشت سے باہر ہوجائے گی اور آپ پر زبان درازی شروع کردے گی ۔ اور ظاہر ہے یہ دونوں صورتیں خود آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی اور آپ کی اِ زدواجی زندگی خوشیوں کی بجائے اُ لجھنوں کا شکار ہوجائے گی۔ 

Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Saturday, June 9, 2012

شوہر کا غیر عورت سے تعلق پر سابقہ بیوی کیلئے اہم نصیحت

شوہر کا غیر عورت سے تعلق پر سابقہ بیوی کیلئے اہم نصیحت
 
اگر شوہرکسی دو سری عورت کے دام الفت میں گرفتار ہو جائے تو یہ بیوی کے لیے صبر آزما گھڑی ہو تی ہے ۔ اسے چاہیے کہ کمال دانشمندی اور صبر سے کام لے ۔ ایسے حالا ت بڑے نا زک مرحلے پیدا کر دیتے ہیں ۔ اور شادی کے بندھن کو گھن کی طرح چاٹ جا تے ہیں ۔ تمام تر ذمہ داری عورت پر آن پڑتی ہے ۔ اگر عقلمندی، ہو شیاری اور صبر سے کام لے تو اپنی ازدواجی زندگی کو بچالے گی۔
اس کے بر عکس اگر وہ صبر کا دامن ہا تھ سے چھو ڑ دیتی ہے اور جلا پے کے احسا سات کو راہ دیتی ہے تو وہ اپنے شوہر کو بھڑکانے کا با عث بنے گی ۔ وہ اس سے مزید دور چلا جا ئے گا اور زندگی تباہی کے دہانے تک پہنچ جا ئے گی ۔ عورت کے لئے بہتر ہے اگر وہ اس حقیقت کو جان لے کہ اپنی خفگی کے اظہا ر کو اور الزام تراشیوں سے وہ شوہرکو دوسری عورت کو چھوڑنے پر مجبور نہیں کر سکے گی ۔ جب ایک بیوی کو اس بات کا علم ہو جائے کہ اس کا شوہر کسی غیر عورت سے پینگیں بڑ ھا رہا ہے تو سب سے پہلا کا م جو اسے کرنا چاہیے یہ ہے کہ اپنے احسا سات پر قابو پا ئے اور یہ جان لے کہ غم و غصے اور بحث مبا حثہ سے شوہر کو دو سری عورت سے علیٰحدہ کر نے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی ۔ اگر وہ اپنے غصہ کا اظہا ر کر تی ہے اور سخت الفاظ سے خاوندکو اس عورت کے ساتھ میل جول سے باز رکھنے کی کوشش کر تی ہے تو اس کا نتیجہ اچھانہیں بلکہ برا نکلے گا ۔شوہر کا طرز عمل اس کے حق میں مزید برا ہوجائے گا۔ تھوڑی بہت محبت جو شوہر کے دل میں بیوی کی با قی ہے وہ بھی جاتی رہے گی اور اس کا دو سری عورت کی طرف جھکاؤ مزید بڑھ جائے گا ۔
ایک عقلمندعورت جس کی خواہش ہے کہ اس کا شوہر گنا ہوں کی دلدل سے نکل آئے اور اس کی شادی بھی محفوظ رہے حالا ت کو مزید بگڑنے سے بچا ئیگی ۔ وہ ایسے نازک حالا ت میں کمال صبر کا مظاہر ہ کرے گی اور اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرے گی کہ وہ اس کے شوہر کو ہدایت بخشے ۔ اس کی صحیح سمت رہنما ئی فرمائے تاکہ وہ خواب غفلت سے جا گ اٹھے ۔ گناہ اور گندگی کے جس غا ر میں وہ جا رہا ہے اس سے واپس لو ٹ آ ئے ۔
اس معاملے پر وہ شوہر سے بذات خود بھی بڑی دانشمندی اور شوہر کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے با ت کرے ۔ گفتگومیں سر کشی اور بحث کا عنصر اثر انداز نہ ہو ۔محبت اور پیا ر سے اس کے دل کو جیتنے کی کو شش کرے بڑے دھیمے انداز میں اسے قانون کی خلا ف ورزی اور اللہ تعا لیٰ کے خو ف سے ڈرائے۔ اگر شوہر اس نصیحت پر کان نہیں دھرتا توبھی اس کو امید کا دامن ہا تھ سے نہیں چھو ڑنا چا ہیے ۔ کچھ عر صہ کے لیے پند ونصائح کا سلسلہ بند کر دے ۔ پھر کسی دو سرے بہتر وقت اور مو قع پر جب شو ہر اچھے موڈمیں ہو نہا یت عاجزی اور دانشمند ی سے اس کا اعادہ کر ے ۔ وہ اپنا دکھ اپنی ذات پر جھیلے اللہ کے ذکر اذکار سے تقویت حاصل کرے قرآن میں ہے ۔
﴿ الذ ین امنو اوتطمئن قلو بھم بذکر اللہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ﴾ ( الرعد۲۸)
وہ جو ایمان رکھتے ہیں ان کا دل ذکر اللہ سے امن و چین پا تا ہے۔ بلا شبہ دل اللہ کی یا د سے راحت پا تا ہے “۔
وہ اپنی ذات کی نفی کر کے اللہ کے آ گے سر بسجود ہو جائے ا ور دعاکر یں اسے اس امر کا یقین ہونا چاہئے کہ اللہ جو اس کے لئے پسند کرے گا اس کے حق میں بہتر ہی ہو گا ۔اسے چا ہیے کہ اپنے غم کو جو قدرتی ہے مایوسی ، بے صبری اور غیر اسلامی شعار میں سے بڑھنے نہ دے۔ ایک عقلمند بیوی جو ایسے حا لا ت سے دو چار ہوتی ہے ہمت ، سوجھ بو جھ اور صبر کو بر و ئے کار لا کر اپنے نیک اور پروقار ردعمل سے شوہرکو شرمندہ کر دے گی، وہ اپنی غلطی کااحساس کر کے دوسری عورت سے کنارہ کش ہو جائے گا۔ خود کو گناہ گار سمجھے گا اور اس کا نا انصافانہ رویہ بعد میں اس کو خون کے آنسو رلائے گا ۔ وہ دل میں پشیما ن ہو گا اور محسوس کر ے گا جیسے وہ اپنے مقام سے بہت نیچے گر گیا ہو۔ اس کا ضمیر اس کو لعن ملامت کر ے گا ۔
اچھا آدمی اپنی حما یت پر آگاہ ہو کر اپنی بیوی کے پا س شرمندہ واپس آجائے گا۔
اس کے بر عکس اگر بیوی اپنے شو ہر کو دوسری عورت سے دور رکھنے کے لیے تشدد آمیز رویہ اختیار کرے گی ، گالی گلوچ پر اتر آئے گی، لڑے جھگڑے گی ، عیب گیری اور غیر شائستہ آمیز طریقہ اپنائے گی تو نتیجتاً شادی طلاق کی صورت میں ختم ہو جائے گی۔عورت کو یہ گر سیکھ لینا چاہیے کہ شوہر سے لڑجھگڑ کر اور عیب گیری کرکے فتح نہیں پا سکتی ۔ شادی کی کامیابی کے لیے عورت کو اطاعت گزاری ، وفا شعاری ، نیکی اور عاجزی کی روش اختیار کرنا ہو گی ۔ اگر وہ آزادی کی اس تحریک کو اپناتی ہے جس کا ڈھونگ مغرب زدہ کفار نے رچایا ہے اور اس کا نعرہ مر د اور عورت برابر کا ہے تو وہ سمجھ لے کہ وہ طلاق کے راستے پر گامزن ہے ا ور وہ جلد یا بد یر اس انجام کو پہنچ جائے گی۔

Friday, June 8, 2012

Is it immoral to have more than one wife? Polygamy between Islam and the West

Answered by Taqwa Saifulhaq at OnIslam
Question:
Hello, My question is in regards to having multiple wives. I’ve been told several times by non-muslims that this is immoral and unfair to the women. I tried to explain to them that the women are treated equally and that it is a Western perception that this is an immoral act, but they didn’t seem to understand. Can you help me explain myself more eloquently the next time the question arises? Salam.
Answer:
Salam,
Thank you very much for your important question.
Allah Almighty is the creator of all the human beings. He knows what is good and what is bad for them. He also knows their particular needs. He says what means:
أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ
Does He who created not know? And He is the Knower of the subtleties, the Aware.
[Surah Al-Mulk 67:14]
Allah Almighty also says what means:
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا
And if you fear that you cannot act equitably towards orphans, then marry such women as seem good to you, two and three and four; but if you fear that you will not do justice [between them], then [marry] only one or what your right hands possess; this is more proper, that you may not deviate from the right course.
[Surah An-Nisa 4:3]
It is important to note that polygamy is only allowed and not urged to be done.
When the West talks about polygamy in Islam, they refer to it as something weird that should not be valid in human nature. However, polygamy was known from the very first day of existence of mankind on Earth. Neither Jews nor Christians forbid polygamy. On the contrary, the prophets of the Jews and Christians were known to be polygamous. For example, King Sulayman (Solomon) is said to have had seven hundred wives and three hundred concubines. Dawud (David) had ninety-nine and Ya’qub (Jacob) had four. Christianity as well did not forbid polygamy at all, as there is no single word banning polygamy in their scriptures.
How would polygamy in Islam be unfair to women? Islam, as mentioned above, did not urge men to become polygamous. It only allowed it for certain purposes. Justice among wives is a clear restricted condition on the Muslim man who wants to marry another wife. That is clearly stated in the verse mentioned above. Whereas the West which is arrogantly refusing polygamy has different types of it, some of them are dangerous either psychologically or even physically for the society as a whole.
Types of polygamy known in the West
Actually there are three kinds of polygamy practiced in Western societies:
  1. Serial polygamy, that is, marriage, divorce, marriage, divorce and so on any number of times.
  2. A man married to one woman but having and supporting one or more mistresses.
  3. An unmarried man having a number of mistresses.
Islam condones but discourages the first and forbids the other two.
Do you really think, brother, that polygamy is unjust to women in Islam? Or is it the real inequality to talk about the three previously listed kinds?
In her book The Life and Teachings of Muhammad, Dr. Annie Besant says:
There is pretend monogamy in the West, but in reality, there is polygamy without responsibility. The mistress is cast off when the man is weary of her… the first lover has no responsibility for her future, and she is a hundred times worse off than the sheltered wife in a polygamous home.
When we see thousands of miserable women who crowd the streets of Western towns during the night, we must surely feel that it does not lie in the Western mouth to reproach Islam for polygamy. It is better for woman, happier for woman, more respectable for woman to live in polygamy, united to one man, only with a legitimate child in her arms and surrounded with respect, than to be seduced and then cast out into the streets, perhaps with illegitimate child outside the rule of law, uncared, unsheltered, to become victim of any passer-by, night after night, rendered incapable of motherhood, despised by all.
[Besant, A. (1932). The life and teachings of Muhammad: Two lectures by Annie Besant. Adyar, Madras, India: Theosophical Pub. House.]
Thank you again for your question.
Salam.

Thursday, June 7, 2012

دوسروں کا غصہ بیوی پر نہ اُتارنے کی نصیحت (برائے شوہر)۔

دوسروں کا غصہ بیوی پر نہ اُتارنے کی نصیحت
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ غصہ کسی اور بات پر ہوتا ہے مگر اسے بیوی پر اتارا جاتا ہے۔ آپ ایسی غلطی کبھی نہ کریں ۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ غصہ تو باہر کسی شخص پر آیا مگر اس کی بجائے آپ نے آکر بیوی کو پیٹنا شروع کردیا۔ یہ تو نہایت احمقانہ بات ہے اور اس کا ارتکاب بھی احمق اور بے وقوف لوگ ہی کرتے ہیں۔ جب باہر سے گھر آئیں توباہر کی دنیا کو باہر ہی چھوڑ آئیں ، باہر کے کاموں کو اپنے دماغ میں بھی لے کرنہ آئیں ، باہر کسی سے اونچ نیچ ہوئی ، کوئی مصیبت یا پریشانی کا مسئلہ پیدا ہواتواسے باہر ہی چھوڑآئیں اور گھر کی دنیا میں ان باتوں کو یاد ہی نہ کیا کریں ۔ اس طرح آپ میں اتنی طاقت اور برداشت پیدا ہو جائے گی کہ آپ باہر کے غصے کو گھر والو ں پر نہیں اتاریں گے۔
آ پ سوچیے کہ سارادن باہر کے ججھٹ میں رہنے کے بعد شام کو گھر واپس آئیں اور ادھر آپ کی بیوی گھر کو صاف ستھرا کر کے ، کھانا بنا ئے اور بنے سنورے انداز میں آپ کا انتظار کر رہی ہو، پھو لوں کی طرح چہچہاتے بچے ابو کے انتظار میں اداس بیٹھے ہوں اور آپ کے آنے پر سب میں خوشی کی لہر دوڑ جائے مگر آ پ گھر میں داخل ہوتے ہی گالیاں بکنے لگیں ۔ چیزیں اُٹھا اٹھا کر پھینکناشروع کر دیں اور جنت بھر ے گھر کو آناً فا ناً جہنم کا گڑ ھا بنا دیں تو کیا فائدہ ؟ کیا اس سے آپ کا نقصان پورا ہوجائے گا؟
نہیں ، اس سے تو آپ کی پریشانی اور بڑھے گی ۔ پہلے آپ اکیلے پریشان تھے ، اب بیوی بچے بھی پریشان ہوں گے۔ سمجھدار شوہر وہ ہوتا ہے جو اس موقع پر گھر کے سکون سے فائدہ اٹھاتا ہے اور گھر کی خوشی میں باہر کے غصے کو بھلا دیتا ہے۔ 
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

Saturday, June 2, 2012

بیوی خوبصورت یا ” معیاری “ نہ ہو نے پر نصیح(برائے شوہر)۔


بیوی خوبصورت یا ” معیاری “ نہ ہو نے پر نصیحت
شادی سے پہلے ہر مرد نے اپنی ہونے والی بیوی کے بارے میں بڑا اونچا معیار قائم کر رکھا ہوتا ہے مگر جب شادی ہوتی ہے تو عورت اس معیار پر پورا نہیں اترتی ۔ چنانچہ شوہر کا دل بجھنے لگتا ہے اور بات طلاق تک جا پہنچتی ہے بے شمار طلاقو ں کی بنیاد یہی ہوتی ہے کہ ” بیوی معیاری اور خوبصورت نہیں تھی۔
دراصل یہ بھی شیطان کاایک دھوکا ہے جس کے ذریعے وہ خاندانوں کو اجاڑتا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اس شیطانی دھوکے سے بچیں اور یہ یاد رکھیے کہ جو معیا ر آپ چاہتے ہیں ، اس پر اس دنیا میں کوئی عورت پورا نہیں اترے گی ۔ آپ لاکھ سمجھتے رہیں کہ اگر فلاں لڑکی میری بیوی بنتی تو وہ میرے معیار پر پوری اترتی مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر اسی لڑکی سے آپ کی شادی ہوجاتی تو آپ اس میں بھی سونقص نکال دیتے اور کسی اور خاتون کے بارے میں یہ کہتے سنائی دیتے کہ ”وہ میرے معیار پر پورا اتر سکتی ہے۔
اگر آپ ذہنی معیار کو کچھ نیچے لے آئیں گے تو آپ یہ حسرت کرنا چھوڑ دیں گے ورنہ اس حسرت میں ہمیشہ جلتے رہیں گے اور بیسیوں عورتیں بدلنے کے باوجود آپ کی یہ حسرت کبھی پوری نہ ہو گی ۔ ایک چیز آپ سے دور کسی ” شوکیس “ میں بڑے سلیقے سے رکھی ہو تو وہ جاذبِ نظر معلوم ہوگی مگر جب وہی چیز آپ کے ہاتھ میں آجائے تو آپ چند دنوں یا چند گھنٹوں میں اس سے دل بہلانے کے بعد اسے چھوڑ دیں گے ۔ اب اُسے دوبارہ اُسی شوکیس میں رکھ بھی دیں تو آپ کے لیے وہ جاذبِ نظر نہیں رہے گی کیونکہ آپ اس سے کھیل چکے ہیں ، اب اس جگہ کو ئی نئی چیز آپ کے لیے جاذب ِ نظر ہوگی ، خواہ وہ اس سے بھی کمترہی کیوں نہ ہو۔ یہی مثال عورت کی بھی ہے ۔ پہلے چار دن آپ کوایک عورت جاذبِ نظرمعلوم ہوگی ، بعد میں وہی آپ کے معیا ر ِ حسن پر فیل ہوجائے گی اور اس کی جگہ کوئی نئی عورت جو آپ کی دسترس سے دور ہے ، وہ آپ کو بھلی لگے گی خواہ ماہرین ِ حسن کے نزدیک اُس کاحسن پہلی سے سودرجہ کم ہی کیوں نہ ہو۔
اس لیے یاد رکھیے کہ شادی ایک ذمہ داری کا نام ہے ، بدلتی خواہشات کی پیروی کانام نہیں۔ عورت سے آپ نے شادی کی ہے وہ اب آپ کی بیوی ۔ آپ کی عز ت، آپ کے بچوں کی ماں ہے ۔ اب آپ اسی کو حسینئہ عالم سمجھیں ، اسی کے ناز ونخرے برداشت کریں اور اس کے علاوہ دوسری عورتوں کی طرف للچائی نظروں سے نہ دیکھیں ۔ اگر آپ میں استطاعت ہے تو ایک اور شادی کرلیں ۔ اگر دوبیویوں کے اخراجات پورے کرنے کی استطاعت نہیں تو ایک ہی پر قناعت کریں ۔ اگر اس میں کوئی کمی ہے تو یادرکھیے کہ دنیا کی ہر عورت میں کوئی نہ کوئی کمی ضرورہوتی ہے اور جس چیز میں سب برابر ہیں وہ ایک ہی چیز ہے اور اس ایک چیز کی خاطر بیوی بدلنا کوئی دانشمندی نہیں ۔
اسی طرح حسن کاجو معیا ر آپ نے قائم کیاہے ذرا اس پر اپنی بہنوں کو تو ل کر دیکھ لیں ۔ اگر آپ کی بہنیں اس معیار پر پورانہ اتریں اور یقینا وہ بھی ا س معیار پر پورانہ اتریں گی تو کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ کے بہنوئی آپ یاآپ کے دوستوں اور رشتہ داروں کے سامنے یہ کہتے دکھائی دیں کہ فلاں صاحب کی بہن تو ہمارے معیار پر پوری نہیں اتری ۔ کیا اس بنیاد پر اگر وہ آپ کی بہنوں کو طلاق دینا چاہیں تو آپ کوان کا یہ طرزِ عمل پسند آئے گایا آپ اس پر آگ بگولہ ہوجائیں گے ۔ غور کیجیے کہ دوسروں کے لیے تو ایک چیز آپ پسند نہ کریں مگر خود آپ اسی کا ارتکاب کریں ، تو یہ کہاں کا انصاف ہے؟
علاوہ ازیں آپ ذرایہ بھی سوچیے کہ جس طرح کے حسن کا معیار آپ نے قائم کیاہے ، کیا آپ خود اس پر پورا اترتے ہیں ؟ جتنی خوبیاں آپ مانگتے ہیں کیا آپ اس قابل ہیں کہ آپ کو واقعی اتنی خوبیوں والی بیوی ملے ؟ جتنی حسین پری عورت آپ چاہتے ہیں ، کیا اس کے مقابلے میں آپ کاحسن بھی ویسا ہے؟ جس طرح کا پیما نہ لے کر آپ شریک حیات تلاش کرنے نکلے ہیں وہی پیمانہ لے کر اگر کوئی دُلہا تلاش کرنے نکلاہو تو سچ سچ بتایئے کیا آپ اس پیمانے پر پورااتریں گے ؟
آپ خود تو اس معیار کے مقابلہ میں صفر ہوں اور اپنے لیے وہ عورت چاہیں جو سوفیصد اس معیار پر پوری اترے، یہ بے وقوفی اور حماقت نہیں تو بتایئے حماقت پھر کس بلا کانام ہے؟
اگر آپ قناعت کی اہمیت جانتے ہیں اور تقدیر پر راضی رہنے کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں تو یقین کیجیے آپ کی وہی بیوی جسے آپ اپنے معیار سے کمتر سمجھتے تھے ، آپ کی نظر میں اتنی بلند یوں پر فائز ہو جائے گی کہ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ اور پھر اس کے مشورے کے بغیر آپ ایک قدم بھی نہ اٹھائیں گے ۔ حتیٰ کہ اس کا دیدار کیے بغیر آپ کادن نہ کٹے گا۔



Enter your email address:


Delivered by FeedBurner