Monday, May 21, 2012

تنگی معاش میں شوہر کا ساتھ دینے کی نصیحت

تنگی معاش میں شوہر کا ساتھ دینے کی نصیحت
﴿وعنھا قالت یاتی علینا الشھر مانوقد فیہ نارا انما ھو التمرو المآ ء الا ان یوتی باللحیم۔﴾
(
متفق علیہ)(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب کیف، کان عیش النبی ﷺ و اصحابہ، ح ۶۴۵۸)
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بعض مہینہ ہم پر ایسا گزرتا تھا کہ ہم اس میں آگ نہ جلاتے تھے (یعنی بعض مرتبہ پورا پورا مہینہ ایسا گزرتا تھا کہ ہمارے گھر میں سامان خوراک نہ ہونے کی وجہ سے چولہے میں آ گ بھی نہیں جلتی تھی) اور ( اس عرصہ میں) ہماری غذا کا انحصار ( صرف) کھجور اور پانی پر ہوتا تھا۔ اِ لا یہ کہ کہیں سے تھوڑا سا گوشت آجاتا تھا“۔
اِلاَّ یہ کہ کہیں سے تھوڑا سا گوشت آجاتا تھا“ کا مطلب یہ ہے کہ تنگی معاش کے اس عرصہ میں ہم صرف کھجوریں کھاکھا کر اور پانی پی پی کر گزارا کر لیا کرتے تھے، یا اگر کوئی شخص تھوڑا بہت گوشت بھیج دیا کرتا تھا تو اس کو کھا لیتے تھے۔ یا یہ مطلب ہے کہ گھر میں خوراک کا کوئی سامان نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے چولہے میں آگ نہیں جلتی تھی، ہاں اگر کہیں سے کچھ گوشت آجاتا تو اس کو پکانے کے لئے آگ جلالیا کرتے تھے۔
وعنھا قالت ماشبع ال محمد یومین من خبز برالا و احد ھما تمر۔ ( متفق علیہ)
(
صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ، ح ۶۴۵۵)
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایسا ( کبھی نہیں ہوا ) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے دو دن گیہوں کی روٹی سے اپنا پیٹ بھرا ہو اور ان دونوں میں سے ایک دن کی غذا کھجور نہ ہوئی ہو“۔  بخاری و مسلم
ہر وقت تنگیٴ معاش کا رونا نہ رو تی رہئے
﴿وعنھا قالت توفی رسول اللہ اوما شبعنا من الاسودین(صحیح البخاری، کتاب الا طعمہ، باب من اکل حتی شبع، ح ۵۲۸۳)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اور ہم نے ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کبھی ) دو سیاہ چیز وں یعنی کھجور اور پانی سے پیٹ نہیں بھرا“۔ ( بخاری و مسلم)
یہ حدیث بھی واضح کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال کس تنگی و سختی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے تھے اور باوجود یکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو دنیا کی تمام لذات اور ایک خوش حال بافراغت زندگی گزارنے کے سارے وسائل و ذرائع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ہوتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کمال ایثار و استغناء اور نفس کشی و ترک لذات میں عامل رہے۔
اسودین( دو سیاہ چیزوں)میں سے ایک سیاہ چیز کھجور ہے اور دوسری سیاہ چیز پانی! کو سیاہ چیز سے تعبیر کرنا مجاورت و مقارنت کی وجہ سے ہے اور اس طرح کا طرزِ کلام اہل عرب کی یہاں مستعمل ہے۔ جیساکہ ماں اور باپ کو ابوینیا چاند اور سورج کو قمرین کہتے ہیں، اس کو عربی میں تغلیبکہتے ہیں۔ تاہم واضح رہے کہ اس ارشاد میں ” پانی کا ذکر “ کھجور کے ضمن و طفیل میں ہے۔ اصل مقصود کھجور ہی کا ذکر کرنا ہے، کیونکہ پانی نہ تو پیٹ بھرنے کے مصرف میں آتاہے اور نہ اس کی کوئی کمی ہی تھی، اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے گھر والوں کو غذا کے طور پرکھجوریں بھی اتنی مقدار میں مہیا نہیں ہوتی تھیں جو پیٹ بھر نے کے بقدر ہوں، بلکہ بس اتنی ہی مہیا ہو جاتی تھیں جس سے پیٹ کو سہارا مل جاتا تھا۔
﴿وعن النعمان بن بشیر قال انتم فی طعام و شراب ما شئتم لقدرایت نبیکم و ما یجد من الدقل مایملا بطنہ۔﴾  صحیح مسلم، کتاب الزھد، ح ۲۹۷۷
اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ( ایک موقع پر ) فرمایا: ” کیا تم لوگ اپنے کھانے پینے میں جس طرح چاہتے ہو عیش نہیں کرتے ( یعنی تم اپنے کھانے پینے کی چیزوں میں اپنی خواہش کے مطابق و سعت و افراط اختیار کر کے عیش و راحت کی زندگی گزار رہے ہو)جب کہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناکارہ کھجوریں بھی اس قدر میسر نہیں ہوتی تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیٹ بھر دیتیں“ ( مسلم
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

No comments:

Post a Comment