خوش طبعی میں بھی سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی نصیحت
آپ کو ہم اس چیز کی ہر گز تاکید نہیں کر رہے کہ ہر وقت فقط ان رشتوں پہ ہی نظر رکھیئے بلکہ اپنی آخرت کی فکر بھی آپ کو دامن گیر رہنی چاہیے ۔ اسی لئے خوشی طبعی میں بھی جھوٹ کی آمیزش نہ ہونے دیجئے۔
عن ابی ھریرة قال قالو ایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) انک تد اعبنا قال انی لا اقول الاحقا۔
(جامع الترمذی ، کتاب البروالصلة ، باب ما جاء فی المزاح ، ح ۔۱۹۹
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ہم سے خوش طبعی فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن اس خوش طبعی میں بھی سچی بات کہتا ہوں ۔“( ترمذی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسی مذاق بھی جھوٹ پر مبنی نہیں ہوتا تھا
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو زیادہ ہنسی مذاق کرنے سے منع فرمایا تو اس کے بعد انہوں نے مذکورہ سوال کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب دیا کہ ہنسی مذاق کی ممانعت اس بنا پر ہے کہ اس میں عام طور پر جھوٹی باتوں اور غیر شرعی امور کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔
خوش طبعی کا ایک اندازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
وعن انس ان رجلا استحمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال انی حاملک علی ولد ناقة فقال مااصنع بولد الناقة فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھل تلد الابل الاالنوق ۔ ( رواہ الترمذی وابو داوٴد ) (جامع الترمذی ، کتاب البر والصلة ، باب ماجاء فی المزاح،ح ۱۹۹۱)
”اور انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کاایک جانور مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں تمہاری سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا ۔ اس شخص نے (حیرت کے ساتھ) کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں اونٹنی کے بچہ کا کیا کروں گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اونٹ کو اونٹنی ہی تو جنتی ہے۔“ (ترمذی ، ابو داوٴد)
اس شخص نے یہ سمجھاتھا کہ اونٹنی کے بچہ سے مراد وہ چھوٹا بچہ ہے جو سواری کے قابل نہیں ہوتا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ سواری کے قابل جو اونٹ ہوتا ہے وہ بچہ تو اونٹنی ہی کا ہوتا ہے ۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی طلب پر مذکورہ ارشاد بطور خوش طبعی فرمایا اور پھر اس کی حیرت پر جو جواب دیا اس کے ذریعہ نہ صرف حقیقت مفہوم کو ادا کیا بلکہ اس کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ اگر تم تھوڑی عقل سے کام لیتے اور میری بات کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے تو اس حیرت میں نہ پڑتے اور حقیقی مفہوم کو خود سمجھ لیتے لہٰذا اس ارشاد میں نرمی ظرافت ہی نہیں ہے بلکہ اس امر کی طرف متوجہ کرنا بھی مقصود ہے کہ سننے والے کو چاہیے کہ وہ اس بات میں غور و تامل کرے جو اس سے کہی گئی ہے اور بغیر سوچے سمجھے سوال و جواب نہ کرے بلکہ پہلے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے اور غور وفکر کے بعد آگے بڑھے ۔
(وعنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ یا ذاالا ذنین ) (جامع الترمذی ،کتاب البروالصلة ، باب فی المزاح ، ح ۱۹۹۲)
”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اے دوکانوں والے“۔ (ابو داوٴد، ترمذی )
تعریف پر مشتمل خوش طبعی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دوکانوں والے کے ذریعہ جو مخاطب فرمایا تو اس میں خوش طبعی و ظرافت بھی تھی اور ان کے تیئں اس تعریف و توصیف کا اظہار بھی مقصود تھا کہ تم نہایت فہیم و ذکی ہو اور تم سے جو بات کہی جا تی ہے اس کو تم خوب اچھی طرح سنتے ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑھیا کے ساتھ خوش طبعی فرمانا
وعنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الامراة عجوزانہ لا تدخل الجنة عجوز فقالت ومالھن وکانت تقرا القران فقال لھا اما تقرئین القران انا انشانھن انشاء فجعلنھن ابکارا۔ ) (رواہ رزین وفی شرح السنة بلفظ المصابیح و الترمذی فی الشمائل ، باب ماجاء فی صفة مزاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ص۲۰)
” اور انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ایک بوڑھی عورت نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے جنت میں جانے کی دعا فرمائیں تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا : بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوگی وہ عورت قرآن پڑھی ہوئی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا ہے کہ( انا انشأنھن انشاء فجعلنھن ابکارا)یعنی ہم جنت کی عورتوں کو پید اکریں گے جیسا کہ پیدا کیا جاتا ہے پس ہم ان کو کنواری بنا دیں گے اس اعتبار سے یہ خوش طبعی مبنی برحقیقت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا درست ہو اکہ یہ بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی کیونکہ واقعتا کوئی عورت اپنے بڑھاپے کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گی۔ اس روایت کو رزین نے مذکور ہ الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے اور بغوی نے اپنی دوسری کتاب شرح ٰالسنتہ میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے جو مصابیح میں مذکور ہیں ۔ “
مصابیح میں روایت کو جن الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے وہ یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا کہ بوڑھی جنت میں داخل نہیں ہو گی یہ سن کر وہ عورت واپس ہوئی اور روتی ہو ئی چلی گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس عورت کو جاکر بتادو عورتیں بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ :( اناانشانھن انشاء فجعلنھن ابکار)
آپ کو ہم اس چیز کی ہر گز تاکید نہیں کر رہے کہ ہر وقت فقط ان رشتوں پہ ہی نظر رکھیئے بلکہ اپنی آخرت کی فکر بھی آپ کو دامن گیر رہنی چاہیے ۔ اسی لئے خوشی طبعی میں بھی جھوٹ کی آمیزش نہ ہونے دیجئے۔
عن ابی ھریرة قال قالو ایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) انک تد اعبنا قال انی لا اقول الاحقا۔
(جامع الترمذی ، کتاب البروالصلة ، باب ما جاء فی المزاح ، ح ۔۱۹۹
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ہم سے خوش طبعی فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن اس خوش طبعی میں بھی سچی بات کہتا ہوں ۔“( ترمذی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسی مذاق بھی جھوٹ پر مبنی نہیں ہوتا تھا
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو زیادہ ہنسی مذاق کرنے سے منع فرمایا تو اس کے بعد انہوں نے مذکورہ سوال کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب دیا کہ ہنسی مذاق کی ممانعت اس بنا پر ہے کہ اس میں عام طور پر جھوٹی باتوں اور غیر شرعی امور کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔
خوش طبعی کا ایک اندازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
وعن انس ان رجلا استحمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال انی حاملک علی ولد ناقة فقال مااصنع بولد الناقة فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھل تلد الابل الاالنوق ۔ ( رواہ الترمذی وابو داوٴد ) (جامع الترمذی ، کتاب البر والصلة ، باب ماجاء فی المزاح،ح ۱۹۹۱)
”اور انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کاایک جانور مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں تمہاری سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا ۔ اس شخص نے (حیرت کے ساتھ) کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں اونٹنی کے بچہ کا کیا کروں گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اونٹ کو اونٹنی ہی تو جنتی ہے۔“ (ترمذی ، ابو داوٴد)
اس شخص نے یہ سمجھاتھا کہ اونٹنی کے بچہ سے مراد وہ چھوٹا بچہ ہے جو سواری کے قابل نہیں ہوتا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ سواری کے قابل جو اونٹ ہوتا ہے وہ بچہ تو اونٹنی ہی کا ہوتا ہے ۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی طلب پر مذکورہ ارشاد بطور خوش طبعی فرمایا اور پھر اس کی حیرت پر جو جواب دیا اس کے ذریعہ نہ صرف حقیقت مفہوم کو ادا کیا بلکہ اس کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ اگر تم تھوڑی عقل سے کام لیتے اور میری بات کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے تو اس حیرت میں نہ پڑتے اور حقیقی مفہوم کو خود سمجھ لیتے لہٰذا اس ارشاد میں نرمی ظرافت ہی نہیں ہے بلکہ اس امر کی طرف متوجہ کرنا بھی مقصود ہے کہ سننے والے کو چاہیے کہ وہ اس بات میں غور و تامل کرے جو اس سے کہی گئی ہے اور بغیر سوچے سمجھے سوال و جواب نہ کرے بلکہ پہلے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے اور غور وفکر کے بعد آگے بڑھے ۔
(وعنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ یا ذاالا ذنین ) (جامع الترمذی ،کتاب البروالصلة ، باب فی المزاح ، ح ۱۹۹۲)
”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اے دوکانوں والے“۔ (ابو داوٴد، ترمذی )
تعریف پر مشتمل خوش طبعی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دوکانوں والے کے ذریعہ جو مخاطب فرمایا تو اس میں خوش طبعی و ظرافت بھی تھی اور ان کے تیئں اس تعریف و توصیف کا اظہار بھی مقصود تھا کہ تم نہایت فہیم و ذکی ہو اور تم سے جو بات کہی جا تی ہے اس کو تم خوب اچھی طرح سنتے ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑھیا کے ساتھ خوش طبعی فرمانا
وعنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الامراة عجوزانہ لا تدخل الجنة عجوز فقالت ومالھن وکانت تقرا القران فقال لھا اما تقرئین القران انا انشانھن انشاء فجعلنھن ابکارا۔ ) (رواہ رزین وفی شرح السنة بلفظ المصابیح و الترمذی فی الشمائل ، باب ماجاء فی صفة مزاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ص۲۰)
” اور انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ایک بوڑھی عورت نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے جنت میں جانے کی دعا فرمائیں تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا : بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوگی وہ عورت قرآن پڑھی ہوئی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا ہے کہ( انا انشأنھن انشاء فجعلنھن ابکارا)یعنی ہم جنت کی عورتوں کو پید اکریں گے جیسا کہ پیدا کیا جاتا ہے پس ہم ان کو کنواری بنا دیں گے اس اعتبار سے یہ خوش طبعی مبنی برحقیقت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا درست ہو اکہ یہ بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی کیونکہ واقعتا کوئی عورت اپنے بڑھاپے کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گی۔ اس روایت کو رزین نے مذکور ہ الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے اور بغوی نے اپنی دوسری کتاب شرح ٰالسنتہ میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے جو مصابیح میں مذکور ہیں ۔ “
مصابیح میں روایت کو جن الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے وہ یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا کہ بوڑھی جنت میں داخل نہیں ہو گی یہ سن کر وہ عورت واپس ہوئی اور روتی ہو ئی چلی گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس عورت کو جاکر بتادو عورتیں بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ :( اناانشانھن انشاء فجعلنھن ابکار)
No comments:
Post a Comment