انگلینڈ سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں سٹوڈنٹ ویزے پر جا کر پڑھنے والی لڑکیا کس طرح زندگی گزارتی ہیں اس کی ایک تصویر آپ اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔ بلاشبہ یہ والدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے
Tuesday, December 25, 2012
Thursday, December 20, 2012
کیا حلالہ عورت پر ظلم ہے ؟
حلالہ کے منکرین ایک نفسیاتی حربہ استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حلالہ عورت پر ظلم ہے۔ لیکن یہ اعتراض جہالت پر مبنی ہے، کیونکہ ہر اہل علم جانتا ہے کہ جب عورت کو تین طلاقیں دی جائیں یا ایک دو طلاقوں کی صورت میں عدت گزر جائے تواب عورت کی اجازت اور مرضی کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح جب عورت نے دوسرے خاوند سے نکاح کرلیا اور اب اس نے طلاق دے دی تو پہلے خاوند سے نکاح کے سلسلے میں بھی عور ت کی مرضی اور اجازت ضروری ہے۔ لہٰذا جب تک عورت اجازت نہیں دے گی اس کا نکاح نہیں ہوسکتا، تو کس طرح اس عمل کو عورت پر ظلم قرار دیا جائے گا۔ عورت کو کون مجبور کرتا ہے کہ حلالہ کرائے اور پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کرے!
خلاصہ:
(۱)…جب عورت کو تین طلاقیں دی جائیں، چاہے تینوں اکٹھی ہوں یا الگ الگ دی گئی ہوں، دونوں صورتوں میں رجوع نہیں ہوسکتا اور نہ ہی وہ خاوند (حلالہ کے بغیر) اس عورت سے دوبارہ نکاح کرسکتا ہے۔
(۲)… اگر اس عور ت نے دوسری جگہ نکاح کرلیا اور پھر اس دوسرے خاوند نے حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے طلاق دے دی تو اب عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح جائز ہوگا۔ یہ عمل حلالہ کہلاتا ہے اور یہ سب کے نزدیک جائز ہے۔
(۳)… اگر دوسرے خاوند نے اس نیت سے نکاح کیا کہ وہ بعد میں اسے طلاق دے دے گا تاکہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے اور اس کا گھر دوبارہ آباد ہوجائے، لیکن نکاح میں حلالہ کی شرط نہیں رکھی گئی تو یہ صورت بھی جائز ہے بلکہ باعث اجر و ثواب ہے۔
(۴)…اگر دوسرے خاوند سے نکاح اس شرط پر کیا جائے کہ وہ اسے بعد میں طلاق دے دے، تاکہ پہلا خاوند اس عورت سے نکاح کرلے، تو حلالہ کے لئے نکاح کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور یہ عمل حرام ہے۔ لہذا مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہئے۔
(۵) …تاہم اگر ایسا کرلیا گیا تو شرط باطل ہوجائے گی اور یہ نکاح صحیح ہوگا اور دوسرا خاوند اسے طلاق دینے کا پابند نہیں ہوگا۔ البتہ اپنی مرضی سے طلاق دے دے تو عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے گی۔
(۶)… بیک وقت تین طلاقیں دینا بدعت اور ناجائز عمل ہے۔ لہٰذا اس سے بچنا چاہئے اور صرف ایک طلاق دی جائے یا ضروری ہو تو تین طہروں میں ایک ایک کرکے تین طلاقیں مکمل کی جائیں۔
(۷)… اگر کوئی شخص بیک وقت تین طلاقیں دے دیتا ہے تو اگرچہ اس کا یہ عمل حرام ہے اور وہ گنہگار ہوگا لیکن تینوں طلاقیں نافذ ہوجائیں گی۔ انہیں ایک طلاق قرار دینا نہ صرف یہ کہ صحابہٴ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے طریقے سے روگردانی ہے بلکہ عورت پر ظلم ہے اور حرام کاری کا دروازہ کھولنا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائے، ہٹ دھرمی کی بجائے کھلے دل اور دیانت داری کے ساتھ حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اسلام کا قانون خلع
اسی طرح کے نازک وقت کیلئے اسلام نے کشمکش کی آخری شکل میں ”خلع“ کی اجازت بخشی ہے، ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کے لئے پیش بندی کے طور پر سختی کے ساتھ خلع سے روکا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ایما امرأة سألت زوجھا طلاقاً فی غیر ماباس فحرام علیہ رائحة الجنة۔ (رواہ احمد، مشکوٰة باب الخلع)
جو عورت ذرا ذرا سی بات پر اپنے شوہر سے طلاق کی درخواست کرے اس پر جنت کی بوحرام ہے۔
ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المنتزعات والمختلعات ھن المنافقات (مشکوٰة باب الخلع)
شوہر سے علیٰحدہ ہونے والی اور خواہ مخواہ خلع کی طالب عورتیں منافق ہیں۔
ان حدیثوں کا منشاء یہی ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنے شوہروں سے جدائی کی خواہش نہ کریں، تلذذ کی خاطر ایساکرنا اسلام کے ایک عظیم الشان قانون کو بازئچہ اطلاق بنالیتا ہے۔
لیکن اگر واقعی عورت دیانتداری سے یہ محسوس کرتی ہے کہ اگر خلع کی صورت اختیارنہ کی گئی تو رب العزت کے قائم کردہ حدود باقی نہ رہ سکیں گے، اور عورت کو ظن غالب ہے کہ موجودہ تعلقات دین و دنیا کے لئے مضر ہیں، توایسی مجبوری اور نزاکت کے وقت عورت خلع کے
(۵) …تاہم اگر ایسا کرلیا گیا تو شرط باطل ہوجائے گی اور یہ نکاح صحیح ہوگا اور دوسرا خاوند اسے طلاق دینے کا پابند نہیں ہوگا۔ البتہ اپنی مرضی سے طلاق دے دے تو عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے گی۔
(۶)… بیک وقت تین طلاقیں دینا بدعت اور ناجائز عمل ہے۔ لہٰذا اس سے بچنا چاہئے اور صرف ایک طلاق دی جائے یا ضروری ہو تو تین طہروں میں ایک ایک کرکے تین طلاقیں مکمل کی جائیں۔
(۷)… اگر کوئی شخص بیک وقت تین طلاقیں دے دیتا ہے تو اگرچہ اس کا یہ عمل حرام ہے اور وہ گنہگار ہوگا لیکن تینوں طلاقیں نافذ ہوجائیں گی۔ انہیں ایک طلاق قرار دینا نہ صرف یہ کہ صحابہٴ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے طریقے سے روگردانی ہے بلکہ عورت پر ظلم ہے اور حرام کاری کا دروازہ کھولنا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائے، ہٹ دھرمی کی بجائے کھلے دل اور دیانت داری کے ساتھ حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اسلام کا قانون خلع
اسی طرح کے نازک وقت کیلئے اسلام نے کشمکش کی آخری شکل میں ”خلع“ کی اجازت بخشی ہے، ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کے لئے پیش بندی کے طور پر سختی کے ساتھ خلع سے روکا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ایما امرأة سألت زوجھا طلاقاً فی غیر ماباس فحرام علیہ رائحة الجنة۔ (رواہ احمد، مشکوٰة باب الخلع)
جو عورت ذرا ذرا سی بات پر اپنے شوہر سے طلاق کی درخواست کرے اس پر جنت کی بوحرام ہے۔
ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المنتزعات والمختلعات ھن المنافقات (مشکوٰة باب الخلع)
شوہر سے علیٰحدہ ہونے والی اور خواہ مخواہ خلع کی طالب عورتیں منافق ہیں۔
ان حدیثوں کا منشاء یہی ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنے شوہروں سے جدائی کی خواہش نہ کریں، تلذذ کی خاطر ایساکرنا اسلام کے ایک عظیم الشان قانون کو بازئچہ اطلاق بنالیتا ہے۔
لیکن اگر واقعی عورت دیانتداری سے یہ محسوس کرتی ہے کہ اگر خلع کی صورت اختیارنہ کی گئی تو رب العزت کے قائم کردہ حدود باقی نہ رہ سکیں گے، اور عورت کو ظن غالب ہے کہ موجودہ تعلقات دین و دنیا کے لئے مضر ہیں، توایسی مجبوری اور نزاکت کے وقت عورت خلع کے
قانون سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: فان خفتم الا یقیما حدوداللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ (بقرہ۔ ۲۹) سو اگر تم لوگوں کو احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابط خواندی کو قائم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہ ہوگا، جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خلع گو حدود اللہ کے عدم قیام کی شرط کے ساتھ خلع کی اسلام نے اجازت دی ہے، اس سے پہلے ہرگز اجاز ت نہیں ہے۔ خلع کی مثال عہد نبوی میں موجود ہے، حدیث کی کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے کہ حبیبہ بنت سہل انصاری ، حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہما سے بیاہی گئی تھیں، ایک صبح کو سویرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے لئے کاشانہ نبوی سے نکلے، دروازہ پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت کپڑوں میں لپٹی سمٹی ہوئی کھڑی ہے۔ صبح کی تاریکی ابھی باقی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ کون ہیں؟ آواز آئی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سہل کی بیٹی حبیبہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا بات ہے؟ حضرت حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا۔ نہ تو میں ثابت بن قیس کے ساتھ ہوں اور نہ ثابت میرے ساتھ۔ یعنی ہم دونوں میاں بیوی میں اتفاق اور نباہ کی امید باقی نہیں رہی۔ آپ نے یہ قصہ سن لیا او رنماز کے لئے روانہ ہوگئے۔ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جب خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہ حبیبہ بن سہل انصاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھا اسے آکر انہوں نے یہاں بیان کیا۔ حضرت حبیبہ نے مہر کی واپسی پر بھی اپنی آمادگی ظاہر کردی اور درخواست کی کہ شوہر کا عطیہ موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت سے فرمایا اپنا عطیہ واپس لے لو، یہ سن کر حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے بیوی سے اپنا عطیہ واپس لے لیا اور اس طرح دونوں میں جدائی ہوگئی۔ (موطا امام مالک باب الخلع) بخاری میں ہے، حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر بیان دیا: یارسول اللہ ثابت بن قیس ما اعیب علیہ فی خلق ولا دین ولکن اکرہ الکفر فی الاسلام یارسول اللہ (ﷺ) میں ثابت بن قیس کو ان کے اخلاق و دین میں عیب نہیں لگاتی، لیکن بات یہ ہے کہ میں اسلام میں کفر کی بات پسند نہیں کرتی۔ یہ سن کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم ان کا باغ واپس کرنے کو تیار ہو؟ ثابت کی بیوی نے اثبات میں جواب دیا۔ یہ معلوم کرکے آپ نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ سے کہا: |
اقبل الحدیقة وطلقھا تطلیقة واحدة (زاد المعاد ج ۴ ص ۳۴)
با غ لے لے اور اس کو ایک طلاق دے دے۔
بخاری نے یہ واقعہ جو بیان کیا ہے یہ ہے تو حضرت ثابت ہی کی بیوی کا، مگر حبیبہ کا نہیں بلکہ ان کی دوسری بیوی جمیلہ بنت ابی سلول کا ہے۔ ابن ماجہ میں یہی واقعہ جمیلہ کے نام کے ساتھ مذکور ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کوتاہ قد، بدصورت اور تیز مزاج تھے۔ اس لئے کسی عورت کی نگاہ میں سماتے نہیں تھے۔ بعض روایت میں ان کی بیوی کا ان کے باب میں بڑا سخت جملہ ہے۔
حدیث کی کتابوں میں خلع کے اور واقعات بھی مذکور ہیں، یہاں تفصیل مقصود نہیں ہے۔
Monday, December 17, 2012
اگر خا لق کی نا فر ما نی ہو تی ہو تو مخلوق کی اطاعت نہ کر نے کی نصیحت
شریعت کی پیروی کر نا بہت اہم ہے ۔﴿لا طا عة لمخلوق فی معصیة الخالق﴾۔ خالق کی معصیت میں مخلوق کی پیروی نہیں ۔حتیٰ کہ اگر خا وند بھی کوئی ایسا کام کہے جو اللہ تعالیٰ کی نا فر ما نی میں داخل ہوتو ہر گز با ت نہ مانیں ۔ مثلاً اگر خا وند کہے کہ پر دہ اتار دوتو ہر گز نہیں اتار نا ، ہاں خاوند کو کیسے سمجھا نا ہے ،اس کے لئے آپ اللہ والوں سے مشورہ کریں، علماء سے رجوع کریں ۔مگر کو ئی کام خلا ف شریعت نہیں کر نا ، چا ہے ما ں با پ ہو ں، چا ہے کو ئی ہو لا طا عة لمخلوق فی معصیة الخا لق ۔
کئی مر تبہ عورتیں یہ کہتی ہیں کہ جی بس اس نے مجھے دھو کہ د ے دیا اور میں نے کہا چلو میں تو یہ نہ کروں ۔ نہیں … خلاف شریعت کام میں کسی کی کو ئی پر وا نہیں ۔خلاف شر یعت کام میں کسی کا دل ٹو ٹنے کی کو ئی پروا نہیں ۔ آپ اللہ تعالیٰ کو راضی کیجئے ۔ اللہ تعالیٰ لو گو ں کے دلو ں کو خود را ضی فر ما دیں گے ۔ہاں جو کو ئی پریشان ہے کہ ایک طرف خاوند ہے ، ایک طرف ساس ہے ۔ ایک طرف اللہ کا حکم ہے تو اس سلسلے میں مفتی حضرات سے مشا ئخ سے رجو ع کیجئے ۔وہ آ پ کو میانہ روی اور اعتدال کا اچھا راستہ بتا دیں گے ۔ جسں سے آپ کو اس مصیبت سے چھٹکا را ملنا آ سا ن ہو جا ئے گا۔
اپنے میا ں کو کسی نہ کسی صاحب نسبت شیخ کے ساتھ منسلک کر ا نے کی کو شش کیجئے۔ اپنے بچو ں کو ، اپنے میا ں کو ، اپنے گھر وں کے لو گو ں کو کسی نہ کسی صاحب نسبت کے ساتھ جہا ں آپ کا دل ٹکتا ہو ، جہا ں آپ کی طبیعت لگتی ہو ، جہاں دل کے اند ر محبت ہو عقیدت ہو،اپنے گھر کے مردوں کو کسی نہ کسی شیخ کے ساتھ منسلک رکھئے ۔ اس کا یہ فا ئدہ ہو گا کے شیخ کی نسبت سے آپ کا میاں ایک تو نیکی پر رہے گا ، گناہوں سے بچے گا اور دو سرا یہ کہ اگر وہ آپ کے حقوق پو رے نہیں کررہا تو کم ازکم دنیا میں کو ئی تو ایسا ہو گا جو آپ کے میاں کو حقوق پو رے کر نے کی نصیحت کر سکے گا ۔ یہ باتیں کئی مرتبہ اجڑ تے گھروں کے آباد ہو نے کا سبب بن جا تی ہیں ۔ لہٰذا دین کے لئے آپ خود بھی ہر وقت کمر بستہ رہیے ۔ اپنے بچوں کو اور اپنے میاں کو دین کے ساتھ منسلک رکھیے۔ بالخصوص کسی صاحب نسبت شیخ کے ساتھ منسلک رکھنے سے آپ شر یعت کی حفاظت میں آجائیں گی اور آپ کی زندگی کی پر یشانیاں ختم ہو جا ئیں گی ۔یہ چند باتیں ہم نے آپ کو اس لئے سمجھائیں تا کہ آپ کی زندگی خوشگوار بن جائے لیکن یہی ساری شر یعت نہیں ہے بلکہ چند موٹی موٹی با تیں ہیں ، ان کے علا وہ بھی بہت ساری با تیں آ پ اللہ والو ں سے سنیں گی ۔ ان سب کو اپنا لینا چاہئیے۔
Wednesday, December 12, 2012
مشروط نکاح
جب خاوند یا بیوی نکاح کرتے وقت کوئی شرط رکھیں تو اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔
(۱)… وہ شرط عقد نکاح سے ملی ہوئی ہو۔ مثلاً یوں کہے کہ میں تجھ سے اس شرط کے ساتھ نکاح کررہا ہوں کہ تیرے پاس رات نہیں گزاروں گا۔
(۲)… نکاح ، شرط سے معلق ہے۔ یعنی شرط کے پائے جانے پر نکاح کے انعقاد کا دارومدار ہو۔ مثلاً یوں کہے کہ اگر فلاں شخص آیاتو میں تجھ سے نکاح کروں گا۔
ان میں سے پہلی شرط عقد نکاح پر بالکل اثر انداز نہیں ہوتی۔ پھر دیکھیں گے اگر وہ ان امورمیں سے ہے جن کو عقد چاہتا ہے تو وہ شرط بھی نافذ ہوجائے گی۔ مثلاً یوں کہے کہ میں تجھ سے اس شرط پر نکاح کررہا ہوں کہ تو کسی اور کی بیوی نہ ہو یا کسی اور کی عدت نہ گزار رہی ہو، وغیرہ وغیرہ۔
اور اگر اس شرط کو عقد نہیں چاہتا تو پھر یہ شرط لغو ہوجائے گا اور نکاح صحیح ہوجائے گا۔ اس کی مثال یہی زیر بحث مسئلہ ہے۔ مثلاً یوں کہے کہ میں تجھ سے نکاح کررہا ہوں تاکہ تو اس شخص کے لئے حلال ہوجائے، جس نے تجھے تین طلاقیں دی ہیں۔
گویا شرط کسی قسم کی بھی ہونکاح کے انعقاد میں فر ق نہیں پڑتا، جبکہ کوئی دوسری رکاوٹ نہ ہو۔ اس لئے فقہ حنفی کے ضابطہ کے مطابق تحلیل (حلالہ) کی شرط کے باوجود نکاح صحیح ہوجائے گا، البتہ شرط باطل ہوجائے گی اور دوسرا خاوند طلاق دینے کا پابند نہیں ہوگا۔
چنانچہ الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں ہے:
لان النکاح لایبطل بالشروط الفاسدة بل یبطل الشرط مع صحة العقد ومما لاشک ان شرط التحلیل لیس من مقتضی العقد فیجب بطلانہ وصحة العقد (عبدالرحمن حریری۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ ۴/۸۰)
کیونکہ نکاح، فاسد شرائط کی وجہ سے باطل نہیں ہوتا بلکہ عقد صحیح ہوجاتا ہے اور شرط باطل ہوجاتی ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حلالہ کی شرط ان امور میں سے نہیں ہے جن کو عقد نکاح چاہتا ہے۔ پس اس (شرط) کا باطل ہونا عقد کا صحیح ہونا ضروری ہے۔
حدیث کا مفہوم
اگر یوں کہا جائے کہ حدیث شریف میں حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت کی گئی ہے (جیسا کہ پہلے حدیث گزر چکی ہے) تو اس کے باوجود نکاح کیسے صحیح ہوگا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث کی روشنی میں حلالہ کی شرط پرنکاح کا عمل حرام ٹھہرے گا، یعنی نکاح ہوجائے گا اور یہ لوگ حرام کے مرتکب ہوں گے، کیونکہ انہوں نے ایک شرعی حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ ا س کی مثال یوں سمجھئے کہ جمعة المبارک کے دن اذان (پہلی اذان) کے بعد کاروبار چھوڑ کر نماز جمعہ کے لئے تیاری کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
واذا نودی للصلوٰة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر اللہ وذروا البیع (سورہٴ جمعہ ۶۳/۹)
اور جب جمعة المبارک کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔
لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص دکان بند نہ کرے اور سودا بیچے تو خریدنے والا اس سودے کا مالک اور یہ اس رقم کا مالک ہوجائے گاجو بطور قیمت وصول کی ہے۔ گویا حرام ہونے کے باوجود سودا ہوجائے گا۔
اگر یوں کہا جائے کہ حدیث شریف میں حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت کی گئی ہے (جیسا کہ پہلے حدیث گزر چکی ہے) تو اس کے باوجود نکاح کیسے صحیح ہوگا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث کی روشنی میں حلالہ کی شرط پرنکاح کا عمل حرام ٹھہرے گا، یعنی نکاح ہوجائے گا اور یہ لوگ حرام کے مرتکب ہوں گے، کیونکہ انہوں نے ایک شرعی حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ ا س کی مثال یوں سمجھئے کہ جمعة المبارک کے دن اذان (پہلی اذان) کے بعد کاروبار چھوڑ کر نماز جمعہ کے لئے تیاری کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
واذا نودی للصلوٰة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر اللہ وذروا البیع (سورہٴ جمعہ ۶۳/۹)
اور جب جمعة المبارک کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔
لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص دکان بند نہ کرے اور سودا بیچے تو خریدنے والا اس سودے کا مالک اور یہ اس رقم کا مالک ہوجائے گاجو بطور قیمت وصول کی ہے۔ گویا حرام ہونے کے باوجود سودا ہوجائے گا۔
Friday, December 7, 2012
خا وند کے آنے سے پہلے گھر کو صاف ستھرا کرنے کی نصیحت
جب خا وند کے آنے کا وقت ہوتو بیو ی کو چا ہیے کہ اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھے ۔ہوتا یہ ہے جب باہر نکلنا ہو تو دلہن کی طرح سج د ھج کے باہر جائیں گی اور خاوند نے جب آنا ہو تو پھر ایسی میلی کچیلی رہیں گی کہ بندے کی دیکھ کر ہی طبیعت خراب ہو جائے ۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے ۔ بلکہ جتنی بھی نیک عورتیں گزری ہیں ان سب کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ روزانہ اپنے خاوند کے آنے کے وقت پر اپنے آپ کوبنا سنوار لیتی تھیں اور یہ بنانا سنوارنا ان کے لئے عبادت کی مانند ہو جاتا ہے۔ اس کا پتہ نہیں کیوں خیال نہیں کرتیں حالانکہ کتابوں میں بھی یہ بات بہت لکھیں گئی ہے۔
ایک نیک بیوی کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ہررات اپنے آپ کو سنوارتی سجاتی اور میاں سے پوچھتی تھی کہ آپ کو میری خدمت کی ضرورت ہے۔اگر وہ کہتے ہاں تو میاں کے ساتھ وقت گزارتی اور اگر وہ کہتے نہیں مجھے نیند آرہی ہے سونا ہے تو وہ مصلے پہ کھڑی ہوتی اور ساری رات اپنے رب کے سامنے ہاتھ باندھ کر گزاردیتی تھیں۔ تو بیوی کو چاہیے کہ اپنے خاوند کے لئے گھر میں بن سنور کر رہے۔ بننے سنورنے کایہ مطلب نہیں ہوتا کہ روزانہ دلہن کے کپڑے پہنے ۔بس کپڑے ہوں، صاف ستھرے ہوں اور انسان نے بالوں میں کنگھی کی ہوئی ہو، چہرہ دھویا ہوا ہو، صاف ستھرا ہو ، خوشبو استعمال کی ہوئی ہو۔اسی کو بننا سنورنا کہتے ہیں۔ تویہ بننا سنورنا عور ت کے گھر کے فرائض میں شامل ہے۔اس میں سستی ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔آپ باہر جائیں توسادہ کپڑوں میں جائیں۔باہر زرق برق لباس پہننے کی زیادہ ضرورت نہیں ۔ سادہ کپڑوں میں باہر جائیں گی تو فتنوں سے بچ جائیں گی۔یاد رکھیں لباس کی سادگی عورت کے حسن کی حفاظت کا سبب بن جاتی ہے۔اس لئے دستور بنائیں کہ جب باہر جائیں تو کپڑے صاف ستھرے ہوں مگر سادہ ہوں اور گھر میں ہوں تو پھر کپڑے اپنے خاوند کے لئے جو بھی پہن سکتی ہیں مگر اپنے آپ کو بنا سنوار کے تیار رکھیں۔
ایک مرتبہ نبی علیہ السلام اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک لشکر سے واپس آرہے تھے ۔ مدینہ کے با ہر ہی آپ نے قیام فرمایا۔ حالانکہ گھر بہت قریب تھے اور گھر جا بھی سکتے تھے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں تم رک جاؤ اور اپنے گھروں میں اطلاع بھجوادو تا کہ بیویاں اپنے آپ کو خاوند ں کے لیے تیار کر لیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کے لیے یہ نبی علیہ ا لسلام کی تعلیم ہے۔ جب عورتوں کو پتہ ہو کہ میاں کے آنے کا وقت ہے تو اس وقت میلے منہ پرمیک ا پ کرنے کے بجاے ذرا صاف ستھری ہو کر رہیں تاکہ نبی علیہ ا لسلام کی سنت کے اوپر ان کو عمل نصیب ہو سکے۔جب خود ہی صاف ستھری نہیں رہیں گی تو کیسے توقع کرتی ہیں کہ خاوند کے دل میں ہماری روز نئی محبت ہونی چاہیے۔ جب خاوند توجہ نہیں کرتے تو پھر روتی پھرتی ہیں کہ
# جی ساری دنیا کے ہوئے میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
جب آپ نے ان کے لیے دنیا چھوڑدی تو اب اپنے آپ کو ذر ا صاف ستھرا بھی رکھئے تاکہ میاں کا طبعاً” بھی آپ کی طرف محبت کا جذبہ زیادہ ہو جائے۔“
Sunday, December 2, 2012
حلالہ کی تین صورتیں: پہلی صورت
حلال کی تین صورتیں ہیں۔
پہلی صورت
جس عورت کو تین طلاقیں دی گئیں وہ عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے۔ پھر خاوند حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد جب چاہے اپنی مرضی سے طلاق دے۔ اب عدت گزرنے کے بعد اس عورت کا پہلے خاوند سے نکاح ہوجائے، گویا یہاں حلالہ کیا نہیں جاتا بلکہ ہوجاتا ہے۔
حلالے کی اس صورت کا قرآن پاک میں ذکر ہے (جیسے آپ گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں) اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے کہ یہ صورت بلاکراہت جائز ہے۔ عورت کا دوسری جگہ نکاح کرنا بھی صحیح ہے اور جب وہ خاوند طلاق دے دے تو اب عدت گزارنے کے بعد وہ پہلے خاوند سے نکاح بھی کرسکتی ہے۔
یہ صورت چونکہ عقلاً نقلاً صحیح ہے، اور قرآن و حدیث سے ثابت بھی ہے، لہٰذا اسے بھی ناجائز یا بے حیائی کا باعث قرار دینا نہ صرف جہالت ہے بلکہ کھلم کھلا قرآن کی مخالفت ہے۔
دوسری صورت
جب خاوند نے طلاق دے دی اور عورت کی عدت بھی گزر گئی، اب کوئی شخص اپنی مرضی سے اس سے نکاح کرتا ہے اور نکاح کے وقت حلالہ کی شرط بھی نہیں رکھی گئی۔ یعنی یوں نہیں کہا گیا کہ تم حقوق زوجیت ادا کرکے اسے طلاق دے دینا کہ پہلے خاوندسے اس کا نکاح کیا جائے۔ البتہ دوسرے آدمی نے دل میں یہ نیت کی کہ چونکہ ان دونوں کے باہمی تعلقات اچھے تھے ، ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں،لہٰذا اگر میں اس عورت سے نکاح کرلوں اور پھر اسے طلاق دے دوں تاکہ پہلا خاوند اس سے نکاح کرلے اور یوں وہ اجڑا ہوا گھر دوبارہ آباد ہوجائے تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
حلال کی تین صورتیں ہیں۔
پہلی صورت
جس عورت کو تین طلاقیں دی گئیں وہ عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے۔ پھر خاوند حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد جب چاہے اپنی مرضی سے طلاق دے۔ اب عدت گزرنے کے بعد اس عورت کا پہلے خاوند سے نکاح ہوجائے، گویا یہاں حلالہ کیا نہیں جاتا بلکہ ہوجاتا ہے۔
حلالے کی اس صورت کا قرآن پاک میں ذکر ہے (جیسے آپ گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں) اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے کہ یہ صورت بلاکراہت جائز ہے۔ عورت کا دوسری جگہ نکاح کرنا بھی صحیح ہے اور جب وہ خاوند طلاق دے دے تو اب عدت گزارنے کے بعد وہ پہلے خاوند سے نکاح بھی کرسکتی ہے۔
یہ صورت چونکہ عقلاً نقلاً صحیح ہے، اور قرآن و حدیث سے ثابت بھی ہے، لہٰذا اسے بھی ناجائز یا بے حیائی کا باعث قرار دینا نہ صرف جہالت ہے بلکہ کھلم کھلا قرآن کی مخالفت ہے۔
دوسری صورت
جب خاوند نے طلاق دے دی اور عورت کی عدت بھی گزر گئی، اب کوئی شخص اپنی مرضی سے اس سے نکاح کرتا ہے اور نکاح کے وقت حلالہ کی شرط بھی نہیں رکھی گئی۔ یعنی یوں نہیں کہا گیا کہ تم حقوق زوجیت ادا کرکے اسے طلاق دے دینا کہ پہلے خاوندسے اس کا نکاح کیا جائے۔ البتہ دوسرے آدمی نے دل میں یہ نیت کی کہ چونکہ ان دونوں کے باہمی تعلقات اچھے تھے ، ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں،لہٰذا اگر میں اس عورت سے نکاح کرلوں اور پھر اسے طلاق دے دوں تاکہ پہلا خاوند اس سے نکاح کرلے اور یوں وہ اجڑا ہوا گھر دوبارہ آباد ہوجائے تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
#…مالکی فقہ کے مطابق اس نیت سے کیا گیا نکاح فاسد ہوگا۔ جماع کیا گیا یا نہیں، دونوں صورتوں میں تفریق ضروری ہے۔
#… شافعی فقہ کے مطابق یہ نکاح صحیح ہوگا، اگرچہ کچھ دوسری شرائط کا خیال رکھنا ہوگا، لیکن محض اس نیت کی وجہ سے یہ نکاح فاسد نہیں ہوگا۔
#… حنبلی فقہ کے مطابق یہ نکاح باطل ہے۔ ان کے نزدیک تحلیل (حلالہ) کی شرط اور نیت دونوں برابرہیں۔
#… جبکہ فقہ حنفی کے مطابق یہ نکاح صحیح قرار پاتا ہے ، اگر کچھ دیگر شرائط کا خیال رکھاجائے:
والحاصل ان التحلیل اذا سلم من ھذہ المحظورات وکان مقصوداً بہ الصلح بین الرجل ومطلقتہ فانہ جائز، ولصاحبہ اجرن الذی یصلح بین الزوجین، واما اذا کان لغرض من الاغراض السابقة فانہ یکون مکروھا تحریما ویکون اثمہ علی کل من اشترک فیہ سوآء کان الزوج الثانی اوالمطلِّق اوالمرأة (عبدالرحمن الحریری الفقہ علی المذاہب الاربعة ۴/۸)
خلاصہ یہ ہے کہ جب حلالہ ان ممنوعات سے محفوظ ہو اور اس کا مقصود اس مرد (پہلے خاوند) اور اس کی مطلقہ بیوی کے درمیان صلح کرانا ہو تو یہ جائز ہے اور ایسے شخص کو اس آدمی کی طرح اجر ملے جو میاں بیوی میں صلح کراتا ہے۔لیکن جب کوئی دوسری غرض ہو (جو اغراض کتاب الفقہ میں اس عبارت سے پہلے سے بیان ہوئی ہیں) تو مکروہ تحریمی ہے اور اس عمل میں جو لوگ شریک ہوں گے وہ گنہگار ہوں گے،وہ دوسرا خاوندہو یا طلاق دینے والا مرد یا عورت۔
اگر دوسرے شخص نے صرف اس نیت سے نکاح کرنے کے بعد طلاق دے دی کہ ان کا گھر بس جائے تو یقینا یہ کام باعث ثواب ہے، گویا وہ شخص میاں بیوی میں صلح کرانا چاہتا ہے لیکن چونکہ قرآنی تعلیم کے مطابق جب تک دوسری جگہ نکاح نہ ہوجائے وہ عورت دوبارہ پہلے خاوند کے نکاح میں نہیں آسکتی، اس لئے اسے مجبوراً نکاح کرنا پڑا۔
البتہ اگر وہ اس نیت سے نکاح کرتا ہے کہ اپنی شہوت کو پورا کرے اور پھر طلاق دے دے تو ایسا کرنا مکروہ ہے۔ اگرچہ نکاح بھی ہوجائے گا اور اب طلاق کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال بھی ہوجائے گی۔ علاوہ ازیں اگر وہ شخص لوگوں میں حلالہ کرنے والا مشہور ہے تو اگرچہ اب اس کی نیت صحیح بھی ہو اس کے لئے نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ اگرچہ نکاح ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر وہ اس نکاح پر اجرت مقرر کرتا ہے تو اس کا یہ عمل بھی حرام ہے اور حدیث پاک کی رو سے وہ لعنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المحلل والمحلل لہ (جامع ترمذی باب ماجاء فی المحلل والمحل لہ ص ۱۸۰)
#… شافعی فقہ کے مطابق یہ نکاح صحیح ہوگا، اگرچہ کچھ دوسری شرائط کا خیال رکھنا ہوگا، لیکن محض اس نیت کی وجہ سے یہ نکاح فاسد نہیں ہوگا۔
#… حنبلی فقہ کے مطابق یہ نکاح باطل ہے۔ ان کے نزدیک تحلیل (حلالہ) کی شرط اور نیت دونوں برابرہیں۔
#… جبکہ فقہ حنفی کے مطابق یہ نکاح صحیح قرار پاتا ہے ، اگر کچھ دیگر شرائط کا خیال رکھاجائے:
والحاصل ان التحلیل اذا سلم من ھذہ المحظورات وکان مقصوداً بہ الصلح بین الرجل ومطلقتہ فانہ جائز، ولصاحبہ اجرن الذی یصلح بین الزوجین، واما اذا کان لغرض من الاغراض السابقة فانہ یکون مکروھا تحریما ویکون اثمہ علی کل من اشترک فیہ سوآء کان الزوج الثانی اوالمطلِّق اوالمرأة (عبدالرحمن الحریری الفقہ علی المذاہب الاربعة ۴/۸)
خلاصہ یہ ہے کہ جب حلالہ ان ممنوعات سے محفوظ ہو اور اس کا مقصود اس مرد (پہلے خاوند) اور اس کی مطلقہ بیوی کے درمیان صلح کرانا ہو تو یہ جائز ہے اور ایسے شخص کو اس آدمی کی طرح اجر ملے جو میاں بیوی میں صلح کراتا ہے۔لیکن جب کوئی دوسری غرض ہو (جو اغراض کتاب الفقہ میں اس عبارت سے پہلے سے بیان ہوئی ہیں) تو مکروہ تحریمی ہے اور اس عمل میں جو لوگ شریک ہوں گے وہ گنہگار ہوں گے،وہ دوسرا خاوندہو یا طلاق دینے والا مرد یا عورت۔
اگر دوسرے شخص نے صرف اس نیت سے نکاح کرنے کے بعد طلاق دے دی کہ ان کا گھر بس جائے تو یقینا یہ کام باعث ثواب ہے، گویا وہ شخص میاں بیوی میں صلح کرانا چاہتا ہے لیکن چونکہ قرآنی تعلیم کے مطابق جب تک دوسری جگہ نکاح نہ ہوجائے وہ عورت دوبارہ پہلے خاوند کے نکاح میں نہیں آسکتی، اس لئے اسے مجبوراً نکاح کرنا پڑا۔
البتہ اگر وہ اس نیت سے نکاح کرتا ہے کہ اپنی شہوت کو پورا کرے اور پھر طلاق دے دے تو ایسا کرنا مکروہ ہے۔ اگرچہ نکاح بھی ہوجائے گا اور اب طلاق کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال بھی ہوجائے گی۔ علاوہ ازیں اگر وہ شخص لوگوں میں حلالہ کرنے والا مشہور ہے تو اگرچہ اب اس کی نیت صحیح بھی ہو اس کے لئے نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ اگرچہ نکاح ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر وہ اس نکاح پر اجرت مقرر کرتا ہے تو اس کا یہ عمل بھی حرام ہے اور حدیث پاک کی رو سے وہ لعنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المحلل والمحلل لہ (جامع ترمذی باب ماجاء فی المحلل والمحل لہ ص ۱۸۰)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
اگرچہ نکاح اس صور ت میں بھی ہوجائے گا لیکن یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص نر جانور اس مقصد کے لئے رکھتا ہے اور مادہ جانور کے مالک سے اس عمل کی اجرت وصول کرتا ہے تو یہ بھی حرام ہے۔ اسی طرح انسان جماع پر اجرت لے تو یہ بھی حرام ہے۔ (عبدالرحمن حریری ، الفقہ علی المذاہب الاربعة ۴/۷۹)
تیسری صورت
حلالہ کی تیسری صورت یہ ہے کہ جب اس مطلقہ سے نکاح کیا جائے تویہ شرط رکھی جائے کہ دوسرا خاوند جماع کے بعد اسے طلاق دے گا تاکہ وہ پہلے خاوند سے نکاح کرسکے۔ یہ طریقہ اختیار کرنا تمام آئمہ کرام کے نزدیک حرام ہے، کیونکہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ لہذا اس سے قطع نظر کہ یہ نکاح ہوگیا اور اب طلاق کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوگئی یا نہیں؟ یہ بات بہرحال قطعی ہے کہ اس شرط کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور جولوگ اس میں شریک ہیں وہ سب لعنت کے مستحق ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو ا س سے بچنا چاہئے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس طرح کرلیتا ہے تو کیا نکاح ہوجائے گا؟… کیا اب دوسرے خاوند پر اس شرط کی پابندی ضروری ہے؟… اور کیا دوسرے خاوند کے طلاق دینے کے بعد عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے گی؟
ہم اس سلسلے میں چاروں آئمہ کا مسلک مع دلائل نقل کرکے حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے موقف کا ترجیحاً ذکر کریں گے۔
فقہ مالکی
حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ اور آپ کے مقلدین کے نزدیک تحلیل (حلالہ) کی شرط سے نکاح کیا جائے تو وہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نکاح کا مقصد ان دونوں کا ہمیشہ اکٹھے رہنا ہے اور یہی نکاح کی بنیادی شرط ہے۔ چونکہ حلال کی شرط رکھنے سے یہ بنیادی شرط ختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ نکاح منعقد نہیں ہوگا اور نہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوگی۔ (عبدالرحمن حریری، الفقہ علی المذاہب الاربعة ۴/۸۱۔۸۰)۔
فقہ شافعی
حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے نزدیک جب نکاح کرتے وقت تحلیل کی شرط رکھی جائے، مثلاً وہ یوں کہے کہ میں نے فلاں عورت سے اس شرط پرنکاح کیا کہ وہ طلاق دینے والے (پہلے خاوند) کے لئے حلال ہوجائے یا یوں کہے کہ میں اس شرط پر نکاح کرتا ہوں کہ وطی کرنے کے بعد اسے طلاق ہوجائے گی یا جدا ہوجائے گی تو یہ نکاح باطل ہے۔ لہٰذ ا اب وہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی، امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے نزدیک اس قسم کی شرط سے نکاح فاسد ہوجاتا ہے اور حلالہ کے لئے نکاح صحیح ضروری ہے۔لہٰذا یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی۔
اگرچہ نکاح اس صور ت میں بھی ہوجائے گا لیکن یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص نر جانور اس مقصد کے لئے رکھتا ہے اور مادہ جانور کے مالک سے اس عمل کی اجرت وصول کرتا ہے تو یہ بھی حرام ہے۔ اسی طرح انسان جماع پر اجرت لے تو یہ بھی حرام ہے۔ (عبدالرحمن حریری ، الفقہ علی المذاہب الاربعة ۴/۷۹)
تیسری صورت
حلالہ کی تیسری صورت یہ ہے کہ جب اس مطلقہ سے نکاح کیا جائے تویہ شرط رکھی جائے کہ دوسرا خاوند جماع کے بعد اسے طلاق دے گا تاکہ وہ پہلے خاوند سے نکاح کرسکے۔ یہ طریقہ اختیار کرنا تمام آئمہ کرام کے نزدیک حرام ہے، کیونکہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ لہذا اس سے قطع نظر کہ یہ نکاح ہوگیا اور اب طلاق کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوگئی یا نہیں؟ یہ بات بہرحال قطعی ہے کہ اس شرط کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور جولوگ اس میں شریک ہیں وہ سب لعنت کے مستحق ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو ا س سے بچنا چاہئے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس طرح کرلیتا ہے تو کیا نکاح ہوجائے گا؟… کیا اب دوسرے خاوند پر اس شرط کی پابندی ضروری ہے؟… اور کیا دوسرے خاوند کے طلاق دینے کے بعد عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے گی؟
ہم اس سلسلے میں چاروں آئمہ کا مسلک مع دلائل نقل کرکے حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے موقف کا ترجیحاً ذکر کریں گے۔
فقہ مالکی
حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ اور آپ کے مقلدین کے نزدیک تحلیل (حلالہ) کی شرط سے نکاح کیا جائے تو وہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نکاح کا مقصد ان دونوں کا ہمیشہ اکٹھے رہنا ہے اور یہی نکاح کی بنیادی شرط ہے۔ چونکہ حلال کی شرط رکھنے سے یہ بنیادی شرط ختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ نکاح منعقد نہیں ہوگا اور نہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوگی۔ (عبدالرحمن حریری، الفقہ علی المذاہب الاربعة ۴/۸۱۔۸۰)۔
فقہ شافعی
حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے نزدیک جب نکاح کرتے وقت تحلیل کی شرط رکھی جائے، مثلاً وہ یوں کہے کہ میں نے فلاں عورت سے اس شرط پرنکاح کیا کہ وہ طلاق دینے والے (پہلے خاوند) کے لئے حلال ہوجائے یا یوں کہے کہ میں اس شرط پر نکاح کرتا ہوں کہ وطی کرنے کے بعد اسے طلاق ہوجائے گی یا جدا ہوجائے گی تو یہ نکاح باطل ہے۔ لہٰذ ا اب وہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی، امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے نزدیک اس قسم کی شرط سے نکاح فاسد ہوجاتا ہے اور حلالہ کے لئے نکاح صحیح ضروری ہے۔لہٰذا یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی۔
فقہ حنبلی
حنبلی فقہ کے مطابق دوسرے نکاح میں حلالہ کی نیت شامل ہو یا واضح طور پر حلالہ کی شرط رکھی جائے، دونوں صورتوں میں نکاح باطل ہوجائے گا اور یہ عور ت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی، ان کی دلیل سنن ابن ماجہ کی یہ روایت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الا اخبرکم بالتیس المستعار
کیا میں تمہیں ادھار لئے ہوئے سانڈھ کی خبر نہ دوں؟
صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہاں کیوں نہیں (آپ ﷺہمیں بتائیں)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ محلل ہے اور اللہ تعالیٰ نے محلل (حلالہ کرنے والے) اور (محلل لہ‘) جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
(عبدالرحمن حریری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ ۴/۸۱۔۸۰)
فقہ حنفی
تحلیل (حلالہ) کی شرط پر کیا گیا نکاح حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مکروہ ہے۔ لیکن فاسد نہیں ہوتا اور اس کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجاتی ہے۔
واذا تزوجھا بشرط التحلیل فالنکاح مکروہ لقولہ علیہ السلام لعن اللہ المحلل والمحلل لہ وھذا ھو محملہ فان طلقھا بعد وطیھا حلت للاول لوجود الدخول فی نکاح صحیح یا یبطل بالشرط (ہدایہ، فصل فیما تحل بہ المطلقة ۱/۳۸۰)
اور جب اس عورت سے تحلیل (حلالہ) کی شرط پر نکاح کرے تو یہ مکروہ ہے، کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور حدیث کا یہی مطلب ہے کہ (نکاح مکروہ ہو نہ یہ کہ سرے سے منعقد ہی نہ ہو) پھر جب وہ اس کو جماع کے بعد طلاق دے تو اب وہ پہلے خاوندکے لئے حلال ہوگئی، کیونکہ نکاح صحیح میں جماع پایا گیا جو کسی شرط کی وجہ سے باطل نہیں ہوتا (لہٰذا حلالہ کی شرط سے بھی باطل نہیں ہوگا)۔
حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک چونکہ نکاح موقت نکاح کی طرح ہے۔ لہٰذا فاسد ہے اور اس فساد کی وجہ سے یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی۔ جبکہ حضرت امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہوتا ہے، کیونکہ نکاح کسی شرط سے باطل نہیں ہوتا، البتہ یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی، کیونکہ جس چیز کو شریعت نے موخر کیاتھا ، اس نے اس میں جلدی کی۔ لہٰذا مقصود نکاح میں رکاوٹ کی وجہ سے اسے یہ سزا دی جائے گی، جیسے کوئی شخص اپنے مورث (جس کا یہ وارث ہے) کو قتل کردے تو وہ وراثت سے محروم ہوجاتاہے (کیونکہ وراثت حاصل کرنے میں اس نے جلدی کی ہے)۔ (ہدایہ۔ فصل فیماتحل بہ المطلقة ۱/۳۸۰)
حنبلی فقہ کے مطابق دوسرے نکاح میں حلالہ کی نیت شامل ہو یا واضح طور پر حلالہ کی شرط رکھی جائے، دونوں صورتوں میں نکاح باطل ہوجائے گا اور یہ عور ت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی، ان کی دلیل سنن ابن ماجہ کی یہ روایت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الا اخبرکم بالتیس المستعار
کیا میں تمہیں ادھار لئے ہوئے سانڈھ کی خبر نہ دوں؟
صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہاں کیوں نہیں (آپ ﷺہمیں بتائیں)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ محلل ہے اور اللہ تعالیٰ نے محلل (حلالہ کرنے والے) اور (محلل لہ‘) جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
(عبدالرحمن حریری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ ۴/۸۱۔۸۰)
فقہ حنفی
تحلیل (حلالہ) کی شرط پر کیا گیا نکاح حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مکروہ ہے۔ لیکن فاسد نہیں ہوتا اور اس کے بعد وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجاتی ہے۔
واذا تزوجھا بشرط التحلیل فالنکاح مکروہ لقولہ علیہ السلام لعن اللہ المحلل والمحلل لہ وھذا ھو محملہ فان طلقھا بعد وطیھا حلت للاول لوجود الدخول فی نکاح صحیح یا یبطل بالشرط (ہدایہ، فصل فیما تحل بہ المطلقة ۱/۳۸۰)
اور جب اس عورت سے تحلیل (حلالہ) کی شرط پر نکاح کرے تو یہ مکروہ ہے، کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور حدیث کا یہی مطلب ہے کہ (نکاح مکروہ ہو نہ یہ کہ سرے سے منعقد ہی نہ ہو) پھر جب وہ اس کو جماع کے بعد طلاق دے تو اب وہ پہلے خاوندکے لئے حلال ہوگئی، کیونکہ نکاح صحیح میں جماع پایا گیا جو کسی شرط کی وجہ سے باطل نہیں ہوتا (لہٰذا حلالہ کی شرط سے بھی باطل نہیں ہوگا)۔
حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک چونکہ نکاح موقت نکاح کی طرح ہے۔ لہٰذا فاسد ہے اور اس فساد کی وجہ سے یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی۔ جبکہ حضرت امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہوتا ہے، کیونکہ نکاح کسی شرط سے باطل نہیں ہوتا، البتہ یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی، کیونکہ جس چیز کو شریعت نے موخر کیاتھا ، اس نے اس میں جلدی کی۔ لہٰذا مقصود نکاح میں رکاوٹ کی وجہ سے اسے یہ سزا دی جائے گی، جیسے کوئی شخص اپنے مورث (جس کا یہ وارث ہے) کو قتل کردے تو وہ وراثت سے محروم ہوجاتاہے (کیونکہ وراثت حاصل کرنے میں اس نے جلدی کی ہے)۔ (ہدایہ۔ فصل فیماتحل بہ المطلقة ۱/۳۸۰)
حضرت امام محمد رحمہ اللہ اس اعتبار سے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے متفق ہیں کہ یہ نکاح ہوجاتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک شرائط، نکاح کے انعقاد پر اثر انداز نہیں ہوتیں، لیکن چونکہ نکاح ایک ایسا عمل ہے جو خاوند کی موت تک برقرار رہنا چاہئے اور یہاں پہلے ہی ختم کردیا گیا، لہذا پہلے خاوند کو یہ سزا دی جائے کہ وہ عورت اس کے لئے حلال نہ ہو۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے دلائل
چونکہ تین طلاقوں کے بعد مطلقہ عورت سے رجوع نہیں ہوسکتا لہٰذا:
(۱)… اب وہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں اور جب پہلے خاوند کے لئے فی الحال حلال نہیں توکسی دوسری جگہ اس کا نکاح ہوسکتا ہے۔
(۲) …دوسرا آدمی جو اس عورت سے نکاح کررہا ہے وہ اس کے محارم میں سے بھی نہیں ہے اور عاقل و بالغ آدمی ہے جسے اپنی ذات پر ولایت حاصل ہے۔
(۳) …نیز عورت خود اپنے نفس پرولایت رکھتی ہے اب جب وہ خود نکاح کرے یا اس کا ولی نکاح کرکے دے دونوں صورتوں میں اسے اس نکاح کا حق حاصل ہے۔
(۴) …فقہ حنفی کے مطابق نکاح میں کوئی شرط رکھی جائے تو اس شرط کا صحیح یا غلط ہونا اپنی جگہ پر ہے، لیکن نکاح بہرحال صحیح قرار پاتا ہے۔
اب جب دوسرا خاوند اسے اپنی مرضی سے طلاق دے دیتا ہے اور اس سے پہلے وہ حقوق زوجیت ادا کرچکا ہے، تو قرآن پاک کی درج ذیل آیت کے مطابق اس عورت کا پہلے خاوند سے نکاح جائز ہے۔
فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا ان ظنا ان یقیما حدوداللہ وتلک حدود اللہ یبینھا لقوم یعلمون (سورہٴ بقرہ ۲/۲۳۰)
پس اگر وہ (دوسرا خاوند) اسے طلاق دے تو ان دونوں (پہلے خاوند اور عورت) پر کوئی حرج نہیں کہ وہ رجوع کریں۔ اگر وہ سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں جنہیں وہ علم والی قوم کے لئے بیان کرتا ہے۔
حضرت امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اما قولہ (فان طلقھا) فالمعنی ان طلقھا الزوج الثانی الذی تزوجھا بعد الطلقة الثالثة لانہ تعالیٰ قد ذکرہ بقولہ حتی تنکح زوجاً غیرہ (فخر الدین رازی، تفسیر کبیر ۶/۱۱۳)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی (فان طلقھا) کا مطلب یہ ہے کہ اگر دوسرا خاوند جس نے تیسری طلاق کے بعد نکاح کیا تھا اسے طلاق دے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا ”یہاں تک کہ وہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے۔“
مطلب یہ ہے کہ یہاں طلاق دینے والے مرد کا رجوع مراد نہیں بلکہ رجوع سے نکاح جدید مراد ہے اور رجوع اصطلاحی نہیں بلکہ لغوی ہے۔ امام رازی علیہ الرحمة نے فرمایا:
امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے دلائل
چونکہ تین طلاقوں کے بعد مطلقہ عورت سے رجوع نہیں ہوسکتا لہٰذا:
(۱)… اب وہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں اور جب پہلے خاوند کے لئے فی الحال حلال نہیں توکسی دوسری جگہ اس کا نکاح ہوسکتا ہے۔
(۲) …دوسرا آدمی جو اس عورت سے نکاح کررہا ہے وہ اس کے محارم میں سے بھی نہیں ہے اور عاقل و بالغ آدمی ہے جسے اپنی ذات پر ولایت حاصل ہے۔
(۳) …نیز عورت خود اپنے نفس پرولایت رکھتی ہے اب جب وہ خود نکاح کرے یا اس کا ولی نکاح کرکے دے دونوں صورتوں میں اسے اس نکاح کا حق حاصل ہے۔
(۴) …فقہ حنفی کے مطابق نکاح میں کوئی شرط رکھی جائے تو اس شرط کا صحیح یا غلط ہونا اپنی جگہ پر ہے، لیکن نکاح بہرحال صحیح قرار پاتا ہے۔
اب جب دوسرا خاوند اسے اپنی مرضی سے طلاق دے دیتا ہے اور اس سے پہلے وہ حقوق زوجیت ادا کرچکا ہے، تو قرآن پاک کی درج ذیل آیت کے مطابق اس عورت کا پہلے خاوند سے نکاح جائز ہے۔
فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا ان ظنا ان یقیما حدوداللہ وتلک حدود اللہ یبینھا لقوم یعلمون (سورہٴ بقرہ ۲/۲۳۰)
پس اگر وہ (دوسرا خاوند) اسے طلاق دے تو ان دونوں (پہلے خاوند اور عورت) پر کوئی حرج نہیں کہ وہ رجوع کریں۔ اگر وہ سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں جنہیں وہ علم والی قوم کے لئے بیان کرتا ہے۔
حضرت امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اما قولہ (فان طلقھا) فالمعنی ان طلقھا الزوج الثانی الذی تزوجھا بعد الطلقة الثالثة لانہ تعالیٰ قد ذکرہ بقولہ حتی تنکح زوجاً غیرہ (فخر الدین رازی، تفسیر کبیر ۶/۱۱۳)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی (فان طلقھا) کا مطلب یہ ہے کہ اگر دوسرا خاوند جس نے تیسری طلاق کے بعد نکاح کیا تھا اسے طلاق دے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا ”یہاں تک کہ وہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے۔“
مطلب یہ ہے کہ یہاں طلاق دینے والے مرد کا رجوع مراد نہیں بلکہ رجوع سے نکاح جدید مراد ہے اور رجوع اصطلاحی نہیں بلکہ لغوی ہے۔ امام رازی علیہ الرحمة نے فرمایا:
فذکر لفظ النکاح بلفظ التراجع لان الزوجیة کانت حاصلة بینھما قبل ذلک فاذاتنا کحا فقد تراجعا الیٰ ماکانا علیہ من النکاح فھذا تراجع لغوی (فخر الدین رازی، تفسیر کبیر ۶/۱۱۳)۔
اللہ تعالیٰ نے نکاح کا ذکر لفظ تراجع (رجوع) کے ساتھ کیا۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان زوجیت پہلے سے حاصل ہے۔ پس جب وہ نکاح کریں گے تو پہلے والی حالت یعنی نکاح کی طرف لوٹ آئیں گے، لہٰذا یہ لغوی رجوع ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک تحلیل کی شرط باوجود یہ نکاح اس لئے صحیح قرار پاتا ہے کہ آپ کے نزدیک کسی بھی شرط سے نکاح فاسد نہیں ہوتا اورنکاح کے ارکان ایجاب و قبول اور شرط یعنی گواہوں کا حاضر ہونا دونوں باتیں پائی گئیں، لہٰذا یہ نکاح صحیح قرار پایا۔
اللہ تعالیٰ نے نکاح کا ذکر لفظ تراجع (رجوع) کے ساتھ کیا۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان زوجیت پہلے سے حاصل ہے۔ پس جب وہ نکاح کریں گے تو پہلے والی حالت یعنی نکاح کی طرف لوٹ آئیں گے، لہٰذا یہ لغوی رجوع ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک تحلیل کی شرط باوجود یہ نکاح اس لئے صحیح قرار پاتا ہے کہ آپ کے نزدیک کسی بھی شرط سے نکاح فاسد نہیں ہوتا اورنکاح کے ارکان ایجاب و قبول اور شرط یعنی گواہوں کا حاضر ہونا دونوں باتیں پائی گئیں، لہٰذا یہ نکاح صحیح قرار پایا۔
Thursday, November 29, 2012
الوداع اور استقبا ل کے لمحات
خاوند کا استقبال باہر کی پر یشانیوں کو ختم کر دیتا ہے ۔ یہ استقبا ل اور الوداع یوں سمجھئے کہ عورت کی ازدواجی زندگی پر تو واجب کی ما نند ہے۔
عرب عورتوں سے ایک مر تبہ سوال پو چھا گیا کہ تم اپنے خا وند کو الو داع کر تے ہوئے کیا کہتی ہو ۔ تو مختلف عورتوں نے اپنے مختلف الفاظ بیان کئے ۔
ایک کہنے لگی۔ کہ ﴿فی امان اللہ فی جوار اللہ ﴾ میں یو ں کہتی ہوں ۔
دوسری نے کہا کہ میں کہتی ہوں ۔﴿یا رب اعدہ لی سریعا و سلیما﴾
” اے اللہ !ان کو جلد ی سلامتی کے ساتھ واپس لوٹا دینا ۔
ایک نے کہا نے میں تو یوں کہتی ہوں :
﴿یا رب احفظہ لی انہ زوج مثالی واب لا یعود اطفا لی﴾
” اے اللہ ان کی حفا ظت کر نا ۔ یہ میرے مثا لی خا وند ہیں ۔ اور میرے بچوں کے ایسے باپ ہیں کہ ان کا کوئی نعم البدل نہیں۔
ایک نے کہا کہ میں تو اپنے خاوند کو الوادع ہو تے ہو ئے کہتی ہوں :
﴿ھل سیعو د لی ثا نیة﴾
” ایسا مکھڑا دوبا رہ دیکھنے کی مجھے کب سعادت ملے گی“۔
ایک نے کہا کہ میں تو کہتی ہوں :
﴿اتق اللہ فینا ولا تطعمنا الا حلا لا ﴾
” آپ اللہ سے ڈریے گا اور ہمیں وہی لا کر دیجئے گا جو حلا ل ہو ۔“
تو کیا ہماری عورتیں بھی اس قسم کا کو ئی پیغام اپنے خا وند کو دیتی ہیں ۔ ان کو تو پتہ ہی نہیں ہو تا کہ خاوند تیا رہوکر کب چلاگیا اور کب گھر میں آگیا ۔ یا د رکھنا جب اپنوں سے کوئی قصور ہو تا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ اپنا بھی قصور ہو تا ہے۔ اگر خاوند آپ کی طرف توجہ نہیں کر تا تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ نہ کچھ قصور تو آپ کا بھی ہے ۔ مانا کی خاوند کا قصور زیادہ ہے مگر تھوڑا سہی، ہے تو آپ کا بھی ۔
استقبا ل کا ایک انو کھا واقعہ
اے میری مسلمان بہن!
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات کے واقعات میں سے ایک واقعہ پڑ ھ لیجئے۔ کہ جب ان کے خاوند گھر لو ٹتے تھے تو وہ ان کاکس قدر اچھا استقبال کر تی تھیں ۔
یہ ایک جلیل القدر اور عظیم المر تبت صحا بیہ ہیں جس کانام ہے: ام سلیم رضی اللہ عنہا ۔ یہ معروف صحا بی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہا اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ہیں ۔ انکا بچہ بیماری کی حالت میں فوت ہو گیا تھا جب کہ ان کے خاوند گھر سے باہر تھے ۔ جب ان کے خاوند ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سفر سے واپس آئے اور بیوی سے پو چھا کہ بچے کا کیا حال ہے ، تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے خود ان کو اس بچے کی مو ت کی خبر نہ دی ، بلکہ پہلے اپنے خاوند کو کھانا کھلا یا پھر رات کے وقت انہوں نے حق زوجیت بھی اداکیا اور اس کے بعد بڑی حکمت سے انہیں یہ غمناک خبر سنائی۔
کتب احادیث میں یہ واقعہ اس طرح مذکو رہے :
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بچہ بیمار تھا ۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اسی حالت میں سفر پر نکل پڑے ۔ بعد میں بچہ فوت ہو گیا ۔ جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گھر واپس تشریف لائے تو پو چھا کہ میرے بچے کا کیا حال ہے بچے کی ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بچہ پہلے سے زیادہ سکون میں ہے ۔ پھر اس نیک بیوی نے اپنے خاوند کی خدمت میں شام کاکھا نا پیش کیا تو انہوں نے کھا نا کھالیا ۔ پھر رات کے وقت انہوں نے حقوق زوجیت بھی ادا کئے ۔ جب فا رغ ہو گئے تو نیک بیوی خود اپنے خا وند کو مخا طب ہو کر سوال کر تی ہے کہ اگر کسی نے کسی سے کوئی چیز ادھار مانگی ہو اور جب تک اللہ نے چا ہا وہ ان کے پاس رہی ہو تو پھر جب چیز کے مالک نے اپنی چیز کی واپسی کا مطالبہ کیا ہو تو کیا اس کو حق حا صل ہے کہ وہ اس چیز کو واپس کر نے سے انکار کر ے ؟ یا جب وہ مالک اپنی چیز اپنے قبضے میں کر لے تو کیا اس کی امانت کو واپس کر نے والے کے لیے یہ منا سب ہے کہ وہ اس پر رونا پیٹنا شروع کر دے ؟
اس سوال پر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جو اب دیا: نہیں
پھر نیک بیوی نے کہا کہ آپ کا بیٹابھی دنیا سے چلا گیا ہے (یعنی اللہ نے اپنی یہ امانت ہم سے واپس لے لی ہے۔
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : وہ کدھر ہے ؟ ام سیلم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وہ اس کو ٹھر ی میں ہے ۔ ابو طلحہ نے اس کا چہرہ دیکھا اور ﴿انا للہ وانا الیہ راجعون ﴾ پڑھا ۔ جب صبح ہو ئی تو ابو طلحہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س جاکر اپنی بیوی کی یہ با ت سنا ئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے ، اس عورت کے اپنے بچے پر صبر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے پیٹ میں ایک اور بچہ پیدا کر دیا ہے ۔ سفیان رحمة اللہ علیہ (اس حدیث کے ایک راوی ) بیان کر تے ہیں کہ ایک انصاری شخص سے میں نے سنا، وہ کہتا تھا کہ میں نے ان کے ہاں نو بچے پیدا ہو تے دیکھے اور وہ سب کے سب قرآن مجیدکے قاری تھے “۔ (صحیح بخاری)
اللہ اکبر ! حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کس قدر دانا عورت تھی ۔ کیا کسی مرد کے لیے بھی اس خبر سے بڑھ کر کوئی پر یشان کن خبر ہو گی کہ اس کو اس کے لخت جگر کی موت کی خبر دی جا ئے اور وہ اس پر ام سلیم رضی اللہ عنہا کی طرح حکمت و دانائی کا اظہا ر کر ے ۔ ایسی خبر سے ایک باپ پر کیا گزرتا ہے اور اسے کتنا بڑا صدمہ پہنچتا ہے ۔ لیکن ام سلیم رضی اللہ عنہا کی عظمت کو سلام !کہ وہ خوف و گھبراہٹ میں مبتلا کر دینے والی ایسی خبر میں بھی اللہ کی تقدیر پر رضاو التسلیم کے ساتھ اپنے خاوند کا استقبال کر رہی ہیں ۔
اس واقعہ پر ہر نیک خاتون کو غور کر نا چا ہیے کہ جب ام سلیم رضی اللہ عنہا کے خاوند نے پہلا سوال اپنے بیمار بیٹے کے بارے میں کیا کہ اس کا کیا حال ہے تو ان کی بیوی نے فوراً یہ نہیں کہہ دیا کہ وہ فوت ہو گیا ہے ، بلکہ اس سمجھدار بیوی نے اپنے خاوند کو غم میں ڈالنے والی خبر ہر گز نہیں دی کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ میرا خاوند تھکا وٹ اور پر یشانی کے عالم میں گھر آیا ہے ۔ پھر اس نیک بیوی نے اس وقت غلط بیانی سے بھی کام نہیں لیا بلکہ اس نے خا وند کے سوال کے جو اب میں یہ کہا تھا کہ ” وہ بچہ پہلے سے زیادہ سکون میں ہے “۔
یعنی ام سلیم رضی اللہ عنہا نے سوال کے جواب میں ” تور یہ“ کیا(توریہ ، یہ ہے کہ ایسی بات کہی جا ئے جس کے دو مفہوم ہوں ) کیونکہ وہ بچہ موت کی وجہ سے واقعتا سکون میں پہنچ چکا تھا…!
پھر وہ سمجھدار بیوی اپنے خاوند کو بچے کی موت کی خبر دینے سے پہلے شام کا کھانا کھلا تی ہے کیونکہ اگر وہ اسے کھا نے سے پہلے خبر دے دیتی تو عین ممکن تھا کہ پر یشانی کے عالم میں وہ کھانا بھی نہ کھا تے …!
پھر وہ اپنے خاوند کو حقوق زوجیت اداکر لینے کا بھی مو قع دیتی ہے ۔ پھر اسکے بعد جب وہ سمجھتی ہے کہ میرا خاوند اب اس قابل ہوگیا ہے کہ وہ غم اوررنج والی خبر سن سکے تو پھر بھی وہ نیک بیوی بچے کی خبر دینے کے لیے ایک عجیب مقد مہ با ند ھتی ہے جسے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی قضا و قدر کو تسلیم کر نے کی ایک تمہید تھی چنا نچہ وہ خود اپنے خاوند پر ایک سوال ڈال دیتی ہے ، وہ یہ کہ اگر کسی کے پاس کسی کی کوئی چیز امانت کے طور پر رکھی ہو اور صا حب ِامانت جب اُس سے امانت کی واپسی کا مطالبہ کر ے تو کیا جس کے پا س امانت رکھی ہو ، اسے یہ حق حاصل ہے کہ اما نت واپس کر تے وقت واویلا شروع کر دے ؟
تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ نہیں ، ا س کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ امانت واپس کرتے وقت واویلا کر ے ۔ پھر ا س جواب کے بعد اس نیک صالح بیوی نے خاوند کو بتا یا کہ آپ کا بیٹا بھی جس کی اما نت تھا، اس نے طلب کر لیا ہے…!
Tuesday, November 27, 2012
دفعتاً تین طلاقیں دینے سے تینوں کے واقع ہونے کی وجہ
اگر کوئی نادان طلاق کے اس بہترین طریقہ کو اختیار ہی نہ کرے اور اس کو جاننے کی حد تک بھی معلوم نہ کرے، بے سوچے سمجھے محض جوش غضب میں تین طلاقیں دے بیٹھے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے، دین و شریعت پر کچھ الزام نہیں، وہ خود اپنے اوپر روئے اور اپنے کئے پر آنسو بہائے۔ غلط اور غیر مشروع طریقہ اختیارکرنے کی یہی سزا ہے۔ جب خود ہی اس نے اپنی سارے اختیارات اور شریعت کی دی ہوئی آسانیاں نظر انداز کردیں اور بلاوجہ اور بلاضرورت ختم کردیں تو اب اس کی سز ایہ ہے کہ نہ رجعت ہوسکے اور نہ بغیر دوسری شادی کے آپس میں نکاح ہوسکے۔
بعض لوگ اس مشہور مثل ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کا مصداق ہوتے ہیں اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ دلی ارادہ کے بغیر غصہ میں دینے سے تینوں طلاقیں کیوں ہوگئیں؟ اس کے علاوہ بھی وہ طرح طرح کی باتیں اور اعتراضات کرتے ہیں اور عقل سے کورا ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، ان کا جواب عقلی اور عرفی طور پر تو یہی ہے کہ کسی فعل کا جرم و گناہ ہونا اس کے موثر ہونے میں کہیں بھی منع نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی کو ناحق قتل کرنا جرم بھی ہے اور گناہ عظیم بھی ہے، لیکن اس کے باوجود کوئی شخص نادانی میں کسی کو تین گولیاں مار دے یا غصہ میں تلوار سے مار کر قتل کردے تو جس کو گولی مار کریا تلوار سے قتل کیا گیا وہ تو قتل ہو ہی جاتا ہے۔ اس کی موت تواس کا انتظار نہیں کرتی کہ یہ گولی جائز طریقہ سے ماری گئی ہے یا ناجائز طریقہ سے اور تلوار غصہ میں چلائی گئی ہے یا محبت میں، سمجھ کر ماری گئی ہے یا ناسمجھی میں۔
ایک اور مثال لے لو۔ چوری کرنا باتفاق مذاہب جرم و گناہ ہے مگر جو مال اس طرح غائب کردیا گیا وہ تو ہاتھ سے نکل ہی جاتا ہے۔ یہی حال تمام معاصی اور جرائم کا ہے۔ ان کا جرم و گناہ ہونا ان کے اثر کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتا، تو ایک دم تین طلاقیں دے دینا بے شک جرم و گناہ ہے۔ لیکن کوئی دے گا تو تینوں واقع ہوجائیں گی۔
شرعی جواب یہ ہے کہ متعدد صحیح حدیثوں میں اکٹھی دی جانی والی تین طلاقوں کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے معتبر مانا ہے اور نافذ کیا ہے، اگرچہ اس نامشروع طریقہ سے طلاق کے دینے پر سخت ناراضگی کااظہار بھی فرمایا ہے۔ چنانچہ امام نسائی رحمة اللہ علیہ نے بروایت محمود بن لبیدرحمة اللہ علیہ نقل کیا ہے کہ:
”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے متعلق خبر دی گئی جس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جارہاہے، حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، اتنے میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول ! کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟“ (نسائی شریف، کتاب الطلاق، صفحہ ۹۸ جلد ۲ )
تشریح:
یہ بڑی معتبر، صحیح اور مستند حدیث ہے۔ حافظ ابن القیم رحمة اللہ علیہ نے صحیح علیٰ شرط مسلم قرار دیاہے۔ (زادالمعاد) اور جوہر نقی میں علامہ ماوردی رحمة اللہ علیہ نے اس کی سند صحیح اور ابن کثیررحمة اللہ علیہ نے اسناد جید اور ابن حجررحمة اللہ علیہ نے رواہ موٴثقون فرمایا ہے، اور اس حدیث میں تین طلاقیں بیک وقت دینے پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی ناراضگی کا اظہار فرمایا اور بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس شخص کو مستوجب قتل بھی سمجھا، مگر یہ کہیں منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طلاقوں کو کالعدم یا تین کو ایک طلاق رجعی قرار دے کر بیوی اس کے حوالہ کردی ہو، بلکہ قاضی ابوبکر بن عربی رحمة اللہ علیہ نے یہ الفاظ بھی اس حدیث کے متعلق نقل کئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تینوں طلاقوں کو نافذ فرمادیا تھا۔
ان تمام احادیث سے یہ ثابت ہوگیا کہ بیک وقت تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں کالعدم کرنے کی کوشش کرنا یا تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی قرار دینا محض جہالت ہے اور ایسا کرنے سے حرام حلال نہیں ہوسکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح نکاح ایک اہم معاملہ ہے اور اس کے لئے عرصہ سے تیاریاں کی جاتی ہیں اور بڑے غور و فکر اور بہت سوچ سمجھ کر شرعی طریقہ سے کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح طلاق کا معاملہ بھی بڑا اہم معاملہ ہے، بلکہ بعض اعتبار سے نکاح سے بھی زیادہ اہم اور نازک معاملہ ہے اور شریعت اسلامیہ نے اس کا بھی طریقہ بتلایا ہے ۔ اس طریقے کو اختیار کرنا لازم و واجب ہے، اس کو فراموش کرکے طلاق کے سلسلے میں اپنے آپ کو آزاد سمجھنا اور بے سوچے سمجھے جوش غضب میں بے دھڑک طلاق کا استعمال کرنا نہ صرف ناجائز اور گناہ ہے بلکہ معاشرتی طور پر بھی اس کے نتائج بڑے تشویشناک اور پریشان کن ہیں۔ سلامتی اور عافیت صرف اسی طریقہ میں ہے جو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمایا ہے، ضرورت شدیدہ میں اسی طریقہ پر عمل کرنا چاہئے اور غلط روش سے توبہ کرکے ہمیشہ کے لئے اجتناب کرنا چاہئے۔
آپ کی معلومات کے لئے قدرے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ لہذا ان معلومات سے غفلت ہرگز نہ برتی جائے اور خاص طور پر نیچے لکھی گئی باتوں کو بار بار پڑھیں، بلکہ خوب یاد کرلیں اور اپنے دوست احباب کو بھی بتائیں۔
(۱)… جہاں تک ہوسکے طلاق دینے سے پرہیز کیا جائے۔
(۲) …اگر طلاق دینا ضروری ہو تو صرف ایک طلاق دی جائے اور خاوند اپنی بیوی سے یوں کہے ”میں نے تجھے ایک طلاق دی۔“
یہ بڑی معتبر، صحیح اور مستند حدیث ہے۔ حافظ ابن القیم رحمة اللہ علیہ نے صحیح علیٰ شرط مسلم قرار دیاہے۔ (زادالمعاد) اور جوہر نقی میں علامہ ماوردی رحمة اللہ علیہ نے اس کی سند صحیح اور ابن کثیررحمة اللہ علیہ نے اسناد جید اور ابن حجررحمة اللہ علیہ نے رواہ موٴثقون فرمایا ہے، اور اس حدیث میں تین طلاقیں بیک وقت دینے پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی ناراضگی کا اظہار فرمایا اور بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس شخص کو مستوجب قتل بھی سمجھا، مگر یہ کہیں منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طلاقوں کو کالعدم یا تین کو ایک طلاق رجعی قرار دے کر بیوی اس کے حوالہ کردی ہو، بلکہ قاضی ابوبکر بن عربی رحمة اللہ علیہ نے یہ الفاظ بھی اس حدیث کے متعلق نقل کئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تینوں طلاقوں کو نافذ فرمادیا تھا۔
ان تمام احادیث سے یہ ثابت ہوگیا کہ بیک وقت تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں کالعدم کرنے کی کوشش کرنا یا تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی قرار دینا محض جہالت ہے اور ایسا کرنے سے حرام حلال نہیں ہوسکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح نکاح ایک اہم معاملہ ہے اور اس کے لئے عرصہ سے تیاریاں کی جاتی ہیں اور بڑے غور و فکر اور بہت سوچ سمجھ کر شرعی طریقہ سے کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح طلاق کا معاملہ بھی بڑا اہم معاملہ ہے، بلکہ بعض اعتبار سے نکاح سے بھی زیادہ اہم اور نازک معاملہ ہے اور شریعت اسلامیہ نے اس کا بھی طریقہ بتلایا ہے ۔ اس طریقے کو اختیار کرنا لازم و واجب ہے، اس کو فراموش کرکے طلاق کے سلسلے میں اپنے آپ کو آزاد سمجھنا اور بے سوچے سمجھے جوش غضب میں بے دھڑک طلاق کا استعمال کرنا نہ صرف ناجائز اور گناہ ہے بلکہ معاشرتی طور پر بھی اس کے نتائج بڑے تشویشناک اور پریشان کن ہیں۔ سلامتی اور عافیت صرف اسی طریقہ میں ہے جو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمایا ہے، ضرورت شدیدہ میں اسی طریقہ پر عمل کرنا چاہئے اور غلط روش سے توبہ کرکے ہمیشہ کے لئے اجتناب کرنا چاہئے۔
آپ کی معلومات کے لئے قدرے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ لہذا ان معلومات سے غفلت ہرگز نہ برتی جائے اور خاص طور پر نیچے لکھی گئی باتوں کو بار بار پڑھیں، بلکہ خوب یاد کرلیں اور اپنے دوست احباب کو بھی بتائیں۔
(۱)… جہاں تک ہوسکے طلاق دینے سے پرہیز کیا جائے۔
(۲) …اگر طلاق دینا ضروری ہو تو صرف ایک طلاق دی جائے اور خاوند اپنی بیوی سے یوں کہے ”میں نے تجھے ایک طلاق دی۔“
(۳)… اگر کسی وجہ سے یہ طلاق دے دی ہے تو کوشش کی جائے کہ عدت کے اندر اندر رجوع کرلیا جائے اور آئندہ کے لئے احتیاط سے کام لیا جائے اور اب یہ صرف دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو باہم اتحاد و اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کرنے اور طلاق جیسی ناپسندیدہ چیز سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ نبیہ الکریم۔
حلالہ کی شرعی حیثیت
ارشاد خداوندی ہے:
فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ
(سورہٴ بقرہ ۲/۲۳۰)
پس اگر وہ اسے تیسری طلاق بھی دے دے تو اس کے بعد وہ عورت اس (پہلے خاوند) کے لئے حلال نہ ہوگی جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے۔
قرآن پاک کی اس آیت میں جو عمل بتایا گیا ہے اسے ”حلالہ“ کہا جاتا ہے۔ گویا حلالہ یہ ہے کہ جب کوئی عورت تین طلاقوں کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے اورپھر وہ شخص حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے اسے طلاق دے تو اب عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔ چونکہ دوسرے خاوند کے نکاح میں آنا اور اس کا حقوق زوجیت ادا کرنا اس عور ت کو پہلے خاوندکے لئے حلال کردیتا ہے، اس لئے اس عمل کو حلالہ یا تحلیل کہا جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحقیقی بحث کا ذکر ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں، دو طلاقوں کے بعد خاوند عورت سے تین قسم کا سلوک کرسکتا ہے۔
پہلا یہ کہ رجوع کرے اور قرآن پاک میں جو ”امسک بمعروف“ فرمایا گیا ہے اس سے یہی مرادہے۔
دوسرا یہ کہ رجوع نہ کرے اور نہ تیسری طلاق دے بلکہ اسی طرح چھوڑ دے۔ حتیٰ کہ اس کی عدت پوری ہوجائے اور ان کے درمیان جدائی ہوجائے ”اوتسریح باحسان“ سے یہی مراد ہے۔
تیسر ایہ کہ اسے تیسری طلاق دے دے۔ قرآن پاک کی آیت ”فان طلقھا فلا تحل لہ“ سے یہی مراد ہے۔ (فخر الدین رازی، تفسیر کبیر۶/۱۱۱)
حلالہ میں یہ بھی شرط ہے کہ دوسرا خاوند جماع کرے او رپھر طلاق دے ورنہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی۔ یہ بات قرآن پاک سے بھی ثابت ہے اور احادیث مبارکہ سے بھی۔
حضرت امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
عربوں کے ہاں لفظ نکاح کا استعمال مختلف طریقوں پر ہوتا ہے۔ جب وہ کہتے ہیں ”نکح فلان فلانة“ (فلاں مرد نے فلاں عورت سے نکاح کیا) تو یہاں وہ عقد نکاح مراد لیتے ہیں اور جب وہ کہتے ہیں ”نکح (فلان) امراتہ اوزجتہ“ فلاں نے اپنی بیوی (زوجہ) سے نکاح کیا تو اس سے جماع مراد ہوتا ہے۔فخر الدین رازی تفسیر کبیر ۶/۱۱۲)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو باہم اتحاد و اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کرنے اور طلاق جیسی ناپسندیدہ چیز سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ نبیہ الکریم۔
حلالہ کی شرعی حیثیت
ارشاد خداوندی ہے:
فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ
(سورہٴ بقرہ ۲/۲۳۰)
پس اگر وہ اسے تیسری طلاق بھی دے دے تو اس کے بعد وہ عورت اس (پہلے خاوند) کے لئے حلال نہ ہوگی جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے۔
قرآن پاک کی اس آیت میں جو عمل بتایا گیا ہے اسے ”حلالہ“ کہا جاتا ہے۔ گویا حلالہ یہ ہے کہ جب کوئی عورت تین طلاقوں کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے اورپھر وہ شخص حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اپنی مرضی سے اسے طلاق دے تو اب عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔ چونکہ دوسرے خاوند کے نکاح میں آنا اور اس کا حقوق زوجیت ادا کرنا اس عور ت کو پہلے خاوندکے لئے حلال کردیتا ہے، اس لئے اس عمل کو حلالہ یا تحلیل کہا جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحقیقی بحث کا ذکر ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں، دو طلاقوں کے بعد خاوند عورت سے تین قسم کا سلوک کرسکتا ہے۔
پہلا یہ کہ رجوع کرے اور قرآن پاک میں جو ”امسک بمعروف“ فرمایا گیا ہے اس سے یہی مرادہے۔
دوسرا یہ کہ رجوع نہ کرے اور نہ تیسری طلاق دے بلکہ اسی طرح چھوڑ دے۔ حتیٰ کہ اس کی عدت پوری ہوجائے اور ان کے درمیان جدائی ہوجائے ”اوتسریح باحسان“ سے یہی مراد ہے۔
تیسر ایہ کہ اسے تیسری طلاق دے دے۔ قرآن پاک کی آیت ”فان طلقھا فلا تحل لہ“ سے یہی مراد ہے۔ (فخر الدین رازی، تفسیر کبیر۶/۱۱۱)
حلالہ میں یہ بھی شرط ہے کہ دوسرا خاوند جماع کرے او رپھر طلاق دے ورنہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہ ہوگی۔ یہ بات قرآن پاک سے بھی ثابت ہے اور احادیث مبارکہ سے بھی۔
حضرت امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
عربوں کے ہاں لفظ نکاح کا استعمال مختلف طریقوں پر ہوتا ہے۔ جب وہ کہتے ہیں ”نکح فلان فلانة“ (فلاں مرد نے فلاں عورت سے نکاح کیا) تو یہاں وہ عقد نکاح مراد لیتے ہیں اور جب وہ کہتے ہیں ”نکح (فلان) امراتہ اوزجتہ“ فلاں نے اپنی بیوی (زوجہ) سے نکاح کیا تو اس سے جماع مراد ہوتا ہے۔فخر الدین رازی تفسیر کبیر ۶/۱۱۲)
چونکہ اس آیت میں لفظ زوج اور لفظ تنکح دونوں وارد ہوئے ہیں۔ اس لئے مندرجہ بالا ضابطہ کے مطابق لفظ تنکح سے مراد جماع ہوگا۔
ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت رفاعہ قرظی نے ایک خاتون (تمیمہ) سے نکاح کیا، پھر اسے طلاق دے دی۔ اب اس خاتون نے دوسرے شخص (حضرت عبدالرحمن بن زبیر) سے نکاح کیا۔ پھر اس خاتون نے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ وہ (دوسرا خاوند) حقوق زوجیت ادا نہیں کرسکتے اور ان کے پاس کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم اس وقت تک پہلے خاوند سے نکاح نہیں کرسکتی جب تک تم اس خاوند کا ذائقہ اور وہ تمہارا ذائقہ نہ چکھ لے۔“ (صحیح بخاری، باب اذا طلاقہا ثلاثاثم تزوجت بعدالعدة ۲/۸۰۱) گویا قرآن و سنت کی روشنی میں حلالہ اسی صورت میں ہوگا جب دوسرا خاوند حقوق زوجیت اد اکرے۔
ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت رفاعہ قرظی نے ایک خاتون (تمیمہ) سے نکاح کیا، پھر اسے طلاق دے دی۔ اب اس خاتون نے دوسرے شخص (حضرت عبدالرحمن بن زبیر) سے نکاح کیا۔ پھر اس خاتون نے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ وہ (دوسرا خاوند) حقوق زوجیت ادا نہیں کرسکتے اور ان کے پاس کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم اس وقت تک پہلے خاوند سے نکاح نہیں کرسکتی جب تک تم اس خاوند کا ذائقہ اور وہ تمہارا ذائقہ نہ چکھ لے۔“ (صحیح بخاری، باب اذا طلاقہا ثلاثاثم تزوجت بعدالعدة ۲/۸۰۱) گویا قرآن و سنت کی روشنی میں حلالہ اسی صورت میں ہوگا جب دوسرا خاوند حقوق زوجیت اد اکرے۔
Wednesday, November 21, 2012
خا وند کو دُعاؤ ں کے ساتھ رخصت کر نے کی نصیحت
جب بھی خا وند گھر سے رخصت ہو نے لگے اس کو ہمیشہ دعاکے ذریعے الود اع کہے ۔ فی امان اللہ کہے ۔ دعا دے۔ جیسے ہما ری بڑی عورتیں پہلے وقتوں میں اپنے میاں کو کہتی تھیں۔ یہ کتنی پیا ری بات ہے کہ میری امان اللہ کے حو الے ۔ جب آپ نے اپنی امانت اللہ کو حو الے کر دی تو اللہ تعالیٰ محا فظ ہے وہ آپ کی اما نت کی حفا ظت کر ے گا ۔ آج کتنی عورتیں ہیں جو خا وند کو گھر سے نکلتے ہو ئے یہ الفاظ کہتی ہیں ؟ بہت کم ۔ چو نکہ نہیں کہتی اس لئے ان کے خا وند وں کی حفا ظت بھی نہیں ہو تی ۔ پھر رو تی ہیں کہ خاوند با ہر جا تے ہیں تو ان کو با ہر زیادہ دلچسپی ہو تی ہے ۔ بھئی آپ نے تو اپنی اما نت اللہ کے حو الے ہی نہیں کی ، اب آپ اللہ سے کیا تو قع رکھتی ہیں ،کیوں وہ ان کی حفا طت کر ے ۔ تو نیک بیویاں ہمیشہ خا وند اور بچوں کو گھر سے رخصت ہو تے ہو ئے ان کو دعا دیتی ہیں ۔ اونچی آواز سے کہنے کی عادت ڈالیں بلکہ دروازے تک سا تھ آیا کر یں اور پھر کہا کریں ۔ فی امان اللہ ۔ فی حفظ اللہ ۔ فی جو ار اللہ ۔ کچھ نہ کچھ ایسے لفظ کہا کر یں ۔ یاویسے ہی کہہ دیا کر یں کہ میری امانت اللہ کے حو الے ۔ تو جب آپ اپنی امانت اللہ کے حوالے کر چکیں اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضا ئع نہیں ہو نے دیں گے ۔ اللہ تعالیٰ پہ بھروسہ اور یقین تو ہما ری زندگی کی بنیا د ہے۔تو ایک عادت یہ ہو کہ جب خاوند گھر سے رخصت ہو نے لگے تو دروازے تک جا کر اس کو الوداع کہیں دعا کے ذریعے اور جب خا وند گھر میں آئے جتنی بھی مصروف ہوں ایک منٹ کے لئے آپ کو فا رغ کر کے مسکرا کر اپنے خاوند کا استقبال کر یں ، جب بیو ی مسکر اکر خا وند کا استقبال کرے گی ہنستے مسکرا تے چہر ے کے ساتھ تو ظاہر ہے کہ خاوند کی نظر مسکرا تے چہرے پر پڑے گی تو اس کے دل میں بھی محبت اٹھے گی ۔ آج اس چیز پرعمل کم ہے اس لئے زند گی میں پر یشا نیاں زیا دہ ہیں۔
Tuesday, November 13, 2012
فون پر مختصر بات کر نے کی عادت بنانے کی نصیحت
فو ن پر بات مختصر کر نے کی عادت ڈالیں ۔ اس کا تعلق بندے کی عادت کے ساتھ ہے ۔ کئی عورتوں کو عادت ہو تی ہے کے بس فون کے اوپر بے مقصد گفتگو شروع کر دیتی ہیں …اس لئے فو ن پر مختصر سی با ت کر نے کی عادت ڈالیں ۔ اور اگر دوسری طرف کو ئی غیر محرم مرد ہے تو اپنے لہجے کے اندر سختی رکھیں کہ اگر اس نے دو فقرے بو لنے ہیں تو دو کی جگہ ایک فقرہ ہی بول کر فون بند کر دے ۔ اس کا اللہ نے حکم دیا ہے۔اللہ فر ماتے ہیں ۔
﴿فلا تخضعن بالقول﴾(الاحزاب :۳۲) یعنی تمہیں غیر محر م سے گفتگو کرنی پڑ جائے تو اپنے لہجے میں لوچ مت پیدا کر و ۔ آج کل تو یہ ہو تا ہے کہ اگر مرد غیر محر م ہے تو ایسی میٹھی بن کے بات کریں گی کہ جیسے سا رے جہاں کی مٹھا س اس میں سمٹ آئی ہو ۔ شریعت میں اس کو حرام کہا گیا ۔
غیر محرم مرد سے بات ذرا جچے تلے میں کر ے ۔ ایک اصول سن لیں ۔ ہمیشہ با ت سے بات بڑھتی ہے ۔ یہ فقرہ یاد رکھ لیں کام آئے گا ۔ ”بات سے بات بڑھتی ہے “ پہلے انسان بات کر تا ہے اور بات کر نے کے بعد ملا قا ت کا دروازہ کھلتا ہے ۔اس کی دلیل قرآن پاک سے ملتی ہے ۔ ایک لا کھ پچیس ہزار پیغمبر علیہم السلام آئے مگر ان میں سے کسی نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کا اظہا ر نہیں کیا ۔دنیا میں صرف حضرت مو سیٰ علیہ السلام تھے جنہوں نے کہا ﴿ارنی انطر الیک ﴾(الا عراف۱۴۳) اے اللہ میں آپ کو دیکھنا چا ہتا ہوں۔ تو مفسرین نے لکھا کہ ایک لاکھ پچیس ہزار انبیا ء میں سے فقط حضرت موسی علیہ السلام نے یہ دعا کیوں مانگی کہ اے اللہ ! میں آپ کو دنیا میں دیکھنا چا ہتا ہوں ۔ تو مفسرین نے لکھا کہ اس لئے کہ وہ کلیم اللہ تھے ۔ اللہ سے گفتگو کر تے تھے ۔ جب کوئی گفتگو کر تا ہے تو پھر اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ متکلم سے ملا قات کر نے کو جی چا ہتا ہے ۔ تو یہاں سے معلوم ہوا کہ فون پر جب آپ بات بڑھا ئیں گی تو پھر اگلا قدم گنا ہ کی طرف جائے گا ۔ اس لئے پہلے قدم پر ہی اپنے آپ کو روک لیجئے ۔ جس گناہ کو انسان چھو ٹا سمجھے وہ بڑے گناہ کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے اگر کوئی بچی یہ سمجھتی ہے کہ میں تو کزن سے صرف فون پر بات کرتی ہوں تو یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ جس گناہ کو انسان چھو ٹا سمجھتا ہے وہ گنا ہ بڑے گناہ کا سبب بن جا تا ہے ۔
Monday, November 5, 2012
گھر کو صاف ستھرا رکھنے کی نصیحت
اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھئے ۔ کچھ عورتوں کی عادت ہو تی ہے کہ طبیعت میں سستی ہو تی ہے ۔ ہر وقت پھیلا ؤ ڈال دیتی ہیں ۔ گھر کے اند ر پھیلا ؤ کا ہونا ، چیزوں کا بے ترتیب پڑا ہو نا ، یہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے ۔ حد یث پاک میں آ یا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
﴿انَّ اللہ جمیل ویجب الجمال ﴾
” اللہ تعالیٰ خود بھی خوبصورت ہے اور خو بصورتی کو پسند کر تا ہے “
تو جب نبی علیہ السلام نے گو اہی دے دی کہ اللہ تعالیٰ خو بصورتی کو پسند کر تے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر کی بکھر ی پڑی چیز یں اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آتیں ۔ لہٰذا عورت اس نیت سے اپنے گھر کو صاف ستھرا ر کھے کہ میرے گھر کی چیزیں تر تیب سے پڑی ہوں گی اور گھر صاف ستھرا ہو گا تو میرے مالک کو یہ گھر اچھا لگے گا ۔ میری محنت قبول ہو جائے گی ۔ جب آپ گھر میں بیٹھی جھا ڑ ویا وائپیر چلا رہی ہوں تو یوں سمجھئے کہ گھر ہی صاف نہیں ہو رہا بلکہ اللہ تعالیٰ آپ کے دل کے گھر کو بھی صاف فرما رہے ہیں ۔ تو گھر کا جھا ڑو دینا یوں سمجھئے کہ میں بیٹھی اپنے دل کی ظلمت پر جھا ڑ و دے رہی ہوں ۔
گھر کو صاف ستھر ا رکھئے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
﴿ ان اللہ یحب التوا بین و یحب المتطھر ین ﴾
کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے بھی محبت کر تے ہیں اور پاکیزہ رہنے والوں سے بھی محبت کر تے ہیں ۔ اس لئے ہر چیز کا صاف ستھرا ہو نا ، پا کیزہ ہو نا اور گھر کی ہر وہ چیز کا سیٹ ہو نا اللہ تعالیٰ کی خو شنو دی کا سبب بنتا ہے ۔
چیزوں کو تر تیب سے رکھنے کاا جر
نبی علیہ السلام نے ایک حدیث پا ک میں فریا یا کہ عورت جب گھر میں پڑی ہو ئی کسی بے تر تیب چیز کو اٹھا کر تر تیب سے رکھ دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایک نیکی عطا فرماتے ہیں اور ایک گنا ہ معاف فرما دیتے ہیں ۔ اب دیکھئے ہر عورت گھر میں بر تن درست کر تی ہے تو اسے کتنی نیکیاں مل جا تی ہیں اور کتنے گنا ہ معاف ہو جا تے ہیں ۔ کپڑے سمیٹتی ہے ، چیزوں کو سمیٹتی ہے گھر میں روزانہ اپنے گھر کی چیزوں کو سیٹ کر دیتی ہے ۔ جتنی جتنی چیزوں کو اس نے اپنی اپنی جگہ پر رکھا ہر ہر چیز کو رکھنے کے بدلے ایک گنا ہ معا ف ہو ا اور ایک نیکی اللہ نے عطا فر ما دی ۔ اس طر ح دیکھئے کہ ایک عورت گھرمیں کام کاج کے دوران کتنا ثواب حا صل کر سکتی ہے ۔ اگر اس نیت سے گھر کو صاف رکھیں گی کہ لو گ آئیں گے اور تعریف کر یں گے تو یہ آ پ کی ساری محنت صفر ہو گئی ۔ اس لئے کہ مخلوق نے کہہ بھی دیا کہ برا اچھا گھر ہے تو آپ کو کیا مل گیا ۔ اگر اتنی محنت کر کے پسینہ بہا کے فقط لوگوں کی زبان سے ہی آپ نے سننا ہے کہ بھئی بڑا اچھا گھر ہے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ﴿ فقد قیل ﴾ یہ کہا جا چکا ۔ تو یہ نیت مت کر یں ۔ نیت یہ کر یں کہ گھر کو سیٹ کروں کیو نکہ میں گھر والی ہوں اور یہ میری ذمہ داری ہے ۔ اللہ تعالیٰ خوبصورت بھی ہیں اور خوبصورتی کو پسند بھی فر ماتے ہیں ، لہٰذا میں اپنے گھر کو سیٹ کر کے رکھوں گی ۔ سیٹ کر نے کا یہ مطلب نہیں ہو تا کہ اس میں آپ کر سٹل سجا ئیں گی اور اس میں آپ سینکڑوں ڈالر کی چیزیں لا کے رکھیں گی ۔ یہ سیٹ کر نا نہیں بلکہ جتنے و سائل ہوں جیسے بھی ہوں مگر چیز کے اند ر صفا ئی ہو اور سلیقہ مند ی ہو ۔ صفا ئی کے لئے کو ئی ڈالر وں کی ضرورت نہیں بلکہ انسان نے اپنے کپڑے تو دھو نے ہی ہو تے ہیں تو ذرا صاف ستھر ے کپڑے رکھنے کی عادت رکھ لے ۔ اسی طرح چیزوں کو تو سمیٹنا ہی ہو تا ہے تو سلیقہ مند ی سے چیزوں کو رکھ لے ۔ تو صفائی اور سلیقہ کا ہونا یہ گھر کے خوبصورت ہو نے کی دلیل ہوتی ہے ۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ ایسا چپس کا بنا ہو اہو ، ایسے پتھر ہوں کہ با ہر کے ملک سے آئے ہو ئے ہوں تب جا کے گھر خوبصورت ہوتا ہے۔ اس کو سمجھنے کی کو شش کر یں ۔
Saturday, November 3, 2012
خواتین کے لئے مواعظ متکلم اسلام
خواتین اسلام کے لیے اصلاحی و علمی بیانات، کتابی شکل میں
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن مدظلہ کے باحیا بہنوں سے کیے گئے بیانات کا حسین گلدستہاحناف میڈیا اب پیش کرتے ہیں باحیا مسلمان مائوں بہنوں کے لیے ایک عظیم تحفہ۔ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ تعالی نے مختلف مقامات پر خواتین اسلام سے جو علمی و اصلاحی بیانات فرمائے، وہ اب کتابی شکل میں دستیاب ہیں۔ خوش و خرم گھریلو زندگی کے نسخے، اولاد کی تربیت، حقوق و فرائض، اسلام میں عورت کا بلند مقام، عقائد اہلسنت کی تفہیم انتہائی آسان انداز میں اور بہت کچھ۔ بلاشبہ یہ کتاب ہر گھر کی ضرورت ہے۔

Thursday, November 1, 2012
باہمی صلح و صفائی کا ایک عمدہ طریقہ
مذکورہ تین طریقے تو وہ تھے کہ جن کے ذریعے گھر کا جھگڑا گھر ہی میں ختم ہوجائے، لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جھگڑا طول پکڑلیتا ہے تو اس وجہ سے کہ بیوی کی طبیعت میں نافرمانی، سرکشی اور آزادی ہے یا اس بناء پر کہ خاوند کا قصور ہے اور اس کی طرف سے بے جا تشدد اور زیادتی ہے۔ بہرحال اس صورت میں گھر کی بات کا گھر سے باہر نکلنا لازمی ہے، لیکن عام عادت کے مطابق تو یہ ہوتا ہے کہ طرفین کے حامی ایک دوسرے کو برا کہتے ہیں اور الزام لگاتے پھرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں جانبین میں اشتعال پیدا ہوجاتا ہے او رپھر دو شخصوں کی لڑائی خاندانی جھگڑے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔
قرآن کریم نے اس فساد عظیم کو بند کرنے اور باہم صلح و صفائی کرانے کیلئے ایک بہت ہی پاکیزہ طریقہ بتایا ہے، اور وہ یہ ہے کہ برادری کے سربراہ اور معاملہ فہم حضرات یا ارباب حکومت یا فریقین کے اولیاء دوحَکَم (صلح کرانے والے) مقرر کریں۔ ایک مرد کے خاندان سے، دوسرا عورت کے خاندان سے اور دونوں حکم میں یہ اوصاف موجود ہوں ۔
(۱)… دونوں ذی علم ہوں۔
(۲) …دیانت دار ہوں۔
(۳)… نیک نیت ہوں اور دل سے چاہتے ہوں کہ ان میں صلح ہوجائے۔
اور پھر صلح و صفائی کی پوری کوشش کریں، جب ایسے حکم ان دونوں میاں بیوی کے درمیان اخلاص کے ساتھ صلح کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی غیبی امداد ہوگی اور یہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہوں گے، اور ان کے ذریعے دونوں میاں بیوی کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اتفاق و محبت پید افرمائیں گے۔
(از معارف القرآن جلد ۲ بتصرف)
نکاح کا مقصد طلاق دینا نہیں
اسلامی تعلیمات کا اصل رخ یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ اور معاہدہ عمر بھر کیلئے ہو، اس کے توڑنے اور ختم کرنے کی نوبت ہی نہ آئے، کیونکہ نکاح ختم ہونے کا اثر صرف میاں بیوی پرنہیں پڑتا، بلکہ نسل و اولاد کی تباہی و بربادی اور بعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد تک کی نوبت پہنچتی ہے، اور پور امعاشرہ اس سے بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اسی لئے جو اسباب اور وجوہ اس رشتہ کو توڑنے کا سبب بن سکتے ہیں، قرآن و سنت کی تعلیمات نے ان تمام اسباب کو راہ سے ہٹانے کاپورا انتظام کیا ہے۔
زوجین کے ہر معاملہ اور ہر حال کے لئے جو ہدایتیں قرآن و سنت میں مذکور ہیں، ان سب کا حاصل یہی ہے کہ یہ رشتہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا جائے، ٹوٹنے نہ پائے ، نااتفاقی ہونے کی صورت میں جیسا کہ تفصیل سے ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ اول افہام و تفہیم کی پھر زجر و تنبیہ کی ہدایتیں دی گئیں ہیں اور اگر بات زیادہ بڑھ جائے اور اس سے بھی کام نہ چلے تو خاندان ہی کے دو افراد کو حکم اور ثالث بنانے کا ارشاد کس قدر حکیمانہ ہے کہ اگر معاملہ خاندان سے باہر گیا تو بات بڑھ جانے اور دلوں میں اور زیادہ بعد پیدا ہوجانے کا خطرہ ہے۔ کاش ہم بھی ان پاکیزہ تعلیمات پر صحیح طریقہ سے عمل پیر اہوں۔ جذبات سے مغلوب ہونے کے بجائے خوب سوچ سمجھ کر اس بارے میں کوئی اقدام اٹھائیں۔
Saturday, October 27, 2012
کام کو وقت پر سمیٹنے کی عا دت بنا نے کی نصیحت
ہر کا م کو اپنے وقت پر سمیٹنے کی عاد ت ڈال لیجئے ۔ آ ج کا کا م کل پر نہ چھو ڑ یے کہ یہ بھی کل کر لو ں گی ، یہ بھی کل کر لو ں گی ۔ کل کل کر تے اتنے کام جمع ہو جا تے ہیں کہ پھر انسان ان میں سے کچھ بھی نہیں کر پا تا ۔ سیدہ فا طمة الزہرا ء رضی اللہ عنہا کی زند گی کو دیکھئے وہ اپنا کا م خود سمیٹتی تھیں ۔ حتیٰ کی حد یث پا ک میں آیا ہے کہ ان کے ہا تھوں کے اند ر گٹے پڑ گئے تھے ۔ سیدہ عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے گھر کے کا م خود کر تی تھیں ۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے گھر کے کام خود کر تی تھیں ۔ جس طرح مر د مصلے پر بیٹھ کر عباد ت کر ے تو آپ سمجھتی ہیں کہ اس کو اجر مل رہا ہے ، اس سے زیادہ آپ کو اجر اس وقت ملتا ہے جب آپ گھر کے کام کاج کو سمیٹ رہی ہو تی ہیں ۔
با یز ید بسطا می رحمة اللہ علیہ نے ایک نو جوان کو دیکھا کہ ہر وقت مسجد میں نوافل میں مصروف رہتا ۔ انہوں نے پو چھا ، تیرا کیا حال ہے ؟ کہنے لگا کہ میرا بڑا بھا ئی ہے ، اس نے میرے کا روبار کو سنبھا ل لیا ہے اور میری روزی کا ذمہ لے لیا ہے ، مجھے عبا دت کے لئے فا رغ کر دیا ہے ۔ با یز ید بسطا می رحمة اللہ علیہ فرمانے لگے ، تیرا بھا ئی بڑا عقلمند ہے تیری سا ری عبا دت کا اجر تیرے بھا ئی کو بھی ملے گا اور تیرا بھا ئی تجھ سے افضل کا م میں لگا ہو ا ہے ۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مصلے پہ ہی فقط عبا دت نہیں ہو تی بلکہ عورت جو گھر کے کام کاج کر رہی ہو تی ہے سب کچھ اس کا عبا دت میں لکھا جا تا ہے۔
آج مصیبت یہ ہے کہ گھر میں کا م کو عورتیں عباد ت سمجھ کر نہیں مصیبت سمجھ کر کر تی ہیں ۔ چنا نچہ ان کی ہر وقت یہ خو اہش ہوتی ہے کوئی کام کر نے والی مل جا ئے کہ میں صرف بتا ؤ ں اور وہ آگے کا م کر ے ۔ اب بتا کے کام کر والیا تو جو جسم نے کا م کر نے کی مشقت اٹھا نی تھیں اور اس پر آپ کے نامہ اعمال میں اجر لکھا جا نا تھا وہ اجر تو نہیں لکھا جا ئے گا ۔ آپ کے درجے پھر کیسے اللہ کے ہاں بڑ ھیں گے ۔ اس لئے گھر کے کام میں پسینہ بہانا ، مشقت اٹھا نا ایسا ہی ہے کہ جیسے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز کی عبا دت کا اجر پا نا ۔ اس لئے عورت گھر کے کاموں کو خوشی سے قبول کر ے اور اپنے دل میں یہ سو چے کہ ان کا موں کی وجہ سے میرا رب مجھ سے راضی ہو گا ۔ چنا نچہ ایک حد یث پا ک میں نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ نیک عو رت وہ ہے جس کا دل اللہ کی یاد میں مصروف ہو اور اس کے ہا تھ کام کاج میں مصروف ہوں ۔جب نبی علیہ السلام یہ فرماتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو گھر کے کام کاج کو خود کر نے کی عادت ڈالنی چا ہیے ۔ اس کے دو فا ئدے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کا م سمٹیں گے اورا جر ملے گا اور دوسری با ت کہ اپنی صحت بھی ٹھیک رہے گی ۔ چو نکہ آج گھر کے کام کاج کر نے کی عادت نہیں اس لئے لڑکپن کی عمر ہو تی ہے اور بیما ریو ں میں مبتلا ہو جاتی ہیں ۔ کوئی کہتی ہے میرے سر میں درد ہے ، ذرا سا بس کوئی با ت سو چتی ہو ں تو سر میں درد ہو جا تی ہیں ۔ کوئی کہتی ہے ، مجھے کمر میں شروع ہو گئی ہے ۔ کسی کو آنکھوں میں اندھیرا محسوس ہوتا ہے ۔ یہ سار ی مصیبتیں ہا تھ سے کام نہ کر نے کی وجہ سے ہیں ۔
سیدہ عا ئشہ صد یقہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک چکی تھی اور وہ چکی کے اوپر گندم خود پیستی تھیں جس سے رو ٹی بنا ئی جا تی تھی ۔ سو چنے کی بات ہے اگر ام الموٴ منین اپنے ہا تھوں سے چکی خود پیستی تھیں تو پھر آج کی عورت اپنے گھر کا کا م خود کیو ں نہیں کر تی ۔ جب گھر کا کا م نہیں کر یں گی تو پھر کہیں گی کہ جی اب ہمیں فلاں کلب میں جا نے کی ضرورت ہے ، چر بی چڑھ رہی ہے ۔ پھر ہمیں ٹر یڈ مل لا کر دیں تا کہ ہم اس پر چلا کر یں ۔ کیا ضرورت ہے ان کی ، گھر کے کام کاج میں ایک تو اجر ملے دوسرا خاوند کا دل جیت لو گی اور پھر تیسرا یہ کہ خود بخود آپ کے جسم کی شو گر توانا ئی میں بدل جا ئے گی اور آپ کی صحت بھی درست رہے گی ۔ تو گھر کے کام کاج کو اپنی عزت سمجھیں اور اپنا فرض منصبی سمجھیں ۔ اور اس کو سمجھیں کہ میں مصلے پہ بیٹھ کر جو عبا دت کر وں گی اس سے زیادہ گھر کے کا م کاج کر نے سے مجھے اللہ کا قرب نصیب ہو گا ۔
Wednesday, October 24, 2012
نافرمان بیوی کی اصلاح کے تین طریقے
جب کسی کی بیوی اس کی فرمانبرداری نہ کرے، اس کے حقوق ادا نہ کرے اور خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی نہ گزارے تو قرآن کریم نے اس کی اصلاح کی ترتیب وار تین طریقے بتائے ہیں، طلاق دینے سے پہلے ان باتوں پر عمل کرنا چاہئے۔
(۱) …پہلا طریقہ اور درجہ یہ ہے کہ خاوند نرمی سے بیوی کو سمجھائے ، ا س کی غلط فہمی دور کرے۔ اگر واقعی وہ جان کر غلط روش اختیار کئے ہوئے ہے تو سمجھابجھا کر صحیح روش اختیار کرنے کی تلقین کرے، اس سے کام چل گیا تو معاملہ یہیں ختم ہوگیا، عورت ہمیشہ کے لئے گناہ سے اور مرد قلبی اذیت سے اور دونوں رنج و غم سے بچ گئے اور اگر اس فہمائش سے کام نہ چلے تو …
(۲)… دوسرا درجہ یہ ہے کہ ناراضگی ظاہر کرنے کے لئے بیوی کا بستر اپنے سے علیٰحدہ کردے اور اس سے علیٰحدہ سوئے۔ یہ ایک معمولی سزا اور بہترین تنبیہ ہے، اس سے عورت متنبہ ہوگئی تو جھگڑا یہیں ختم ہوگیا، اور اگر وہ اس شریفانہ سزا پر بھی اپنی نافرمانی اور کج روی سے باز نہ آئی تو…
(۳)… تیسرے درجے میں خاوند کومعمولی مار مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے، جس کی حد یہ ہے کہ بدن پر اس مار کا اثر اور زخم نہ ہو… مگر اس تیسرے درجہ کی سزا کے استعمال کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا، ا سلئے اس درجہ پر عمل کرنے سے بچنا اولیٰ ہے ۔ بہرحال اگر اس معمولی مارپیٹ سے بھی معاملہ درست ہوگیا، صلح صفائی ہوگئی، تعلقات بحال ہوگئے، تب بھی مقصد حاصل ہوگیا، خاوند پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی بال کی کھال نہ نکالے اور ہر بات منوانے کی ضد نہ کرے، چشم پوشی اور درگزر سے کام لے اور حتی الامکان نباہنے کی کوشش کرے۔
Thursday, October 18, 2012
شوہر کو صد قہ خیرات کی تر غیب دینے کی نصیحت
اپنے میا ں کو اللہ کے راستے میں خر چ کر نے کے لئے کہتی رہا کریں ۔ اس لئے کہ صد قہ بلا ؤ ں کو ٹا لتا ہے ۔ صد قے سے رزق میں بر کت ہو تی ہے ۔ حدیث پا ک میں آیا ہے کہ نبی علیہ السلام نے قسم کھا کر فر ما یا کہ صد قہ دینے سے انسا ن کے ما ل میں کمی نہیں ہو تی ۔ اب بتا ئیے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ویسے ہی کہہ دیتے تو کا فی تھا ۔ لیکن اللہ صادق و امین محبوب نے قسم کھا کر فرمایا کہ صدقہ دینے سے انسان کے مال کے اندر کمی نہیں آ تی ۔ اس لئے اپنے خا وند کو اس صد قہ کے با رے میں وقتاً فو قتاًکہتی رہیں ۔ کبھی پر یشان حال ہو تو مشورہ دیں کہ کچھ صد قہ اللہ کے راستے میں خر چ کر دیں ۔ صد قے کا یہ مطلب نہیں ہو تا کہ جو کچھ ہے سا را کچھ دے کے فا رغ ہو جا ؤ ۔ بلکہ آپ نے اگر پیسہ بھی خرچ کیا تو اللہ کے ہاں وہ بھی صد قے میں شمار کر لیا جا ئے گا ۔
خو د بھی اللہ کے راستے میں خاوند کی اجا زت سے دینے کی عا دت ڈالیں ۔ اپنے بچوں کے ہا تھوں سے بھی دلوا یا کر یں ۔ کو ئی غر یب عورت آجائے ، پیسے دینا چا ہتی ہیں تو اپنی بیٹی کے ہا تھ پہ رکھ کر کہا کر یں کہ بیٹی جا ؤ دے کے آؤ تا کہ بچی کو سبق مل جا ئے کہ میں نے بھی اللہ کے راستے میں خر چ کر نا ہے ۔ یقین کر یں کہ جتنا ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کے با لمقابل اللہ کے راستے میں ہم بہت کم خرچ کر تے ہیں ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں ۔
﴿ و فی امو الھم حق معلوم للسئا ئل والمحروم ﴾ ( المعارج : ۲۵)
” اور وہ جن کے مالوں میں حصہ مقرر ہے سا ئلوں اور مسکینوں کے لئے “
سخا وت کی قدر
یہ دل کی سخا وت اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند ہے کہ نبی علیہ السلام کے پا س حا تم طائی کی بیٹی گر فتا ر ہو کر آئی تو اللہ کے محبوب کو بتا یا گیا ۔ اس کا والد بڑا سخی تھا ۔ اس با ت کو سن کر اللہ کے نبی نے اس بچی کو آزاد کر دیا ۔ کہنے لگی ، میں اکیلی کیسے جا ؤں ۔ چنا نچہ آپ نے دو صحا بہ کو اس کے ساتھ بھیجا کہ وہ اس کو بحفا ظت واپس گھر پہنچا ئیں ۔ وہ کہنے لگی کہ مجھے اکیلی جا تے شر م آ تی ہے ۔ میں آزاد ہو گئی جب کہ میرے قبیلے کے سارے لو گ یہاں قید ہیں ۔ نبی علیہ السلام نے بچی کی بات پر قبیلے کے سارے لوگوں کو معاف فرما دیا ۔ سخا وت اللہ تعالیٰ کو اور اللہ کے محبوب کو اتنی پسند ہے۔
Monday, October 8, 2012
طلاق کا غلط طریقہ اور اس کے نقصانات
یوں تو ہمارے معاشرے میں طلاق کے بے شمار غلط سلط طریقے رائج ہیں اور نئے نئے غلط طریقے آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ غلط، ناجائز اور خلاف شرع طریقہ اور بے شمار آفات و مصائب سے بھرا ہو اوہ طریقہ ہے جو ہمارے یہاں بکثرت رائج ہے، اس کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ طریقہ سوفیصد رائج ہے تو شاید مبالغہ نہ ہو، اور پھر اپنی جہالت سے اسی کو طلاق دینے کا واحد طریقہ سمجھا جاتا ہے، اس طریقہ سے ہٹ کر طلاق دینے کو طلاق دینا سمجھا ہی نہیں جاتا، وہ نامراد طریقہ ایک دم تین طلاق دینے کا ہے۔ اسی بناء پر ہر خاص و عام، جاہل، پڑھا لکھا، امیر، غریب، غصہ میں یا غور و فکر کے بعد، زبانی یا تحریری جب طلاق دیں گے دفعتاً تین طلاقیں دیں گے، اس سے کم پر اکتفا ہی نہیں کرتے، بلکہ اتفاق سے شوہر اگر ایک یا دو طلاقیں دینے پر اکتفا کر بھی لے تو اس کو تیسری طلاق دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور طرح طرح کے طعنے دے کر یا دھمکی دے کر یا کسی طرح مزید غصہ دلا کر تیسری طلاق بھی اسی وقت دلوائی جاتی ہے، اور جب تک خاوند تین طلاقیں نہ دے دے، نہ خاوند کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے، نہ بیوی کا، نہ دیگر اہل خانہ کا اور نہ دیگر اقرباء کا، اور اس سے پہلے نہ بچوں کی بربادی کا خیال آتا ہے، نہ گھر اجڑنے کا، نہ دو خاندانوں میں عداوت و دشمنی کا، کوئی بھی اس وقت ہوش سے کام نہیں لیتا، اور جب خاوند بیوی کو طلاق کی تینوں گولیاں مار دیتا ہے تو سب کو سکون ہوجاتا ہے اور ہوش آجاتا ہے۔
پھر جب چھوٹے چھوٹے بچوں کا خیال آتا ہے اور ان کے کھوئے کھوئے معصوم چہرے سامنے آتے ہیں اور گھر اجڑتا نظر آتا ہے تو اوسان خطا ہونے لگتے ہیں اور ہر ایک کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگتا ہے اور دونوں میاں بیوی اپنے کئے پر پشیمان ہوتے ہیں اور معافی و شافی کرکے بہت جلد صلح و آشتی پر تیارہوجاتے ہیں، مگر سر سے پانی پھر جانے کے بعد یہ پشیمانی اور صلح و آشتی کچھ کام نہیں آتی اور نہ رونے دھونے سے کچھ کام چلتا ہے، تینوں طلاق واقع ہوجاتی ہیں، حرمت مغلظہ ثابت ہوجاتی ہے اور بیوی خاوندپر حرام ہوجاتی ہے۔ جس میں رجوع بھی نہیں ہوسکتا اور حلالہ کے بغیر باہم دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ،اور طلاق دینے میں ناجائز طریقہ اختیار کرنے کا گناہ عظیم علیٰحدہ ہوا، پھر اگرناحق طلاق دی ہو تو ناحق طلاق دینا ظلم ہے جو خود گناہ کبیرہ ہے اور حرام ہے۔
اس کے بعد علماء کرام اور مفتیان عظام کے دروازوں کو دستک دی جاتی ہے اور بڑی عاجزی کے ساتھ اپنی درد بھری داستان سنائی جاتی ہے۔ معصوم بچوں کی بربادی کا ذکر ہوتا ہے، آنکھوں سے اشکوں کے دریا بہائے جاتے ہیں اور درخواست کی جاتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی گنجائش نکال کر ان کے گھر کو تباہی سے بچایا جائے، کوئی کفارہ بتلایا جائے جس سے دی ہوئی تین طلاقیں کالعدم ہوجائیں او رہم دوبارہ میاں بیوی بن جائیں۔ مگر اب میاں بیوی کہاں بن سکتے ہیں، دوبارہ میاں بیوی بننے کے جتنے راستے اور جو جو گنجائشیں اللہ اور اس کے رسول نے رکھی تھیں وہ سب اپنی نادانی سے یک لخت ختم کردیں۔ اس وقت لے دے کر صرف یہ طریقہ رہ جاتا ہے کہ عدت گزارنے کے بعدمطلقہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے، پھر نکاح کے بعد یہ دوسرا شخص مطلقہ سے باقاعدہ جماع (ہمبستری) کرے اور جماع کے بعد اپنی خوشی سے اس کو طلاق دے اور پھر مطلقہ اس دوسرے شوہر کی بھی عدت طلاق گزارے، تب کہیں جاکر وہ پہلے خاوندکے لئے حلال ہوسکتی ہے اور اس سے نکاح کرسکتی ہے، مگر مطلقہ کا نکاح ثانی کرتے وقت یہ شرط لگانا کہ دوسرا شوہر نکاح کے بعد اس کو ضرور ہی طلاق دے، خود موجب لعنت ہے۔حدیث پاک میں ایسا کرنے اور کرانے والے پر لعنت آئی ہے۔
اور بعض دفعہ شوہر ثانی بغیر جماع کئے طلاق دے دیتا ہے، بلکہ اسی کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح تو مطلقہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہی نہیں ہوتی، کیونکہ پہلے شوہر پر حلال ہونے کے لئے دوسرے شوہر کا وطی (ہمبستری) کرنا شرط ہے، پھر یہ طریقہ بھی کوئی شخص اپنی غیرت کو بالائے طاق رکھ کر ہی کرسکتا ہے یا بہت ہی سخت مجبوری میں اس کو گوارا کرسکتا ہے۔ سلیم الطبع اور غیرت مند آدمی اس کو نہیں اپنا سکتا۔ اور بعض لوگ دوسرے طریقوں سے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے یہ دوسرے طریقے بہت ہی بدتر ہوتے ہیں، کیونکہ مذکورہ طریقے میں صحیح طرز پر عمل کرنے سے مطلقہ بہرحال پہلے خاوند کے لئے حلال تو ہوجاتی ہے مگر دوسری صورت اختیار کرنے سے مطلقہ پہلے خاوند پر حلال ہی نہیں ہوتی، بدستور حرام رہتی ہے۔
رجوع کی ناجائز شکلیں
چنانچہ بعض جگہ تمام احکام کو پس پشت ڈال کر عذاب قبر، عذاب آخرت اور قہر خداوندی سے بے خوف ہوکر صراحةً تین طلاقیں دینے کے باوجود بغیر کسی حلالہ او رنکاح کے میاں بیوی میں رجوع کرادیا جاتا ہے۔ گھر کے بڑے یا دیگر اہل محلہ یہ کہہ کر ان کی تسلی کردیتے ہیں کہ غصہ میں طلاق نہیں ہوتی، یا گواہوں کے بغیر طلاق نہیں ہوتی ،یا بالکل تنہائی میں طلاق نہیں ہوتی، یا دل میں طلاق دینے کاارادہ نہ ہو تو طلاق نہیں ہوتی، یا بیوی کو طلاق کا علم نہ ہو توطلاق نہیں ہوتی، یا بیوی طلاق نامہ کی رجسٹری واپس کردے اور وصول نہ کرے تو طلاق نہیں ہوتی، یا جب تک وہ طلاق کی تحریر نہ پڑھے اور قبول نہ کرے طلاق نہیں ہوتی، یا محض لکھ کر دینے سے جبکہ خاوند نے زبانی طلاق نہ دی ہو طلاق نہیں ہوتی یا مطلقہ حمل سے ہو تو طلاق نہیں ہوتی۔ یہ سب جاہلوں کی اپنی خودساختہ اور من گھڑت دلیلیں ہیں جو بالکل لچر ہیں۔
ازروئے شروع ان سب صورتوں میں بلاشبہ تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور ان کا رجوع محض حرام کاری کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس طرح ان کی ساری زندگی گناہ میں گزرتی ہے جس میں یہ دونوں مرد و عورت تو گناہگار ہوتے ہی ہیں، ساتھ ہی وہ لوگ بھی گناہگار ہوتے ہیں جنہوں نے ان دونوں کو اس حرام زندگی گزارنے پر آمادہ کیا۔ بعض لوگ تین طلاقیں دینے کے بعد تین کا اقرار نہیں کرتے، یا طلاق سے ہی منکر ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح طلاقیں واقع نہ ہوں گی یا پھر سفید جھوٹ بول کر بجائے تین طلاقوں کے دو لکھواتے ہیں اور بتلاتے ہیں اور مفتی کو دھوکہ دے کر رجو ع کا فتویٰ لے لیتے ہیں اور لوگوں میں مشہور کردیتے ہیں کہ فلاں بڑے مفتی صاحب کا یا فلاں بڑے مدرسہ کا فتویٰ منگوالیا ہے کہ طلاق نہیں ہوئی، لہٰذا رجوع کرسکتا ہے۔ اس طرح عوام کو بھی دھوکا دیتے ہیں تاکہ کسی کے سامنے رسوائی نہ ہو اور پھر ان عیاریوں سے وہ سمجھتے ہیں کہ بیوی حلال ہوگئی جو محض اور محض خود فریبی ہے۔مفتی غیب داں نہیں، وہ تحریر و بیان کا پابند ہے، جوکچھ اس کو بتایا جائے گا وہ اسی کے مطابق جواب لکھ کر دے گا، بیان و تحریر کی ذمہ داری صاحب واقعہ پر ہے، اصل حقیقت چھپا کر ایک یا دو طلاقوں کے حکم کو تین طلاقوں کے حکم پر فٹ کرنے سے بیوی حلال ہرگز نہ ہوگی، بدستور حرام رہے گی۔ ایسے لوگ مفتی اور عوام کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر اللہ جل شانہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے، وہ برابر حق تعالیٰ کے سامنے ہیں اور اس کے قہر و غضب سے نہیں بچ سکتے۔ بعض لوگ تین طلاقوں سے بچنے کے لئے جب فقہ حنفی میں کوئی راستہ نہیں پاتے تو اپنا مسلک حنفی چھوڑ کر غیر مقلدوں سے رجوع کرتے ہیں اور ان سے فتویٰ لے کر رجوع کرلیتے ہیں، ان کے مسلک میں ایک ہی مجلس کے اندر اگر کوئی شخص تین طلاقیں دفعتاً دے دے تو ایک ہی طلاق ہوتی ہے اور دوبارہ رجوع کرسکتا ہے۔ ان کا یہ مسلک قرآن حکیم، احادیث صحیحہ، صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم، تابعین رحمہم اللہ، چاروں اماموں حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ، حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ، حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ اور جمہور امت کے خلاف ہے اور علمی اعتبار سے بھی غلط ہے۔ (اس سلسلہ میں چند حدیثیں آخر میں آرہی ہیں) ان کے مسلک پر عمل کرکے لوگ حرام کاری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ دفعتاً تین مرتبہ طلاق دینے میں مصیبت ہی مصیبت اور گناہ ہی گناہ ہے۔ |
ہی طلاق کے مسائل سیکھ لئے جاتے (جب کہ مسائل کو سیکھنا اس وقت فرض بھی تھا) اور پھر ان پر عمل کیا ہوتا تو آج یہ روز بد دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ گھر اور بچے برباد نہ ہوتے۔ سکون غارت نہ ہوتا۔ دو خاندانوں میں دشمنی پیدا نہ ہوتی۔ لہٰذا بیک وقت تین طلاقیں دینے سے مکمل اجتناب کرنا واجب ہے اور جہاں تک ممکن ہو غصہ میں ہرگز ہرگز طلاق نہ دی جائے۔ اگر کبھی غصہ میں ایسی نوبت آنے لگے تو فوراً وہاں سے علیٰحدہ ہوجائیں اور جب غصہ ختم ہوجائے اور پھر بھی طلاق دینے کا ارادہ ہو تو اس سلسلہ میں کم از کم پہلے قرآن و سنت کی ان مختصر مندرجہ ذیل تعلیمات کا ضرور مطالعہ کرلیں اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)