شو ہر کے سامنے اپنی آ و از کو پست رکھنے کی نصیحت
اے میر ی مسلما ن بہن !
” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ گفتگو کے آ د اب وحد ود سے واقف ہو تی ہے ، وہ کبھی کبھا ر اپنے شوہر سے بحث ومبا حثہ بھی کر تی ہے لیکن اپنی آ واز کو بلند نہیں کر تی ۔
” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ جا نتی ہے کہ شو ہر کے سا منے بلند آ و از سے گفتگو کر نا بے حیا اورآوارہ عورتو ں کا شیو ہ ہے ، اسی لیے وہ ڈرتی ہے کہ کہیں وہ اس فعلِ شنیع میں مبتلا نہ ہو جا ئے ۔
”اچھی بیو ی “ وہ ہے کہ اگر کبھی اس سے آ واز اونچی بھی نکل جا ئے تو وہ اپنے کیے پر نا دم و شر مند ہ ہو تی ہے اور رو تی ہے اور شو ہر کی رضا جو ئی کی طلبگا ر ہو تی ہے ۔
” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ پست آ و از ، خو ش گفتا ر اور پا ک دل ہو تی ہے ۔
لیجئے! حد یثِ نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم پڑ ھیے ! اور اس سے سبق حا صل کیجئے !
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ :” (ا یک مر تبہ ) حضر ت ابو بکر صد یق رضی اللہ عنہ نے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم سے اند ر آ نے کی اجا زت ما نگی ، ( گھر آ ئے تو دیکھا کہ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا با ٓ وازِ بلند یہ کہہ رہی ہیں کہ خد ا کی قسم ! حضرت علی رضی اللہ عنہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو میر ے والد سے زیا دہ محبو ب ہیں ، ( یہ سن کر ) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ طما نچہ ما ر نے کے لیے ان کی طر ف لپکے اور فر ما یا: اے فلا ں کی بیٹی ! میں تمہیں دیکھتا ہو ں کہ تم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سا منے اپنی آ واز کو بلند کر رہی ہو ! رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر صد یق رضی اللہ عنہ کو پکڑ لیا ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ غصے کی حا لت میں گھر سے نکل گئے، پھر آ نحضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : ” اے عائشہ ! تم نے دیکھا ! میں نے تجھے ایک آ د می سے کیسے چھڑ ایا ؟ اس کے بعد ابوبکر صد یق رضی اللہ عنہ دو بار ہ گھر میں داخل ہو ئے اور دیکھا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا کی صلح ہو چکی ہے ، فرمایا : مجھے بھی اپنی صلح میں شا مل کر لو ، جس طر ح تم نے مجھے اپنی لڑ ائی میں شا مل کیا تھا ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : ”ٹھیک ہے ! ہم نے آ پ کو بھی شا مل کر لیا ۔ “ ( ابو د واد : ۴۹۹۹)
اے میر ی مسلما ن بہن !
ایک دیہا ئی شخص سے کسی نے کہا کہ عورتو ں کی بُرا ئی بیا ن کر و تو وہ کہنے لگا : ” عورتو ں کی بُر ائی یہ ہے کہ عورتیں ، زبا ن دراز ، مغر ور ومتکبر ، نفر ت کر نے والی اور کو دکر د کر پڑ نے والی ہو تی ہیں ، ان کی زبا ن نیز ے کی ما نند ہو تی ہے ، نا ک آسما ن پر اور سر ین پا نی میں ہو تی ہے ، غصے میں رگیں پھو ل جا تی ہیں ، گفتگو ایسے جیسے کو ئی دھمکی دے رہا ہو اور آ واز کڑ ک دار او رسخت ہو تی ہے ۔ “
غور کیجئے ! اس آ خر ی جملے میں : ” گفتگو ایسی جیسے کو ئی دھمکی دے رہا ہو اور آ واز کڑ ک دار اور سخت ہو تی ہے ۔ “ اس میں کو ئی شک نہیں کہ ایسی عورت ” زوجہ صا لحہ “ کے مر تبہ کو نہیں پہنچ سکتی ۔ یقینا ایسی عورت بد تر ین عورت ہے ۔
اسی طر ح ایک دیہا تی آ د می سے جب نیک بیو ی کے بار ے میں پو چھا گیا تو کہنے لگا : ” نیک عورت “ وہ ہے کہ با ت کر ے تو سب سے زیا دہ سچ بو لنے والی ہو ، جب غصے میں آ ئے تو بر دبا ر ہو جا ئے ، جب ہنسے تو مسکر ا ہٹ اس کے لبوں پر کھلنے لگے ، جب کوئی چیز بنا ئے تو عمد ہ بنا ئے ، اپنے خا و ند کی فر ماں بر دار ہو ، اپنے گھر میں قرار سے رہتی ہو ، اپنے قبیلہ وخا ند ان میں معز ز ومحتر م ہو ، اپنے آپ کو کم تر سمجھتی ہو ، اپنے خا وند سے بہت محبت کر نے والی ہو اور زیا دہ بچے جنتے والی ہو ، اس کا ہر کا م قا بلِ ستا ئش ہو ۔ “
اے میر ی مسلما ن بہن !
” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ گفتگو کے آ د اب وحد ود سے واقف ہو تی ہے ، وہ کبھی کبھا ر اپنے شوہر سے بحث ومبا حثہ بھی کر تی ہے لیکن اپنی آ واز کو بلند نہیں کر تی ۔
” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ جا نتی ہے کہ شو ہر کے سا منے بلند آ و از سے گفتگو کر نا بے حیا اورآوارہ عورتو ں کا شیو ہ ہے ، اسی لیے وہ ڈرتی ہے کہ کہیں وہ اس فعلِ شنیع میں مبتلا نہ ہو جا ئے ۔
”اچھی بیو ی “ وہ ہے کہ اگر کبھی اس سے آ واز اونچی بھی نکل جا ئے تو وہ اپنے کیے پر نا دم و شر مند ہ ہو تی ہے اور رو تی ہے اور شو ہر کی رضا جو ئی کی طلبگا ر ہو تی ہے ۔
” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ پست آ و از ، خو ش گفتا ر اور پا ک دل ہو تی ہے ۔
لیجئے! حد یثِ نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم پڑ ھیے ! اور اس سے سبق حا صل کیجئے !
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ :” (ا یک مر تبہ ) حضر ت ابو بکر صد یق رضی اللہ عنہ نے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم سے اند ر آ نے کی اجا زت ما نگی ، ( گھر آ ئے تو دیکھا کہ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا با ٓ وازِ بلند یہ کہہ رہی ہیں کہ خد ا کی قسم ! حضرت علی رضی اللہ عنہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو میر ے والد سے زیا دہ محبو ب ہیں ، ( یہ سن کر ) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ طما نچہ ما ر نے کے لیے ان کی طر ف لپکے اور فر ما یا: اے فلا ں کی بیٹی ! میں تمہیں دیکھتا ہو ں کہ تم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سا منے اپنی آ واز کو بلند کر رہی ہو ! رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر صد یق رضی اللہ عنہ کو پکڑ لیا ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ غصے کی حا لت میں گھر سے نکل گئے، پھر آ نحضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : ” اے عائشہ ! تم نے دیکھا ! میں نے تجھے ایک آ د می سے کیسے چھڑ ایا ؟ اس کے بعد ابوبکر صد یق رضی اللہ عنہ دو بار ہ گھر میں داخل ہو ئے اور دیکھا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا کی صلح ہو چکی ہے ، فرمایا : مجھے بھی اپنی صلح میں شا مل کر لو ، جس طر ح تم نے مجھے اپنی لڑ ائی میں شا مل کیا تھا ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : ”ٹھیک ہے ! ہم نے آ پ کو بھی شا مل کر لیا ۔ “ ( ابو د واد : ۴۹۹۹)
اے میر ی مسلما ن بہن !
ایک دیہا ئی شخص سے کسی نے کہا کہ عورتو ں کی بُرا ئی بیا ن کر و تو وہ کہنے لگا : ” عورتو ں کی بُر ائی یہ ہے کہ عورتیں ، زبا ن دراز ، مغر ور ومتکبر ، نفر ت کر نے والی اور کو دکر د کر پڑ نے والی ہو تی ہیں ، ان کی زبا ن نیز ے کی ما نند ہو تی ہے ، نا ک آسما ن پر اور سر ین پا نی میں ہو تی ہے ، غصے میں رگیں پھو ل جا تی ہیں ، گفتگو ایسے جیسے کو ئی دھمکی دے رہا ہو اور آ واز کڑ ک دار او رسخت ہو تی ہے ۔ “
غور کیجئے ! اس آ خر ی جملے میں : ” گفتگو ایسی جیسے کو ئی دھمکی دے رہا ہو اور آ واز کڑ ک دار اور سخت ہو تی ہے ۔ “ اس میں کو ئی شک نہیں کہ ایسی عورت ” زوجہ صا لحہ “ کے مر تبہ کو نہیں پہنچ سکتی ۔ یقینا ایسی عورت بد تر ین عورت ہے ۔
اسی طر ح ایک دیہا تی آ د می سے جب نیک بیو ی کے بار ے میں پو چھا گیا تو کہنے لگا : ” نیک عورت “ وہ ہے کہ با ت کر ے تو سب سے زیا دہ سچ بو لنے والی ہو ، جب غصے میں آ ئے تو بر دبا ر ہو جا ئے ، جب ہنسے تو مسکر ا ہٹ اس کے لبوں پر کھلنے لگے ، جب کوئی چیز بنا ئے تو عمد ہ بنا ئے ، اپنے خا و ند کی فر ماں بر دار ہو ، اپنے گھر میں قرار سے رہتی ہو ، اپنے قبیلہ وخا ند ان میں معز ز ومحتر م ہو ، اپنے آپ کو کم تر سمجھتی ہو ، اپنے خا وند سے بہت محبت کر نے والی ہو اور زیا دہ بچے جنتے والی ہو ، اس کا ہر کا م قا بلِ ستا ئش ہو ۔ “
No comments:
Post a Comment