شوہر کا غیر عورت سے تعلق پر سابقہ بیوی کیلئے اہم نصیحت
اگر شوہرکسی دو سری عورت کے دام الفت میں گرفتار ہو جائے تو یہ بیوی کے لیے صبر آزما گھڑی ہو تی ہے ۔ اسے چاہیے کہ کمال دانشمندی اور صبر سے کام لے ۔ ایسے حالا ت بڑے نا زک مرحلے پیدا کر دیتے ہیں ۔ اور شادی کے بندھن کو گھن کی طرح چاٹ جا تے ہیں ۔ تمام تر ذمہ داری عورت پر آن پڑتی ہے ۔ اگر عقلمندی، ہو شیاری اور صبر سے کام لے تو اپنی ازدواجی زندگی کو بچالے گی۔
اس کے بر عکس اگر وہ صبر کا دامن ہا تھ سے چھو ڑ دیتی ہے اور جلا پے کے احسا سات کو راہ دیتی ہے تو وہ اپنے شوہر کو بھڑکانے کا با عث بنے گی ۔ وہ اس سے مزید دور چلا جا ئے گا اور زندگی تباہی کے دہانے تک پہنچ جا ئے گی ۔ عورت کے لئے بہتر ہے اگر وہ اس حقیقت کو جان لے کہ اپنی خفگی کے اظہا ر کو اور الزام تراشیوں سے وہ شوہرکو دوسری عورت کو چھوڑنے پر مجبور نہیں کر سکے گی ۔ جب ایک بیوی کو اس بات کا علم ہو جائے کہ اس کا شوہر کسی غیر عورت سے پینگیں بڑ ھا رہا ہے تو سب سے پہلا کا م جو اسے کرنا چاہیے یہ ہے کہ اپنے احسا سات پر قابو پا ئے اور یہ جان لے کہ غم و غصے اور بحث مبا حثہ سے شوہر کو دو سری عورت سے علیٰحدہ کر نے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی ۔ اگر وہ اپنے غصہ کا اظہا ر کر تی ہے اور سخت الفاظ سے خاوندکو اس عورت کے ساتھ میل جول سے باز رکھنے کی کوشش کر تی ہے تو اس کا نتیجہ اچھانہیں بلکہ برا نکلے گا ۔شوہر کا طرز عمل اس کے حق میں مزید برا ہوجائے گا۔ تھوڑی بہت محبت جو شوہر کے دل میں بیوی کی با قی ہے وہ بھی جاتی رہے گی اور اس کا دو سری عورت کی طرف جھکاؤ مزید بڑھ جائے گا ۔
ایک عقلمندعورت جس کی خواہش ہے کہ اس کا شوہر گنا ہوں کی دلدل سے نکل آئے اور اس کی شادی بھی محفوظ رہے حالا ت کو مزید بگڑنے سے بچا ئیگی ۔ وہ ایسے نازک حالا ت میں کمال صبر کا مظاہر ہ کرے گی اور اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرے گی کہ وہ اس کے شوہر کو ہدایت بخشے ۔ اس کی صحیح سمت رہنما ئی فرمائے تاکہ وہ خواب غفلت سے جا گ اٹھے ۔ گناہ اور گندگی کے جس غا ر میں وہ جا رہا ہے اس سے واپس لو ٹ آ ئے ۔
اس معاملے پر وہ شوہر سے بذات خود بھی بڑی دانشمندی اور شوہر کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے با ت کرے ۔ گفتگومیں سر کشی اور بحث کا عنصر اثر انداز نہ ہو ۔محبت اور پیا ر سے اس کے دل کو جیتنے کی کو شش کرے بڑے دھیمے انداز میں اسے قانون کی خلا ف ورزی اور اللہ تعا لیٰ کے خو ف سے ڈرائے۔ اگر شوہر اس نصیحت پر کان نہیں دھرتا توبھی اس کو امید کا دامن ہا تھ سے نہیں چھو ڑنا چا ہیے ۔ کچھ عر صہ کے لیے پند ونصائح کا سلسلہ بند کر دے ۔ پھر کسی دو سرے بہتر وقت اور مو قع پر جب شو ہر اچھے موڈمیں ہو نہا یت عاجزی اور دانشمند ی سے اس کا اعادہ کر ے ۔ وہ اپنا دکھ اپنی ذات پر جھیلے اللہ کے ذکر اذکار سے تقویت حاصل کرے قرآن میں ہے ۔
﴿ الذ ین امنو اوتطمئن قلو بھم بذکر اللہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ﴾ ( الرعد۲۸)
” وہ جو ایمان رکھتے ہیں ان کا دل ذکر اللہ سے امن و چین پا تا ہے۔ بلا شبہ دل اللہ کی یا د سے راحت پا تا ہے “۔
وہ اپنی ذات کی نفی کر کے اللہ کے آ گے سر بسجود ہو جائے ا ور دعاکر یں اسے اس امر کا یقین ہونا چاہئے کہ اللہ جو اس کے لئے پسند کرے گا اس کے حق میں بہتر ہی ہو گا ۔اسے چا ہیے کہ اپنے غم کو جو قدرتی ہے مایوسی ، بے صبری اور غیر اسلامی شعار میں سے بڑھنے نہ دے۔ ایک عقلمند بیوی جو ایسے حا لا ت سے دو چار ہوتی ہے ہمت ، سوجھ بو جھ اور صبر کو بر و ئے کار لا کر اپنے نیک اور پروقار ردعمل سے شوہرکو شرمندہ کر دے گی، وہ اپنی غلطی کااحساس کر کے دوسری عورت سے کنارہ کش ہو جائے گا۔ خود کو گناہ گار سمجھے گا اور اس کا نا انصافانہ رویہ بعد میں اس کو خون کے آنسو رلائے گا ۔ وہ دل میں پشیما ن ہو گا اور محسوس کر ے گا جیسے وہ اپنے مقام سے بہت نیچے گر گیا ہو۔ اس کا ضمیر اس کو لعن ملامت کر ے گا ۔
اچھا آدمی اپنی حما یت پر آگاہ ہو کر اپنی بیوی کے پا س شرمندہ واپس آجائے گا۔
اس کے بر عکس اگر بیوی اپنے شو ہر کو دوسری عورت سے دور رکھنے کے لیے تشدد آمیز رویہ اختیار کرے گی ، گالی گلوچ پر اتر آئے گی، لڑے جھگڑے گی ، عیب گیری اور غیر شائستہ آمیز طریقہ اپنائے گی تو نتیجتاً شادی طلاق کی صورت میں ختم ہو جائے گی۔عورت کو یہ گر سیکھ لینا چاہیے کہ شوہر سے لڑجھگڑ کر اور عیب گیری کرکے فتح نہیں پا سکتی ۔ شادی کی کامیابی کے لیے عورت کو اطاعت گزاری ، وفا شعاری ، نیکی اور عاجزی کی روش اختیار کرنا ہو گی ۔ اگر وہ آزادی کی اس تحریک کو اپناتی ہے جس کا ڈھونگ مغرب زدہ کفار نے رچایا ہے اور اس کا نعرہ مر د اور عورت برابر کا ہے تو وہ سمجھ لے کہ وہ طلاق کے راستے پر گامزن ہے ا ور وہ جلد یا بد یر اس انجام کو پہنچ جائے گی۔
اگر شوہرکسی دو سری عورت کے دام الفت میں گرفتار ہو جائے تو یہ بیوی کے لیے صبر آزما گھڑی ہو تی ہے ۔ اسے چاہیے کہ کمال دانشمندی اور صبر سے کام لے ۔ ایسے حالا ت بڑے نا زک مرحلے پیدا کر دیتے ہیں ۔ اور شادی کے بندھن کو گھن کی طرح چاٹ جا تے ہیں ۔ تمام تر ذمہ داری عورت پر آن پڑتی ہے ۔ اگر عقلمندی، ہو شیاری اور صبر سے کام لے تو اپنی ازدواجی زندگی کو بچالے گی۔
اس کے بر عکس اگر وہ صبر کا دامن ہا تھ سے چھو ڑ دیتی ہے اور جلا پے کے احسا سات کو راہ دیتی ہے تو وہ اپنے شوہر کو بھڑکانے کا با عث بنے گی ۔ وہ اس سے مزید دور چلا جا ئے گا اور زندگی تباہی کے دہانے تک پہنچ جا ئے گی ۔ عورت کے لئے بہتر ہے اگر وہ اس حقیقت کو جان لے کہ اپنی خفگی کے اظہا ر کو اور الزام تراشیوں سے وہ شوہرکو دوسری عورت کو چھوڑنے پر مجبور نہیں کر سکے گی ۔ جب ایک بیوی کو اس بات کا علم ہو جائے کہ اس کا شوہر کسی غیر عورت سے پینگیں بڑ ھا رہا ہے تو سب سے پہلا کا م جو اسے کرنا چاہیے یہ ہے کہ اپنے احسا سات پر قابو پا ئے اور یہ جان لے کہ غم و غصے اور بحث مبا حثہ سے شوہر کو دو سری عورت سے علیٰحدہ کر نے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی ۔ اگر وہ اپنے غصہ کا اظہا ر کر تی ہے اور سخت الفاظ سے خاوندکو اس عورت کے ساتھ میل جول سے باز رکھنے کی کوشش کر تی ہے تو اس کا نتیجہ اچھانہیں بلکہ برا نکلے گا ۔شوہر کا طرز عمل اس کے حق میں مزید برا ہوجائے گا۔ تھوڑی بہت محبت جو شوہر کے دل میں بیوی کی با قی ہے وہ بھی جاتی رہے گی اور اس کا دو سری عورت کی طرف جھکاؤ مزید بڑھ جائے گا ۔
ایک عقلمندعورت جس کی خواہش ہے کہ اس کا شوہر گنا ہوں کی دلدل سے نکل آئے اور اس کی شادی بھی محفوظ رہے حالا ت کو مزید بگڑنے سے بچا ئیگی ۔ وہ ایسے نازک حالا ت میں کمال صبر کا مظاہر ہ کرے گی اور اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرے گی کہ وہ اس کے شوہر کو ہدایت بخشے ۔ اس کی صحیح سمت رہنما ئی فرمائے تاکہ وہ خواب غفلت سے جا گ اٹھے ۔ گناہ اور گندگی کے جس غا ر میں وہ جا رہا ہے اس سے واپس لو ٹ آ ئے ۔
اس معاملے پر وہ شوہر سے بذات خود بھی بڑی دانشمندی اور شوہر کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے با ت کرے ۔ گفتگومیں سر کشی اور بحث کا عنصر اثر انداز نہ ہو ۔محبت اور پیا ر سے اس کے دل کو جیتنے کی کو شش کرے بڑے دھیمے انداز میں اسے قانون کی خلا ف ورزی اور اللہ تعا لیٰ کے خو ف سے ڈرائے۔ اگر شوہر اس نصیحت پر کان نہیں دھرتا توبھی اس کو امید کا دامن ہا تھ سے نہیں چھو ڑنا چا ہیے ۔ کچھ عر صہ کے لیے پند ونصائح کا سلسلہ بند کر دے ۔ پھر کسی دو سرے بہتر وقت اور مو قع پر جب شو ہر اچھے موڈمیں ہو نہا یت عاجزی اور دانشمند ی سے اس کا اعادہ کر ے ۔ وہ اپنا دکھ اپنی ذات پر جھیلے اللہ کے ذکر اذکار سے تقویت حاصل کرے قرآن میں ہے ۔
﴿ الذ ین امنو اوتطمئن قلو بھم بذکر اللہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ﴾ ( الرعد۲۸)
” وہ جو ایمان رکھتے ہیں ان کا دل ذکر اللہ سے امن و چین پا تا ہے۔ بلا شبہ دل اللہ کی یا د سے راحت پا تا ہے “۔
وہ اپنی ذات کی نفی کر کے اللہ کے آ گے سر بسجود ہو جائے ا ور دعاکر یں اسے اس امر کا یقین ہونا چاہئے کہ اللہ جو اس کے لئے پسند کرے گا اس کے حق میں بہتر ہی ہو گا ۔اسے چا ہیے کہ اپنے غم کو جو قدرتی ہے مایوسی ، بے صبری اور غیر اسلامی شعار میں سے بڑھنے نہ دے۔ ایک عقلمند بیوی جو ایسے حا لا ت سے دو چار ہوتی ہے ہمت ، سوجھ بو جھ اور صبر کو بر و ئے کار لا کر اپنے نیک اور پروقار ردعمل سے شوہرکو شرمندہ کر دے گی، وہ اپنی غلطی کااحساس کر کے دوسری عورت سے کنارہ کش ہو جائے گا۔ خود کو گناہ گار سمجھے گا اور اس کا نا انصافانہ رویہ بعد میں اس کو خون کے آنسو رلائے گا ۔ وہ دل میں پشیما ن ہو گا اور محسوس کر ے گا جیسے وہ اپنے مقام سے بہت نیچے گر گیا ہو۔ اس کا ضمیر اس کو لعن ملامت کر ے گا ۔
اچھا آدمی اپنی حما یت پر آگاہ ہو کر اپنی بیوی کے پا س شرمندہ واپس آجائے گا۔
اس کے بر عکس اگر بیوی اپنے شو ہر کو دوسری عورت سے دور رکھنے کے لیے تشدد آمیز رویہ اختیار کرے گی ، گالی گلوچ پر اتر آئے گی، لڑے جھگڑے گی ، عیب گیری اور غیر شائستہ آمیز طریقہ اپنائے گی تو نتیجتاً شادی طلاق کی صورت میں ختم ہو جائے گی۔عورت کو یہ گر سیکھ لینا چاہیے کہ شوہر سے لڑجھگڑ کر اور عیب گیری کرکے فتح نہیں پا سکتی ۔ شادی کی کامیابی کے لیے عورت کو اطاعت گزاری ، وفا شعاری ، نیکی اور عاجزی کی روش اختیار کرنا ہو گی ۔ اگر وہ آزادی کی اس تحریک کو اپناتی ہے جس کا ڈھونگ مغرب زدہ کفار نے رچایا ہے اور اس کا نعرہ مر د اور عورت برابر کا ہے تو وہ سمجھ لے کہ وہ طلاق کے راستے پر گامزن ہے ا ور وہ جلد یا بد یر اس انجام کو پہنچ جائے گی۔
No comments:
Post a Comment