Tuesday, May 8, 2012

بیوی کو وقت دینے کی نصیحت (برائے شوہر)۔

بیوی کو وقت دینے کی نصیحت
عام طور پر خاوند یہ غلطی کرتے ہیں کہ بیوی کو وقت نہیں دیتے بلکہ جب وقت ملا ۔اب امی کے پاس بیٹھے باتیں چل رہی ہیں ۔رات کے بارہ بج گئے نیند سے جب آنکھیں پر ہوگئیں اب کمرے میں آکر دھم سے لیٹ گئے اور بیوی سے بات بھی نہ کی۔ کچھ پوچھا بھی نہیں کہ تم جیتی ہو یا مرتی ہو، تمہاری طبیعت ٹھیک ہے یا بیمار ہو ۔ اب اگر خاوند وقت ہی نہ دے تو صاف ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ بیوی کا شرعی تقاضا ہے کہ اسے خاوند کا وقت ملے۔ لہٰذا وقت دینا چاہیے۔ کچھ نو جوانوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ دوستوں کی محفل کی زینت بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور رات کو بارہ ایک بجے گھر آنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہ لوگ دوستوں کی محفل کو سنوار بیٹھتے ہیں اور اپنے گھر کو اجاڑ بیٹھتے ہیں۔ بھلا کیا فائدہ اس کا، بیوی کو زیادہ سے زیادہ وقت دینا چاہیے۔ کئی گھر میں آتو جلدی جاتے ہیں لیکن بہن بھائیوں میں بیٹھے رہتے ہیں یا ماں یا باپ کے پاس بیٹھے رہتے ہیں ۔ دوسرے افراد خانہ کے پاس بیٹھے رہتے ہیں مگر بیوی کو وقت نہیں دیتے ۔ یہ چیز بالآخر جھگڑے کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ بیوی کا بنیادی حق ہے۔ کہ خاوند اس کو وقت دے۔
بعض نیکو کا ر مردوں کی غلطی
کئی مرتبہ نیکوکاربھی اپنی بیو ی کو وقت نہیں دیتے۔ اوریہ بہت بڑی غلطی کر لیتے ہیں۔ جب یہ بیوی کو وقت نہیں دیتے تو اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے کہ گھر کی زندگی بے مزہ ہوتی ہے۔
ایک مرتبہ امیر الموٴمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک عورت آئی ۔
ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کی عدالت تھی ۔ اس کے سامنے آکر اس نے اپنے خاوند کی تعریفیں شروع کردیں ۔ کہنے لگی کہ میر ا خاوند بڑا نیک ہے، بہت اچھا ہے، سارا دن روزہ رکھتا ہے ، ساری رات عبادت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کا قرآن پڑھنے میں وقت گزار دیتا ہے اور یہ کہہ کر وہ چپ ہوگئی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بڑے حیران ہوئے کہ یہ عورت اپنے خاوند کی بڑی تعریفیں کررہی ہے۔ تھوڑی دیر بعد پھر پوچھا تو کیوں آئی اس نے پھر کہا میرا خاوند بڑانیک ہے سارا دن روزہ رکھتا ہے ساری رات عبادت میں گزار دیتا ہے ۔ یہ کہہ کر پھر چپ ہوگئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بات نہ سمجھ سکے حیران تھے تو ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا ، اے امیر الموٴمنین ! اس عورت نے بڑے پیارے لفظوں میں اپنے خاوند کی ایک کمزوری آپ کے سامنے پیش کردی اور یہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہے تاکہ آپ اس کے خاوند کو سمجھا ئیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ، کونسی کمزوری ؟ اس کا خاوند تو بڑا نیک نظر آتا ہے۔ اس نے کہا، کہ یہی تو وہ کہنا چاہتی ہے کہ سارا دن روزہ رکھتا ہے اور ساری رات عبادت کرتا ہے لیکن بیوی کے پاس وقت گزارنے کے لئے فرصت ہی نہیں۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سوچنے لگے کہ کتنے پیارے انداز سے بیوی نے اپنے خاوند کی شکایت کی ۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے خاوند کو بلایا ۔ وہ ایک صحابی تھے۔ بڑے نیک تھے ۔ اللہ تعالیٰ کی محبت سے سر شار تھے ۔ اللہ تعالیٰ کی محبت ان کو دن میں بھی روزے سے رکھتی اور ساری رات مصلےٰ پہ کھڑا رکھتی ۔ قرآن کی تلاوت کے مزے لیتے تھے ،جب وہ آئے تو انہوں نے کہا جی ہاں ۔ میں اللہ تعالیٰ کے قرآن میں اتنا مزہ پاتا ہوں میری بیوی کی طرف توجہ نہیں جاتی ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جب آپ نے مسئلے کو سمجھا اب مسئلے کا حل بھی آپ سمجھادیجئے۔ چنانچہ ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے ان کو کہا کہ دیکھو شریعت نے حکم دیا ہے۔ اس لئے تم اپنی بیوی کو وقت دو۔ تمہیں چاہیے کہ اگر تم تین دن روزہ رکھنا بھی چاہتے ہو تو رکھو مگر چوتھا دن افطار کرو اور دن تم اپنی بیوی کے ساتھ گزارو ۔ یہ سن کر وہ تو چلے گئے اور بیوی بھی خوش تھی کہ ہر تین دن کے بعد خاوند سے وقت مل جائیگا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے یہ تین دن کی شرط کیسے لگائی۔کہنے لگے کہ میں نے قرآن مجید کو دیکھ کر لگائی ۔ قرآن مجید میں ایک مرد کو زیادہ سے زیادہ چار عورتوں کے ساتھ شادی کی اجازت دی ۔اگر بالفرض کوئی چار شادیاں بھی کر لے تو ہر عورت کو تین دنوں کے بعد چوتھی رات مل جائے گی ۔ اس لئے میں نے شرط لگا دی کہ تم زیادہ سے زیادہ تین دن تک روزے رکھ سکتے ہو۔ چوتھے دن افطار کرکے تمہیں اپنی بیوی کے ساتھ وقت گزارنا پڑے گا۔ تو کئی مرتبہ نیک لوگ بھی اپنی نیکیوں میں لگ کے اپنی بیویوں سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اور یہ بہت خطرناک غلطی ہے۔
Enter your email address:


Delivered by FeedBurner

No comments:

Post a Comment