Friday, May 11, 2012

شوہر کے رشتہ داروں سے محبت کرنے کی نصیحت

شوہر کے رشتہ داروں سے محبت کرنے کی نصیحت
اے میری مسلمان بہن !
نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ وہ ہے جو اپنے شوہر کے ماں باپ سے اسی طرح محبت کرتی ہو جس طرح وہ اپنے ماں باپ سے محبت کرتی ہے اس طرح شوہر کے دِ ل میں اس کی محبت بڑھے گی ۔ ”نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی“اپنے خاوند کو ہمیشہ یہ باور کراتی ہے ۔ کہ اس کی سہیلیا ں ، اس کے شوہر کے والد ین اور عزیز واقارب سے زیادہ اہم نہیں ہیں کہ ان کے ہاں جانے کو ترجیح دی جائے ۔ ” نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ خوشی کے موقعوں پر اپنے خاوند کے خاندان والوں کے ساتھ خوشگوار اندزمیں پیش آتی ہے اور غمی کے موقعوں پران کے ساتھ غم خواری اور ہمدری کرتی ہے۔
نصیحت پر عمل کر نے والی بیو ی “ اپنے خاوند کے والدین کے ساتھ بھی انتہائی احتیاط سے گفتگو کرتی ہے کہ مبادا اس کی طرف سے کوئی ایسی بات ہو جائے جس کی وجہ سے ان کو کوئی پریشانی یا تکلیف ہو۔
نصیحت پر عمل کر نے والی بیوی“ شروع سے آخر تک (ہر وقت ) اپنے شوہر کے ذہن میں یہ امر مستحضر رکھتی ہے کہ وہ اس کے والدین کی فرماں بردار ہے ، اپنی ملاقات، خوش گفتاری اور تعاون مالی کے ذریعہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اس ”زوجہٴ صالحہ “ پر اپنی بے پایاں رحمت فرمائے جو اپنے شوہر سے یوں کہتی ہے:
میں تمہیں قسم دیتی ہو ں کہ تم حلال روزگا رہی حاصل کروگے ۔
میں تمہیں قسم دیتی ہوں کہ تم میری وجہ سے جہنم میں داخل نہیں ہوگے۔
اپنی ماں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آوٴ ، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو، ان سے قطع نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے تعلق قطع کرلے گا۔
اے وہ خاتون جو”زوجہ ٴصالحہ “ کا مقام حاصل کرنا چاہتی ہے ! اپنے شوہر کے والدین اور اس کے بہن بھائیوں سے نیک سلوک کرو، بہت ممکن ہے کہ تم اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب اور بامُر اد ہوجاوٴ۔یہ نصیحت ہے نصیحت پر عمل کر نے والو ں کیلئے ۔
رشتہ داروں کے ہاں صلہ ء رحمی کی نیت سے جائیں
رشتہ داروں کے ہاں جاناپڑتا ہے ، کبھی تقریبات میں جانا پڑتا ہے ، تو صلہ ء رحمی کی نیت سے جائیں ۔ صلہ رحمی کہتے ہیں رشتے داریوں کو جو ڑنا ، رشتے ناطوں کو جوڑنا ۔
اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت پسند ہے کہ رشتے داریاں جوڑیں اور محبت و پیار کے ساتھ ر ہیں۔ جب بھی آپ تقریبات میں جائیں تو صلہ ء رحمی کی نیت سے جائیں ۔یہ نیت نہ ہو کہ ہم نہیں جائیں گی تو وہ بھی نہیں آئیں گے ۔ اپنی طرف سے آپ صلہ ء رحمی کی نیت سے جائیں تاکہ آپ کا جانابھی عبادت بن جائے۔
سسرال کے ساتھ تعلقات اور نصیحت
عورت کو چاہئے کہ اپنی اور اپنے شوہر کی خوشی کی خاطر وہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار رکھے ۔ شوہر کے عزیز و اقارب کے ساتھ ناروا سلوک کی وجہ سے بہت سی شادیوں کا انجام طلا ق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ خطابیوی ہی کی ہو۔ بسااوقات شوہر کے عزیز وں کی زیادتی ہو تی ہے او ر ان کا سلوک اس کی بیوی کے ساتھ ظالمانہ ۔ ایسے مواقع پر چاہئے کہ عورت منکسر مزاجی سے کام لے۔ عاجزی اختیار کرے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گی تو سارا گھر تباہی کے دہانے تک پہنچ جائے گا۔
شادی کے بعد بیوی کو اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ ایک نئے گھر میں آئی ہے اور اجنبی حالات میں گھر گئی ہے۔ یہاں زندگی کا ڈھنگ اس کے اپنے اس گھر سے جسے وہ پیچھے چھوڑ آئی ہے، الگ ہے۔ رہن سہن اور اطوار قدرے مختلف ۔ اسے ان نئے حالات میں اپنی زندگی کو ڈھالنا ہوگا۔ اس کے لئے یہ کسی طور پر صحیح نہیں ہوگا کہ وہ اپنے خاوند سے اپنی شرائط منوانی شروع کردے اور سسرال والوں پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش کرے ۔ کچھ بیویاں اس حد تک آگے نکل جاتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر اور اس کے قریبی عزیزوں کے درمیان اختلافات کی وسیع خلیج حائل کردیتی ہیں ۔ عورت اپنے خاوند کو اس کے ماں باپ سے بدظن کرنے کے لئے نئی نئی سکیمیں سوچتی ہے اور جھوٹی کہانیاں گھڑتی ہے ۔ ایسی کوششوں سے وہ دین اور دنیا دونوں میں ذلیل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی خفگی مول لیتی ہے۔
بیوی اگراپنی نامعقول اور بری کوششوں میں کامیاب ہوبھی جاتی ہے اور اپنی بری خواہشات کمزور خاوند پر مسلط بھی کردیتی ہے تو اسے اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ اس نے شوہر پر فتح پالی ہے ۔ اس کے برعکس شوہر دل میں اس سے نفرت کرنے لگ جاتا ہے لیکن اپنی کمزوری یا دیگر وجوہات کی بناء پر وہ آواز نہیں اٹھاتا۔
شوہر کی اصلاح پسندی کی خصلت عورت کے غلط اور توہین آمیز رویے کو خاموشی مگر نفرت سے برداشت کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔ عورت اگر شوہر کو اس کے عزیز و اقارب سے برگشتہ اور دور کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو اسے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ شوہر کے دل سے اس کے لئے جو عزت اور محبت تھی اس کا جنازہ نکل گیا ہے۔
اکثر عورتوں میں لالچ اور حسد کی وجہ سے یہ خواہش شدت سے پیدا ہوجاتی ہے کہ شوہروں کی دولت صرف ان کے تصرف کے لئے ہو اور ان کے قبضہٴ قدرت میں ۔ شوہر اسے خوش رکھنے کی خاطر عیش و عشرت کے بیش قیمت سامان پر بے دریغ خرچ کرتا ہے۔ اس کی ذاتی کاوش اور دولت بیوی کو زیادہ سے زیادہ آرام پہنچانے اور خوشیاں دینے کے لئے ہوتی ہے۔ بیوی کی محبت شوہر کو اس کا بے دام غلام بنادیتی ہے ۔ اس کی ایک مسکراہٹ کی خاطر وہ ہر طرح کی تکلیف برداشت کر لیتا ہے۔۔۔ لیکن جب کبھی کبھار شوہر اپنے عزیزوں کی مدد کرنا چاہتا ہے تو عورت کا رویہ اور برتاوٴ اس امر کی غمازی کرتا ہے جیسے شوہر اس کے حقوق کی ادائیگی میں ناکام رہا ہو۔ خود غرضی اور ناانصافی پر مبنی اس کا ہتک آمیز رویہ خاوند کے سردرد کا باعث بنتا ہے۔ وہ بے جا طور پر اصرار کرتی ہے کہ شوہر صلہ رحمی کے کاموں سے باز رہے۔
عورت کی چالبازیوں اور عشوہ طرازیوں سے مرعوب ہو کر وہ اس کی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے۔ گھر کے سکون اور چین کو برباد ہو نے سے بچانے کے لئے اس کی غلط روش کے آگے سپر ڈال دیتا ہے ۔عورت ایک کمزور شوہر پر بظاہر فتح پالیتی ہے مگر یہ فتح کمزور، عارضی اور کھوکھلی فتح ہوتی ہے جو شوہر کے دل سے اس کی محبت کھرچ کر نکال دیتی ہے اور شوہر کو الحاد اور بے وفائی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور وہ اپنی آخرت سے بھی لاپرواہ ہوجاتا ہے۔
عورت کو اپنے اس قابل نفرت عمل اور کردار پر فخر نہیں کرنا چاہئے ۔ اس کی یہ جھوٹی فتح درحقیقت دونوں جہانوں میں اس کے لئے بہت بڑی مصیبت کا باعث ہوگی کیونکہ اس غیر اخلاقی فعل سے وہ اپنے شوہر کو ناخوش کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتی ہے۔ شوہر کی خوشی اس کی جنت کا راستہ ہے اور شوہر کی ناراضگی اس کو جہنم کے راستے پر ڈال دیتی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اے عورت! دیکھ ۔ وہ (تمہارا شوہر ) تمہاری جنت ہے یا تمہاری دوزخ۔
مسلمان عورت کو چاہئے کہ اپنی سفلی خواہشات کو اپنے مجاہدہ کے ذریعہ قابو میں رکھے ۔ نفس امارہ کی خواہشات کتنی ہی منہ زور کیوں نہ ہوں اسے چاہئے کہ کمال ہو شیاری اور عقل مندی سے ان کو قابو میں رکھے ۔ ایسا نہ ہو کہ نفس کی گٹیا خواہشات اس کو اپنے دام فریب میں گرفتار کر لیں ۔ وہ اپنے مجاہدہ سے انہیں کچل ڈالے ایمان کی روشنی میں اپنی عقل کا امتحان لے۔
نفس کے آگے ہتھیار ڈال دینے سے وقتی طور پر اسے خوشی نصیب ہوگی لیکن بعد میں بد نصیبی کا سایہ اس کے سر پر منڈلائے گا۔ وہ اپنے شوہر کی محبت سے محروم ہو چکی ہوگی ۔ پاکیزگی اور خدمت کے جذبہ سے یکسر خالی زندگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے اور تاریک ہو جائے گی ۔
اچھی ،سچی اور عقل مند مسلمان بیوی خاوند کو خوش رکھنے کی ضرورت سے بخوبی واقف ہوتی ہے اس کی اپنی ذاتی خوشی کا انحصار اس کے شوہر کی خوشی پر ہے ۔ وہ ایسا رویہ کیونکر اختیار کرے گی جس سے خاوند کی خوشی دھند لاجائے ۔ بری بیوی یہ کیوں نہیں سوچتی کہ خاوند سے اس کے ماں باپ ، بہن بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں سے دور کرکے وہ خود کبھی لازوال خوشیاں حاصل نہیں کر سکتی ۔ اپنے عزیزو اقارب کی مدد اور ان کے ساتھ محبت اور مہربانی کا برتاوٴ پاک اور مقدس عمل ہے۔
خاندان میں تفرقہ ڈالنا بہت بڑا گناہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث میں خاندان میں پھوٹ ڈالنے کے خلاف سخت تنبیہ آئی ہے۔ صلہ رحمی پارہ پارہ کرنے کی بہت سخت سزا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
اللہ تعالیٰ نے اپنی شان و شوکت ، طاقت ، عزت اور نور کی قسم کھائی ہے کہ جو خاندان کو توڑنے اور برباد کرنے کا باعث بنے گا اللہ اسے تباہ برباد کردے گا۔
لیکن دیکھا گیا ہے کہ اکثر بیویاں اس بری عادت میں مبتلا ہیں ۔ اپنے دلوں اور دماغوں میں اس ندی کو راہ دے کر وہ شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور اپنی رذیل خواہشات کی آبیاری کرتی ہیں۔حسد نے انہیں اندھا کر رکھا ہوتا ہے۔شوہر کے قریبی رشتہ داروں سے اس کے تعلقات کو خراب اور منقطع کرنے میں وہ دن رات ایک کردیتی ہیں ۔ اپنے نارواطور واطوار سے وہ نہ صر ف اپنے خاوند کو آخرت کے بہت بڑے ثواب سے محروم کردیتی ہیں بلکہ اپنے گھر کو تباہی کی غار میں دھکیل دیتی ہیں اور اللہ کی پھٹکار کی مستحق ٹھہرتی ہیں اس کے علاوہ عورت یہ بھی جان رکھے کہ اس کا یہ فعل صرف براہی نہیں بلکہ حرام ہے اور انتہادرجے کا گناہ بھی۔
حسد اور جلاپاانسانی جبلت کا خاصہ ہے۔ جب تک ان بری خواہشات پر قابو رکھا جائے اور ان کے اظہار سے پرہیز ، تو عورت گناہ میں ملوث نہیں ہوتی ۔
حق تو یہ ہے کہ اگر اس کا شوہر اپنے عزیزوں کی کچھ امداد کرتا ہے تو اس پر اسے بھی خوش ہونا چا ہیئے، شوہر کی خوشی اس کی اپنی خوشی ہو۔ اس طور کو اپنانے سے وہ جنت کی حقدار ٹھہریگی اور اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بارش ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کو زور دے کر عدل و احسان کرنے کے لئے کہاہے وہاں خاص طور پر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہنے کی تلقین بھی کی ہے۔
(
ان اللہ یا مربا لعدل والاحسان وایتای ذی القربی ) (النحل۹۰)
بے شک اللہ تعالیٰ انصاف اور حسن سلوک کرنے اور قر ابت داروں کو دینے کا حکم کرتا ہے
جولوگ رشتہ داروں کے فطری تعلق کو منقطع کرتے ہیں اور ان سے برا سلوک کرتے ہیں ان پراللہ تعالیٰ نے اس حد تک ناراضگی کااظہار کیاہے کہ انہیں ”فاسق“ کہہ دیا ہے۔
ومایضل بہ الا الفسقین ْالذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ ویقطعون ماامر اللہ بہ ان یوصل۔ (البقرہ ۲۶)
اس سے وہ انہی کو گمراہ کرتا ہے جو خدا کا حکم نہیں مانتے اور خدا کا عہد باندھ کر توڑتے ہیں اور خدا نے جس کو جوڑنے کو کہا ہے اس کو کاٹتے ہیں۔
من سر ہ ان یبسط لہ فی رزقہ اوینسألہ فی عمر ہ فلیصل رحمہ (بخاری)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں وسعت ہو اور عمر میں برکت ہو تو اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔
اس حدیث سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ انسان اپنے عزیزوں کو مالی امداد دے گا تو اس کا اپنا رزق کشادہ ہوگا اور اگر وقت صرف کرکے خدمت کرے گا تو اس کی عمر میں اضافہ ہوگا ۔ عورت کو چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے سسرالی رشتہ داروں کی ضرورتیں پوری کر سکتی ہے تو ایسا کرنے سے دریغ نہ کرے ورنہ اپنے شوہر سے تقاضا کرکے ا ن کی مدد کر وائے۔ شوہر صلہ رحمی کا ثواب پائے گا اور وہ اس کو ترغیب دینے کے ثواب کی مستحق ہوگی۔ 
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

No comments:

Post a Comment