Saturday, June 23, 2012

سو تیلی اولاد (بیوی)۔

سو تیلی اولاد کے با رے میں نصیحت
دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات عورت کا اپنے شو ہر کی پہلی بیوی سے اولا د کے ساتھ سلوک بہت خراب اوردلوں کو لرزا دینے والا ہوتا ہے ۔ ایک عورت جب وہ ایسے مرد سے شادی کر تی ہے جس کی پہلے سے اولاد ہو تی ہے کو بہت سنبھل سنبھل کر چلنا چا ہیے ۔ آج کل کے جہا لت کے دور میں شروع شروع میں اکثر بچے اپنی نئی ماں سے خائف رہتے ہیں اور اسے بن بلا یا مہمان تصور کر تے ہیں ۔ اسلامی تعلیمات سے لا علمی اور اسلامی اقدار اور تر بیت میں کمی کے با عث وہ اپنی نئی ماں کے صحیح مقام اور رتبہ کو جاننے سے قاصر رہتے ہیں ۔ عام طور پر وہ اپنی سوتیلی ماں کے سا تھ گستا خانہ ، نا روا ، نا فرما نبرداری اورغیر اسلامی رویہ اپنا تے ہیں جسے وہ اپنے ذہن میں ایک نا مہر بان ، ظالم اور ان کی ضرورت کا خیال نہ رکھنے والی تصور کر تے ہیں ۔
سو تیلی اولاد کے ذہنوں سے اس تصور کو دور کر نے کی کو شش کرنا عورت کا پہلا کام ہو نا چاہیے۔ یہ ایک دن کا کام نہیں ۔ یقینا اس کے لئے وقت اور صبر درکار ہو گا ۔ عورت کو ہر حال میں بچوں کے اعتماد کو جیتنا اوربحال کرنا ہو گا ۔ اسے ایسے راستے اختیا ر کر نا ہوں گے جن سے وہ ان کے دلوں کو جیت سکے ۔ اس کے لئے انتہا ئی درجے کی سوجھ بوجھ اور صبر کی ضرورت ہو گی ۔
عورت ہر گز ان کے باپ کے پاس ان کی غلطی یا نا فرما نی کی شکایت نہ کر ے۔ اس سے ان کے دل اور سخت ہو جا ئیں گے اور وہ اپنی ماں کے ساتھ دشمنی میں بہت آگے بڑھ جا ئیں گے ۔ اگر کبھی کبھا ر اس کی اشد ضرورت پیش آبھی جا ئے بچوں کے نا رواسلوک اور غلطیوں پر سر زنش کے لیے ان کے باپ کو بتا ئے بغیر چارہ نہ ہو تو وہ ایسا تنہا ئی میں کر ے تاکہ بچے اس سے آگا ہی نہ پا سکیں ۔ نیز وہ اپنے شو ہر سے وعدہ لے لے کہ وہ بچوں کو اس امر سے آگاہ نہیں کر ے گا کہ شکایت ان کی ماں نے کی ہے ۔ اب یہ باپ پر مو قوف ہے کہ بیوی کو شریک کیے بغیر وہ خود ان سے کس طرح نپٹتا ہے ۔
شوہر جب اپنے بچوں کو سر زنش کر رہا ہو تو کبھی کبھار وہ خود بچوں کی طرفداری کرے اور شوہر کے آگے ان کے لیے ڈھا ل بن کر کھڑی ہو جا ئے ۔ شوہر بیوی کے اس رویے کا ہر گز برا نہیں منا ئے گا بلکہ ایک طرح کی فرحت محسوس کر ے گا ۔ وہ سمجھے گا کہ بچوں کی طرفداری کے اظہار سے بچے اپنی نئی ماں کے ساتھ جلد مانو س ہو جا ئیں گے اور اسے اپنا ہمدرد اورمحافظ سمجھیں گے ۔اس قسم کے دوسرے طریقوں سے اسے بچوں کے دلوں کو جیتنا ہو گا ۔
سو تیلے بچوں کے ساتھ سلوک کے لیے عورت کو تھوڑی سی سمجھ داری اورصبر کی ضرورت ہو گی ۔ عقلمند ی کے طریقے اپنا کر وہ بچوں کے دل جیت لے گی اور یوں خود کو اور اپنے شوہر کو بہت سے مصائب سے بچا لے گی جن کا سامنا ایسے بہت سے گھروں کو کرنا پڑتا ہے جہاں سو تیلی ماں اور بچے ہو تے ہیں ۔
بعض عورتیں بہت غیر معقول رویہ اختیار کر تی ہیں اور کو شش کر تی ہیں کہ سو تیلے بچوں اور اس کے شوہر کے درمیان اختلافات کی دیوار کھڑی ہو جائے ۔ وہ چا ہتی ہیں کہ خاوند کے دل سے بچوں کی محبت کھرچ کر نکال دیں ۔ یہ بہت ظالمانہ فعل ہے اور گنا ہ عظیم۔ وہ یہ کیوں بھول جا تی ہیں کہ ایسے نا رواطرز عمل سے اپنی خوشیوں کی منز ل کو خود سے دور کر رہی ہیں۔
سو تیلے بچے اس کے پاس امانت ہیں ۔ اسے ان سے محبت کر نی چا ہیے ۔ ان کے مسائل کو سمجھنا چا ہیے اور ان کے حل کرنے میں ان کی مدد کر نی چا ہیے ۔ عورت کو چا ہیے کہ سو تیلے بچوں کو ان کاصحیح مقام دے اور ان کو تحفظ فراہم کر ے ۔ وہ ان کے ساتھ دشمنی مول نہ لے۔ہمسری اور رقابت نہ کر ے ۔ بعض اوقات سو تیلی ماں اپنی نو جوان سو تیلی بچیوں کی ہمسری کرنے لگتی ہے ۔ایسا رویہ ایک عورت کے لیے جب کہ وہ ماں کی حیثیت رکھتی ہو شایان شان نہیں بیوی کبھی بھی خاوند کو اس امتحان میں نہ ڈالے جہاں اسے مجبور ہو کر دونوں میں سے ایک کا انتخاب کر نا پڑے ، بیوی یا بچوں کا ۔ بعض اوقات بیوی محسوس کر تی ہے کہ اس کا خاوند اپنے بچوں کی بے جا طور پر طرفداری کر تا ہے اور کسی وقت اس کے ساتھ سلوک بہتر نہیں ہو تا۔ مگر بیوی کو چا ہیے کہ اپنی نا پسند یدگی کا اظہار کسی طور شو ہر کو نہ ہونے پا ئے ۔ اگر وہ اپنے دل میں بھی ملال نہ لا ئے تو سب سے بہتر ہے ۔ ذہن کی پختگی اورصبر انسان کے مر تبے اور شان میں اضا فہ کرتا ہے ۔
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

No comments:

Post a Comment